بِلیاں(فکاہیہ)

 غلام شبیر
جفا کے بیسیوں منتر ہیں اے فریب جمال
غروبِ شام عیاراں کا انتظار نہ کر
ماہرین عِلم حیوانات سے استفسار کیا،مورخوں کی رائے لی ،طوطے والے نجومیوں سے فال نکلوائی ،کئی رَمّال پرکھے ،بے شمار قیافہ شناسوں سے پُو چھاکہ بِلّیوں نے اِس عالمِ آب و گِل میں کب سے بِلبلانا شروع کیا لیکن سب منقار زیرِ پر دکھائی دیئے ۔ جب سے فلم آسو بِلّا سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش ہوئی ہے،معاشرتی زندگی میں بِلّی چُو ہے کا کھیل شروع ہو گیاہے ۔آسُو بِلّا ایک مشکوک نسب کا درندہ تھا اِس نے لُوٹ مار ،سفاکی اور درندگی میں رابن ہُڈ کو بھی مات دے دی ۔مثل مشہور ہے کہ طویلے کی بلا بندر کے سر لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ڈکیتی اور چوری کی ہر واردات کے پیچھے آسو بِلّا ہی اپنا قبیح کردار ادا کرتا ہے ۔ گُربہ کُشتن روزِ اوّل والی مثال اب لوگوں کے لیے دستور العمل بنتی جا رہی ہے ۔گُرگ آشتی ہو یا گُربہ کُشی سب روّیوں کے پسِ پردہ لذتِ ایذا یا سادیت پسندی (Sadism)کی مجنونانہ سوچ کارفرما ہوتی ہے ۔کہتے ہیں بِلّی شیر کی خالہ ہے جِس نے شیر کی تربیّت کی اور اِسے درندگی اور کم زور جانداروں کو چیرنے پھاڑنے اوراُن کی شہ رگ کا خون پینے کے گُر سکھائے ۔ بِلّی سے تربیت حاصل کرنے کے بعد شیر کے مزاج میں بے رحمی اور شقاوت بہت بڑھ گئی ۔اِس کے بعد وہی ہوا جو دنیا میں ہر محسن کے ساتھ ازل سے ہوتا چلا آیا ہے ۔شیر نے موقع پاتے ہی اپنی خالہ اور معلمہ بِلّی کاخون پینے کے لیے اُس پر جست لگا دی ۔عیاری ،مکاری ،فریب کاری اور موقع پرستی میں بِلّی اپنی مثال آپ ہے ۔بِلّی اُسی لمحے قریب کھڑے ناریل کے درخت پر چڑھ گئی اور اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئی ۔اس غیر متوقع صورت حال کو دیکھ کر شیراپنی خست و خجالت اور درندگی و شرمندگی کو چُھپاتے ہوئے بولا :
’’خالہ بِلّی ! میں تو محض قدم بوسی کے لیے تمھاری طرف تیزی سے بڑھا تھا لیکن تم نے تو بِلاوجہ ناریل کے درخت پر چھلانگ لگادی ۔میرے جیسے سعادت مند شاگرد کے بارے میں ایسی بد گُمانی اور میری نیّت پر شُبہ کرنا ہر گز مناسب نہیں ۔ایک بات تو بتاؤ میں تمھار اشاگرد ہوں ،تم نے مُجھے درخت پر چڑھنا تو سکھایا ہی نہیں ۔ایک اچھے اُستاد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کوئی ہنر اپنے شاگرد سے پو شیدہ رکھے اور اپنے شاگرد کو ہر فن میں یکتا نہ بنا دے ۔‘‘

’’میں وہ بِلّی نہیں جو بے وقت کی راگنی گائے اور مصیبت میں بھی بھیرویں اُڑائے ‘‘بِِلّی نے غصے سے کہا’’تُم نے سُنا نہیں بَھیڑ جہاں بھی جائے گی وہیں مونڈ دی جائے گی اور بِلّی جِس جگہ بھی جائے گی مزے سے چھیچھڑے اُڑائے گی ۔تُف ہے تم جیسے شاگردوں پر جو اُسی درخت کو کاٹیں جو اُنھیں کڑی دھوپ سے بچاتا ہو ،اُسی شاخ کو کاٹیں جِس پر وہ بیٹھے ہوں اور اُسی تھالی میں چھید کریں جس میں وہ کھائیں ۔آج سے میں نے تم سے سارے رابطے توڑ لیے ہیں ۔کان کھول کر سُن لو درندے !اگر میں تمھیں درخت پر چڑھنا بھی سِکھا دیتی تو آج تمھارے پیٹ کے دوزخ کا ایندھن بن چُکی ہوتی ۔‘‘

یہ کہہ کر بِلّی نے دو ناریل توڑے اور شیر کے سر پر زور سے دے مارے ۔شیر اس اچانک اور غیر متوقع وار سے لڑ کھڑا کر گِرا اُس کے سر سے خون کا فوارہ بہہ نکلا۔ شدید غصے کے عالم میں اب بِلّی نے زخمی شیر کے سر پر پے در پے کئی ناریل پھینکے اور شیر نیم جان ہو گیا اور وہ تڑپنے لگا،اس کا سارا خون بہہ گیا اور وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا ۔اپنے اُستاد اور محسن کے ساتھ غداری،نمک حرامی اور بے وفائی کرنے والے بے ضمیر اور بے غیرت ننگ ِانسانیت اپنے عبرت ناک انجام کو یاد رکھیں ۔کسی نے سچ کہا ہے کہ جب بِلّی پر مظالم کی انتہا کر دی جائے تو چیتے اور شیر سے بھی ٹکرا جاتی ہے ۔

