غلام شبیر
پروفیسر وارث علوی نے 9۔جنوری 2014کی شام عدم کے کُوچ کے لیے رخت سفر باندھ
لیا۔اُردو ادب کا وہ آفتاب جو 1928میں احمد آباد (بھارت )سے طلوع ہوا وہ
عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔اُردو تنقید ،تحقیق ،تخلیق ِادب اور
تدریس ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی فرشتہء اجل کے ہاتھوں زمیں بوس
ہو گئی ۔احمد آباد کے شہر خموشاں کی زمین نے اُردو ادب کے اِس خورشید جہاں
تاب کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔اِس شہر خموشاں کی زمین نے
اُردو زبان و ادب کے اُس آسمان کو نِگل لیا جو گزشتہ سات عشروں سے علم و
ادب سے وابستہ افراد کے سر پر سایہ فِگن تھا۔اُردوا دب کی کوئی بھی صنف ہو
،عالمی ادبیات کی کوئی بھی جہت ہو ،تنقید و تحقیق کا کوئی بھی زاویہ ہو اور
معیار ادب کا کوئی بھی اسلوب ہو ہر جگہ اس لا فانی ادیب کے افکار کا پرتو
دکھائی دیتا ہے ۔تفہیم ادب کا کوئی بھی عکس ہو اُسی کے خدو خال دل و نگاہ
کو مسخر کرلیتے ہیں ۔حریت فکر کے اِس مجاہد کے افکار کی ضیا پاشیوں سے
اکنافِ عالم کا گوشہ گوشہ بُقعہ ء نور بن گیا۔وارث علوی ایک دبستان علم و
ادب کا نام ہے ،وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی تھے ۔ان کی وفات سے
اردو ادب اور اردو تنقید کا ایک زریں عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔دنیا لاکھ
ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے ایسی نابغہء روزگار ہستیاں اور یگانہء
روزگار فاضل کبھی پیدا نہیں ہو سکتے ۔ وہ اردو اور گجراتی زبان کے ادب کا
ایک دائرۃ المعارف تھے۔ جب تک دنیا باقی ہے قارئینِ ادب اس دبستانِ علم و
ادب سے استفادہ کرتے رہیں گے اور ان کے خیالات سے اذہان کی تطہیر و تنویرکا
اہتمام ہوتا رہے گا ۔وار ث علوی نے اُردو تنقید کو معیار اور وقار کی رفعت
سے آ شنا کیا اور اُردو ادب کو عالمی ادبیات میں معزز و مفتخر کر دیا ۔اس
عظیم ادیب کی علمی ،ادبی ،تحقیقی ،تنقیدی اور تخلیقی خدمات اور بصیرت افروز
خیالات کی اہمیت و افادیت کا ایک عالم معترف ہے ۔تاریخ ہر دور میں اس با
کما ل ادیب کی فقید المثال خدمات کا اعترف کر ے گی اور ہر دور کامورخ ان کے
نام کی تعظیم کرے گا۔ آنے والی نسلیں اس با کمال تخلیق کار کے ابد آشنا
اسلوب کی تقلید کر کے اپنی تخلیقی سمت درست کریں گی ۔ اردو زبان اور گجراتی
زبان کے ادب کی ثروت میں وارث علوی نے اپنی تخلیقی فعالیت سے جو اضافہ کیا
تاریخِ ادب میں وہ آبِ زر سے لکھا جائے گا۔ مجروح سلطان پوری نے سچ کہا
تھا:
بے تیشہء نظر نہ چلو راہِ رفتگاں
ہر نقش ِ پا بلند ہے دیوار کی طرح
وارث علوی کا پورا نام وارث حسین علوی تھا ۔وہ اپنے قلمی نام وارث علوی کے
نام سے مشہور ہوئے ۔وارث علوی کا تعلق احمد آباد کے ایک ممتاز دینی ،علمی
اور ادبی خاندان سے تھا۔ان کے خاندان کو پورے علاقے میں عزت و احترام کا
لائق صد رشک مقام حاصل تھا ۔گجرات کے ممتاز عالم دین اور صوفی بزرگ حضرت
