سابق صدر و سابق آرمی چیف جنرل
(ر) پرویز مشرف کا دور اقتدار بلا شبہ معاشی، معاشرتی، عسکری لحاظ سے
پاکستان کا بہترین دور تھا جس کا ثبوت ان کے دور اقتدار کے وہ اعداد و شمار
ہیں جو اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، سابق صدر پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے
کے بعد ان کے 7 نکاتی ایجنڈے کو ان کے مخالفین بھی سراہنے پر مجبور تھے،
پرویز مشرف کے ناقدین اور وہ لوگ جو ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی گود
میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے وہی لوگ آج وقت تبدیل ہونے پر ان کی
جان کے دشمن بن گئے اور انہی کی طرف سے ایک محب وطن کمانڈو سابق صدر و سابق
آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف پر ’’غدار‘‘ جیسا گھناؤنا الزام لگا دیا گیا،
بقول میرے والد صاحب کے کہ سیاست کا دوسرا نام ’’خباثت‘‘ ہے اور اب وہی لوگ
جو کبھی مشرف کے سائے تلے سیاست کی دنیا میں وارد ہوئے تھے آج ’’خباثت‘‘ کا
شاہکار ہیں ان میں سے اکثر لوگ موجودہ حکومت میں بیٹھ کر ایک بار پھر
اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اس وقت اور اُس وقت کے
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی معزولی پر جشن منایا تھا اور مٹھایاں
تقسیم کی تھیں۔
سابق صدر پرویز مشرف جیسے ہی اقتدار سے الگ ہوئے یہ ’’محب وطن‘‘ ٹولہ ایک
ایک کرکے ان سے جدا ہوتا گیا اور کرسی کے نشے کو پروان چڑھانے کیلئے حاکم
وقت کی گود میں جا کر بیٹھ گیا، اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا 1947 ء سے لیکر
اب تک باریک بینی سے مطالعہ کریں تو ہمیں پرویز مشرف کا دور اقتدار ایک
سنہرا دور نظر آئے گا، سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے 8 سالہ دور اقتدار
میں پاکستانی معیشیت 75 بلین ڈالر سے 170 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور فی
کس سالانہ آمدن 450 ڈالر سے 1 ہزار 85 ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جی ڈی پی
پرچیزنگ پاور 270 بلین ڈالر سے 504 بلین ڈالر، ریونیو کولیکشن 305 ارب سے
990 ارب ، فارن ایکسچینج ریزرو 2 بلین سے 9 بلین ڈالر، درآمدات 8 بلین ڈالر
سے 20 ملین ڈالر، سابق صدر مشرف کے دور اقتدار سے پہلے پاکستان کی جی ڈی پی
کا 65 فیصد حصہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا تھا جو کہ مشرف حکومت میں 27
فیصد اور پاکستان میں غربت 34 فیصد سے 24 فیصد اور شرح خواندگی 45 فیصد سے
53 فیصد اور پاکستان کا ترقیاتی بجٹ 80 ارب روپے سے 550 ارب روپے ہو گیا
تھا، ان تمام اعداد و شمار کو مد نظر رکھا جائے تو سابق صدر پرویز مشرف کا
دور حکومت ایک سنہرا دور تھا، ستم ظریفی یہ کہ نام نہاد جمہوری حکومت آتے
ہی پاکستانی معیشیت اور پاکستان کے مجموعی حالات کو ریورس گیئر لگ گیا اور
معیشیت تباہ حال ہوتی چلی گئی، روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی
حکومت نے عوام سے روٹی، کپڑا اور مکان بھی چھین لیا، پاکستانی عوام اپنے
ماضی کو بھول جانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی، یہی وہ عوام اور یہی وہ
سیاستدان تھے جو کل تک پرویز مشرف کے گن گاتے نظر آتے تھے لیکن جیسے ہی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی اس نے آتے ساتھ ہی
