باسمہ تعالیٰ
کیادنیاسے انسانیت ختم ہوچکی ہے؟ زمین پرانسان تونظرآتے ہیں لیکن انسانیت
نظرنہیں آتی ہے،اوراگراس کاعینی مشاہدہ کرناہوتویوپی کی سیرکرآئیں،یقیناآپ
کووہاں انسان تو نظرآجائیں گے لیکن شایدانسانیت نام کی کوئی شئی نظرنہ
آئے۔دنیامیں انسان اس قدرانسانیت اورمروت سے عاری ہوجائے گاشایدیہ خودانسان
نے بھی کبھی نہیں سوچاہوگالیکن یہ ایک زمینی حقیقت ہے،جسے آپ جھٹلانہیں
سکتے۔اس وقت ملک کابچہ بچہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ مظفرنگرمیں چارمہینہ قبل
ہوئے خونی فسادات میں جان بچاکربھاگنے والے مظلوم وبے بس فسادزدگان عارضی
کیمپوں میں رہنے پرمجبورہیں جہاں سہولیات نام کی کوئی چیزدستیاب نہیں
ہے،ضروری اورلازمی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ کراب تک تقریبا ۳۴؍معصوم
موت کی آغوش میں سوچکے ہیں لیکن واہ رے بے غیرتی اوربے مروتی کہ یوپی کے
مکھیااورمکھیاکے سردارسماجوادی کامہذب چولاپہن کراپنے آبائی گاؤں سیفئی میں
مظفرنگرکی موت کاجشن منارہے ہیں ،ان کے اس جشن میں ان کے اہل خانہ کے ساتھ
ساتھ پوری سرکاری مشنری ان کے ساتھ ہے جس پرسرکاری خزانہ کاکروڑوں روپیہ
پانی کی طرح بہایاجارہاہے،لیکن افسوس صدافسوس! کہ اس بے غیرتی اوربے مروتی
اورانسانیت سوزحرکت پرملائم کی حمایت کادم بھرنے والے مسلم قائدین کے لب
سلے ہوئے ہیں اوروہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں گویاوہ بھی اس جشن کے ایک
اہم شریک ہیں۔
انسانیت اس قدرگرجائے گی کہ ایک طرف مظلوم وبے بس فسادزدگان سخت برف
جمادینے والے سردی میں کھلے آسمان کے نیچے عارضی کیمپوں میں گذارہ کرنے پر
مجبور ہیں جہاں ان کے تن ڈھانپنے کے لیے مناسب اوڑھنااوربچھوناکابھی انتظام
نہیں ہے،جہاں انہیں سردی سے بچاؤکے لیے مناسب کمبل اورآگ جلانے کے لیے
سرکارکی جانب سے الاؤ تک کاانتظام نہیں ہے وہیں صرف اپنی آنکھوں کی ہوس
کوبجھانے کے لیے یوپی حکومت فن کی نام نہادحفاظت کے نام پرکروڑوں روپے پانی
کی طرح بہارہی ہے اورفلم اسٹاروں کے رقص پرپوراخاندان جھوم رہاہے،آخریہ
کہاں کی انسانیت ہے؟ملائم سنگھ اوران کے ہونہارفرزندسیفئی مہااتسوکابچاؤیہ
کہتے ہوئے کرتے ہیں کہ مقامی سطح پرفن اورفن کاروں کی حفاظت حکومت کافرض
ہے،اسی لیے ہرسال یہ مہااتسومنعقدکیاجاتاہے،اورپندرہ دن تک چلنے والے اس
جشن میں رنگ برنگ کے ’’ثقافتی‘‘پروگرام پیش کیے جاتے ہیں،جس سے ملائم سنگھ
یادوکے ساتھ ان کاخاندان جس میں ان کے وزیراعلیٰ بیٹے ،ایم پی بہو،بھائی