گُزشتہ کئی دنوں سے بِلّیوں نے میرا ناطقہ بند کر رکھا ہے ۔چُپکے چُپکے رات دن میرے کمرے کی چھت پر یہ دبے پاؤں گُھومتی پھرتی ہیں اور اِن کی باہم میاؤں میاؤں جو تُو تُکار اور پیکار کی ایک شکل اختیار کر جاتی ہے اُسے سُن کر طبیعت سخت بیزار ہو جاتی ہے ۔اِن میں ایک سفید بِلّی اور کئی کالے کلوٹے باگڑ بِلّے ہوتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب باگڑ بِلے رقابت کی آگ میں جل کر ایک دوسرے کے خُون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔اِن کی میاؤں میاؤں کی آواز بھی گہری معنویت کی حامل ہے ۔ایک کُٹنی سفید بِلی میرے پڑوسی تارو خان نے پال رکھی ہے۔ احساس ِ کم تری کا مارا ہوا یہ ابلہ ا پنا شجرہء نسب نعمت خان کلاونت سے مِلاتا ہے اور اِس بھونڈے ناتے پر شیخی بِگھارتا ہے اور پُھول کر کُپا ہو جاتا ہے ۔تارو خان حرام کھانے کا بَلی ہے اور اور اُس نے یہ بِلّی اس کوچے کے بَلّی ماروں کے گھر سے ہتھیائی تھی ۔اس کوچے میں ملاح رہتے ہیں جنھیں بَلّی مار کہا جاتا ہے ۔سُنا ہے اُردو کے مشہور شاعر مرزا غالب بھی بَلّی ماروں کے کُوچے میں رہتے تھے ۔یہ بُلّی مار بھی عجیب لو گ ہوتے ہیں دریا میں کشتی رانی کریں تو مسافروں کو مار دیتے ہیں اور جب بستی میں اپنے کُو چے میں آئیں تو بِلّیوں کا کام تما م کر دیتے ہیں ۔اِن کی بِلّیاں خوف و دہشت کی علامت ہیں جن کی میاؤں میاؤں کی آواز سُن کر لوگ یاس و ہراس کاشکار ہو جاتے ہیں ۔یہ بِلّیاں جب بھی گرتی ہیں پنجوں کے بل گرتی ہیں اور کِسی موٹی مرغی کے اوپر گرتی ہیں۔تارو خان کی پالتو بِلّی ہر وقت آمادہء پیکار رہتی ہے مگر جب غُرّاتی ہے تو اپنے پنجے اپنے منہ پر دھر کر اپنا کریہہ چہرہ ضرور چھپا لیتی ہے تا کہ لوگ اُس کا حقیقی رُوپ نہ دیکھ سکیں ۔اس ڈھڈو بِلّی کو وہ آری بِلّی !کہہ کر پُکارتا ہے ۔اب یہ معلوم نہیں کہ یہ بِلّی کاٹنے والی آری ہے یا شرم و حیا سے عاری ہے ۔قرین قیاس یہی ہے کہ یہ بِلی اِسمِ با مسمیٰ ہے اور اِس کا نام عاری بِلّی ہی ہو سکتا ہے ۔ اِسے دیکھتے ہی سارے باگڑ بِلّے میاؤں میاؤں کرنے لگتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے ہر باگڑ بِلّا اِس حرافہ بِلّی سے اجازت طلب کرنے کے لیے کہہ رہا ہو ’’میں آؤں ؟ میں آؤں ؟‘‘اور یہ قحبہ خانے کی مکین بِلّی نہایت رعونت کے ساتھ ایک کے سوا باقی سب کو دُھتکار دیتی ہے۔ایک دِن میں کئی باگڑ بِلّے اِ س امتحان سے گزرتے ہیں اور سب کچھ لُٹا کر در بہ در اور خاک بہ سر مارے مارے پِھرتے ہیں تارو خان بھی عجب کندہء نا تراش ہے ۔اِس جیّد جاہل نے بھی اربابِ سیاست کی نقالی کرتے ہوئے کئی جعلی ڈگریاں اپنی زنبیل میں دبا رکھی ہیں اور رواقیت کا داعی بن بیٹھا ہے ۔لوگ اِسے اپنے عہد کا راسپوٹین قرار دیتے ہیں اور یہ ڈھٹائی ،بے شرمی اور بے غیرتی کی تصویر بن کر اپنے جنسی جنون پربے شرمی سے اکڑ فوں دِکھاتا ہے ۔وہ اکثر کہتا ہے کہ اُس نے ستر سالہ زندگی میں رومان کی ڈبل سنچری مکمل کر لی ہے ۔جب بھی کوئی نئی بِلّی اِس نا ہنجار بُڈھے کھوسٹ کے قریب آتی ہے تو اِس موذی کا دِل بَلیوں اُچھلنے لگتا ہے اور یہ بَلّے بَلّے کرتا ہوا اُسے کے حُسن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے مِلانے لگتا ہے۔ ہر نو خیز بِلّی اور مکار لُو مڑی کے سامنے دُم ہلانا اِس بد طینت بھیڑیے کا وتیرہ ہے۔ شکم کی بُھوک بھی عجب گلُ کِھلاتی ہے ،پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے یہ بِلیاں ذِلت اور تباہی سے اپنا دامن بھر لیتی ہیں۔ نئی نویلی بِلیاں اِس عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے جنسی جنونی کے کالے دھن پر گُلچھرے اُڑانے کے لیے ہر وقت بے چین رہتی ہیں ۔ یہ مسخرا اپنے اِس مذموم ارادے کا بر ملا اظہار کرتا ہے کہ اگر موت نے مہلت دی تو اُس کا ارادہ رُومان کی تین سنچریاں پُوری کرنے کا ہے ۔لوگ سوچتے ہیں کہ نا معلوم قادر مُطلق نے اِس فرعون کی مدت کو کیوں بڑھا رکھا ہے ؟۔

