مکتب عشق

عشق مکتب ہی اس نوع کاہے کہ بندہ جس مزاج سے بھی تعلق رکھتاہو اس کی جانب متوجہ لازمی ہوتاہے۔اسکاشمہ بھر شغف رکھنے والابھی اسکے تلاطم سے نبردآزما ضرورہوتاہے۔ایسااس لیے بھی ہوتاہے کہ عشق دنیاکا وہ واحد مکتب ہے جس میں داخلے کیلئے کسی مذہب ‘زبان‘رنگ ‘نسل ‘دیس پردیس‘امارت غربت‘بڑھاپا یاجوانی کسی بھی شہ کی کوئی شرط نہیں۔ایک اورخوبی یہ ہے کہ اس درسگاہ سے فیض یاب ہونے کیلئے آپ کو آنکھوں اور کانوں کی بھی مطلق ضرورت نہ ہے۔کسی خاص ذہنی استعداد کی بھی کوئی گرہ نہیں لگائی جاتی۔یہاں کے مدرسین میں مشہورزمانہ استاد وصل اورجناب فراق صاحب ہرسطح کی قوت حافظہ پر اپنانقش اس خوبصورتی سے ثبت کرتے ہیں کہ نزع کی آخری ہچکی تک حرف حرف دماغ میں ایسے محفوظ ہوجاتاہے جیسے معاملہ ایک آن پہلے ہی پیش آیاہو۔

ہاں!وصل کی آمد کے وقت شاگردوں کے چہروں پرطمانیت ‘نینوں میں چاشنی‘لبوں پردل آویزمسکراہٹ‘قلوب میں پرسکون فضااورزبان پرمدح سرائی ایسے جاری ہوتی ہے جیسے سدابہار چشمے کی آبشاریں متحرک رہتی ہیں۔قابل استعجاب بات یہ ہے کہ استاد کی موجودگی کی بناء پر ایسافیض جاری ہوتاہے کہ گونگے ‘بہرے اوراندھے بھی بولنے ‘سننے اور دیکھنے لگتے ہیں۔جب کہ بولنے ‘سننے اوردیکھنے والوں پرسکتے کا عالم طاری ہوتاہے ۔دیوانوں کی مجذوبیت عنقاہوجاتی ہے اور اہل خرد پرسحرطاری رہتاہے۔وصل کی خامی بس یہی ہے کہ اسکے باطن سے مغائرت کی بوآتی ہے۔جبکہ فراق کامعاملہ نہایت پیچیدہ ہے۔مسکراتے ہوئے چہرے جن کے اشاروں کنایوں سے کسی امارت کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے شخص کاگماں ہوتاہے معاً منحنی اور غریب صورت میں بدل جاتے ہیں۔مقررگنگ ہوجاتے ہیں۔قوت حافظہ پرنازاں غبی بن جاتے ہیں۔

یہ لمحات اس قدرجاگسل ہوتے ہیں کہ طالب علموں کی جان ناخن میں سماجاتی ہے۔پچھلے پیریڈ کی یاد پہاڑوں سے ٹکرانے والی سارس کی صداکی مانند انکے لوں لوں میں گونجنے لگتی ہے۔چیں بجبیں کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے اکثر بچے شاذونادرمدرس کو خشم ناک نگاہوں سے تکنے لگتے ہیں۔اورکنج قفس سے پرواز کی کوئی صورت نہ پاکر اپنے راہنماء فراق کی ذات مقدس میں نقائص کی خوشہ چینی میں محو ہو جاتے ہیں۔
معاملہ دراصل اس طرح چلتاہے کہ جماعت کے شدیدردعمل کے باوجود ’’فراق صاحب ‘‘ہی انہیں مسلسل پڑھانے آتے ہیں ۔پیریڈ کی طوالت اوربھاری بھر کم مشکل حروف میں لکھی گئی کتابوں سے تنگ آکر سوادِاعظم طفل مکتب ’’وصل ‘‘کی گردانیں دہرانے رہتے ہیں۔جبکہ کل آٹھ پرچوں میں سے سات کاتعلق ہجر کے لمبے چوڑے مضمون سے ہوتاہے۔

وصل کی ایک ہی کتاب اپنی مختصر ‘جامع اور پرکیف لکھت کے باعث ہردلعزیزرہتی ہے مگرفی الحقیقت وصل کامضمون آپشنل ہوتاہے۔جسے محض سکول کے پرنسپل ’’جناب صیاد‘‘کے حکم پر اس لیئے اثرانگیزاندازسے پڑھایاجاتاہے کہ کمزورقوت اعصاب کے مالک طالب علم مدرسے سے راہ فرارہی اختیارنہ کرلیں۔اور یہ سلسلہ اس بات پرمنتج ہوتاہے کہ لازمی مضامین میں عدم دلچسپی کے باعث ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد طالب فیل ہوجاتے ہیں۔

امپرووکرنے ‘کمپارٹ دینے یاازسرنوامتحان دینے کا کوئی قاعدہ اس بورڈ کے قوانین میں شامل نہیں۔طالب علم محنت سے احتیاج برتنے کے باوجودرقابت کی شہ پا کر وصل کے مضمون میں اس قدرلگن سے کلفتیں اُٹھاتے ہیں کہ عملی دنیامیں کسی کام کے نہیں رہتے۔

ان کاکام آوارہ گردی اورصحرانوردی کے سواکچھ نہیں رہتا۔مکتب سے دھتکارتے لمحات میں انہیں جو عمل ان پر غم والم کاکوہ گراں بن کرگرتاہے وہ وصل کی کتاب کا ہمیشہ کیلئے چھن جاناہے۔

اکثر طفل مکتب اپنی حیات کے باقی لمحات حسرت ویاس اورغوروخوض میں گزاردیتے ہیں۔پانی سرسے گزرنے کے بعد وہ اس قابل ہوپاتے ہیں کے ’’وصل ‘‘اور’’ہجر‘‘کے مضامین کاتقابل کرسکیں۔اورجب ان پر یہ عقدہ کھلتاہے کہ انہیں جوکچھ حاصل ہواوہ ’’محترم فراق‘‘ہی کے باعث ہو ا‘وصل توسراب تھالیکن صدافسوس!ایسااس وقت ہوتاہے جب انکی روح قصرعنصری سے پروازکررہی ہوتی ہے۔

sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188605 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.