خطوط ، یادداشتیں اور تاثرات
پاکستان لائبریرین شپ میں پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید کا نام معروف ہی نہیں
معتبر بھی ہے۔ لائبریری سائنس کے شعبے میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل
کر نے والے آپ اولین شخص ہیں۔ راقم الحروف کوجامعہ کراچی میں آپ کا
اگرد(۱۹۷۱ء۔۱۹۷۲ء) ہو نے کا اعزاز حاصل ہے۔اس تعلق کو میں بہت اہمیت کی
نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ استاد و شاگرد کا مقدس رشتہ ایسا نہیں جو ایک بار قائم
ہونے کے بعد توڑا جاسکے۔ اسلامی تہذیب میں پروان چڑھے ہوئے لوگ اس رشتے کو
ایک مقدس رشتہ تصور کرتے ہیں جو تمام دوسرے تعلقات پر حاوی ہے۔میں نے بھی
ڈاکٹر صاحب سے اپنے اس رشتہ کو باوجود بعض اختلافات کے ہمیشہ مقدس سمجھا۔
ڈاکٹر صاحب سے میرا دوسرا تعلق یہ ہے کہ میں نے جس موضوع (لائبریری سائنس )پر
لکھنا شروع کیا تو میرے پیش نظردیگر مصنفین کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تحریریں
تھیں جن سے میں متاثر ہوا اور ان سے استفا دہ بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحب سے متاثر
ہو نے اور انہیں قدر کی نگا ہ سے دیکھنے کی تیسری اہم وجہ یہ ہے میں نے
ڈاکٹر صاحب کو تمام زندگی با وجود جسمانی کمزوری کے شدید محنت کرتے ہوئے
پایا۔ ڈاکٹر صاحب کو ۱۹۷۱ء میں پہلی بار شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی
میں دیکھا ، شعبہ لائبریری کی پانچویں منزل پر تھا ، تمام کلاسیں اوپر ہی
ہوا کرتی تھیں صرف ڈاکٹر انیس خوررشید صاحب کی کلا س زمینی منزل پر ہوا
کرتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب سیڑھیوں پر چڑھ نہیں سکتے تھے
کیوں کہ وہ پیروں میں فالج یا پولیوں کے مرض میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی
آواز بھی دھیمی اور قدرِ سست روی کا شکار تھی۔ اس کے برعکس اﷲ تعالیٰ نے آپ
کو قلم کی طاقت سے نوازا ، میں نے ڈاکٹر صاحب کو مسلسل لکھتے دیکھا،
لائبریرین شپ کے موضوع پر آپ کی تخلیقات معیار و مقدار ہر اعتبار سے
پاکستان لائبریرین شپ کی پوری تاریخ میں لاثانی ہیں۔مجھے ڈاکٹر صاحب کے اس
عمل نے متا ثر کیا کہ انہوں نے اپنی بیماری، کمزوریِ صحت کے باوجود قلم کی
روانی کو کم نہ ہونے دیا ، لکھتے رہے اورچھپتے رہے۔ آپ کی زندگی سے یہ سبق
ملتا ہے کہ جسمانی کمزوری انسان کے بلند مقاصدکے آڑے نہیں آسکتی
ارادے جن کے پختہ ہوں نگاہ جن کی بلند ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کر تے
ڈاکٹر انیس خورشید صاحب صاحب جامعہ کراچی کے سابقو الا وّلون میں سے ہیں۔آپ
نے جس محنت ، جفاکشی اور لگن سے جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس کی
آبیاری کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔آپ نے جامعہ کراچی کو اپنی عمر کا بہترین
حصہ عطا کیااور اپنی صلاحیتوں کا نچوڑ دیا، ایک کہنہ مشق لائبریرین ،تجربہ
کار اور قابل استاد ہونے کے ساتھ ساتھ لائبریری سائنس کے موضوع پر آپ کی
متعدد تصانیف و تالیفات اور بے شمار مضامین قیمتی اثاثہ ہیں۔پاکستان میں
کتب خانوں کی ترقی ، لائبریری سائنس کی تعلیم کی تحریک ، پیشہ ورانہ
مطبوعات اور کتب خانوں کی انجمنوں کی کارکردگی کی تاریخ ڈاکٹر صاحب کے
تذکرے کے بغیر ادھوری رہے گی۔بقول الحاج محمد زبیر’ ڈاکٹر صاحب جیسے مجموعہ