تارو خان کی پالتو بِلّی عاری کے متعلق اہل نظر کی رائے ہے کہ یہ پچھلے جنم میں جِسم فروش رذیل طوائف ہو گی ۔ہر روز یہ کلموہی نئے باگڑ بِلّے تلاش کر لیتی ہے اور اِ ن کے ساتھ اُچھل کُود میں مصروف رہتی ہے اور دیوانگی اور جنسی اشتہا کے ہاتھوں مجبور ہو کر بے تحاشا رنگ رلیاں مناتی ہے ۔یہ بِلّی ہر موٹے تازے اور خُوب پلے ہوئے با گڑ بِلے کی جانب للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اُسے اپنے مکر کے جال میں پھنسا نے کے لیے پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جاتی ہے ۔۔فربہ اور قوی باگڑ بِلّادیکھ کر اِ س بِلّی کی رال ٹپکنے لگتی ہے اور ساتھ ہی جِسم کے رونگٹے بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔عاری ایک ایسی کھسیانی بِلّی ہے جو کبھی کھمبا نہیں نو چتی بل کہ فربہ باگڑ بِلّوں کا شکار کرتی ہے اور اُن کو کُھدیڑ کُھدھیڑ کر اور نوچ نوچ کر چٹ کر جاتی ہے۔اِس خون آشام بِلّی کے منہ کو اِنسانی خون اِس طرح لگا ہے کہ اب یہ آدم خور بن چکی تھی ۔اِس کے پنجے ایک پل کی راحت ِفراواں میں کھو جانے والے ،چُلّو میں اُلّو بن جانے والے گنجے نو دولتیوں اور گھٹیا عیاشوں کے سر کے گنج میں اس طرح پیوست ہو جاتے ہیں کہ اُن کے کُھرچنے سے گنجِ قارون بھی عنقا ہو جاتا ہے ۔اہلِ حرفہ پر ِاِس سبز قدم بِلّی کی درندگی آشکار ہو چُکی ہے اور وہ اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حُسن کے جلووں کی فراوانی اور اِ ن کی ارزانی فاتر العقل پروانوں کے مکمل انہدام اور ویرانی پر منتج ہوتی ہے ۔واقفانِ حال اِس پُر فتن بِلّی کے جنسی جنون کی حکایاتِ خوں چکاں جب حرف حرف بیان کرتے ہیں تو سُننے والے توبہ توبہ کرتے ہیں ۔قِسمت سے محروم یہ باگڑ بِلے اپنے جِنسی جنون کے ہاتھوں مکمل تباہی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔اِ س کے بعد رفتہ رفتہ یہ فربہ باگڑ بِلے سُو کھ کر کانٹا ہو جاتے ہیں اور یہ چلتی پھرتی لاشیں کسی دن رِزق خاک بن جاتی ہیں ۔اگلے روز پھر باگڑ بِلو ں کاہجوم عاشقاں اِس خون آشام چڑیل کے تلوے چاٹتا نظر آتا ہے۔ ایڈز جیسی مہلک بیماری میں مبتلا یہ چڑیل بِلّی ایک دو روز کے لیے پھر کسی نئے با گڑ بِلّے کو اپنی ہوس کا شکار بناتی ہے اور پھر اُسے بھی ٹشو پیپرکی طرح استعمال کر کے گندے نالے میں پھینک دیتی ہے جہاں وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے ۔باگڑ بِلّوں کی تلاش اور اُن کی ہلاکت کا یہ سلسلہ مُسلسل جاری رہتا ہے اور عاری کودیکھ کر صبح کی ہوا پر بھی رِقت طاری ہو جاتی ہے اور یوں بادِ سموم گلشن کو تاراج کر دیتی ہے ۔اِس کے باوجود جنسی جنوں اور درندگی کی قبیح مثال یہ منحوس بلی میاؤں میاؤں کرتی ہوئی زبان حال سے اپنے جنسی جنون کابر ملا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے :
باگڑ بِلّے لبھدی میں آپ ای بِّلا ہوئی
آکھو باگڑ بِلّامینوں ،بِلّی نہ آکھے کوئی
ترجمہ : باگڑ بِلّوں کے شکار نے مُجھ کو باگڑ بِلّا بنا دیا ہے
مُجھے اب باگڑ بِلّا سمجھو بِلّی کا بانکپن میں نے بُھلا دیا ہے

قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حالات نے جو رُخ اختیار کر لیا ہے اُسے دیکھ کر یہ گُمان گُزرتا ہے کہ ہم ایک جنگل میں پھنس گئے ہیں ۔جہاں جنگل کا قانون پُوری شدت کے ساتھ نافذ ہے ۔اس جنگل میں بے شمار با گڑ بِلّے اور خون آشام بِلّیاں غراتے اور دندناتے پھرتے ہیں۔بِلّیوں کی کئی اقسام ہیں ،اِن میں سے پالتو بِلّی ،جنگلی بِلّی ،دیسی بِلّی ،بدیسی بِلّی ۔ساغر بِلّی ،لاغر بِلّی ، بھیگی بِلّی،کھسیانی بِلّی،نوسوچُوہے کھا کر گنگا جل میں نہانے والی بِلّی ،کالی بِلّی،گوری بِلّی ،مُفلس بِلّی ،عیاش بِلّی،قلاش بِلّی اور کُوڑے کے ڈھیر سے استخواں نوچ کر کھانے والی بِلّی کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔غرض جو بِلّی جس جگہ پر بھی ہے وہ دیکھنے والے کے لیے لمحہء فکریہ ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جیسا منہ ویسی بِلّی ۔آبادی کے ماہرین کا خیال ہے کہ جس برق رفتاری سے بِلّیوں کی افزائش نسل کا سلسلہ جاری ہے اگر اِس کوقابو میں رکھنے کی کوشش نہ کی گئی تو بِلّیوں کی آبادی کا یہ ازدحام تما م دستیاب وسائل کو ہڑپ کر لے گا ۔ہر بِلّی ایک وقت میں کئی بچوں کو جنم دیتی ہے اور جب تک وہ اپنے اِن نومولود بچوں کو پڑوس کے سات گھروں میں گُھما پِھرا نہیں لیتی ،اُسے چین ہی نہیں آتا۔ سماجی زندگی میں ایک بحرانی کیفیت دکھائی دیتی ہے ،انسانوں کی بستیوں میں چوہوں کی غارت گری نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔ طاعون پھیلانے والے چُوہوں کی ضرر رسانی سے بچنے کے لیے بعض لوگ بِلّیاں پالتے ہیں تا کہ یہ پالتو بِلّیاں گھر سے چُوہوں کو کھا جائیں اور ہر طرف صحت و صفائی کی حالت بہتر ہو جائے ۔وہ یہ بات بُھول جاتے ہیں کہ پالتو بِلّیاں رات کو آرام سے سوتی ہیں اور چُو ہوں کو کچھ نہیں کہتیں بل کہ جوں ہی فجر ہوتی ہے ،اِ ن کی چوکے پر نظر ہوتی ہے ۔ یہ پالتو بِلّیاں باورچی خانے میں موجود اشیائے خوردنی کا نہایت بے رحمی کے ساتھ صفایا کرتی ہیں۔اِسی لیے تو کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بِلّی کا سنگ ہمیشہ کے لیے ہاتھ تنگ اور گھر میں دائمی بُھوک اور ننگ ۔ امیر اور خوش حال گھرانوں میں کام کرنے والی خواتین باورچی خانے کے برتنون کی صفائی کے لیے بِلّیوں سے کام لیتی ہیں۔یہ بِلّیاں پلک جھپکتے میں اپنی زبان سے برتن چاٹ لیتی ہیں اور اِس کے بعد مزید کسی صفائی کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔

ہمارے معا شرے میں جہالت ،بے بصری اور کو ر مغزی اب حد سے تجاوز کر گئی ہے اُس میں المیہ یہ ہے کہ جاہل کو اُس کی جہالت کا انعام دیا جا رہا ہے ۔اہل ہوس نے اب پیٹو بِلّیوں کو چھیچھڑوں،ہڈیوں اور ماس کی رکھوالی پر مامور کر رکھا ہے ۔اُنھیں کون سمجھائے کہ وقت نے عجب ستم کیا ہے اب تو کوئی بِلّی کسی صورت میں کوئی چُوہا مارنے پر آمادہ نہیں ہوتی جب تک اُسے اِس کام کے لیے کسی قسم کے مفاد کی ترغیب نہ دی جائے ۔ زمانے کے ڈھنگ نرالے ہو گئے ہیں اب تو بِلّیوں نے بھی چوہے پال رکھے ہیں ۔شیر اور بکری کی دوستی پروان چڑھ رہی اور اب تو بھیڑبھی بے خطر بھیڑیے کی مصاحب بن جاتی ہے ۔مُفت کی شراب پنڈت اور پادر ی کے لیے تو جائز ہو سکتی ہے لیکن آج کی بِلّی مفت میں چُو ہا مارنے اوراُسے کھانے پر ہر گز تیّار نہیں ہوتی ۔بِلّی کو اپنی زندگی سے بہت پیار ہو تا ہے ۔اپنی جان بچانے کے لیے بِلّیاں سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہیں۔کہتے ہیں ایک مرتبہ کسی گھر میں آگ لگ گئی بِلّی کے بچے اُسی گھر میں پیدا ہوتے اور پل کر پروان چڑھتے تھے ۔وہ بچے ابھی چلنے کے قابل نہ تھے ۔باہر کے دروازے بند تھے ،بِلّی نے تپتی راکھ پر اپنے بچوں کو پھینکا اور اُن پر چڑھ کر آرام سے بیٹھ گئی اور جان بچ جانے کی خوشی میں دیپک راگ الاپ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی ۔ میرے ایک نام نہاد فلسفی پڑوسی کا خیال ہے کہ بِلّی کا یہ روّیہ بالکل منطقی اور حقیقت پسندانہ تھا ۔خطرے میں گِھری بِلی نے موت کو بہت قریب سے دیکھ لیا تھا اُس کا خیال تھا کہ جان ہے تو جہان ہے ۔زندگی تو ایک ہی بچ سکتی تھی یا بڑی بِلّی کی یا اُس کے ایک دِن کے بچوں کی ۔وہ جانتی تھی کہ ابھی تو وہ جوان ہے اور بستی کے بے شمار باگڑ بِلّے اُس کے پیچھے دُم ہلاتے پھرتے ہیں ۔بچے تو پھر بھی پیدا ہو سکتے ہیں لیکن ز ندگی اگر ایک بار ختم ہو جائے تو پھر اِسے کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔فلسفی ارسطو کے تصورِ المیہ کے مطابق بِلّی کے روّیے کو درست قرار دیتا ہے جب کہ لوگوں کو فلسفی کی عقل کی درستی پر کئی شکوک اور شُبہات ہیں ۔

