قیادت کا بحران اور اس کا حل
(Syed Mansoor Agha, India)
’’ملی قیادت کا بحران اور اس کا
حل‘‘ موضوع تھا روزنامہ’ دعوت‘ نئی دہلی اور ’قائد‘ لکھنؤکے سابق مدیر
مرحوم محفوظ الرحمٰن کی یاد میں منعقدہ ساتویں توسیعی خطبہ کا اور یہ خطبہ
دیا ڈاکٹر بصیراحمد خان نے جو سنہ ۶۰ء کی دہائی میں مسلم یونیورسٹی
اسٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے اور شہرت پائی۔ اس کے بعدوہ ملّی سیاست میں آگئے۔
مسلم مجلس مشاورت، مسلم مجلس اور یوپی میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سرگرم
رہے۔ پرجوش مقرر ہیں ،اس لئے ایک دور میں خوب مقبول ہوئے مگر پھر عملی
سیاست سے کنارہ کش ہوکر جامعہ ہمدرد سے وابستہ ہوگئے اورشعبہ اسلامک اسٹڈیز
کے ممتاز استاد رہے، ڈین کے منصب تک پہنچے اور اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی
(اگنو) کے پی وی سی رہے۔ حسن اتفاق کہ راقم کو بھی مسلم یونیورسٹی کا طالب
علم رہنے اور محفوظ الرحمٰن صاحب کی ادارت میں ’دعوت‘ میں کچھ عرصہ کام
کرنے کا موقع ملا۔ بصیر خاں صاحب سے ہم وطنیکا تعلق بھی ہے ،چنانچہ اس
تقریب میں حاضررہا اور کچھ اظہار خیال کا موقع بھی ملا۔
یوں تو ہمارے ملک میں بڑے بڑے صحافی گزرے ہیں مگر محفوظ الرحمٰن صاحب کو
حکیم سید احمد خاں، جیسا قدرداں مل گیا جو یونایٹیڈ مسلم آف انڈیا کے پلیٹ
فارم سے ہرسال ان کی یاد میں جلسہ کراتے ہیں۔ محفوظ صاحب شاید اُس نسل کے
آخری صحافی تھے، جس نے تقسیم کے بعد کے پرآشوب دور میں بڑی بے نفسی اور
سوجھ بوجھ کے ساتھ اپنے اداریوں اورمضامین سے ملک و ملت کی بیش بہا رہنمائی
کی۔ اس بات کا احساس ہم سبھی کو ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں ہماری سیاسی
قیادت اور صحافتی اقدار میں نمایاں ابتری آئی ہے۔ مگر یہ ابتری صرف ملت
اسلامیہ کے لئے خاص نہیں، ایک قومی سانحہ ہے۔آزادی سے پہلے اور معاًبعد جو
شخص سیاست میں کودتا تھا یا اخبار نکالتا تھا، اس کو معلوم ہوتاتھا کہ وہ
مادی اعتبار سے منفعت کا سودا نہیں کررہا ہے بلکہ آزمائشوں اور قید و بند
کی صعوبتوں کو دعوت دے رہا۔آزادی کے بعد کم از مسلم صحافیوں اور سیاستدانوں
کے لئے زمین اور سنگلاخ ہوگئی ۔اس پرآشوب دور میں، جب کہ ہرمسلمان شک کی
نظروں سے دیکھا جاتا تھا، ملی مسائل کے لئے جدوجہد اور مشکل ہوگئی۔ مگر ملی
قائدین اور صحافیوں نے امت مسلمہ کے اکھڑے ہوئے قدموں کو جمانے میں قابل
قدررول ادا کیا۔ ہم ان کی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتے۔ لیکن گزشتہ دو تین
دہائیوں میں سیاست ایک منفعت بخش پیشہ بن گئی ہے۔اخبار نکالنا بھی اب اتنا
مشکل نہیں رہا۔ لیکن اقدار فراموشی کے اس رو میں، جس میں قومی سیاست بہے
چلی جارہی ہے، اسلام کے نام لیواؤں کا بھی بہہ جانا نہایت افسوسناک ہے۔
قیادت کا بحران بھی محسوس ہوتا ہے مگرآج ہمارا المیہ یہ نہیں کہ کوئی قائد
نہیں رہا بلکہ یہ ہے کہ ہرشخص قائد بن گیا ۔قائدین کے اس بے مہار بھیڑکا اس
سے بھی بڑاالمیہ یہ ہے ، جس کی طرف معصوم مرادابادی نے اس جلسے میں اشارہ