محاسن اشخاص کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
پاکستان میں لائبریرین شپ کے شعبہ میں ایک نقصان دہ عمل یہ ہوا کہ جس شخص
نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی یا وہ کسی بھی جامعہ یا معیاری ادارے سے وابستہ ہوا
اس نے اپنے آپ کو بیرون ملک روزگار سے وابستہ کر لیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا
کہ پاکستان کا یہ شعبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ھنر مندوں اور تجربہ کار افراد سے
محروم ہوتا چلا گیا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس شعبہ میں پی
ایچ ڈی حاصل کرلینے والے اکثر پاکستانیوں نے ملک میں خدمات فراہم کر نے کو
ثانوی حیثیت دی، ڈالر اور ریال کی چکا چوند روشنی نے انہیں اپنی جانب متوجہ
کیا اور وہ اس عارضی چمک کے سمندر میں بہہ گئے۔اعلیٰ تعلیم کے حامل ایسے
لوگوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے اپنے وطن میں رہتے ہوئے
خدمت کو اپنا نصب العین بنا یا اور تمام عمراپنے ہی ملک میں گزار دی۔ ان
میں سے ایک ڈاکٹر انیس خورشید صاحب بھی ہیں کہ جن کے لیے باوجود خراب صحت
کے بیرون ملک ملازمت کا حصول مشکل نہیں تھا لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور
وطنِ عزیز میں رہتے ہوئے خدمت کو اپنا شعار بنا یا۔ اپنے ریٹائرمنٹ تک
جامعہ کراچی سے منسلک رہے آپ کا یہ عمل آپ کو ممتاز اور محترم بنا تا ہے۔
ڈاکٹر انیس خورشید صاحب نے کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کے سر ٹیفکیٹ کورس
(۱۹۵۲ء) سے پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز کیا، ۱۹۵۷ء میں جامعہ کراچی سے
لائبریر ی سا ئنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور امریکہ کی(Rutgers-State
University of N J)سے ۱۹۵۹ میں ایم ایل آئی ایس کیا۔ امریکہ کی(University
of Pittsburgh) سے ۱۹۶۹ء میں لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز جامعہ کراچی کے کتب خانے سے
(۱۹۵۴ء)بطور کلاسیفائر کے کیا ، ستمبر ۱۹۵۹ء میں شعبہ لائبریری سائنس جامعہ
کراچی میں آپ کا تقرربطور جزو وقتی لیکچرر کے ہوابعد ازاں ۱۹۶۲ء میں کل
وقتی لیکچرر ہوئے اور ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے ۱۹۷۹ء میں پروفیسر ہوئے
اس دوران آپ کئی بار صدر شعبہ کے فرائض انجام دیتے رہے اور اسی حیثیت سے
۱۹۸۶ء میں ریٹائر ہو ئے۔
ڈاکٹر صاحب کو پاکستان لائبریرین شپ کے ایک مستند اور معتبر محقق ،مصنف اور
مولف ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ کا تحریری سرمایہ پاکستان لائبریرین شپ کی
تاریخ کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔پاکستان میں لائبریری سائنس کی تعلیم کے فروغ
میں بھی آپ کی خدمات قابل قدر ہیں ۔ جامعہ کراچی میں شعبہ لائبریری سائنس
کا قیام پرو فیسر ڈاکٹر عبدالمعید کا مرہون منت ہے جب کہ اسی شعبہ میں ایم
ایل ایس(ایم اے لائبریری سائنس) کا آغاز ڈاکٹر انیس خورشید کی کوششوں کے
باعث ۱۹۶۲ء میں ممکن ہو سکا۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن سے آپ طویل عرصہ
تک وابستہ رہے اور مختلف حیثیتوں سے بے بہا خدمات انجام دیں، متعدد
کانفرنسوں کی روئیدادیں مر تب کیں ، کلسا (KULSAA) کے اولین چیرمین
رہے،پاکستان لائبریری ریویو کے مدیر اعلیٰ بھی رہے، قائد اعظم محمد علی
