1947کا شمسی کلینڈر اور 2014کاشمسی کلینڈر ایک ہی جیسا ہے۔
دن ،تاریخ اور مہینہ سب ایک جیسے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگلے 67سال پھر سے
اپنے آپ کو دہرائیں گے۔لیکن کیا یہ cycleترقی کی طرف گامزن کریگی یا ترقی
معکوس ہوگی؟ کیا ہم مزید تنزلی اور پستی کا شکار ہوتے جائیں گے جس طرح سے
پاکستان کے بننے کے بعد سے ہمارے آباؤ اجداد نے تن من دھن سے پاکستان کو
سنوارنے کی کوشش کی۔1947کا پاکستان جب سرکاری دفاتر نہیں تھے، میز کرسی
نہیں تھی، قلم اور کاغذ نہیں تھے ۔کاغذات کو نتھی کرنے کیلئے کامن پن نہیں
ہوتی تھی۔ اس تمام صورت حال کو دیکھ کر اس وقت کے حکمرانوں، وزیروں، مشیروں
اور دفتری اہلکاروں نے اپنے اپنے دفاتر اپنے اپنے گھروں میں لگا لئے کہیں
جگہ نہیں ملی تو درخت کے نیچے بھی دفتر لگا کر معاملات نمٹادیئے جاتے
تھے۔اپنے گھروں میں موجود سامان کو فرنیچر کے طور پر استعمال کیا گیا۔ حتی
کہ اپنے صندوق اور بکسز کو میز کے طور پر استعمال کیا گیا۔1947 کے پاکستان
میں حکومتی دستاویزات کو نتھی کرنے کیلئے کیکر کے کانٹے بطور کامن پن کے
استعمال کئے گئے۔ تنخواہ کی مد میں ہونے والے اخراجات نہ ہونے کے برابر تھے۔
اکثر ملازمین اپنی تنخواہ کا زیادہ تر حصہ مملکت خداداد کو مستحکم و خوشحال
بنانے کیلئے اس کے اخراجات پر صرف کردیتے تھے۔1947 اور اس کے کچھ عرصہ بعد
تک ،جب تک مخلص لوگ زندہ رہے اور ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں رہی۔
پاکستان مضبوط، پرامن، مستحکم اور خوش حال ہوتا گیا۔ عام آدمی سے لیکر خاص
آدمی تک محفوظ و مامون ہوتا گیا۔ اشیائے خوردونوش خالص اور ملاوٹ سے پاک
جزو بدن بنتی تھی۔قصاب مردہ اور لاغر جانوروں کا گوشت فروخت نہیں کرتے تھے۔
جس کی وجہ سے بیماریاں اور حفظان صحت کے مسائل بہت کم ہوتے تھے۔ ڈاکٹرز
مسیحت کی معراج پر ہوتے تھے۔ ہسپتال کے کاریڈورز اور کمروں میں کوئی مریض
رولنگ سٹون نہیں بنتا تھا۔تعلیمی خدمات کو دیکھا جائے تووہ اپنی مثال آپ
تھیں۔ اساتذہ سکولزاور کالجز میں تو پڑھاتے ہی تھے لیکن کمزور اور نا
سمجھنے والے طلبا و طالبات کو اپنے گھر بلاکر یا سکول و کالج میں بٹھاکر
مفت تعلیم دیتے تھے اور ٹیوشن لینا گناہ عظیم سمجھتے تھے۔ وہ اپنے پیشے سے،
ملک و قوم سے سچا پیار کرتے تھے اسے شیوہ پیغمبر ی سمجھ کر ادا کرتے تھے۔
مسجد اور امام بارگاہ ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔کہیں کافر کافرکے نعرے نہیں لگتے
تھے۔مساجد و مدارس میں اذان و نماز بے خوف و خطر ادا کی جاتی تھیں۔کہیں
کوئی پولیس اہلکار یا سکیورٹی گارڈ نہیں ہوتا ہے۔ کوئی مسلم ،مسلمان کو قتل
نہیں کرتا تھا۔ دہشت گردی کے عفریت کا کوئی نام ونشان نہ تھا۔ رشوت ستانی ،اقربا
پرروی ،ذخیرہ اندوزی کو گناہ عظیم سمجھا جاتا تھا ۔سود کی لعنت سے پاک نظام
زندگی تھا۔کسی کے عقیدے کو برا بھلا کہنا تو درکنار۔اسے زیر بحث بھی نہیں
لایا جاتا تھا۔ عدلیہ اور ججز اپنے مقدمات کی سماعت ختم ہونے کے بعد اپنی
عدالتوں کو برخاست کرتے تھے ۔لمبی لمبی پیشیاں دینے کی ہدایت نہ تھی۔ سائل
کو انصاف فراہم کرنا اولین ترجیح ہوتی تھی۔ جلسے جلوس بھی ہوتے تھے لیکن
کبھی کسی عمارت کا شیشہ نہ ٹوٹتا تھا۔ کسی گاڑی کو نذر آتش نہیں کیا جاتا
تھا۔ کسی ہجوم پر لاٹھی چارج نہیں ہوتا تھا۔ کو ئی اپنی کوتاہیوں اور
خامیوں کا ذمہ دار کسی اور کو نہ ٹہراتا تھا۔ایک خاص قسم کا سکون عوام
پاکستان کے چہروں کا خاصہ ہوتا تھا۔کیونکہ آئی ایم ایف کے مقروض نہیں تھے ۔کم
وسائل کے باوجود خوشحالی ،امن اور تحفظ کا دوردورہ تھا۔