ماہرین ِ علمِ بشریات کا خیال ہے کہ اِنسانوں کی زندگی میں زہر گھولنے کی ظالمانہ روش کالی بھیڑوں ،گندی مچھلیوں ،سفید کووں ،بگلا بھگت مسخروں اور بِلّیوں کی وجہ سے شروع ہوئی ۔ بزرگ اپنے بچوں کو یہ نصیحت کیا کرتے تھے جب بھی کوئی بِلّی دیکھیں تو اُس کے شر سے بچنے کی کوشش کریں ۔جِس جگہ سے عفونت اور سڑاند کے بھبوکے اُٹھ رہے ہوں وہاں باگڑ بِلّوں اور بِلّیوں کا پہنچنا یقینی ہے ۔یہ متعفن مُردا ر کھانے کے لیے نہیں پہنچتے بل کہ یہ گندگی اِرد گرد پھیلانے کے لیے پوری توانائی استعمال کرتے ہیں۔اِسی لیے کوئی ان بِلّیوں کی طرف آنکھ بھر کر کبھی نہیں دیکھتا۔حساس اِنسانوں کا یہ روّیہ خارش زدہ بِلّیوں کو بہت گراں گُزرتا ہے اور وہ دانت پیس کر اپنے رنج کا اظہار کرتی ہیں۔ بِلّی کے ساتھ کئی قِسم کے توہمات وابستہ ہیں۔کچھ لوگ بِلّی کے اُلانگنے کو ایک انتہائی منحوس اور خراب شگون سمجھتے ہیں۔کئی جوتشی یہ کہتے ہیں کہ اگر کالی بِلّی کسی شخص کا راستہ کاٹ جائے تو اُسے اپنی مسافت کا خیال ترک کر دینا چاہیے ورنہ ناکامی اور نا مُرادی اُس کا مقدر بن جائے گی ۔

دُنیا میں مسخروں اور احمقوں کی کمی نہیں ایک کو ڈھونڈنے نکلو راستے میں ایک لاکھ مِل جائیں گے ۔میرا ایک معمار سے پالا پڑ گیا لوگ اِسے بہلو راج کے نام سے پُکارتے تھے ۔یہ سٹھیایا ہوا معمار اپنا شجرہ نسب پرتھوی راج سے ملاتا تھا ۔اب اِس امر کی تحقیق کون کرے کہ کون کس ذات برادری سے تعلق رکھتا ہے ۔ہجرت کے بعد جہاں رہنے کے مقام بدل گئے وہاں آبا و اجداد کے نسب اور نام بھی حذف ہو گئے اور لوگوں نے نئے زمانے میں اپنے لیے من پسند نسب اختراع کر لیے ۔بہلُو راج ایک دن ایک چار منزلہ عمارت کی تعمیر میں مصروف تھا کہ اس کا سر چکرایا اور یہ زمین پر آ گرا ۔یہ مرنے سے تو بچ گیا لیکن اس کی دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں کی ہڈیاں کِرچی کِرچی ہو گئیں۔ مقامی طور پر ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے والے کرموں موچی کے پاس اسے لے جایا گیا۔ کرموں موچی سے پٹیاں بندھوا کر اسے یہ فائدہ ہوا کہ اس کا ایک ہاتھ کچھ حرکت کر سکتا تھا اور وہ کھا پی بھی سکتا تھا۔ تقدیر کے زخم سہہ کر ایک ماہر معمار گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں کھاٹ پر آ پڑا ۔معذوری کے بعد اس کے گھر میں بے روزگاری اور مُفلسی نے مستقل ڈیرے ڈال لیے ۔ غریب معمار سار ا دن گھر کے چھپر کے نیچے لیٹا رہتا اور ایام گُزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی اور اپنی حسرتوں کی نوحہ خوانی میں مصروف رہتا ۔ اُس کا کھاٹ چھپر کے شہتیر کے نیچے درمیان میں تھا تا کہ بارش سے محفوظ رہے ۔ اس کی بیوی جو بے حد حسین تھی ان تکلیف دہ حالات میں قناعت اور صبر نہ کر سکی اور جسم فروشی کے قبیح دھندے میں لگ گئی ۔ بہلو راج معمار کی مکار اور رذیل بیوی نے ایک چھینکا چھپر کے شہتیر سے باندھ رکھا تھا ۔وہ اِس چھینکے میں پھل ، سبزی ،بُھنا ہو ا گوشت اور روٹیاں وغیرہ رکھتی اور مناسب موقع پر کھانے پینے کی ان چیزوں کو تنہا چٹ کر جاتی یا کبھی کبھی اس کا ایک آ شنا بھی اس کا ہم نوالہ بن جاتا ۔اپنے معذور شوہر کو سادہ پانی اور باسی خشک روٹی دے کر جان چُھڑاتی ۔ اپنے کھاٹ کے عین اوپر لٹکے چھینکے کو دیکھ کر بہلو راج کے منہ میں پانی بھر آتا اور وہ اپنی بے بسی اور حسرتوں پر آنسو بہا کر لیٹ جاتا ۔