کیا ، ملت کے بیشمار مسائل اسی قیادت کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں ۔ آج جو
قائد بنے پھرتے ہیں وہ اپنے ذاتی، جماعتی اور گروہی مفاد کے لئے ملت کا
سودا کرتے ہیں اوراپنے جلسوں میں شرکاء کی تعداد کا حوالہ دیکرنہایت بے
غیرتی سے اقتدار کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ مگر اس بحران کا حل یہ
بھی نہیں کہ آپ سابق اور موجودہ سارے قائدین کونام لے لے کر مطعون کریں اور
قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ ساری بصارت بس آپ میں ہی سمٹ آئی ہے۔
فرقہ پرستی اور فرقہ بندی کے موجودہ ماحول میں ملی مسائل کا حل وہ نہیں
ہوسکتا، جس پر فاضل مقرر نے اپنے خطبے کو محیط کیا کہمسلم فرقہ متحد
ہوکرقومی سیاست سے الگ ہوجائے اورصرف اپنے مفادات کی حصولیابی کے لئے سیاست
کرے اور کیرالہ کی طرح شمالی ہند میں بھی کوئی مسلم لیگ بنائی جائے۔اس رائے
سے اختلاف کی چنددرچند وجوہ ہیں۔ اول میں تو ماضی گواہ ہے کہ مسلکوں، فرقوں
اور برادریوں میں منقسم مسلم قوم کو کسی ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع نہیں
کیا جاسکتا۔ شدید بحران کے وقت وہ بیشک مجتمع نظرآسکتے ہیں،کسی شعلہ بیان
مقرر کو سن کر کچھ دیر اس کے ڈونگرے بھی بجاسکتے ہیں ، مگرکسی فرد کی قیادت
میں ایک منظم جماعت کی طور پر کچھ دیر ٹک نہیں سکتے۔ایک پلیٹ فارم پر جم
جانا تو دور کی بات ہے، ہمارا حال یہ ہے کہ ایک مسجد میں سب مل کر نماز
نہیں پڑھ سکتے، ایک قبرستان میں سب کے مردے دفن نہیں ہوسکتے، ایک قاضی سے
سب نکاح نہیں پڑھوا سکتے ، ایک قائد کے پیجھے جمع کیسے ہوجائیں گیں؟گستاخی
معاف ، یہ مزاج علماء اور مشائخ کا پیدا کردہ ہے، اس کا علاج بھی ان کے ہی
پاس ہے۔وہ اگرفروعی فقہی اختلافات پر کفر اور ایمان کا فتوے سنانے بند
کردیں تو ملت کے مزاج میں تبدیلی آسکتی ہے۔
اچھا مقرر ہونا یقینا ایک بڑی خوبی ہے مگر اچھا قائد وہ ہوتا ہے جس کے مزاج
میں سمائی اور رسائی زیادہ ہو۔ گاندھی جی اچھے مقرر نہیں تھے مگر لوگوں کو
ساتھ لیکر چلنا جانتے تھے، اس لئے ان کا قد سب لیڈروں سے بڑھ گیا۔ سیاست
نام ہی ہے اس فن کا ہے کہ مختلف ذہن کے لوگوں کو اپنے ساتھ کس طرح
جوڑاجائے۔ ایسا قدآور رہنما جو پوری قو م کو ساتھ لیکر چل سکے، کسی ٹکسال
میں ڈھالا نہیں جاتا۔ یہ قدرتی صلاحیت ہے۔چنانچہ شورائیت کی بنیاد پر
اجتماعی قیادت اس کی قائم مقام بن سکتی ہے۔ شورائیت کا اصول یہ ہے کہ آپ
پوری مضبوطی کے ساتھ اپنی رائے پیش کیجئے ۔ دوسروں کے دلائل پر بھی غور
کیجئے اور پھر جب کوئی فیصلہ ہوجائے، تو اپنی ذاتی رائے کو پس پشت ڈال کر
اس کو پوری دیانتداری سے اپنا فیصلہ تصور کیجئے۔اختلاف رائے بری چیز نہیں،
لیکن اختلاف کا سلیقہ نہ آنا، بری چیز ہے۔ اپنی رائے پر اس قدر اصرار کہ
اجتماعیت منتشر ہوجائے اور اس پر یہ مصنوعی دعوا کہ اصولوں سے سمجھوتا نہیں
کیا جاسکتا، اجتماعی قیادت کے لئے تباہ کن ہوتا ہے۔ ہماری ہرچھوٹی بڑی
تنظیم اور ادارے کی انتظامیہ میں، یہ عیب اس قدرراسخ ہوگیا ہے کہ اجتماعیت