شاہ وجیہہ الدین علوی ان کے خاندان کی نامور ہستی تھے ۔وارث علوی کے والد
سید حسینی پیر علوی اور والدہ محترمہ حفیظ النسا نے اپنے اس ہو نہار بچے کی
تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی۔انجمن اسلامیہ ہائی سکول احمد آباد سے
میٹرک کا امتحان امتیازی نمبر حاصل کر کے پاس کرنے کے بعد وارث علوی نے
اعلا تعلیم کے لیے ممبئی جانے کا فیصلہ کیا اور ممبئی یو نیورسٹی سے بی۔اے
کی ڈگری لی ۔ممبئی یو نیورسٹی کے بی ۔اے کے امتحان میں وہ اول آئے اور
انھیں طلائی تمغہ مِلا۔اس کے بعد انھوں نے گجرات یو نیورسٹی سے اردو زبان و
ادب میں ایم۔اے کیا ۔ سر سید احمد خان اور ان کے عظیم رفقائے کار کی علمی
،ادبی اور قومی خدمات کے وہ معتر ف تھے اور علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے
انھیں قلبی لگاؤ تھا ۔اس عظیم اور تاریخی جامعہ سے انھوں نے انگریزی زبان
میں ایم۔اے کیا ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وارث علوی شعبہ تدریس سے وابستہ ہو
گئے اور 1955میں سینٹ زیویرس کالج ( (St.Xavier's College احمد آباد میں
انھیں تدریس انگریزی پر مامور کیا گیا۔انھوں نے اس ادارے میں طویل عرصہ تک
تدریسی خدمات انجام دیں۔ وہ اس کالج کی ڈرامیٹک کلب کی روحِ رواں تھے جس کے
زیر اہتمام ان کے متعدد ڈرامے سٹیج کیے گئے ۔ان ڈراموں کو زبردست پذیرائی
ملی ۔ یہ ڈرامے گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں سٹیج پر پیش کیے گئے ۔ اس کے
علاوہ ان کے گجراتی زبان میں لکھے گئے ڈراموں کو گجرات ،احمد آباد اور
ممبئی میں بھی سٹیج کیا گیا۔وارث علوی نے اس کالج میں نصابی اور ہم نصابی
سر گرمیوں کو فروغ دیا اور شاہین بچوں کو بلند پروازی نصیب ہوئی ۔خاک کو
اکسیر بنانے اور غبار راہ سے نگاہوں کو خیرہ کرنے والے جلوے پیش کرنے والے
اس دانش ور نے اپنی مو ثر تدریس سے نئی نسل کو عصر ی آگہی سے متمتع کر کے
ان کی سیرت اور کردار کی تعمیر میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔وہ ہر دل
عزیزاستاد تھے اور ان کے شاگر د ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کرنے کے لیے
ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ اسی تعلیمی ادارے سے1988 میں وہ ریٹائر ہوئے ۔اپنی
ریٹائر منٹ کے وقت وہ شعبہ انگریزی کی صدارت کے منصب جلیلہ پر فائز تھے ۔
ملازمت سے ریٹائر منٹ کے بعد ان کا زیادہ وقت تصنیف و تالیف میں گزرتا تھا
۔ ان کی تنقید کو قارئین ادب نے بہت پسند کیا ۔ وارث علوی ایک کثیر
التصانیف ادیب تھے ۔ان کی معرکہ آرا تصانیف درج ذیل ہیں :
(1) تیسرے درجے کا مسافر 1981 (2)اے پیارے لوگو (1981) (3)حالی مقدمہ اور
ہم (1983) (4)خندہ ہائے بے جا (1987)
(5)راجندر سنگھ بیدی۔ مونو گراف ۔(1989) (6)کچھ بچا لایا ہوں (1990)
(7)پیشہ تو سپہ گری ہے (1990) (8)جدید افسانہ اور اس کے مسائل (1990)
(9)فکشن کی تنقید کا المیہ (1992) (10)سعادت حسن منٹو ۔مونو گراف ۔(1995)
(11)سعادت حسن منٹو :ایک مطالعہ (1997) (12)اوراقِ پارینہ (1998)
(13)بورژواژی بورژ واژی (1999) (14)منتخب مضامین (2000) (15)ادب کا غیر اہم
آدمی (2001) (16)لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر (2001)
(17)ناخن کا قرض (2003) (18)سر زنشِ خار (2005) (19)کلیات راجندر سنگھ بیدی
جلد اول ،جلد دوم (2005)
(20)راجندر سنگھ بیدی :ایک مطالعہ (2006) (21) گنجینہ خیال (2007) (22)بت
خانہ حسن (2010)
وارث علوی کی کئی اہم تصانیف پاکستان سے بھی شائع ہوئیں ۔ان کی یہ تصانیف
پاکستان کی کئی بڑی جامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی
،ڈاکٹر بشیر سیفی ،ڈاکٹر صابر کلوروی ،ڈاکٹر صابر آفاقی ،پروفیسر غفار بابر
پروفیسر شبیر احمد اختر ،ارشد علی خان، خادم مگھیانوی ،سید مظفر علی ظفر
،الحاج سید غلام بھیک نیرنگ ،عاشق حسین فائق ،محمد شیر افضل جعفری ،کبیر
انور جعفری ،سید جعفر طاہر ، راجا رسالو ، سبط الحسن ضیغم ،رام ریاض ،معین
تابش ، محمد منشا یاد ،میاں اقبال زخمی ،سید اختر حسین اختر ، محمد حیات
خان سیال ،محمد آصف خان ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،ارشاد گرامی ،محسن بھوپالی
،پروفیسر عتیق احمد ،مہر بشارت خان ،سمیع اﷲ قریشی ،دیوان الیاس نصیب ،نور
احمد ثاقب اور سجاد بخاری ان کے تنقیدی اسلوب کے بہت بڑے مداح تھے ۔ان
مشاہیر کے ساتھ معتبر ربط کا یہ سلسلہ زندگی بھر بر قرار رہا ۔پاکستانی
ادیبوں کو وہ اپنی تصانیف بھی ارسال کرتے اوران کی بے لاگ رائے کو قدر کی
نگاہ سے دیکھتے تھے۔وارث علوی کے اسلوب میں موضوعات کا جو تنوع ہے وہ ان کی
انفردیت کی دلیل ہے۔انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا تنقید اور تحقیق
کا حق ادا کر دیا ۔میر تقی میر ،مرزا اسداﷲ خان غالب ،علامہ اقبال ،جوش
ملیح آبادی ،فراق گورکھپوری ،فیض احمد فیض ،سعادت حسن منٹو ،اور راجندر
سنگھ بیدی پر ان کے فکر پرور ،خیال افروز اور بصیرت سے لبریز تجزیات قاری
کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہیں ۔ وارث علوی کی ایک اہم کتاب
’’راجندر سنگھ بیدی :ایک مطالعہ ‘‘بلا شبہ اعلا تنقیدی معیار سامنے لاتی ہے
چار سو ساٹھ پر مشتمل یہ کتاب جسے ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا
ہے اپنے موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہے یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے میں
دو مضمون کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔پہلا مضمون ’’بیدی کی فن کارانہ شخصیت
‘‘اوردوسرا مضمون ’’بیدی کے افسانوں کی زبان ‘‘ہے ۔اس کتاب کا دوسراحصہ
عملی تنقید پر مشتمل ہے ۔ اردو میں فن افسانہ نگاری کی تفہیم کے موضوع پر
اس کتاب کو سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔اس کتاب میں مصنف نے منتخب افسانوں
کو مختلف عنوانات کے تحت شامل کیا ہے ۔اس کے مطالعہ سے قارئین ادب کو
راجندر سنگھ بیدی کے اسلوب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ اس حصے میں راجندر
سنگھ بیدی کے باسٹھ افسانوں پر وارث علوی کے مختصر تنقیدی مضامین شا مل
ہیں۔وارث علوی نے اس کتاب میں راجندر سنگھ بیدی کے اٹھاون افسانوں کا
عالمانہ تجزیہ پیش کیا ہے ۔ ایک صاحب طر ز ادیب اور منفرد اسلوب کے حامل
نقاد کی حیثیت سے وارث علوی ے ادبی اقدار کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ادبی
تخلیقات کے معیار کے سلسلے میں وہ کسی نرمی ،مصلحت کے قائل نہ تھے ۔ اردو
میں افسانے کی تنقید کے سلسلے میں یہ تجزیاتی مطالعہ پڑھ کر قارئین ادب کو
پروفیسر سید وقار عظیم کا اسلوب یاد آ جاتا ہے جنھیں اردو میں افسانے کی
تنقید کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے ۔
راجندر سنگھ بیدی (مونو گراف )بھی وارث علوی کی بہت اہم تصنیف ہے ۔ساہتیہ
اکادمی کی مالی اعانت سے شائع ہونے والی یہ کتاب ہندوستانی ادب کے معمار کے
سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔عملی تنقید میں انھوں نے مشرقی اور مغربی تنقیدی
دبستانوں کے اسا لیب پر نظر رکھی ہے ۔ان کے تنقیدی مقالات کے مجموعے
’’تیسرے درجے کا مسافر ‘‘اور ’’اے پیارے لوگو ‘‘قارئین ادب میں بہت مقبول
ہوئے ۔ان مقالات میں وارث علوی نے علمی ،ادبی سماجی اور معاشرتی مسائل کے
بارے میں اپنا موقف بلا کم و کاست پیش کیاہے ۔ان کی تصنیف خندہ ہائے بے جا
کچھ ادیبوں کے اسلوب اور کچھ اہم تصانیف کے بارے میں ہے ۔ وارث علوی نے قلم
اور قرطاس کے ساتھ جو عہد ِ وفا استوار کیا اسے علاج گردش ِ لیل و نہار
سمجھتے ہوئے زندگی بھر اس پر عمل پیرا رہے ۔وہ آخری وقت تک پرورشِ لوح و
قلم میں مصروف رہے ۔ ادبی تنقید ان کا خاص شعبہ تھا ۔تنقید سے ان کی دلچسپی
ان کی حق گوئی اور بے باکی کا عملی نمونہ تھی ۔تنقید جیسے مشکل اور خشک
مضمون کوانھوں نے اپنی گل افشانیء گفتار سے ہر دل عزیز بنا دیا ۔ان کی حاضر
دماغی ،شگفتہ مزاجی اور بذلہ سنجی نے ان کی شخصیت کو مضبوطی اوراستحکام سے
متمتع کر دیا ۔بات سے پیدا کرنا ان کے اسلوب کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے
۔ان کی شگفتہ مزاجی اور راست گوئی کے امتزاج سے ان کی تحریر میں ایک ایسی
جاذبیت اوردل کشی ظاہر ہوتی تھی جو قاری کو مسحور کر دیتی تھی۔ہر ملاقاتی
کے ساتھ اخلاق اوراخلاص سے لبریز سلوک کرنا ان کا شیوہ تھا ۔وہ بولتے تو ان
کی باتوں سے پھول جھڑتے اور جب تنقید لکھتے تو یہی پھول اپنے ساتھ کئی خار
بھی لیے ہوتے تھے ۔یہ خار تخلیقی عمل میں در آنے والے مفسدمواد کی جراحت کے
لیے اکسیر تھے ۔اسی کے اعجاز سے ان کی تنقید کو ایک نیا آہنگ اور اچھوتا
رجحان نصیب ہوا ۔دہلی اور لکھنو جیسے بڑے ادبی مراکز سے دور ہونے کے باوجود
وارث علوی نے اپنے تخلیقی کام کی پوری دنیا میں دھاک بٹھا دی ۔وہ عالمی
ادبیات کے نبض آ شنا تھے ۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کر رکھا
تھا ۔انھوں نے اردو ،ہندی ،عربی ،فارسی ،گجراتی اور انگریزی زبان پر اپنی
خلاقانہ دسترس کا لوہا منوایا۔ اگرچہ انھوں نے مغربی ادبیات کا عمیق مطالعہ
کیا تھالیکن ان کے تخلیقی عمل اور تنقیدی بصیرت کے سوتے مشرقی اقدار و
روایات اور تہذیب و ثقافت سے پھوٹتے ہیں۔ایک زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق
کار کی حیثیت سے وارث علوی نے بھر پور زندگی بسر کی ۔ابتدا میں وہ ترقی
پسند تحریک سے بہت متاثر تھے ۔1946سے 1950تک انھوں نے احمد آباد میں انجمن
ترقی پسند مصنفین کے سیکر ٹری کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔احمد
آباد میں ترقی پسند تحریک کے منشور کو متعار ف کرانے میں انھوں نے اہم
کردار ادا کیا۔ سید سجاد ظہیر نے وارث علوی کی خدمات کا بر ملا اعتراف کیا
اور ان کا ذکر اپنی کتاب روشنائی میں بھی کیا ہے ۔وارث علوی نے جلد ہی ترقی
پسند تحریک سے اپنا تعلق توڑ لیا ۔وہ چاہتے تھے کہ ہر قسم کے نظریاتی حصار
سے دور رہتے ہوئے تخلیق فن پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں ۔ ادب میں نظریے کے
مباحث کے حوالے سے وارث علوی کے خیالات پڑ ھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ
سمجھتے تھے کہ تخلیق ادب کے دوران ایک تخلیق کار کا کسی خاص نظریے کے حصار
میں رہنا تخلیقی عمل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔یہ انداز فکر حریت
فکر و عمل کی راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہو جاتا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ متنوع تصورات اور نئے نظریات سامنے آتے رہتے ہیں ۔سیل زماں کے تھپیڑے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔فکر و خیال کی دنیا میں
تغیر و تبدل کا یہ سلسلہ پیہم جاری رہتا ہے ۔خوب سے خوب تر کی جانب سفر
جاری رہتا ہے ۔یہی انسانی فطرت ہے اوراسی کو اقتضائے وقت خیال کیا جاتا ہے
۔یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔وارث علوی کا خیال تھا
کہ جس طرح ریل کی پٹڑی پر رواں دواں ریل گاڑیا ں بالآخر اس مقام پر پہنچ کر
رک جاتی ہیں جہاں ریل کی پٹڑی ختم ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح تمام نظریات
بھی ایک اپنے ایک مقام پر پہنچ کر ٹھہر جاتے ہیں یہ ٹھہراؤ یا جمود زندگی
کی حرکت و حرارت سے ہم آ ہنگ نہیں اسی لیے تخلیق کار کو جہد و عمل کو شعار
بنانا چاہیے ۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ حاصل ِ سیرِ جہاں حیرت
و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں جس طرح رخش عمر مسلسل رو میں ہے اسی طرح فکر
و خیال اور نظریات بھی ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت کے امین ہیں
اور مر حلہ شوق ہے کہ کبھی طے ہو ہی نہیں سکتا۔
تخلیق ادب میں وارث علوی نے سخت ریاضت اورسعی پیہم کو شعار بنانے پر توجہ
مرکوز رکھی ۔ ان کا خیال تھا کہ مشکوک ،مہمل اور غیر معیاری ادبی تخلیقات
کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے ۔اس سلسلے میں وہ کسی سمجھوتے کے