جناح پر کتابیات کی تدوین، ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کی رپورٹ، پاکستانی ناموں کی
کیٹلاگ سازی، لائبریری قانون کا مسودہ،پائیلٹ پبلک لائبریری اسکیم آپ کے
اہم کارنامے ہیں جنہیں پاکستان لائبریرین شپ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا
جائے گا۔ڈاکٹر صاحب پر متعدد مضامین تحریر کیے گئے اورآئندہ بھی تحریر کیے
جائیں گے، پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر نے ڈاکٹر صاحب کے ریٹائرمنٹ
پر آپ کی شخصیت اور علمی و علمی خدمات پر ایک کتاب بعنوان Making of
Librarianship in Pakistan: Presentation volume to honour Prof. Dr. Anis
Khurshid on his retirementبھی مر تب کی۔یہ کتاب ڈاکٹر انیس خورشید کی
شخصیت اور لائبریری خدمات کا سیر حاصل احاطہ کرتی ہے۔اس مجموعہ میں پاکستان
اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والی ۱۵ شخصیات کے مضامین شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب
پاکستان لائبریرین شپ کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں
حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں ’’صدارتی تمغہ حسن کارکردگی‘‘
سے نوازاجو پاکستان لائبریرین شپ کے لیے بھی ایک اعزاز ہے۔
ڈاکٹر انیس خورشید صاحب سے میرا خط و کتابت کا رشتہ قائم رہا گو کہ ہم ایک
ہی شہر کے باسی ہیں۔ آپ کی ایک خوبی یہ بھی میں نے دیکھی کہ آپ نے ہمیشہ
میرے خط یا جب کبھی میں نے اپنی کوئی بھی تصنیف آپ کوبھیجی تو آپ نے بذریعہ
ڈاک اس کی رسید سے ضرور نوازا ، گو وہ تحریرمختصر ہی ہوا کرتی تھی لیکن
جواب ضرور دیا کرتے ۔ ۱۹۹۸ء میں راقم نے آپ کو اپنی ایک کتاب کا ’پیش لفظ ‘
تحریر کرنے کی درخواست کی ۔ آپ کا خط تحریر شدہ ۱۲ جنوری ۱۹۹۸ء موصول ہوا
جس میں آپ نے معزرت چاہتے ہوئے تحریر فرمایا ’’تمہارا خط مورخہ۱۰ جنوری
۱۹۹۸ء موصول ہواPLRانڈکس بننے کی خبر پاکر خوشی ہوئی لیکن میں تواب خرابی
صحت کی وجہ سے لکھنے کا کام ختم کرچکاہوں ، گو لڈن جوبلی کے سلسلے میں بہت
ہی اصرار پر ایک مضمون لکھا تھا اس کے بعد طبیعت جو خراب ہوئی تو ڈاکٹر کے
کہنے پر اس کام کو بالکل بند کرنا پڑ رہا ہے۔ معزرت خواہ ہوں، نیک تمناؤں
کے ساتھ، انیس خورشید‘‘۔بعد میں اس کتاب کا پیش لفظ جناب معین الدین خاں
صاحب نے تحریرفر مایا۔ وقتی طور پر تو مجھے احساس ہوا کیوں کہ اس اشاریہ
پرڈاکٹر صاحب سے بہتر لکھنے والا کوئی اور نہیں ہو سکتا تھاکیوں کہ آپ’
کلسا ‘ (کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس المنائی ایسو سی ایشن) کے اولین
چیر ٔ مین اور رسالے ’’پاکستان لائبریری ریویو‘‘کے اولین ایڈیٹر بھی رہے
تھے۔
لائبریری سائنس کے مختلف موضوعات کے علاوہ سوانح نویسی یا سوانحی کتا بیات
کی تدوین کی جانب میری توجہ شروع ہی سے رہی ہے۔کئی شخصیات پر میرے مضامین
شائع ہوئے ۔ ڈاکٹر عبد المعید پر اولین سوانح شریک مولف کی حیثیت سے مر تب
کی جو۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی ۔ ۱۹۹۸ء میں اختر ایچ صدیقی پر میری کتاب (Akhtar
H. Siddiqui: A Bio-bibliographical Study) شائع ہوئی ، یہ کتاب اختر صدیقی
صاحب ہی نے ڈاکٹر انیس خورشید کی خدمت میں پیش کی۔ڈاکٹر صاحب نے میری اس
کتاب کے بارے میں اپنے ایک خط(۱۸ مئی ۱۹۹۷ء ) جو اختر صدیقی صاحب کے نام
تھا اپنی رائے کا اظہاران الفاظ میں کیا:
ڈیر اختر صدیقی ‘ السلام علیکم !