وہ اپنی بیوی سے کوئی شکوہ نہ کرتا کیونکہ وہاں تو بات پر زبان کٹتی تھی ۔بہلو راج اپنی اس دکھ بھری زندگی سے تنگ آ چکا تھا ۔اُس نے کہیں سے زہر منگا رکھا تھا اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرناچاہتا تھا لیکن وہ سوچتا کہ اس طرح اس کی بیوی اور اس کے آ شنا کو رنگ رلیاں منانے کی کُھلی چُھٹی مِل جائے گی اوراُس حرافہ کا وہ مسٹنڈا آشنایہاں آ کر اس کے دس مرلے کے گھر پر قبضہ کر لے گا۔یہ سوچ کر اُس نے خود کُشی کا ارادہ ملتوی کر دیا ۔اس نے زہر کو چُھپا کر آڑے وقت کے لیے محفوظ کر لیا تھا کہ ممکن ہے حالات اس قدر تلخ ہو جائیں کہ زندگی دشوار ہو جائے ۔ایک دن اس کی بیوی نے چھینکے میں ایک کلو کے قریب صاف کیے ہوئے اور کٹے ہوئے سیب اور دو کلو کے قریب بکرے کا بُھنا ہوا گوشت رکھا جو اس کے آشنا نے اسے لا کر دیا تھا ۔ہر رات کی طرح اس ڈائن نے اپنے آ شنا کے لیے لذت ِ کام و دہن کا خوب انتظام کر رکھا تھا ۔ گوشت کی بُو سونگھ کر اچانک ایک موٹی بِلّی نے چھینکے کی طرف چھلانگ لگائی ،اس کے وزن سے چھینکا ٹُوٹ گیا اور تمام پھل اور بُھنا ہو ا گوشت بہلو راج کے کھاٹ پر آ گرا ۔بہلو راج بہت خوش ہوا کہ آج بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹُوٹ گیا ہے ۔بہلو راج نے فوراً بُھنے ہوئے گوشت اور سیبوں پر زہر کی پُڑیا چھڑک دی اور آنکھیں بند کر لیں ۔چھینکے کے گرنے کی آواز سن کر اُس کی بیوی جو باہر اپنے آ شنا کے ساتھ عالمِ مستی میں بند قبا سے بے پروا راز و نیاز میں مصروف تھی تیزی سے بھاگتی ہوئی آئی اور اُس نے بُھنا ہوا گوشت اور کٹے ہوئے سیب سمیٹ لیے اور اُنھیں تھالی میں ڈال کر باہر لے گئی ۔دونوں عیاش پلک جھپکتے میں تھالی میں رکھے پھلوں اور گوشت کو چٹ کر گئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک رذیل طوئف اور اُس کا مسٹنڈا عاشق دونوں اپنے عبرت ناک کو انجام کو پہنچ چُکے تھے ۔جب بھی لوگ بہلو راج سے اس سانحے کے بارے میں سوال کرتے تو وہ معنی خیز انداز میں کہتا کہ بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹُوٹا۔اہلِ درد اس واقعے کو فطرت کی تعزیروں سے تعبیر کرتے۔
آزادی سے قبل لالہ دُنی چند جھنگ شہر کا ایک متمول تاجر تھا۔اس کی خِست و خجالت اس کی جہالت کی مظہر تھی ۔اس بنیے نے سود در سود کے چکر میں کئی گھرانوں کو بے چراغ کر دیا ۔اس مہاجن نے مجبور لوگوں سے زرو مال بٹورنے اور لُوٹ کھسُوٹ سے اپنی تجوری بھرنا اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا۔یہ شخص نہایت ڈھٹائی سے کہتا کہ میر ی چمڑی بے شک جائے لیکن میری تجوری سے دمڑی باہر نہ جائے ۔دریائے چناب میں سیلاب آیا تو اس کے نتیجے میں بے شمار حشرات نے بھی شہر میں پناہ لی ۔ان میں چوہوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔لالہ دُنی چند کے اجناس خوردنی کے گودام میں چُوہوں کی یلغار نے لُوٹ مچا دی ۔لوگوں نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ ایک بِلّی پال لے اس طرح وہ چُوہوں کی ا یذا رسانی سے بچ جائے گا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ لالہ دُنی چند کِسی صُورت بھی بِلّی کے لیے گوشت اور مناسب غذا فراہم کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس خسیس نے ایک ماہر بڑھئی سے مشورہ کیا اور ایک کاٹھ کی بِلّی بنوا کر اپنے گودام میں رکھ دی تا کہ چوہے اُسے دیکھ کر بھاگ جائیں۔اس کی یہ احمقانہ تدبیر ناکام ہو گئی اور چوہوں نے اناج کی تمام بوریاں کُتر ڈالیں ۔لالہ دُنی چند بہت دل گرفتہ تھا لوگوں نے اُسے سمجھایا کہ کاٹھ کی بِلّی تو تم نے رکھ دی اب چُوہوں کو ڈرانے اور بھگانے کے لیے میاؤں کون کرے ؟