اوردیگراہل خاندان بنفس نفیس شریک رہتے ہیں اورنام نہادثقافتی پروگرام سے
لطف اندوزہوتے ہیں،گذشتہ بدھ کواس جشن کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ اس میں
بالی ووڈکے کئی مشہوراورمہنگے اسٹارنے بھی اپناجلوہ بکھیراجس میں سلمان
خان،مادھوری دیکشت،رنبیرکپوراورزرین خان وغیرہ کانام سرفہرست ہے۔کیاآپ یہ
سوچ رہے ہوں گے کہ یہ فلمی ستارے مفت میں آگئے ہوں گے،جولوگ اپنی ایک جھلک
دکھلانے کے بھی لاکھوں کڑوڑوں وصول کرلیتے ہیں وہ بھلااتنی دورایک گاؤں میں
بغیرکسی قیمت کے آگئے ہوں گے ہرگزہرگزنہیں،بلکہ انہوں نے اس کے لیے بہت ہی
موٹی رقمیں وصول کی ہوں گی اوریہ رقمیں ظاہرسی بات ہے کہ اکھلیش جی نے اپنی
جیب خاص سے ادانہیں کی ہوں گی بلکہ اس کاباربھی انہوں نے سرکارکے خزانہ
پرہی ڈالاہوگا،ذراغورکریں کہ ان ناچنے گانے والوں پرجوپیسہ خرچ کیاگیاوہ کس
کاپیسہ تھااوراس پرکس کاواجب حق تھا؟کیاسرکارکے اس پیسہ پرمظفرنگرکی بے بس
اورمظلوم عوام کاحق نہیں تھاجوسخت سردی میں اپنے تن بدن کوڈھانپنے کے لیے
کمبل اوردیگرکپڑوں کے محتاج ہیں؟کیاان پیسوں پرمظفرنگرفسادزدگان کاحق نہیں
تھاجن کااس فسادمیں سب کچھ لٹ گیا؟جن کے مکانات تباہ کردیے گئے؟ جن
کاکاروبارختم ہوگیا؟جن کی زندگی کاوہ قیمتی سرمایہ ہی لٹ گیاجوان کے لیے
روٹی کپڑااورمکان مہیاکرتاتھا؟کیاان پیسوں پران سے زیادہ ان ناچنے گانے
والوں کاحق تھا؟ ذراغورکریں اورجواب تلاش کریں،کہ آخراس شخص کی انسانیت
کہاں دم توڑگئی جوکل تک پورے ہندوستان میں مسلمانوں کامسیحاکہلاتاتھا؟جسے
مسلم دشمن عناصرنے مسلمانوں کی حمایت پر’’ملاملائم ‘‘کالقب دینے سے بھی
گریزنہیں کیا،آخراس ملاکی ملائیت کہاں ختم ہوگئی؟اس سے بھی زیادہ افسوس کی
بات یہ ہے کہ جس ملائم سنگھ کویوپی کے لوگوں نے سر آنکھوں پربٹھایااوراپنے
قیمتی ووٹ سے سونے کی تھال میں سجاکراقتدارکی کنجی اس کے حوالے کی وہی
ملائم سنگھ کے پاس سیفئی میں رقص وسرورکی محفل میں بیٹھ کرجشن منانے کی تو
خوب فرصت ہے لیکن سیفئی سے پانچ گھنٹے کی دوری پرمظفرنگرکی مظلوم اوربے بس
فسادزدگان کی عوام کے آنکھوں سے آنسوپوچھنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے
اورچارمہینہ کاعرصہ گذرجانے کے بعدبھی آج تک وہ فسادزدگان کی خبرگیری کے
لیے مظفرنگرنہیں پہونچ سکے۔آخرکیوں؟کیاانہوں نے اس کوکوئی اہمیت نہیں دی
یاانہوں نے یہ سمجھ لیاہے کہ یہ مسلمان کہاں جائیں گے؟واپس لوٹ کروہ ہمیں