تم آئے تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، بے سروسامانی کے اس دورمیں جذبہ
کی کمی نہ تھی، ہر کوئی کچھ نہ کچھ اچھا اکام کرنا چہتا تھا کہ پیشہ کتاب
داری کو وقعت حاصل ہو۔ لڑائی جھگڑے بھی تھے لیکن کام کرنے والے کام کرتے
رہتے تھے۔ آج اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ ہمارا پیشہ معتبر گردانا جانے لگا
ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنے بارے میں شائع ہو نے والی Bio-Bibliographical
Study کی ایک کاپی مجھے عنایت فر مائی ورنہ میں ایک اچھی کتاب سے شاید
محروم رہتا۔ میں نے سر سری طور پرہی اسے دیکھا ہے مجھے کتاب اچھی لگی۔
presentationبہت ہی اچھے طور پر کی گئی ہے اور نہایت عمدگی سے dataکو پیش
کیا گیا ہے۔ کتاب سے آپ کی بھر پور شخصیت اپنی طرحداری کے ساتھ اجاگر ہوتی
ہے۔تدوین اور تر تیب بھی اچھی ہوئی ہے یوں کہنا چاہئے کہ اختر ایچ صدیقی کی
متنوع اور سدا بہار شخصیت اپنی پوری کتا بیاتی سر گرمیوں کے ساتھ اس کتاب
کے ذریعہ بھر پور طور پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ میری طرف سے مبارکباد قبول فر
مائیے۔اﷲ تعالیٰ آپ کو صحت اور تندرستی عطا فر مائے، آمین۔ سید ارشاد علی
بھی آج آئے تھے اُن کو بھی میں نے کتاب دکھائی تھی، اُ ن کو بے حد پسند آئی
۔ بھابی کو آداب کہیے ‘ دعاؤ ں کے ساتھ، مخلص‘‘ انیس خورشید۔
قومی کتا بیات پاکستا ن (۱۹۴۷ء ۔۱۹۶۱ء) جلد سوم راقم نے بطور چیف ایڈیٹر مر
تب کی۔ حکومت پاکستان کی وزارت تعلیم کے شعبہ لائبریریز نے ۱۹۹۹ء میں اسے
شائع کیا اس کتاب کے موصو ل ہونے کے بعد ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط ۲۰
فروری ۲۰۰۰ء میں تحریرفرمایا:’’تمہارے خط مورخہ ۱۳ فروری کے ساتھ PNB-47-61
(500-900)ملا ‘ بے حد شکریہ ۔ غالباً اس ببلوگرافی کے ساتھ باقی حصہ جو
چھپنے سے رہ گیا تھا وہ بھی شامل ہو گیا ہے ‘ یہ کام قابل تعریف ہے۔
مبارکباد قبو ل کریں‘‘۔ مخلص، انیس خورشید۔
۱۹۹۷ء میں میں نے ڈاکٹر خالد محمود کے اشتراک سے پاکستان سے شائع ہو نے
والے لائبریری و انفارمیشن سائنس کے رسائل و جرائد کا پچاس سال کا اشاریہ
مرتب کیا ۔ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط مورخہ ۱۵ مارچ ۲۰۰۰ء میں تحریر
فرمایا :’’تمہاری اور خالد محمود کی کتاب Periodical Literature in LISملی
‘ بے حد شکریہ۔ یہ کوشش قابل مبارک باد ہے۔ اس کام کو جاری رکھنے کی
ضرورت ہے لیکن اسے رسائل تک محدو د رکھنا وہ بھی مقامی رسائل تک سودمند
ہوگا۔میری دعائیں تم لوگوں کے ساتھ ہیں‘۔دعاؤں کے ساتھ، انیس خورشید۔۹
فروری ۲۰۰۱ء کو آپ کا خط راقم کے نام موصول ہوا آ پ نے تحریر فرما یا:
ڈیر صمدانی ! تسلیمات!
