انہوں نے اردو کی ترویج کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں
ڈاکٹر عبادت بریلوی کے مطابق’’اگر بابائے اردو مولوی عبد الحق نہ ہوتے اور
اردو سے انھیں یہ والہانہ وابستگی اور مجنونانہ لگاؤ نہ ہوتا تو کیا واقعی
موجودہ دور میں اردو کو وہ مرتبہ حاصل ہوتا جو آج بہت سی زبانوں کے لیے
باعث رشک ہے انھوں نے اردو کو اس کی اہمیت کا احساس دلایا اس کو اپنے پیروں
پر کھٹر ا ہونا سکھایا زندگی کی راہوں پر دوڑایا اس کے بازؤں میں حریفوں سے
مقابلہ کی سکت پیدا کی اردو کی تاریخ ، مخالفت کی تاریخ کشمکش کی تاریخ ہے
ہنگاموں کی تاریخ ہے بابائے اردو کی ذات نہ ہوتی تو اردو کے لیے ان منزلوں
سے گزرنا آسان نہ ہوتا ممکن تھا کہ وہ ان معرکوں میں کام آجاتی اور آج کوئی
اس کا نام بھی نہ لیتا۔ بابائے اردو کے طفیل ہی وہ زندہ اور سرخ رو ہے دنیا
میں شاید ہی کوئی مثال، زبان سے اس قدر بے پناہ محبت کی کہیں اور ملتی ہو
وہ سپردگی اور انہماک اور استغراق اور وہ دھن جو جنون کی سرحد سے ٹکراتی ہے
دینا کے عظیم ترین دماغوں ہی کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ بابائے اردو کی اردو
سے یہ لگن تحریک پاکستان کی ریڑ ھ کی ہڈی بنی‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ آج اردو کو جو بھی مقام و مرتبہ حاصل ہوسکا ہے وہ بابائے
اردو مولوی عبد الحق کی انتہک کوششوں کا ہی ثمر ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ
وہ قیام پاکستان کے چودہ سال بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے لیکن جس
عمارت کی بنیاد سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ رکھی جاتی ہے وہ عمارت
اتنی ہی دیر پا اور مضبوت و مستحکم بھی ہوتی ہے۔ڈکٹر عبادت بریلوی نے اردو
کے جن حریفوں کا ذکر کیا ہے اگر بابائے اردو نے اس کی بنیادوں میں اردو سے
محبت اور عقیدت کا جذبہ نہ بھر دیا ہوتا تو وہ حریف کب کے اسے مٹی تلے دفن
کرچکے ہوتے۔ بابائے اردو نے اردو کی نہ ختم ہونے والی زندگی کا جو پتھر
قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں رکھ دیا تھا وہ اس قدر بھاری بھرکم اور
سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند تھا کہ اسے گرانے ، پاش پاش کرنے کی تمام
تر تدبیریں ناکام ہوئیں اور آج اردو بابائے اردو کے طفیل ہی زندہ اور سرخ
رو ہے۔بابائے اردو مولوی عبد الحق ۱۸۹۴ء میں جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے
بی اے کررہے تھے تو وہاں انہیں جن اکابرین کی قربت اور صحبت میسر آئی ان کے
اثرات نے مولوی عبدالحق کو اردو کا متوالا ، دیوانہ اور عاشق زار بنا دیا
ان عظیم اہل علم و دانش میں علامہ شبلی نعمانی، سرسید احمد خان، سیدراس
مسعود، محسن الملک، سید محمود ، پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلنڈ اور بابو مکھرجی
شامل تھے۔ بابائے اردو کو سب سے زیادہ محبت وعقیدت سرسید احمد خان سے تھی
وہ ان کی علمی، سیاسی اور معاشرتی بصیرت کے قائل اور گھائل ہوگئے تھے۔ یہی
وہ دور تھا جب بابائے اردو نے یہ فیصلہ کیا کہ انہوں نے اردو زبان کی ترقی
کے لیے وہ کچھ کرنا ہے جو اردو کو تاحیات زندہ سلامت رکھے۔ اردو سے عشق اسی
دوران شروع ہوچکا تھااور اردو بابائے اردو کی محبوبہ بن چکی تھی۔ ۱۹۰۳ء میں
انجمن ترقی اردو کی بنیاد علی گڑھ میں ڈال دی گئی تھی بابائے اردو ۱۹۱۲ء
میں انجمن کے سیکریٹری مقرر ہوئے اس سے قبل۳ ۱۹۰ء تا ۱۹۱۱ء علامہ شبلی
نعمانی، مولانا حبیب الحرحمان خان شیروانی اور مولوی عزیز مرزا اس کے
سیکریٹری رہے۔ پروفیسر آرنلڈ انجمن کے اولین صدر تھے۔ بابائے اردو نے ایک
کام یہ کیا کہ وہ انجمن کو علی گڑھ سے حیدرآباد دکن لے گئے۔ ۱۹۳۸ء میں
انجمن اورنگ آباد سے دہلی منتقل کردی گئی۔مولوی عبد الحق اردو کے تحفظ اور
بقا کی جنگ لڑتے رہے۔ہندو ستان کے ہندو قومی زبان ہندی رکھنے کے لیے سر گرم
تھے ، گاندھی جی بھی ان کے ہمنوا اور اس کے حق میں تھے۔
ٍ
۱۸۹۴ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد برطانوی دور حکومت
میں بابائے اردو نے انڈین سول سروس اختیار کی اور چیف ٹرانسلیٹر کی حیثیت
سے دہلی میں حکومت کے محکمہ داخلہ میں کام کا آغاز کیا۔ مولانا اورنگ آباد
میں صوبائی انسپیکٹر آف اسکول بھی رہے ۔ اس دوران سر سید احمد خاں کی بنائی
ہوئی آل انڈین محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس جس کا نام بعد میں’آل انڈیا مسلم
ایجوکیشنل کانفرنس‘ ہوا۔اس کا مقصد مسلم معاشرہ میں تعلیم اور دانشوری کا
فروغ تھا۔ عبد الحق اس کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔اس کے بعد بابائے اردو حیدر
آباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔
وہ ابتداء میں عثمانیہ کالج اورنگ آباد کے پرنسپل کے فرائض بھی انجام دے
چکے تھے۔ بعد میں وہ شعبہ فیکلٹی آف اردو کے چیٔر مین مقررہوئے ۔ اس سے قبل
وہ ۱۹۳۰ء میں ریٹائر ہوگئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بابائے اردو نے ’انگلش اردو
‘ڈکشنری مرتب کی۔
قیام پاکستان کے اعلان کے بعد مولوی عبدالحق نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا
وہ خالی ہاتھ پاکستان آئے ۔ انجمن کا تمام تر ریکارڈ، مولوی صاحب کا ذاتی
کتب خانہ جو دہلی منتقل ہوا تھا ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ
سکا ۔وہ ساز و سامان کے اعتبار سے تو خالی ہاتھ تھے لیکن ان کے باطِن میں
ان کی محبوبہ ’اردو‘ اور ’انجمن تر قی اردو ‘ چھپی ہوئی تھی جو ان کے ہمراہ
پاکستان آئی۔یہاں آکر انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ انجمن کی تشکیل نو کی
اور پھر اس کے زیر سائے کاموں کا آغاز کیا۔کراچی میں انجمن کا دفتر قائم
ہوا ، مولوی صاحب انجمن کے بدستور سیکریٹری رہے۔ شیخ عبد القادر اس کے صدر
مقررہوئے۔ انجمن کے دفترکے لیے مولوی صاحب کراچی کی قدیم بستی لیاری میں
قطعہ زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ ابتدائی طور پر انجمن کا دفتر اسی
جگہ قائم ہوا۔ ۱۹۴۹ء میں مولوی عبد الحق نے انجمن کی اس عمارت میں ’اردو
کالج‘ قائم کیا۔ اب مولوی صاحب نے انجمن ترقی اردو کے تحت ملک میں اردو کے
فروغ و ترقی کی جدوجہد کو اپنا نصب العین بنا یا دوسری جانب کراچی کے غریب
عوام کی بستی لیاری میں اردو کالج قائم کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ غریبوں اور
نچلے درجہ کے طبقے میں احساس محرومی کو دور کرنا چاہتے تھے۔ وہ پاکستان کے
غریب اور متوسط طبقے کو تعلیم کے ذیور سے آراستہ کرنا چاہتے تھے۔ اردو کالج
کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس نے کراچی کے غریب عوام کو تعلیم کے حصول
میں ہر ممکن رہنمائی اور سرپرستی کی۔ اردو کالج سے فارغ التحصیل طلباء نے
بعد میں دیگر اداروں کے تحت بابائے اردو کے مشن کو آگے بڑھایا۔
بابائے اردو جب تک حیات رہے انجمن کے ساتھ ساتھ ملک میں اردو کی ترویج و
ترقی کے لیے سرگرداں رہے۔ انجمن کے تحت قائم ہونے والے تعلیمی ادارے ’اردو
کالج ‘ میں مختلف علوم کی تعلیم اور کالج کی عمارت میں توسیع کے لیے سرگرم
عمل رہے۔ ساتھ ہی ساتھ تصنیف و تالیفات اور ترجمے کا کام بھی جاری و ساری
رہا۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق جب پاکستان آئے ان کی عمر ۷۷ برس تھی۔
پاکستان میں ان کی سرگرمیوں کا دورانیہ ۱۴ سال ہے اس دوران ان کی عمر عزیز
۷۷ برس سے ۹۱برس رہی۔ انہوں نے ۹۱ برس کی عمر میں ۱۹۶۱ء میں داعی اجل کو