ہی ووٹ کریں گے؟لہٰذاخبرگیری کرنے کی کیاضرورت ہے؟تواگرملائم جی ایساسوچ
رہے ہیں توشایدیہ ان کی بڑی بھول ہوگی اورآنے والے انتخابات میں انہیں ان
کے کئے کی سزاعوام ضروردے گی۔انشاء اﷲ
انسانیت کے ختم ہوجانے کااس سے بڑااورکیاثبوت ہوسکتاہے کہ ایک طرف ملائم
اینڈپارٹی سیفئی میں نیم برہنہ لڑکیوں کے رقص سے اپنی آنکھیں سینک رہے ہیں
تووہیں دوسری جانب ان کے سینئروزراء حکومت کے خرچ پرغیرملکوں کی سیروتفریح
اورشاپنگ میں مصروف ہیں۔اوراس سیروتفریح کی قیادت اکھلیش کابینہ کے معروف
مسلم چہرہ اورشہری ترقیات کے وزیرمحمداعظم خاں کررہے ہیں۔جس صوبہ کاایک حصہ
فرقہ وارانہ فسادات کی مارجھیل رہاہو،وہاں کے مظلوم وبے بس فسادزدگان بے
یارومددگارہوں،سخت سردی کے عالم میں ان کے پاس اوڑھنے بچھانے کامعقول
انتظام نہ ہوحیرت ہے کہ اس ریاست کے وزراء جن کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ
ڈورہے وہ ایک طرف نیم برہنہ لڑکیوں کے رقص پرجھوم رہے ہوں اوردوسری جانب ان
کے قابل وزراء ادھ ننگی اورتہذیب واخلاق سے عاری قوم کے پاس اخلاق وتہذیب
کی تعلیم لینے جارہی ہو،لعنت ہے ایسی حکومت اور حکومت کے وزراء پراوران
لوگوں پربھی جویہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش ہوں،ایسے موقعو ں پران کی
زبانیں گنگ ہوہی جاتی ہیں ان کی زبانیں توصرف اس وقت کھلتی ہیں جب اپنے عیش
وآرام میں کوئی رکاوٹ آئے۔ایک ایسے نازک موقع پرجب کہ ضرورت تھی کہ حکومت
کے سربراہ اپنی نگرانی میں اپنے وزراء اورافسران کے ذریعہ مظلوم وبے بس
فسادزدگان کی بازآبادکاری اوران کی حفاظت پرتوجہ مبذول فرماتے خودتونیم
برہنہ لڑکیوں کے رقص میں کھوگئے اورجوباقی بچے انہیں ادھ ننگی اورغیراخلاقی
قوم کے پاس اخلاق کی تعلیم لینے کے لیے بھیج دیا۔اس وقت یوپی حکومت نے ۱۷؍ارکان
پرمشتمل ایک وفدتعلیمی ٹورکے نام سے یورپ اورمتحدہ عرب امارات کی سیرکے لیے
بھیجاہے جس میں یوپی حکومت کے ۸؍سینئروزراء بھی شامل ہیں،ان کایہ نام
نہاد’’تعلیمی ٹور‘‘۲۰؍روزپرمشتمل ہوگاجس میں وہ
ترکی،نیدرلینڈ،یونان،برطانیہ اورمتحدہ عرب امارات کی سیر کریں گے۔ دراصل اس
ٹورکاانعقاددولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کے زیراہتمام ہوتاہے۔یہ
ٹورجسے تعلیمی ٹورکانام دیاگیاہے ذراغورکریں وہ لوگ جواپنی پوری زندگی عیش
پرستی اور لہو ولعب میں صرف کردیتے ہیں،صرف ۲۰؍دن کے ٹورمیں وہ کس درجہ
کاعلم حاصل کرلیں گے،اوراگران کی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے توانہیں
گھربیٹھاکربھی آن لائن سسٹم کے ذریعہ تعلیم دیاجاسکتاہے اوراگرٹورہی ضروری
تھاتوکم ازکم یہ وقت اس ٹورکے لیے مناسب نہیں تھاکہ ایک ایسے وقت میں جب کہ
ان وزراء اورلیڈران کی ان کی ریاست کے مظلوم و بے بس فسادزدگان کوضرورت تھی
ایسے وقت میں حکومت ان کی سیروتفریح کامعقول بندوبست کررہی ہے جوکہ بہرحال
سمجھ سے بالاترہے۔
اسے بھی انسانیت اوراخلاقی اقدارکازوال ہی کہیں گے کہ ایک طرف مظفرنگرکے بے
بس مسلمان نان شبینہ اوردیگرضروریات زندگی کے لیے پریشان ہیں اوردوسری طرف
حکومت پوری مشنری کے ساتھ سیفئی میں رقص وسرورکی محفل میں مست ہے اورباقی
بچے وزراء ولیڈران یورپ کی سیروتفریح کے لیے نکل پڑے،لیکن ہمارے قائدین ان
سب واقعہ کودیکھتے ہوئے بھی خاموش ہے،ان کی زبانیں گنگ ہیں یاانہوں نے اپنی
زبان بندی کے لیے موٹی رقمیں وصول کرلی ہیں اﷲ ہی بہترجانتاہے۔لیکن خواہ
کچھ بھی ہویہ بھی انسانیت کے زوال کی اعلیٰ ترین علامت ہے۔چھوٹی چھوٹی
باتوں پرجس سے ملت کاکچھ بھلاہونے والانہیں ہوتاان باتوں پرتوہمارے یہ
قائدین آسمان کوسرپراٹھالیتے ہیں لیکن جب ضرورت پڑتی ہے تویہ اس طرح گمنامی
کے غارمیں جاچھپتے ہیں کہ ان کی پرچھائیں تک کودیکھنے سے مظلوم مسلمان
محروم رہ جاتاہے۔آخرکہاں گئے وہ اپنے ایک بھائی کودعوت مباہلہ کاچیلنج کرنے
والے قائد؟جس بے باکی اورشیردلی سے اپنے ہی ایک بھائی کومباہلہ کی دعوت دے
رہے تھے آج حکومت کے سامنے ان کی بے باکی اورحق گوئی کیوں ماند پڑگئی؟
مظفرنگرکے اطراف کے ہمارے قائدین جنہیں مسلمان اپنامسیحاسمجھتی ہے ،جن کی
ایک دھاڑکافی سمجھی جاتی ہے آج سیفئی کے جشن اوروزراء کے ٹورپران کی زبان
کیوں گنگ ہوگئی ہے؟شاہی امام کابھاری بھرکم دم چھلالگانے والے آج کیوں
خاموش ہیں؟کیاانہوں نے بھی اپنی اس خاموشی کی قیمت وصول کرلی ہے؟افسوس
صدافسوس!یہ اوراس طرح کے بے شمارہمارے قائدین ہیں آج جن کی زبانیں گنگ
ہوچکی ہیں،ان کی بے باکی کوزنگ لگ چکاہے اورسب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اندھوں
کی ایکٹنگ کررہے ہیں،مسلمانوں کے لیے یہ غوروفکرکاوقت ہے ،فسادات مسلمانوں
کوآنکھیں کھول کراوردیکھ کرچلنے کازریں موقع فراہم کرتی ہیں،اب بھی وقت ہے
کہ مسلمان آنکھیں کھولیں اوردیکھیں کہ اس مصیبت کی گھڑی میں کون ان کے ساتھ
کھڑاہے؟اورکون انہیں بیچ کراپنے لیے جبہ ودستارخریدرہاہے،اگراب بھی نہ
سنبھلے توشایدقیامت میں ہی سنبھلنے کاموقع ملے۔؟؟؟ |