تمہارا بھیجا ہوا رسالہ PLBملا بے حد شکریہ ، نیلا رنگ جو رسالہ کے سرورق
کے لیے اس مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ اتنا دلفریب اور دل آویز ہے کہ میں
تعریف کیے بغیر نہ رہ سکااس لیے یہ خط عجلت میں لکھ رہا ہوں۔ لگتا ہے رسالہ
پر بہار آگئی ہے، خدا کرے کہ ہمارا لٹریچر بھی اسی طرح خوش رنگ اور اثر
پذثابت ہو۔ میری طرف سے مبارکبا د قبول ہو۔ بخاری مرحوم پر مضمون کا بھی
شکریہ ، ہمارے پرانے ساتھی تھے جن سے پہلی ملاقات کراچی میںPLAکی کانفرنس
۱۹۵۸ء میں ہوئی تھی، اﷲ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے آمین! ظہیر الدین
خورشید کو ابو ظہبی کی عرب کلف کانفرنس میں انکے پیپر From MARC to MARC-2
کو کانفرنس کا بہترین مقالہ کا ایوارڈ ملا ہے۔ اس خبر کا KFUPMکے یونیورسٹی
کے خبرنامہ کا تراشہ منسلک ہے ۔ میں نے محترم معین الدین خان صاحب کو بھی
تراشہ چھپنے کے لیے بھیجا تھا اگر انہوں نے آپ کو دیدیا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ
آپ بلیٹن یا پی ایل اے نیوز لیٹر میں چھاپ دیں تو میں ممنون ہونگا‘‘۔ ہم نے
یہ خبر اپنے رسا لے (Pakistan Library Bulletin)میں شائع کی جس کا بعد میں
ڈاکٹر صاحب نے شکریہ بھی ادا کیا ۔ستمبر ۲۰۰۱ء کی بات ہے ڈاکٹر صاحب نے
جریدہ نیادور، افکار اور فنون کے بارے میں citation تلاش کرنے کے بارے میں
کہا ، مجھے نہیں معلوم کہ میں یہ کام کرسکا یا نہیں آپ نے اپنے خط مورخہ ۱۵
جولائی ۲۰۰۱ء میں تحریرفرما یا ، ’’کل تم نے گھر رسالہ پہنچا دیا بے حد
خوشی ہوئی ، شکریہ۔ بدرالدین کو خط بھجوادیا ہے۔ قمر مرزا بھی رسا لہ پاکر
بے حد خوش ہونگے وہ تو ریگور رسالہ کے ریڈر رہے ہیں۔ ڈاکٹر جالبی نے نیا
دور کا citation مہیا کردیا ہے اب آپ افکار اور فنون کے citation ہی تلاش
کریں عنایت ہوگی۔ دعاؤں کے ساتھ۔ ’’انیس خورشید‘‘۔
لاہور کے الطاف شوکت صاحب مرحوم سے میرے باوجود عمر کے فرق کے پیشہ ورانہ
اوردوستانہ مراسم تھے۔ میرے پاس اپنے نام آئے ہوئے ان کے بھی بے شمار خطوط
محفوظ ہیں۔ان کے انتقال کے بعد میں نے ان پر ایک مضمون لکھا اور اس رسالے
کی کاپی جس میں یہ مضمون شائع ہوا تھا داکٹر صاحب کو ارسا ل کیا ساتھ ہی یہ
بھی لکھاکہ میں جناب جمیل نقوی پر ایک مضمون تحریر کر نے کا ارادہ رکھتا
ہوں۔ مضمون میں جمیل نقوی صاحب کے بارے میں آپ کی رائے بھی شامل ہوجائے تو
مضمون میں چار چاند لگ جائیں گے۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی رائے مجھے ٹیلی فون پر تحریر کرادیں۔ڈاکٹر صاحب
اس پر تیار ہوگئے ، آپ نے اپنے خط مورخہ ۲۸ اگست
۲۰۰۱ء کو تحریر فرمایا:
ڈیر صمدانی ۔ السلام علیکم!