لبیک کہا۔ یہ عمرتوآرام اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی ہوتی ہے۔لیکن
مولوی صاحب کی ہمت کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ضعیف العمری میں کس قدر
تھکادینے والے کام کیے یہ سب اردو زبان کے لیے جذبہ ہی تو تھا جس نے ان سے
یہ عظیم کام کروائے انجمن ترقی اردو پاکستان اور اس کے تحت بے شمار کتب کی
تصنیف ، تالیف و ترجمہ اور اشاعت، ماہنامہ قومی زبان کی مسلسل اشاعت،
اردوکالج جو اب وفاقی اردو یونیورسٹی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ بابائے
اردو کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ انجمن کا دفتر گلشن اقبال بلاک ۷ میں قائم ہو
چکا ہے جہاں بابائے اردو کے قائم کردہ کتب خانے بھی ہیں۔ وفاقی اردو
یونیورسٹی اس وقت تین کیمپسیز پر مشتمل ہے ۔لیاری میں عبد الحق کیمپس، گلشن
اقبال ، یونیورسٹی روڈ پر گلشن کیمپس اور اسلام آباد میں بھی اسلام آباد
کیمپس کام کررہا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں اس وقت کی حکومت نے ملک کے تمام تر تعلیمی
اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا تھا چنانچہ اردو کالج کو بھی سرکاری تحویل
میں لے لیا تھا۔ ۱۳ نومبر ۲۰۰۲ء میں ایک صدارتی حکم
کے تحت اردو کالج کو جامعہ کا درجہ دے دیا تھا۔ گلشن کیمپیس میں قائم کتب
خانے کا نام ’’بابائے اردو مولوی عبد الحق یاد گاری کتب خانہ‘‘ ہے۔ یہ قومی
ادارے قومی ملکیت میں ضرور ہیں لیکن بابائے اردو کی یادگار کے طور پر ہمیشہ
یاد رکھے جائیں گے۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق محقق، نقاد، خاکہ نگار اور خطبہ ،مقدمہ یا
دیباچہ نگار کی حیثیت سے رکھتے ہیں۔’’چند ہم عصر‘‘ بابائے اردو کے خاکوں کا
ایسا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے اپنے ہمعصروں کے خاکے دلچسپ اور منفرد
انداز میں لکھے ہیں۔ خاکہ نگاری میں ان کی یہ کتاب بے حد مقبول ہے۔بابائے
اردو کی نثر نگاری میں سادگی کا عنصر نمایاہے۔ عام فہم الفاظ کا استعمال
کرتے ہیں۔ یہاں بھی مولوی صاحب سر سید کی نثر نگاری سے قریب تر نظر آتے
ہیں۔ انہوں نے سرسید کی نثر کے حسن کواپنے خیالات و نظریات میں جذب کرکے
نئی نسل کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے خطبات اپنی جگہ اہمیت رکھتے
ہیں۔ ان خطبات کو اردو کے لیے بانگ درا کہا گیا ہے۔ دکنی مخطوطات کو تلاش
کر کے ان پر تحقیق کرنا اور ان کتب پر’مقدمہ ‘ حاشیے اور صحتِ متن کے اعلیٰ
نمونے پیش کیے۔ معراج العاشقین، سب رس،
قطب مشتری، گلشنِ عشق اور علی نامہ بابائے اردو کی تخلیقات میں اپنا ثانی
نہیں رکھتیں۔ ان کی کتاب ’اردو کی نشو نما میں علمائے اکرم کا حصہ‘ معرکتہ
الاآرا کتاب ہے۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق کا وطن ہندوستان کاشہر ہاپوڑ تھاجہاں وہ۱۶
نومبر ۱۸۷۰ء میں پیدا ہوئے۔ زندگی کے ۷۷ برس متحدہ ہندوستان میں گزارے جب
کے بڑھاپے کی زندگی کے ۱۴ برس پاکستان میں بسر کیے اور وہ کارنامے انجام
دئے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے کراچی میں ۹۱ برس کی عمر
میں ۱۶ اگست ۱۹۶۱ء کو وفات پائی، اپنے ہی قائم کیے ہوئے انجمن ترقی اردو کے
مرکز اور اردو کالج (اب وفاقی اردو یونیورسٹی عبد الحق کیمپس ) جو لیاری
میں بابائے اردو روڈ پر واقع ہے کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ بابائے
اردو نے اپنے ایک خاکے کا اختتام اس مصرعے پر کیا ہے ، میں نے بھی ان کے
لیے اسی مصرعے کا انتخاب کیا واقعی ایسا ہے
پنچھی اڑ گیا پر ڈالی ابھی تک جھول رہی ہے
(شائع شدہ روزنامہ جنگ کے میڈویک میگزین ،بدھ، ۱۴ اگست ۲۰۱۳ء) |