ملکی مسائل کو حل کرنے کی بجائے انتقامی سیاست پر زور دینا شروع کر دیا،
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ، فوج اور میڈیا کیساتھ محاذ آرائی برسوں
پرانی ہے اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، حکومت نے اقتدار میں آتے ہی
پاکستانی عوام کیساتھ ساتھ پرویز مشرف پر بھی گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرف کو غدار قرار دے کر ان پر غداری کا مقدمہ قائم
کردیا گیا اور یہ مقدمہ شروع بھی ایسے حالات میں کیا گیا جب ملک شدید
اندرونی و بیرونی خلفشار سے دو چار ہے گویا حکومت وقت کو مشرف پر مقدمہ
چلانے سے اہم کوئی کام نظر نہیں آیا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ماضی کی روایات کو قائم رکھتے
ہوئے کشکول کا منہ پہلے سے زیادہ کھول دیا، پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اپنا
قرضہ اتارنے کیلئے مزید قرضوں کا سہارا لیتا ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے
کہ اسی ’’غدار‘‘ پرویز مشرف کی حکومت نے پاکستان کو بڑی حد تک آئی ایم ایف
اور ورلڈ بنک کے چنگل سے آزاد کروا لیا تھا، مشرف ’’غداری‘‘ کیس کے سلسلے
میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا یہ بیان انتہایہ
اہمیت کا حامل ہے کہ مشرف کو ’’غدار‘‘ نہیں بلکہ آئین شکن کہا جائے اور ان
کے اس بیان میں بڑا وزن معلوم ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کی سلامتی کی خاطر
جنگیں لڑنے والا پاک فوج کا سپہ سالار ’’غدار‘‘ کیسے ہو سکتا ہے، پرویز
مشرف پر اگر ’’غداری‘‘ کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے تو ان لوگوں پر ’’غداری‘‘
کا مقدمہ بہت پہلے بنایا جانا چاہئے تھے جو مختلف مواقع پر کراچی اور سندھ
کو پاکستان سے الگ کرنے کے بیانات دے چکے ہیں اسی طرح پاکستان کے ایک بڑے
’’گھاگ‘‘ سیاستدان مولانا فضل الرحمن نے بھی پچھلے دنوں ایک ایٹمی بیان
داغا تھا کہ ’’خیبر پختونخواہ میں حالات بڑے خراب ہیں، پتہ نہیں خیبر
پختونخواہ پاکستان کا حصہ رہے گا یا نہیں‘‘ معلوم نہیں کہ حکومت وقت نے ان
کے بیان کے کیا معنی لئے، اگر سابق صدر پرویز مشرف پر غداری کیس کا بنائے
جانا عین انصاف ہے تو ’’طیارہ اغوا‘‘ کیس کے مجرموں کو تو اس وقت جیل میں
ہونا چاہئے تھا، ملک کے مختلف حلقوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر یہ باز گشت
بھی سنائی دی ہے کہ حکومت وقت نے ایک بڑے میڈیا گروپ کو کروڑوں روپے کے عوض
یہ کام سونپا ہے کہ وہ مشرف کیخلاف غداری کیس میں حکومت کیلئے عوامی
ہمدردیاں بٹورنے میں اپنا کردار ادا کریں، دوسری جانب حکومت عوام کا دھیان
مشرف کیس میں لگانے کے بعد ملک کے بڑے بڑے ایسے اداروں کی نجکاری کرنے جا
رہی ہے جو ملکی معیشیت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، شاید اقتدار
کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں نے یہ بھانپ لیا ہے کہ یہ ان کا آخری موقع ہے
اسی لئے جتنا ہاتھ صاف کیا جا سکتا ہے وہ کیا جائے، اس بات میں کوئی ابہام
نہیں کہ ’’مشرف غداری کیس‘‘ نے حکومت کو مشکلات میں ڈال دیا ہے اور عین
توقع یہی ہے کہ یہ کیس مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جڑوں میں بیٹھ جائے گا، اﷲ
تعالیٰ پاکستان، پاکستانی عوام اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا حامی و
ناصر ہو۔ |