تمہارا خط ملا اور رسالہ بھی، ظہیر کی خبر چھاپنے کا شکریہ۔ مجھے دکھ ہوا
کہ ہمارے پرانے ساتھی اور ہمارے عظیم دوست میاں الطاف شوکت بھی ہم سے جدا
ہوگئے ۔ انا اﷲو انا علیہ راجیعون، اﷲ تعالیٰ ان کو قدم قدم پر جنت نصیب
کرے ۔میں اکثر محمد تاج اور ان کے ساتھیوں سے ان کے بارے میں دریافت کرتا
رہتا تھا مگر کسی نے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہ دی میری خط و کتا بت تو
کئی سال پہلے بند ہوگئی تھی ورنہ مہینہ میں ایک مرتبہ ضرور ان کا خط آتا
تھا۔مضمون میں نے سر سری طور پر پڑھا ہے۔ میری طبیعت بہت خراب ہے بیٹھ کر
کچھ کام نہیں کر سکتا۔ نقوی صاحب پر ضرور میں اپنے تاثرات بیان کروں گا
لیکن میں لیٹے لیٹے ٹیلی فون پر آپ کو لکھواؤنگا۔ یہ خط بڑی مشکل سے لکھ
رہا ہوں۔ آپ مجھے اپنے گھر کا نمبر لکھ کر بھیج دیں اور بتا دیں کہ آپ سے
بات کر نے کا کون سا اچھا وقت ہوگا ۔ میں ضرور آپ کو فون کرونگا۔ اب آپ
میرے مطلوبہ مضامین کے لیے پریشانی نہ اٹھائیں‘‘۔ میر ے پاس ان کی نظمیں تو
ہیں اور یہ بھی علم ہے
کہ وہ ان کے انتقال کے بعد چھپی نہیں ہیں وہی حوالہ دیدونگا، آپ کی تلاش کے
لیے شکر گزار ہوں، اچھا اب اجازت د یجئے ‘‘۔
انیس خورشید
ڈاکٹر صاحب سے فون پر بھی اکثر کسی نہ کسی حوالہ سے بات ہوا کرتی تھی۔ اسی
طرح ۱۹۹۶ء میں میرا ایک مضمون پروفیسر اختر حنیف مر حوم پر شائع ہوا تھا اس
مضمون میں بھی میں نے ڈاکٹر انیس خورشید صاحب کی اختر حنیف صاحب کے بارے
میں رائے نقل کی ہے جو میں نے ڈاکٹر صاحب سے ۱۹ اپریل ۱۹۹۶ء کو ٹیلی فون پر
ہی حاصل کی تھی۔ یہ مضمون پا کستان لائبریری بلیٹن کی جلد ۲۷ شمارہ ۱۔۲ ،
مارچ جون ۱۹۹۶ء میں شامل ہے۔ اسی حوالہ سے آپ نے میرے ۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء کے خط
کے جواب میں ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء کوتفصیلی خط تحریر
فرمایا آپ لکھتے ہیں :
ڈیر صمدانی ۔ السلام علیکم !
تمہارا ۱۹ ستمبر کے خط کا بہت شکریہ غالباً صمد انصاری صاحب نے mix-upکر
لیا ہوگامیں تمہاری شکایت کیسے کرتا میں نے تو جو تم سے درخواست کی تم نے
فوراً بہم پہنچائی۔ صمد انصاری صاحب سے گفتگو تو ڈاکٹر محمود حسین کے حوالے
سے ہورہی تھی انہوں نے نگار کے نمبر کے بارے میں پوچھا تھا۔ جب ڈاکٹر صاحب
کا ذکر ہو تو PLAکی بات ضرورآتی ہے سو میں نے بھی ان سے پوچھا کہ بھئی
سائیں ملک اور عطا اﷲ کی طرف سے کوئی خبر ملتی ہے میں نے تب یہ بھی کہا کہ
میں نے تو دونوں کو کئی خط لکھے لیکن جواب نہ ملنے سے خاموش ہورہا۔پھر مجھے
یاد آیا کہ انسائیکلو پیڈیا لندن کے لیے مجھے اپنا ۳ سال پہلے کا مضمون
updateکرنا ہے تو میں نے PLA کے کمپیوٹر سنٹر کراچی اور حیدر آباد کے بارے
میں پوچھاتو انہوں نے پیسہ نہ ہونے کیوجہ ، مشینوں کی درستگی کا کام رکنے
کی خبر دی۔ تب میں نے تمہارا ذکر کیا کہ آج کل صمدانی صاحب سے رابطہ نہیں
ہورہا ہے ان کا خط آیا تھا تو میں نے جواب فورناً دیا تھا مگر شاید وہ
