میاں نواز شریف اس ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں۔ان کے
مطابق اس بار عوام نے ان کو منتخب کیا ہے ۔وہ اس سے پہلے بھی کئی عہدوں پر
منتخب ہو چکے ہیں۔سب سے پہلے جنرل ضاء الحق صاحب نے( جو کہ میاں صاحب اور
پی پی پی کے نزدیک ایک فوجی آمرتھے)میاں نواز شریف کو اپنے مارشل لاء کے
دور میں سیاست کے لیے منتخب کیا۔پھر انہوں نے ہی اپنی مارشل لاء ٹیم کے
ساتھ نواز شریف جو کہ اب صاحب بن چکے تھے ان کو وزیر بنا دیا۔یہی میاں نواز
شریف اسی ضیا ء (سابقہ فوجی آمر بقول پاکستان مسلم لیگ نواز)نے ان کو وزیر
اعلٰی کے عہدے تک آنے کی اجازت دی۔اس وقت ذولفقار علی بھٹو المعروف شہید
جمہوریت کی سیاست کا کافی بول بالا تھا۔جناب ذولفقار صاحب کی پاکستان کی
سیاست میں ایک اہم پوزیشن رہی ہے۔جنرل یحییٰ خان (سابقہ فوجی آمر بقول
پاکستان پیپلز پارٹی)کے دور میں مارشل لاء کے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنا نام بناتے رہے۔بہر حال اصل موضوع بحث میاں
نواز شریف تھے۔وہ اس دور میں وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ایک بار اس ملک کے
وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے۔شیخ رشید صاحب جو ان کے پرانے ساتھی ہیں اس
اونچائی پر پہنچنے والے اپنے اس سابقہ لیڈر کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں
نے یہ اونچائی فوج کی سیڑھی استعمال کر کے حاصل کی۔خیر جو بھی تھا ان کی
سیاست میں پہلا جھٹکا بے نظیر صاحبہ کی حکومت سے لگا۔نواز شریف صاحب نے اس
کا انتقام بہت جلد اپنی حکومت آتے ہی لے لیا۔جس کی گواہی اس دور میں بنائے
گئے کئی سیاسی مقدمات چیخ چیخ کر دے رہے ہیں۔فوج کی انگلی پکڑ کر چلنا
سیکھنے والے نواز شریف کو اسی فوج سے ایک اور دھجکا 99میں لگا ۔جب پرویز
مشرف (سابقہ فوجی آمر بقول کئی سیاستدان)نے نواز شریف کو کئی ایک وجوہات
پیش کر کے گرفتار کرلیا۔اور ملک ایک بار پھر مارشل لاء کی زد میں آگیا۔اس
بار ہمیشہ کی طرح بڑھ چڑھ کر اس ملک کی سیاسی قیادت نے جوش وخروش سے اس
مارشل لاء کو نہ صرف قبول کیا۔بلکہ اس کی خوشی میں مٹھایاں بھی بانٹی
گئیں۔مشرف صاحب نے بھی الیکشن کرائے۔جسے ہارنے والے کئی سیاستدانوں نے
ہمیسشہ کی طرح ماننے سے انکار کردیا۔ملک میں بہت بڑی اکثریت سے مشرف دور
میں ان کی پذیرائی ہوئی۔نواز شریف صاحب کو اس وقت جیل سے چھڑوانے کے لیے
کئی سعودی اور دیگر ممالک کے لوگ آئے اور انہوں نے ایک معاہدہ کیا(بقول
مشرف ،سعودی حکام اور باقی تما م شرکاء)جس میں انہوں نے اس بات کا وعدہ کیا
کہ وہ دس سال تک اس ملک میں واپس نہیں آئیں گے۔اس دور میں بینظیر صاحبہ بھی
باہر تھیں۔وہاں ان کے درمیان ایک معاہدے طے پاگیا۔سرائیکی میں ایک محاورہ
ہے گو کہ اس کا ان کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں مگر پھر بھی ہر بار اسی
معاہدے کو یاد کرنے سے میرے ذہن میں آتا ہے ۔وہ ہے "ونڈ کھساں تے کھنڈ
کھساں" اس کا لفظی مطلب ہے کہ مل جل کر کھائیں گے اور چینی کھائیں گے۔مگر
اس کا اصل مفہوم وہی ہے جو اس ملک میں نواز شریف اور پی پی پی کی لیڈرشپ کے
آنے کے بعد ہوا۔نواز شریف صاحب ایک وقت تک اس معاہدے کو ماننے سے انکار
کرتے رہے جو وہ کر کے اس ملک سے بھاگے تھے۔اس کے بعد مان لیا ۔پھر اس کی
مدت کے حوالے سے متضاد بیانات آتے رہے ۔میرا ایک معصومانہ سا سوال یہ ہے کہ
اس جھوٹ کے بعد میاں صاحب الیکشن کے لیے کیسے اہل ہو گئے؟مشرف دور میں حلف
لینے والے اور ان کا ہر قدم پر ساتھ دینے والے کئی لوگ میاں صاحب نے اس بات
کو بھلا کر ساتھ بٹھا لیے کہ یہ مشرف کے منظور نظر رہے ہیں۔اس دور میں آنے
والے کئی وزیر آج بھی وزیر ہیں۔اس دور میں بننے والی کوئی بھی پالیسی حقیقی
طور پر ختم نہیں کی گئی۔اس دور کا ایک ایک پلان آج اپنی مکمل آب و تا ب سے