بالکل قائل نہ تھے ۔وہ ہر قسم کی عصبیت کے سخت خلاف تھے اور ان کی یہ دلی
تمنا تھی کہ ادیب کو حریت ضمیر سے جینے کے لیے کسی قسم کی نظریاتی جکڑ بندی
کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔وہ تخلیق کاروں کو آزایء اظہارکے مواقع فراہم
کرنے کے پر جوش حامی تھے ۔ ان کا شمار گجرات میں ساہتیہ اکادمی کے بنیاد
گزاروں میں ہوتا ہے۔گجرات میں ساہتیہ اکادمی کے قیام کے بعد وہ اس اکادمی
کے پہلے صدر مقرر ہوئے ۔اپنی انتظامی قابلیت ،فہم و فراست اور تدبر کے
اعجاز سے انھوں نے اس علاقے میں ساہتیہ اکادمی کو ادبی حلقوں کی ترجمان بنا
دیا ۔ ساہتیہ اکادمی کا ادبی مجلہ ’’سابر نامہ ‘‘ان کی ادارت میں ایک رجحان
ساز ادبی مجلہ بن کر ابھرا ۔ ان کے متعدد مسودات اور تحریریں ابھی تشنہء
تکمیل ہیں ۔ان کی درج ذیل کتابیں زیر طبع ہیں :
(1)اقبا ل کے بعد اردو کی نظمیہ شاعری (2)غزل کا محبوب اور دوسرے مضامین
ایک رجحان ساز ادیب اور نقاد کی حیثیت سے وارث علوی نے علم و ادب کے فروغ
کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کی وجہ سے پوری دنیا میں ان
کے لاکھوں مداح مو جود ہیں۔اردو تنقید کو نیا رجحان ،بلند آہنگ ،منفرد
انداز اور دبنگ لہجہ عطا کر کے انھوں نے قارئین ادب کو افکار تازہ کی مشعل
تھام کر جہان تازہ تک رسائی کی راہ دکھائی ۔ ۔ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ
سے دیکھتے ہوئے انھیں جن اعزازات سے نوازا گیا ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
(1)گورو پر سکار ایوارڈ( (Gaurav Puraskar Award : (1992) ، اردو ساہتیہ
اکادمی حکومت گجرات(2012) (2)نیشنل ایوارڈ (1993) : مہاراشٹر اردو اکادمی
(3)غالب ایوارڈ (2004) : غالب اکادمی دہلی (4)عالمی فروغ ِاردو
ایوارڈ(2008) : دوہا قطر (5) بنگال ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (6)بہادر شاہ ظفر
ایوارڈ : دہلی
ایک وسیع المطالعہ ادیب ،جری نقاد اور مستند محقق کی حیثیت سے وارث علوی نے
ادبی مسائل کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے دینے میں کبھی تامل نہ کیا
۔جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے موضوعات پر ان کے خیالات ان کی اختلافی سوچ کے
متعددنئے زاویے سامنے لاتے ہیں ۔انھوں نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ
ترقی پسند تحریک کا اب کہیں وجود نہیں ۔ 1936 میں اٹھنے والی یہ تحریک اب
اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے تا ہم اس تحریک نے قارئین ادب کے فکر و
نظر پر دور ر س اثرات مرتب کیے ،ان اثرات کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے
۔مابعد جدیدیت کے بارے میں ان کے تحفظات کی کئی وجوہات ہیں ۔ بعض لوگوں کی
رائے ہے کہ تاریخی حقائق سے یہ واضح ہو تا ہے کہ ژاک دریدا (Jacques
Derrida)جس کا عرصہٗ حیات 15-07-1930 تا 09-10-2004ہے،امریکی ایجنسیوں کے
لیے کام کر رہا تھا جو یہ چاہتی تھیں کہ معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز پر
