کرسی کے چار پیر ہوتے ہیں اور کچھ کرسیوں کے آرم(بازو)
بھی ہوتے ہیں لیکن اس دنیا کی ہر کرسی ہاتھوں اور انگلیوں سے محروم ہونے کے
با وجود لوگوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی ہے۔کہنے کو تو یہ بے جان چیز ایک
ہی جگہ ساکت رہتی ہے ،لیکن اس کے حصول کے لئے لوگ ہر قسم کا سفر کرلیتے ہیں۔
ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طبِ کی کرسی پر بیٹھا شخص یعنی ڈاکٹر، یہ
چاہتا ہے کہ ملک میں خوب امراض پھیلیں ،وکالت کی کرسی پر بیٹھے شخص کی یہ
خواہش ہوتی ہے کہ سب لوگ جرائم کا ارتکاب کریں ،معمار اس تاک میں رہتے ہیں
کے موسم خراب ہو شدید بارشیں ہوں اور لوگوں کے مکانات زمین بوس ہوجائے۔ اس
ملک میں سب سے خطرناک کرسی سیاست کی ہوتی ہے اس کرسی پر بیٹھنے والے کا بس
چلے تو ایلفی لگا کر مستقل طور پر اس کے ساتھ چمٹ جائیں۔ اس مقصد کے لئے وہ
طرح طرح کے کھیل کھیلتے ہیں اور لطف اٹھا تے ہیں۔ عوام میں دراڈیں جتنی
زیادہ ہوتی ہیں انکی کرسی اتنی ہی مضبوط ہوجاتی ہے وہ ہمیشہ چاہتے ہیں کہ
عوام شعور اور آگاہی جسے’’ لعنت ‘‘سے دور رہیں۔
دوسری اہم کرسی ملاّبرادری کی ہے۔ یہ اپنی کرسی میں’’مسلک ‘‘اور’’ فرقے‘‘
کی کیلیں ٹھوکتے ہیں۔ ان کی کرسی کو مضبوط بنانے کے لئے لاؤڈ اسپیکر اہم
کردارادا کرتا ہے۔جنت کا سرٹیفکٹ یہ ہمیشہ اپنی جیب میں لئے گھومتے ہیں اور
موقع ملتے ہی جھٹ سے پیش کردیتے ہیں۔ منافرت کی دراڑیں پیدا کرنا ان کا
محبوب مشغلہ ہے جنکی داڑھی لمبی ہوتی ہے ، شلوار ٹخنوں سے اوپر ہوتا ہے اسے
مذہبی قراردیا جاتا ہے ۔ملاّ وشیخ کا دائرہ ء اسلام ان کی ذہنیت کی طرح
سکڑتا جاتا ہے۔
ان تمام کرسیوں پر بیٹھنے والوں کا ایک مشترکہ مقصد ہوتا ہے کہ عوام کسی
قیمت پر متحد نہ ہوں ،تفرقہ ،لسانیت، کے بیچ بوئے جاتے ہیں بد قسمتی سے ہم
خود اس بیچ کو بہت پیار سے پانی دیتے ہیں، خیال رکھتے ہیں اور پھلنے پھولنے
میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو کہ اپنے پیر پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
کسی کی جان چلی جائے مال و اسباب لٹ جائے، کوئی عورت بیوہ ہوجائے،کسی ماں
کا جوان بیٹا کھو جائے ، کوئی بہن بھائی کے سائے سے محروم ہوجائے ؛کرسی
والوں کے کانوں پرجوں نہیں رینگتی شاید انکی جوں بھی کرسیوں پر مضبوطی سے
بیٹھنے کے عادی ہیں۔ جالب ؔ نے بجا فرمایا تھا
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
ہم چاہ کر بھی ان کرسیوں والو ں کا کچھ نہیں بگاڑسکتے ہاں البتہ اس طاقت کو
ان سے چھین سکتے ہیں، جو ہم نے ہی انھیں دے دی ہے اور متحد ہوکر ہر کرسی کی
ٹانگیں توڑسکتے ہیں۔ آئے مل کر کوشش کرتے ہیں ۔آخر ہمیں اپنی کا اندازہ
کیوں نہیں ہے؟؟ فیضؔ کہتے ہیں (یہاں ’کتے‘ کا مطلب عوام ہے۔)
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتّے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑے تو ایک دوسرے سے لڑادو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھادو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سر کشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقاوؤں کی ہڈّیاں تک تک چبالیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دکھادے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہلادے |