کراچی سب پاکستانیوں کا گھر ہے اسے اپنے بھائیوں سے قبضہ
نہیں کیا جاسکتا۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، اس کا دل اوردر حقیقت پورا پاکستان ہے جس
نے اپنی گود میں پنجابی ، پٹھان ،سندھی ، بلوچی اور کشمیری ہر ایک کو سمایا
ہواہے اور اسی نے اْن قابل فخر لوگو ں کو بھی اپنی مادرانہ چادر کی چھاوں
میں پناہ دی جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنے گھر بارچھوڑے اور ہجرت کی
تو کراچی اور کراچی والو ں نے ان آنے والو ں کو بڑی فراخدلی سے اپنی زمین
اور گھر بار پیش کر دیے۔ ان مہاجرین نے کراچی اور کراچی نے ان مہاجرین کو
عزت اور پیار دیا کسی نے کسی پر احسان نہں جتایا۔سالہا سال تک یہ شہر پیار
اور محبت کا گڑھ بنا رہا لیکن بڑے دکھ اورافسوس کی با ت ہے کہ آج ہر ایک
کراچی کا احسان ماننے کی بجائے اس پر احسان جتارہاہے بلکہ پاکستان پر احسان
جتارہاہے کہ ہم نے اس ملک کی خاطر ہجرت کی۔ اول تو بات یہ ہے کہ وہ جنہو ں
نے ہجرت کی تھی اْن میں چند ہی لوگ زندہ ہوں گے اوراب ابھی وہ پاکستان سے
بے لوث محبت کرتے ہیں حکومت کے لیے نہیں۔وہ نسل جو احسان جتا رہی ہے انہیں
تو فخر سے کہنا چاہئے تھا کہ ہم ’’سن آف دی سوائل ‘‘ہیں لیکن تیسری نسل نے
کہنا شروع کیا کہ ہم نے ہجرت کی۔ کاش آپ عظمت کے اْس درجے پر ہوتے کہ آپ
نظریے کی خاطر اپنی دولت چھوڑسکتے آپ تو حکومت کی خا طر اصو لوں پر یو ں
سودے بازی کرتے ہیں جیسے آلو پیاز کی خرید وفروخت کر رہے ہوں۔
الیکشن 2013میں کراچی میں ہونے والی دھاندلی پر شہریوں کے احتجاج سے
گھبراکر متحدہ قومی مومنٹ کے برطانوی قائد الطاف حسین نے دھمکی دیتے ہوئے
کہا کہ اگر کراچی کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا جارہاتو کراچی کو پاکستان سے
الگ کیا جائے یعنی حیرت ہے ایک غیر ملکی شخص کی خواہش پر پورا کراچی قربان
کر دیا جائے یہا ں بر طانوی شہریت رکھنے والے الطاف حسین کو یہ بھی سمجھ
لینا چاہئے کہ کراچی جتنا اردو بولنے والو ں کا ہے اْتنا ہر پاکستانی کا ہے
بلکہ پاکستان کا ہر خطہ ہر صوبہ سب کا برابر کا ہے۔ کیاپشاور ،پنڈی ، لاہور
، کوئٹہ حتی کہ دور دراز کے شہروں میں بھی اردو بولے والے نہیں ر ہتے اور
کیا کوئی انہیں وہاں سے نکالنے کی بات کر تا ہے، ہر گز نہیں نہ ہی وہ مقامی
آبادی کے نشانے پر رہتے ہیں لیکن کراچی میں جو حالات ہیں وہ الطاف حسین اور
ان کے سا تھیوں نے پیدا کر رکھے ہیں خود ہی حالات بگاڑے جاتے ہیں اور پھر
ان حا لات کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور پاکستان کو توڑنے کی دھمکیا ں دی
جاتی ہیں یہ لوگ خود کو سب کچھ کرنے اور کہنے کے لیے آزاد سمجھتے ہیں نہ
پاکستان ان کی دست برد سے محفوظ رہتا ہے نہ قومی نظریہ اور رہنما پچھلے
دنوں اْس نے قائد اعظم کی ذات پر جس طرح حملے کیے وہ ایک مخصوص ذہنیت کی
عکاسی ہے وہ ذہنیت جنہیں ہدایات کہیں اور سے ملتی ہیں اور کارندے وہ ہوتے
ہیں اور عام لوگ ان کے یر غمال، ورنہ میں جتنے اردو بولنے والو ں سے بات
کرتی ہوں چاہے وہ کراچی کے ہو ں ،پشاور کے یا پنجاب کے میں نے کسی کو ان
خیالات کا حامی نہیں پایا بلکہ شدید مخالفت کرتے ہی سنا۔پھرآخر وہ کون سے
