عدالت میں پیشی

2014کا دوسرا دن تھا۔ موسم سرد تھا۔ پاکستانی عوام دھوپ ۔۔لکڑیوں ۔۔ہیٹر کے گرم حصار میں بیٹھ کر جسم کو گرم کررہے تھے۔ مگر موسم کی شدت اپنے جوگن پر تھی، بچے ۔۔ بزرگ سردی سے بیمار ہورہے تھے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں سہولتیں میسر تھی لیکن ڈاکٹر میسر نہیں تھے ۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں ڈاکٹر میسر تھے مگرسہولتوں کا فقدان تھا۔کچھ سرمایہ داروں نے پاکستان میں صحت کے محکمے میں سرمایہ لگاکر کاروبار شروع کیا ہوا ہے، جہاں ڈاکٹر اور سہولتیں میسر ہوتی ہے مگر غریب عوام اپنے بچوں کا وہاں علاج نہیں کرواسکتی۔ حکومتوں کی عوام دوست پالیسیوں نے عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے، جو چیز پہلے ایک روپے میں میسر تھی اب دس روپے میں بھی میسر نہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں تو موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی نظر نہیں آتی۔ بس مہینے کے شروع میں دیدار کرواتے ہیں اور اپنا اپنا ماہانہ ٹیکس۔۔۔جگا۔۔حصہ وصول کرکے غائب ہوجاتے ہیں،کسٹمرمجبورا غیر معیاری اشیاء مہنگے داموں خریدتے ہیں۔ غیر معیاری اشیاء کے استعمال سے ہی عوام بیمار ہورہی ہے؟؟؟؟؟

اتنی سردی میں بھی اسلام آباد کاسیاسی موسم گرم تھا اور ہرطرف ایک ہی موضوع زیر بحث تھا کہ کیا مشرف عدالت میں پیش ہوگا؟ اگر پیش ہوگیا توپھر کیا ہوگا؟ عدم پیشی پر عدالت کیا فیصلہ سنائے گی؟ عدالت کے فیصلہ پر فوج کا کیاردعمل ہوگا؟فوج مشرف کا ساتھ دے گی؟کیا مشرف دوبارہ واپس دوبئی جاسکے گا؟مسلم لیگ (ق) مشرف سے دوستی وفا کرتے ہوئے کوئی احتجاجی تحریک شروع کرئے گی؟

پھر عوام نے دیکھا کہ 20گاڑیوں اور1600 پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی سیکیورٹی میں مشرف خصوصی عدالت کی طرف سفر کا آغاز کرتے ہے۔مگر جیسے ہی وہ نیشنل لائبریری کی حدود میں داخل ہوتے ہے، ان کی طبعیت اچانک خراب ہوجاتی ہے اور ان کی منزل خصوصی عدالت سے تبدیل ہوکرآرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہوجاتی ہے۔ جہاں ابتدائی ٹیسٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرف صاحب کی دل کی شریانیں بند ہوگئی ہیں اور انجیوپلاسٹی کرنا پڑیگی۔

قارئین بیشک عدالت میں حاضری دینا اتنا احسان کام نہیں۔ اس میں وکیل کی فیس اور منشی کی دیہاڑی کیلئے پیسے ۔۔ ٹائم درکار ہوتا ہے اور پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔مگر ان تمام چیزوں کا احساس صرف اس وقت ہی کیوں ہوتا ہے جب ہم اقتدار سے باہر ہوتے ہیں؟پاکستان کے تمام سیاسی رہنماؤں نے اپوزیشن کے دورمیں عدالتوں میں حاضری دی ہوتی ہے اکثر و بیشتر تو جیل کی یاترہ بھی کرآتے ہیں۔ مگر اقتدار کے ایوانوں کے مقین کبھی عدالت سسٹم میں تبدیلی لانے کیلئے اقدامات نہیں کرتے ، ایک معمولی سا کیس بھی 15 سال کا عرصہ ضائع کردیتا ہے، زمین وجائیداد کے کیس تو50 سال بھی نگل جاتے ہیں، دادا کیس کرتا اور پوتا فیصلہ سنتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستانی سیاست دان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں توملک میں موجود کرپشن۔۔رشوت۔۔بدعنوانی کیخلاف ریلیاں۔۔جلسے۔۔۔جلسوس منعقد کرتے ہیں اور بیان جاری کرتے ہیں۔ اس وقت وہ حقیقی عوامی نمائیندے ہوتے ہیں کیونکہ ان سے بھی پٹواری۔۔تحصیل دار۔۔پولیس۔۔محکمہ تعلیم۔۔محکمہ صحت وغیرہ کے افسران رشوت طلب کرتے ہیں۔مگر جیسے ہی یہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں عوام سے قطعہ تعلق ہوکرسرکاری محکموں سے ماہانہ رشوت ۔۔۔نظرانہ۔۔جگا ٹیکس لینا شروع کردیتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی شخصیات مستقل طور پر عوام میں رہتے ہیں، چاہیے وہ ایوان اقتدار کا حصہ ہو یا ایوان سے باہر۔عوامی نمائیندے سرکاری محکموں سے گرانٹ منظور کرواتے ہیں اور اپنے علاقہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ٹھیکیدار کسی آفسر یا سیاسی شخصیت کو حصہ نہیں دیتا۔جبکہ ترقی پذیر ممالک میں سیاستدان 5سال اپنے بینک بیلنس۔۔پراپرٹی۔۔کاروں۔۔بنگلوں میں خوب اضافہ کرتے ہیں مگرجیسے ہی یہ اپوزیشن میں جاتے ہیں ان کے خلاف عدالتوں میں کیس اوپن ہوجاتے ہیں۔

ہمارا ملک اس وقت تک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے سیاستدان بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح حقیقی طور پر عوامی نمائیندے نہیں بن جاتے ۔ عوام اور عوامی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کے فرائض ادا کرنا شروع نہیں کرتے۔۔

Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 89368 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.