کی رائے کو قبول کرنا،اپنی توہین سمجھا جانے لگا ہے ، یہاں تک کہ سب کی
راہیں الگ الگ ہوجاتی ہیں۔
ہمیں آزادی کے قبل اور آزادی کے بعد کی نصف دہائی کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ
کرکے بھی دیکھنا ہوگا کہ برصغیر میں فرقہ بندی کی بنیاد پر جو سیاست ہوئی،
اس سے کیاہمارا کوئی مسئلہ حل ہوا ؟ مسلم قوم کے وقار میں کچھ اضافہ ہوا
یاسیاسی کمزوری، معاشی تباہی اورمعاشرتی انتشار میں اضافہ ہوا؟ مجھے یہ
کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ اس حکمت عملی نے ہمیں سخت نقصان پہنچایا ۔ سب
سے بڑا نقصان یہ ہواہے برصغیر کے مسلمان تین حصوں میں بٹ گئے اور تینوں
حصوں میں وہ چند درچند مسائل اور انتشار سے دو چار ہیں۔ آزادی کے بعد شمالی
ہندکے حالات جنوبی ہند سے قطعی مختلف ہوگئے۔ اسی لئے جنوبی ہند میں مسلم
لیگ کے تجربہ کو جب شمالی ہند میں دوہرانے کی کوششکی گئی تو وہ ناکام ہی
نہیں ہوئی بلکہ اس کا الٹا اثر یہ ہوا ہندوتوا کی علمبردار طاقتیں مضبوط
ہوتی چلی گئیں۔ اس تجربہ کو دوبارا دوہرایا نہیں جاسکتا۔
آزاد ہندکے جمہوری نظام میں اپنی سیاسی حکمت عملی طے کرتے ہوئے اس نکتہ کو
ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہم کل آبادی کا پانچواں حصہ ہیں۔ اگر یہ پانچواں حصہ
اپنی قوم کے نام پر ارتکازی سیاست کریگا، تو اس کا اثر دوسروں پر کیا ہوگا؟
آپ کی اس سیاست کے نتیجہ میں اگر بفرض محال آدھے مسلمان بھی آپ کے ہم نو ا
ہوگئے تو کل آبادی کا دس فیصدہوئے، اور اگر غیر مسلم بھی آدھے ہی متحدہوگئے
تو کل آبادی کا چالیس فیصد ہوئے۔ ہندمیں سرکار کا تختہ پلٹنے کے لئے تیس
فیصد رائے دہندگان کا مجتمع ہوجانا کافی ہے۔ اکثریتی فرقہ کو ہندتوا کے نام
پراقلیتی فرقوں سے برگشتہ کرکے گول بند کرنے کے لئے آر ایس ایس منظم طورپر
جو حربے اختیار کررہا ہے ،اپنی حکمت عملی طے کرتے ہوئے ،ان کو نظر انداز
کرنا نادانی ہوگی۔ بی ایس پی کی مثال دینا درست نہیں۔ کیونکہ اس کے ووٹ بنک
کو مذہب کی بنیاد پر اس طرح کے تعصب کا سامنا نہیں اور اس قوم کو جوقانونی
تحفظات حاصل ہیں، وہ آپ کو حاصل نہیں۔
فاضل مقرر نے مولانا ابوالکلام آزاد کے حوالے سے کہا کہ وہ ملی قائد نہیں
تھے۔ بیشک مولانا ابوالکلام آزاد ملت کے ایک ممتاز قائدتھے ، ان کو اس دور
میں بھی اور اس کے بعد بھی بڑے طبقہ نے ’اما الہند‘ کے خطاب سییاد کیا
ہے۔البتہ وہ بیشک صرف ملیقائد ہی نہیں تھے بلکہ مشترکہ قومی قیادت کا ایک
اہم ستون تھے۔ یہ وہ قیادت تھی جو ملک کو برطانیہ کے پنجہ استبداد سے آزاد
کرانے کی جدوجہد کررہی تھی ۔ اس تحریک میں مولانا آزاد کی حیثیت کسی شریک
قائد سے کم نہیں تھی۔ تحریک آزادی کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اجتماعی
قیادت میں آزادی کی تحریک سے کچھ لوگوں نے اس بنیاد پر اختلافی رائے کا
اظہار کیا تھا کہ اس تحریک کے نتیجہ میں جو مملکت بنے گی وہ غیر اسلامی اور
سیکولر ہوگی۔ غیرمنقسم ہند کی سترفیصدسے زیادہ آبادی غیرمسلم تھی۔ تحریک