اس ملک میں جاری ہے۔اس کو بھی اگر چھوڑ دیا جائے تو اگر مارشل لاء لگانے
والے واقعی غدارہیں۔جیسا کہ اکثر لوگ کہتے ہیں۔باوجود اس کے کہ اس ملک میں
تمام تر معاشی بحالی اور بڑے منصوبے انہی آمروں نے آکر شروع کیے اور ان کو
مکمل بھی کیا۔اگر غدار بھی مان لیا جائے تو کیا ان کے ساتھی اور اس سے
مراعات لینے والوں کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالیں؟ایک
وقت تک میاں برادران کے یہ نعرے لگائے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں
گے۔ملک لوٹنے والوں کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے،ان کی لاشوں کو لٹکا دیا جائے
گا۔اتنی بڑی اور غرور و تکبر سے بھری باتیں کرنے والے میاں برادران نے کتنے
ٹیکس چور پکڑے؟کتنی دولت پاکستان آئی؟کیا بہتری ہوئی ملک کے حالات میں؟جو
تبدیلیاں ہوئیں وہ یہ ہیں کہ جتنے نوٹ پی پی پی نے شائد تین سال میں چھاپے
میاں صاحب کی حکومت چار ماہ میں چھاپ کر بیٹھ گئی۔ڈالر کو 98سے اٹھا
یااور114تک لے گئی۔کشکول توڑ کر جھولی پھیلا لی ۔بجلی کی بندش جتنی گرمیوں
میں ہوتی تھی اتنی اب سردیوں میں کردی گئی۔نئے ٹیکس لگا دیے گئے۔کہاں گئے
شہباز شریف جن جن وعدوں پر نام بدلنے کا کہا تھا کتنے پورے ہوئے۔عوام کا
مسلہ این -آر-او-یا ایسا کوئی سیاسی مفاد کا معاہدہ نہیں۔عوام کو اس سے
کوئی غرض نہیں مشرف کاٹرائل ہوا یا نہیں۔عوام کو کوئی مطلب نہیں کون چیف
جسٹس بنا۔یہ مسلہ چند سولوگوں کا ہے۔کروڑوں لوگوں کا مسلہ بھوک ہے۔بے
روزگاری ہے۔بجلی ہے۔تعلیم ہے ۔علاج معالجہ ہے۔انصاف ہے ۔نوکری ہے۔قومی غیرت
ہے۔کوئی ان کو سمجھائے کہ عوام تو ٹھہری بے وقوف کہ آپ کچھ بھی بول دیں مان
لیتی تھی آپ تو کم از کم اپنی حیثیت کا خیال کرتے۔ملک کا وزیر اعظم اور
وزیراعلیٰ ہی جب جھوٹ بولیں گے تو اس ملک سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔جس
وزیر اعظم نے ماضی میں مارشل لاء کا ساتھ دیا ہو کیا وہ مارشل لاء کے خلاف
کاروائی کر سکتا ہے ؟یہ وہ سوال ہیں جو آج اس ملک کا بچہ بچہ کر رہا ہے ۔مگر
ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔مہنگائی دوگنی کردی گئی۔اور کارکردگی صفر۔ایک
عام شہری ہونے کے ناطے میں یہ دعوہ کرسکتا ہوں کہ وزیر اعظم اور وزرائے
اعلیٰ چاہے و ہ کسی بھی صوبے سے ہوں کوئی بھی ہوں۔سب کے سب میرے ملازم
ہیں۔میرے ٹیکس سے تنخواہ لیتے ہیں۔میرے پیسے پر عیاشی کرنے کا کس نے اختیار
دیا ہے ان کو؟مجھے ملنے تو دور میرے پاس آنے سے ڈرتے ہیں۔کسی عام آدمی کو
اپنے آس پاس دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔کس سے پوچھ کر عوام کے پیسوں سے ہیلی
کاپٹروں کا سفر کرتے ہیں۔ان کو شرم نہیں آتی اس ملک کی غربت سے ماری ہوئی
عوام کا پیسہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔میں اس ملک کا شہری ہونے کے
ناطے اس ملک کے وزیراعظم اور ایسے تما م وزیر جن کے فیصلوں کا اس ملک کے
حالات پر اثر پڑتا ہے سب کو دعوت دیتا ہوں کسی غریب کے گھر دس دن مہمان بن
کر جائیں۔ان کو علم ہو کہ دس ہزار تنخواہ لینے والاآپ کی خارجہ پالیسی کو
نہیں سوچتا۔وہ آٹا ،دال،چینی کی سوچ سے نہیں نکل سکتا۔ملک میں جس دن قانون
اس قابل ہو ا کہ اصل معنوں میں عام عوام کو ریلیف دے سکے اس دن میں اور
میرے جسے کئی لوگ ملک کے سب سیاستدانوں کوقانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔اگر
ایسا نہ ہوسکا تو وہ وقت دور نہیں کہ غربت،بے روزگاری ،مہنگائی،بجلی بندش
اور ان کے جھوٹے سیاسی پلان سے تنگ لوگ ہاتھوں میں جوتے اٹھائے ان کے پیچھے
ہونگے اور یہ معافی معافی پکارتے ہوئے گلیوں میں پناہ ڈھونڈتے پھریں گے۔اﷲ
میرے ملک کے لوگوں کو اتنی غیرت اور جرات دے کہ اپنے ملازمین سے سوال کر
سکیں۔
|