یہ سادہ سی بات لالہ دُنی چند جیسے فاتر العقل ، خسیس اور بُز ِ اخفش کی کھو پڑی میں بالکل نہ آ سکی اور ہمیشہ بُڑ بُڑ اتا رہتا اور کاٹھ کی بِلی کو موردِ الزام ٹھہراتا ۔کئی بار رات کی تاریکی میں اُس نے کاٹھ کی بِلیّ کے پیچھے اپنا سر چھپا کر میاؤں میاؤں کی آواز بھی نکالی لیکن یہ سب احمقانہ حرکتیں بے سود ثابت ہوئیں۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ایک رات جب وہ تاریک گودام میں خود میاؤں میاؤں کر رہا تھا کئی چوہے اُس پر ٹُوٹ پڑے اور اس کی ناک اور کان کُتر لیے ۔ زخموں سے نڈھال اس نکٹے نے بھاگ کر بڑی مُشکل سے اپنی جان بچائی۔

زمانے کے حالات پیہم بدلتے جا رہے ہیں ۔بِلّی اور چوہے کا کھیل ہر دور میں جاری رہا ہے ۔شُتر گُربہ جیسی بے ہنگم کیفیات کی کثرت نے ہمیں اقوام عالم کی صف میں تماشا بنا دیا ہے ۔ہر جگہ چُو ہے بِلّیوں کے ڈر سے اپنے اپنے بِلوں میں چُھپ جاتے ہیں۔کئی بار چُوہوں نے بِلّی کے گلے میں باندھنے کے لیے گھنٹی بھی تلاش کر لی تا کہ گھنٹی کی آواز سُن کر بِلّی کی آمد سے سب چُو ہے خبر دارہو جائیں اور اپنی جان بچا کر چُھپ جائیں ۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی چُو ہا اتنا دلاور اور ہمت کے محیط کا شناور موجود نہیں جو اپنی جان پر کھیل کر بِلّی کے گلے میں گھنٹی باندھے ۔اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خون آشام بِلّیوں کے سامنے دُنیا بھر کے چُوہے بے بس ہیں ۔بعض مفاد پرستوں نے اپنی ناکارہ چیزوں کو فروخت کرنے کے لیے اُن کے ساتھ کچھ عمدہ چیزیں بھی سجا رکھی ہیں اور دونوں کو بہ یک وقت بیچنے پر مُصِر ہیں ۔اونٹ کے گلے میں بِلّی باندھنے کی یہ روش سادہ لوح لوگوں کو لُو ٹنے کا ایک ظالمانہ ہتھکنڈہ ہے ۔کئی بِلّیاں جب اپنی لمبی عمر کے باعث چوہے پکڑنے کی طاقت نہیں رکھتیں تو مکر کا لبادہ اوڑھ کر چو ہوں سے پیمان وفا باندھ لیتی ہیں ۔اس قماش کی ایک خوں خوار بِلّی ایک چوہے کو دبوچنے کے لیے جھپٹی تو چو ہے کی صرف دُم ہی بِلّی کے دانتوں میں آ سکی اور چُو ہا اپنی دُم کٹا کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا ۔مکار بِلّی نے شکار کے بچ نکلنے پر نہایت عیاری سے مضروب چوہے سے مخاطب ہو کر کہا :
’’اے میرے پیارے چوہے !میں تو صرف تمھاری پیاری ،لمبی اور حسین دُم کا بوسہ لے رہی تھی ۔تم نے زور لگا یااور تمھاری دُم کٹ کر میرے منہ میں رہ گئی اور تُم لنڈورے ہو گئے ہو ۔ تمھاری یہ دُم میرے پاس امانت ہے اور میں امانت میں خیانت کے سخت خلاف ہوں ۔اب جلدی سے میرے پاس آ جاؤ تاکہ میں یہ کٹی ہوئی دُم پھر سے لگا کر تمھیں حسین و جمیل بنا دوں اور تمھیں لنڈورا ہونے کے عیب سے بچاؤں۔آ جاؤ میری چاہتوں کے امین چہیتے چوہے ۔‘‘

چُو ہا جو پہلے ہی بِلّی کا ستم سہہ چُکا تھا نہایت رُکھائی سے بولا ’’بخشو بی بِلّی چوہا لنڈورا ہی بھلا ۔‘‘
بِلّیوں کی زندگی میں متعدد نشیب و فراز دیکھنے میں آئے ہیں۔ باگڑ بِلّوں اور بِلّیوں میں جب ذاتی مفادات کی بنا پر خانہ جنگی چِھڑ جاتی ہے اور ان کی کھٹ پٹ حد سے بڑھ جاتی ہے تو جھٹ پٹ کوئی نہ کوئی طالع آزما اور مہم جُو لنگور ان بد قسمت بِلّیوں کے حالات سُلجھانے کے لیے از خود میدان میں کُود پڑتا ہے ۔جب دو بِلّیاں ایک روٹی پر جھگڑ رہی ہوتی ہیں یہ لنگور ان کی مصالحت کی آڑ میں ترازو ہاتھ میں تھام لیتا ہے اور اس قدر سفاکی اوربے دردی سے ڈنڈی مارتا ہے کہ بِلّیاں بِلبِلا اُٹھتی ہیں۔ لنگور کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں ۔جب ان کی آنکھ کُھلتی ہے تو پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چُکا ہوتا ہے ۔یہ بے رحم لنگور سب روٹیاں چٹ کر جاتا ہے اور بِلّیاں آنکھیں اور ہاتھ ملتی رہ جاتی ہیں۔