آزادی میں، جس کا نام اس زمانے میں کانگریس تھا،ایک بڑی تعداد ہندواحیاء
پرست لیڈروں کی بھی تھی۔ اگراس وقت کانگریس نے ملک کو آئینی طور پر ہندو
اسٹیٹ نہیں بنایا تو اس میں کچھ کردار مولانا ابوالکلام آزاداور جمعیت
علماء ہند کے دیگر قائدین مولانا حفظ الرحمٰن، مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ
کا بھی تھا۔ آپ ان سب کو بیک جنبش قلم ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈال سکتے ، کہ
ان کو سارے مسلمانوں نے اپنا قائد تسلیم نہیں کیا تھا۔ ہم تو اس بدقسمت امت
کے افراد ہیں جس نے خلفائے راشدین کو بھی سب و ستم سے نہیں بخشا اور ان کے
خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ آپ اس بنیاد پر ان کا بھی انکار کرسکتے ہیں کیا؟
قاعدہ یہ ہے جو اپنے بڑوں کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتا، ان کا احترام نہیں
کرتا وہ اپنے چھوٹوں کو بھی وہی راستہ دکھاتا ہے۔
فاضل مقرر نے یہ مانا کہ ہندستان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک جمہوری
ملک ہے اور یہاں جمہوریت قائم ہے۔ آزاد ہندستان میں ہم اپنے حقوق کا مطالبہ
اور اس پر اصرار جس آئین کی بنیاد پر اور جس اصول کی بنیاد پر کرتے ہیں وہ
سیکولرزم کا اصول ہی ہے۔ اس لئے ہماری یہ ذمہ داری ہے اور ہمارا ملی فائدہ
اسی میں ہے کہ ہم فرقہ پرستی کے مقابلہ سیکولر اقدار کو کمزور نہیں مضبوط
کریں۔ بیشک سیکولر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ غیروں
کے ہاتھ میں دیدیں۔ حکومت وقت ایسے ہی لوگوں کی پذیرائی اگر کرتی ہے تویہ
اصول کی خطا نہیں ، اصول کے نام پر دھوکہ دینے والوں کی خطا ہے۔ یہ دوغلا
پن کہ سیکولر ہونے کا دعوا کرنے والے بھی فرقہ ورانہ بنیادوں پر تعصب برتیں
افسوسناک ہے مگر اس کا جواب یہ نہیں ہے ہم بھی فرقہ پرست ہوجائیں۔ اگر ہندو
فرقہ پرستی خراب چیز ہے تو مسلم فرقہ پرستی کی تعریف کیسے کی جاسکتی ہے۔
بنگلہ دیش میں چناؤ
بنگلہ دیش میں چناؤ کے نام پر جمہوریت کا جو قتل ہوا ہے ، ہم اس کی شدید
مذمت کرتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر اس سفاکی کی تائید کرنے والے بھی مذمت
کے مستحق ہیں۔ محترمہ حسینہ واجدنے اس چناؤ کو جس میں تقریباً نصف سیٹوں پر
مقابلہ ہی نہیں ہوا، جس میں چند فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے، جس انتخابی مہم کے
دوران اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کو گھر میں قید کردیا گیا ، جس کے دوران
بھاری تشدد ہوا ہرگز جائز اور منصفانہ چناؤ نہیں کہہ سکتے ۔ایسے چناؤ کے
نتیجے میں جو لوگ چنے گئے ہیں ان کو ہرگز ملک پر حکومت کرنے کا اخلاقی حق
حاصل نہیں۔محض اس لئے جمہوریت کے قاتلوں کی حمایت و تائید کرنا کہ اگر
منصفانہ چناؤ ہوجاتے توایسے لوگ برسراقتدار آجاتے جو ہمیں پسند نہیں، ان
ممالک کے لئے شرم کی بات ہے جو خود جمہورت پسندی کا دعوا کرتے ہیں۔ ان
انتخابات کو کاالعدم کرکے غیرجانبدار انتظامیہ کی زیرنگرانی آزادانہ چناؤ
کرایا جانا ہی جمہوریت کا عین تقاضا ہے۔(ختم) |
|