اوراب! 2014کا پاکستان تمام تر وسائل ہونے کے باوجود متذکرہ بالا خوبیوں
اور خصوصیات سے مبرا ہے۔اب اعلی قسم کے دفاتر اور فرنیچرموجود ہے لیکن کا م
کرنے والے اہلکار موجود نہیں۔کاغذات کو پن اپ کرنے کیلئے کامن پن رلتی
پھرتی ہیں لیکن کاغذات انتشار کا شکار ہیں۔لاکھوں روپے لینے والے افسران
ہوس کے پجاری بن چکے ہیں ان کی خواہشات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں
لیتیں۔حکومتی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاجارہا ہے۔ملاوٹ کے بغیر کوئی شے
دستیاب نہیں۔ فروٹ تک میں انجکشن کی مدد سے ملاوٹ کردی جاتی ہے۔جس کاتصور
بھی 1947 اور ابتدا کے پاکستان میں محال تھا۔ جگہ جگہ بیمار اور مردہ
جانوروں کا گوشت بکتا ہے۔ احساس زیاں شرم و حیا معاشرے سے اٹھ چکی ہے۔ بے
غیرتی کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو حرام کھانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
بیماریوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ قسم قسم کی موذی وبائیں انسانی جانوں کو
نگل رہی ہیں۔ڈاکٹرز مسیحائی کی آڑ میں ڈاکوؤں اور لیٹروں کا کردار ادا
کررہے ہیں۔ ہسپتال مذبح خانے اور مردہ گھروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ عجیب سی
بے حسی ہے۔تعلیم کو سرعام بیچا جارہا ہے۔ ڈگریوں کی خرید وفروخت دھڑلے سے
جاری ہے۔ کوئی بھی تعلیم حاصل کرکے مہذب بننے سے انکاری ہے۔شارٹ کٹ میں
زیادہ کی ہوس غالب ہے۔ ٹیوشن کلچر نے تعلیم کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔امام
بارگاہ، مساجد و مدارس مقتل گاہ بنی ہوئی ہیں۔ احساس تحفظ کہیں کھوگیا
ہے۔دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ مسجد و امام بارگاہ سے کافر کافر کی
صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ ہزاروں کی سکیورٹی کے باوجود بم بلاسٹ، ٹارگٹ
کلنگ،ڈاکہ زنی کا بازار گرم ہے۔ رشوت کو فیشن بنالیا گیا ہے۔ اقربا پروری
کے بغیر میرٹ نہیں بنتا۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والا بڑا تاجر اور کاروباری
کہلاتا ہے۔ وزیر و مشیر کا کرپشن کرنا شیوہ بن گیا ہے۔سود لئے دیئے بغیر
کوئی کاروبار ممکن نہیں رہا۔ عدالتوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔
انصاف کو گھر کی باندی بنالیا گیا ہے۔ ملک کے حکمران عدالتی احکامات کو
روندنا اپنی بڑائی گردانتے ہیں۔ جس پر جتنے زیادہ رشوت بدعنوانی و قانون
شکنی کے مقدمات ہیں وہ اتنا ہی بڑا سیاستدان کہلاتا ہے۔جہاں کہیں دس بارہ
لوگ اکٹھے ہوجائیں وہاں پر میدان جنگ بننا معمولی بات ہے۔ اسمبلیاں ریسلنگ
رنگ اور مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتی ہیں۔عوامی نمائندے ایک دوسرے سے دست و
گریباں دکھائی دیتے ہیں۔آئی ایم ایف کے اژدھے نے ہماری ساری معیشت کو نگل
لیا ہے ۔یہ اور اسی قسم کے دوسرے معاملات دیکھ کر بے اختیار جی کہہ اٹھتا
ہے
کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے
آج کا ہر محب وطن پاکستانی خواہش مند ہے کہ ہمیں 1947 والا پاکستان لوٹا
دیا جائے۔ کم از کم سے پھر ترقی کی منازل طے کرنے کی خوشی و فرحت کو محسوس
کیا جاسکے۔ ان تمام خرافات سے ہم آزاد ہوں۔ ترقی کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں۔
آزاد فضاؤں میں سانس لینا چاہتے ہیں۔کانٹوں سے بھرے پاکستان میں جینا
موجودہ پاکستان سے ،تنزلی کی جانب گامزن پاکستان سے کہیں درجہ بہتر و
پرسکون ہے۔کیونکہ کلینڈر اپنے آپ کو دہرارہا ہے۔ |