اس کے بعدا ن بِلّیوں کی جو شامت آتی ہے ا ور جس طرح ان کی درگت بنتی ہے وہ جہاں ان کی باہمی چپقلش کاشاخسانہ ہے بل کہ دیکھنے والوں کے لیے عبرت کا تازیانہ بھی ہے ۔گردشِ حالات کی گرفتِ تپاں سے اپنی ساعد ِنازک کون بچا سکتا ہے ۔سیلِ زماں کے تھپیڑے سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں ۔شاہراہوں پر صدیوں سے مبہوت کھڑے بُور لدے چھتنار زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے سائے میں کتنے جان دار پیمانہء عمر بھر گئے ۔اشک بار زمانے ساعت بہار کا نذرانہ لے کر بالآخر بیت جاتے ہیں ۔زندگی کی بو قلمونی کو دیکھ کر میں گُم صُم بیٹھا یہ سوچتا ہوں کہ یہ کیا معما ہے کہ ہمارے ہو نٹوں سے مرجھائی ہوئی موجِ تبسم بھی دور زماں کی کروٹ کے باعث خیال و خواب بن کر رہ گئی ہے ۔سمے کے سم کے ثمر نے حالات کو ایسی نہج تک پہنچا دیا ہے کہ گُنبدِ دِل میں ایّام گُزشتہ کی درخشاں اقدار و روایات کی باز گشت یا گونج بالکل سنائی نہیں دیتی ۔ایسا محسو س ہوتا ہے کہ سگانِ راہ نے چوروں کے ساتھ ساز باز کررکھی ہے اور بِلّیاں بھی اب چُو ہوں کے ساتھ مِل کر اِنسانوں کے در پئے آزار ہیں ۔ بِلّیاں ایک عفریت کے ما نند ہمارے معاشرے میں ہراساں شب و روز پید کر رہی ہیں۔آج وقت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ فصیلِ دِل سے موہوم خدشات اور آبادیوں سے بِلیوں اور بَلیات سے نجات دلائی جائے ۔ہمیں اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ شام و سحر کے سفینے سیلِ زماں کی تند و تیز موجوں میں خس و خاشاک کے ما نند بہہ جاتے ہیں اور یہ انگارہء خاکی زیر زمیں چلا جاتا ہے ۔اجل کی آہٹ یہی پیغام دیتی ہے ۔

اضطرابِ مُسلسل کی خونچکاں گھڑیوں میں جب بِلّیوں کی آواز سنائی دیتی ہے تو دل دھک سے رہ جاتا ہے ۔خندہ فرشانِ حیات کی بے حسی نے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔گھٹا ٹوپ تاریک راتوں اور مہیب طو فانی بگولوں میں سہمی ہوئی زندگی پکارتی ہے کہ ڈوبتی ہوئی اقدار و روایات کی ظلمت ِ بے پایاں میں بِلّیوں اور باگڑ بِلّوں کو کُھل کھیلنے کا موقع نہ دیا جائے ۔گزر گاہِ جہاں کے آبلہ پا مسافروں کو بِلّیوں کے راستہ کاٹنے سے ہراساں نہیں ہو نا چاہیے ۔باگڑ بِلّوں اور بِلّیوں کے کٹھور ماتھوں کی کرخت شکنوں سے دل برداشتہ نہ ہوں ۔خیابانِ گُل کی ہر شاخ پر طائران خوش نوا زمزمہ پرداز ہیں ۔زندگی کے کئی مظاہر ایسے بھی ہیں جوہمیں متوجہ کرتے ہیں۔کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ بُھوک اور پیاس سے بے حال کوئی فاختہ زندگی کے سفر کے درماندہ راہ گیروں کے پاؤں پڑنے کے لیے آگے بڑھتی ہے ۔اس مضمحل طائر کی بے بال و پر کیفیت دیکھ کر دلِ لخت لخت کو جمع کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔خون آشام بِلیوں اور باگڑ بِلّوں نے تو زندگی کو مقدروں کے دھوئیں میں اس طرح جھونک دیا ہے کہ کسی کو کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔زندگی دہائی دیتی رہ جاتی ہے کہ دمِ واپسیں پر میری طرف ایک نگاہ ڈالتے جاؤ ۔چھت پر بِلّیاں ایک دوسری پر جھپٹ رہی ہیں اور اُن کے شور میں کچھ سنائی نہیں دیتا ۔ اس معاملے کا تعلق ما بعد الطبعیات سے ہے کہ اگلے لمحے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی زینہء ہستی سے اُتر گیا۔طلسم ِزیاں کے جھمیلوں میں اُلجھ کر وہم و گُماں کے سلسلوں نے ہماری سوچ کے زاویوں کو بدل دیا ہے ۔ہم سرابوں میں بھٹک رہے ہیں ، بے سرو پا توہمات کے اسیر ہیں اور بِلّیوں کا موہوم خوف ہمارے اعصاب پر مسلط ہو چکا ہے ۔ہمیں صرف قادر ِ مطلق سے ڈرنا چاہیے جو ہمارے اختیار پر پہرے بٹھانے پر قادر ہے اور ضمیر کے بھیدوں سے بھی آگا ہ ہے ۔
Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 612932 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.