حربے ہیں جو مجبور لوگوں پر آزمائے جاتے ہیں اور لندن سے بیٹھ کر ان کی
ڈورکھینچ لی جاتی ہے۔ الطاف حسین کے موجودہ بیان پرملک بھرمیں شدیدردعمل
آیا اور لندن پولیس کو الطاف حسین کے خلاف ایک رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ سے
زیادہ کالیں موصول ہوئیں کہ اس طرح کے بیانات کے تناظرمیں اْس کے خلاف
مقدمہ درج کیا جائے لیکن اگر حکومت پاکستان دلچسپی نہ لے تو کسی اورحکومت
کو کیا فرق پڑتا ہے۔بحر حال الطاف حسین برطانوی شہری ہے اس سے پوچھاجائے کہ
وہ ہمارے ملک کے خلاف ہرزہ سرائی کیسے اور کیوں کرتاہے اور کیوں اس کی
حکومت اس سے نہیں پوچھتی کیا حکومت برطانیہ کسی پاکستانی کواجازت دے گی یا
برداشت کرے گی کہ وہ اس کے خلاف پاکستان سے سازش کرے۔
حیرت ہمارے میڈیاپر بھی ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ الطاف حسین کے
خطاب، خطاب کم اور سازشیں زیادہ ہوتی ہیں پورا خطاب بڑے ذوق و شوق اور
پابندی سے ٹیلی کاسٹ کیاجاتا ہے کیا ان ٹیلیفونک خطابات کو بند نہیں کیا
جاسکتاکہ فساد کم پھیلے اورآخراس بات پرکوئی کاروائی کیوں نہیں کی جاتی کہ
بار بارایسے بیانات کیوں د یے جا رہے ہیں کہ کراچی کواردو بولنے اور نہ
بولنے والوں میں کیوں تقسیم کیا جاتا ہے اردو تو پورے پاکستان کی زبان ہے۔
تقسیم ہندسے پہلے بھی پورے ہندوستان میں بولی جاتی تھی ورنہ علامہ
اقبال،مولا نا ظفر علی خان اورسردارعبدالرب نشتراردونہ لکھتے۔ لیکن مصطفی
کمال علی لاعلان اورببانگ دہل ٹی وی پر بیٹھ کر کراچی کو اسی بنیاد پر
تقسیم کر رہا تھاجب کہ کراچی میں توشاہی سید بھی اردو بولتاہے اور نازبلوچ
بھی چاہے ان کی مادری زبان کوئی بھی ہے۔ایم کیوایم اگر قومی جماعت
بنناچاہتی ہے اور قومی سیاسی دھارے میں شامل ہوناچاہتی ہے تو اسے اپنی ان
پالیسیوں میں تبدیلی کرنا ہو گی اور اپنی قیادت بھی تبدیل کرنا ہوگی ورنہ
جب ایک پنجابی ، پٹھان ، سندھی ، بلوچی یا کشمیری دیکھے گا کہ نہ اْس کا
ذکرہے نہ فکر تو کیا وہ اْس جماعت کو ووٹ د ے گا۔سیا ست مخصوص گروہوں کے
حقوق کے تحفظات کے لیے نہیں بلکہ قومی معاملات کے لیے جاتی ہے مخصوص
علاقوں، آبادیوں اور گروہوں کے ل لیے فلاحی تنظیمیں اور این جی اوز کام
کرتی ہیں تو کیا ایم کیو ایم ہمیشہ ایک علاقائی تنظیم اورلسانی گروہ رہے گی
یا آگے بڑھے گی اوراْس کی قیادت اْسے دہشت گرد ی کے لیبل سے آزاد بھی کرے
گی یا نہیں۔ اس بار تو الطاف حسین نے سر عام اْس میڈیا کو بھی للکارا جس نے
ہمیشہ اْسے سنجیدہ قومی سیاست دانو ں سے زیادہ اہمیت دی اْس نے میڈیا کو
یاد دلایا کہ’’ کتوں کے بھونکنے‘‘ سے کارواں رْکتے نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش
بننے کی یاد دہانی بھی وہ کراتے ر ہتے ہیں بلکہ اب کی بار تو انہو ں نے
جرنیلو ں کو بھی اپنا مرہون منت کہا تو اْن سے ایک سوال ہے کہ کیامشرقی اور
مغربی پنجاب کے درمیان ہجرت میں لاکھوں خاندان تہہ و تیغ نہ ہوئے کیا وہ
بھی لاہور کو امر تسر بنانے کی دھمکی دینے لگ جائیں تو پھر آخر ہمارے بزرگو
ں نے یہ ملک کیوں ہی بنایا تھا کیا وہ بے وقوف تھے یا ظالم تھے جنہوں نے
خون بہایا۔ |