مصروف ہیں۔ان کی طرف سے جواب نہیں ملا(خط میں تو میں نے تمہارے مضمون ’کے
ایم سی کی لائبریریز‘ کی تعریف کی تھی اور اسے اپنے مضمون میں حوالہ دینے
کی بات بھی کی تھی اور جو بات میں نے پوچھی تھی وہ تمہارے گھر کے نمبر کے
بارے میں تھا کہ میرے پاس پرانا نمبر تھا، اس کے بعد میں نے دو مرتبہ
تمہارے گھر بشیر سے نمبر لے کر بات کی تھی پہلے دن توengageملتا رہا کل رات
بھی یہی کیفیت رہی کل بھی میں نے ۲ گھنٹے وقفہ وقفہ سے کوشش کی تھی غالباً
خراب ہوگیا ہوگا۔ البتہ درمیان میں ایک دن میں نے ۸ بجے کے لگ بھگ ٹیلی فون
کیا تھا تو اتفاق سے ٹیلی فون مل گیا اور تمہارے بیٹے سے بات بھی ہوئی تھی
اس وقت تم گھر نہیں آئے تھے اس نے پوچھا کہ کوئی messageہے تو میں نے لکھا
دیا تھا۔ غالباً وہ message بھی تم کو نہیں ملا ورنہ تم ضرور بات کرتے) میں
نے تو یہ نہیں کہا تھا کہ میں نے کمپیوٹر کے بارے میں تم سے کچھ پوچھا تھا
وہ تو صمد سے بات کرتے ہوئے یاد آگیا تھا تو میں نے معلومات معلوم کر لی
تھی اور تم سے صرف رابطہ اس وقت نہ ہونے کی بات کی تھی۔ میں نے یہ بھی لکھا
تھا کہ محترم نقوی صاحب کے بارے میں میں ضرور تم سے بات کرونگا اس وقت میں
بیمار تھا اور بیٹھ کر خط بھی نہیں لکھ سکتا تھا لیکن میں نے تم کو خط لکھا
تھا اور یہ بھی پوچھا تھا کہ تمہا رے پاس میرا مضمون اُ ن کے بارے میں
موجود ہے تو وہ کون سا مضمون ہے؟ بہر حال ایسی کوئی بات نہیں میں نے بس یو
ہی ذکر کر دیا تھا تا کہ تم مجھ سے contactکرسکو۔ غالباً تم کو میرا خط بھی
نہیں ملا ہے ورنہ تم جواب ضرور دیتے۔بہر حال آپ کی شکایت نہیں کی تھی اور
نہ معلومات نہ دینے کے بارے میں بات کی تھی وہ تو ہیڈ کواٹر س سے خبر نہ
آنے کی وجہ سے غالباً صمد صاحب نے سمجھا ہوگا کہ میں نے کمپیوٹر والی بات
ہی کے حوالے سے پوچھا ہوگا۔ امید ہے کہ غلط فہمی دور ہوگئی ہوگی۔ مخلص،
انیس خورشید‘‘۔کتوبر ۲۰۰۱ء میں میں نے اپنی بیٹی کی شادی کی اطلاع دی جس کے
جواب میں ڈاکٹر صا حب کا خط تحریر شدہ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء مو صول ہوا جس میں
آپ نے تحریر فرمایا :
ڈیر صمدانی ‘ اسلام علیکم!
تمہارا خط ملا اور ٹیلی فون پر بات ہوئی بے حد خوشی ہوئی ۔ PLAکمپیوٹر
سینٹر کی معلومات فراہم کرنے کا شکریہ۔ بیٹی کی شادی کی اچھی خبر بھی سنائی
بے حد خوشی ہوئی، پیشگی مبارک باد قبول ۔ دونوں بچے (میرے بیٹے عدیل اور
نبیل)بھی ماشاء اﷲ بہتر پیشہ ورانہ تعلیم کی جانب رجوع ہیں انشا ء اﷲ
تمہاری طرح لگن سے کام کرکے ان پیشوں میں نام پیدا کریں گے۔اﷲ تعالیٰ ان کو
کامیابی اور کامرانی سے سرفراز فرمائے آمین۔ دعا گو، انیس خورشید ‘‘۔اسی
سلسلے میں دوسرا خط ڈاکٹر صاحب کا ۲۶ دسمبر ۲۰۰۱ء کو موصو ل ہوا ، آپ میری
بیٹی کی شادی میں تو کمزوریِ صحت کے باعث شریک نہ ہوسکے لیکن شادی کے دوسرے
روز ہی آپ نے مبارکباد اور معذرت کا خط تحریر کیا آپ نے لکھا:
ڈیر صمدانی ‘ السلام علیکم !
تمہاری بیٹی کا کارڈ ملا ۔ بدرالدین کو میں نے اسی روز پہنچا دیا تھا میں
خود آنہیں سکتا بالکل چلنا پھر نا دشوار ہو گیا ہے، سر دی کی وجہ سے دشواری
رہتی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ ۲۵ دسمبر کو آپ کو مبارکباد کا پیغام مل جائے
لیکن افسوس ہے کہ میں یہ بھی نہ کرسکا آج موقع ملا ہے تو خط بھیج رہا
ہوں۔مجھے بے حد خوشی ہے کہ آپ الحمداﷲ اپنی بیٹی کی اس بڑی ذمہ داری سے
عہدہ بر آہو گئے۔خدا کرے یہ رشتہ کامیاب اور خوشیوں سے بھر پور ثابت ہو۔
آمین۔ دعاؤں کے ساتھ، مخلص۔ انیس خورشید‘‘ ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی اس تحریر
میں جو شفقت ، محبت اور اپنائیت تھی اس نے مجھے حوصلہ دیا۔
پاکستان لائبریرین شپ کے حوالے سے جناب محمد عادل عثمانی کا نام تعارف کا
محتاج نہیں۔ پاکستان میں لائبریرین شپ کے بانی جناب ڈاکٹر عبد المعید کے
دوجانشینوں میں ڈاکٹر انیس خورشید اور محمد عادل عثمانی شامل ہیں۔ ڈاکٹر
عبد المعید جو جامعہ کراچی کے لائبریرین بھی تھے اور شعبہ لائبریری سائنس
کے سربراہ بھی۔آپ نے ان دونوں اہم عہدوں کے لیے اپنے بعد جن شخصیات کا
انتخاب کیا ان میں ڈاکٹر انیس خور شید صاحب شعبہ کے سربراہ ہوئے جب کہ عادل
عثمانی صاحب جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری (ڈاکٹر محمود حسین لائبریری) کے
سربراہ ہوئے۔عادل عثمانی صاحب کی لائبریری خدمات اور لائبریری مواد کی
فراہمی میں آپ کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا، آپ کی تصانیف و
تالیفات پاکستان لائبریرین شپ کا اہم سرمایہ ہیں۔راقم الحروف نے محمد عادل
عثمانی کی تصانیف و تالیفات اور ان کی پیشہ ورانہ خدمات پر مبنی سوانحی کتا
بیات Muhammad Adil Usmani: A Bib-bibliographical Study) مر تب کی جو
۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط
مورخہ ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں تحریر فر مایا:
ڈیر صمدانی ! السلام علیکم !
تمہارا گیارہ اکتوبر کا خط ملا، محمد عادل عثمانی (سرکار) کی سوانحی
کتابیات کی خوبصورت جلد ملی اور مجلہ ’’روایت‘‘ بھی، خوشی ہو ئی ، پڑھ تو
نہ سکا ہوں لیکن خوشی ہو ئی تم سے دھن کے پکے لائبریرین نے مر تب کیا ہے۔
میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ضعف عمری کا شکار ہوں، یادداشت کمزور ہو گئی ہے،
گھر میں بند رہتاہوں، ذہنی دباؤ تکلیف کا باعث رہتا ہے۔ اس لئے خط و کتابت
بند کر دی ہے، ڈرائنگ روم تک بھی جانا اور دیر تک بیٹھنا مشکل ہو گیا ۔ میں
نے اب لکھنے پڑھنے کا کام تقریباً ختم کر دیا البتہ یہ ضرور ہے کہ حکیم
صاحب کے بارے میں جو کچھ واقفیت تھی وہ میں نے شائع کر وادیا ہے جو ہمدرد
صحت جون ۲۰۰۳ء میں بعنوان ’’ ہے حرف حرف اس کا زمانے میں معتبر‘‘ یہ مضمون
غالباًتم نے حاصل کر لیا ہوگا۔ ایک مضمون تقی عثمانی صاحب کا بھی جنگ میں
غالباً اسی سال چھپا تھا ، ایسا جامع مضمون حکیم صاحب پر میں نے پہلے نہیں
پڑھا تھا۔ یہ خط بھی ایک ہفتہ کی کوشش سے لکھ پایا ہوں۔ میں نے انگریزی میں
بھی لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے مجھ سے اب کچھ حاصل نہیں ہو گا، معافی چاھتا
ہوں‘‘۔ دعا گو۔ انیس خورشید ‘ ۔
میں شہید حکیم محمد سعید پر اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کے
خیالات سے استفادہ چاہتا تھا ۔ اس مقصد کے لیے میں نے آپ سے متعدد بار
تحریری درخواست کی ۔میرے استفسار پر ڈاکٹر صاحب نے اپنی مندرجہ بالا تحریر
کے ذریعہ رہنمائی فرمائی جس سے میرا کام آسان ہو گیا۔ ڈاکٹر انیس خورشید
صاحب پاکستان لائبریرین شپ کا قیمتی سرمایہ ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ انہیں صحت دے
۔آمین۔
(مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا ‘‘ ۲۰۰۹ء میں شامل) |