اہل قلم کی تخلیقی فعالیت کے اثرات کو محدود کیا جا سکے۔ادیبوں کو قومی
مسائل سے بیگانہ رکھ کر انھیں خیال وخواب کی دنیا کا اسیر بنا دیا جائے
تاکہ وہ عوام میں زندگی کے تلخ حقائق کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان
چڑھانے کی کوششوں میں کام یاب نہ ہو سکیں ۔اس لیے دریدا نے تخلیق ادب کو
زبان اور ہیئت کے مدار میں رکھنے پر اصرار کیاتا کہ تخلیق کار ان بھول
بھلیوں میں الجھ کر سرابوں میں کھو جائیں ۔
مکتبی تنقید اور مدرس کی فکری نہج کے بارے میں وارث علوی نے ہمیشہ اپنے
تحفظات کا اظہار کیا ۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جاہل کو اس کی جہالت کا
انعام مل جاتا ہے ۔چربہ ساز ،سارق ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات سخن کی چیرہ
دستیوں نے تمام ادبی منظر نامہ گہنا دیاہے ۔تحقیق اور تنقید کی حالت ِزار
کسی سے مخفی نہیں تنقیدی نشستوں نے انجمن ستائش ِ باہمی کی ناقابل برداشت
صورت اختیار کرلی ہے ۔عقابوں کے نشین زاغوں کے تصرف میں ۔اس سے بڑھ کر
المیہ کیا ہو گا کہ جید جاہل ،خفاش منش کندہء نا تراش اور بُزِ اخفش رواقیت
کے داعی بن بیٹھے ہیں ۔ جب سے سندی تحقیق کے ساتھ مدرسین کومالی منفعت اور
اضافی ترقیوں کی جھلک دکھائی گئی ہے ،تحقیق اور تنقید کو بازیچہء ا طفال
بنا دیا گیا ہے ۔اب ہر مدرس جلد از جلد ایم ۔فل اور پی ایچ ۔ڈی کر کے زرو
مال سمیٹنے اور خود کو اعلا تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے لیے ہتھیلی پر سرسوں
جمانے کی فکر میں مبتلا ہے تعلیمی اداروں میں مدرسین کی صورت میں جو نام
نہاد نقاد براجمان ہیں ،ان کی بو العجبیوں اور خام خیالی نے ہمیں اقوام ِ
عالم کی صف میں تماشا بنا دیاہے ۔تحقیق اور تنقید کے نام پر جو گل کھلائے
جا رہے ہیں انھیں دیکھ کر ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کے بارے میں کیا کہا
جائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس سانحے کے متعلق اپنے جذبات حزیں کا
اظہار کن الفاظ میں لکھا جائے ۔اپنے ایک مضمون ’’روح کی اڑان ‘‘ میں وارث
علوی نے اس لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور روح فرسا المیہ کے تضادات ،ناہمواریوں
اور بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور اجاگر کرتے ہوئے نہایت دردمندی
اور خلوص سے لکھا ہے :
’’مدرسہ کی فضا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لسان العصر ،بلبل شیراز اور طوطیء ہند
سب سُرمہ پھانک لیتے ہیں۔صرف مدرس ہے جو ٹراتا رہتا ہے اور کلاس روم کے در
دیوار ان معلومات سے گونجتے رہتے ہیں جن کا توانا تخلیقی تجربات سے دور کا
بھی سرو کار نہیں ہوتا۔ہر ذی روح کی طرح مدرس بھی عمرِ دراز کے چار دن مانگ
کر لاتا ہے۔۔۔۔دو پی ایچ۔ڈی کے موضوع کی تلاش میں اور دو موضوع پر
’’کام‘‘کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔مدرس کے لیے پی ایچ ۔ڈی کے مقالے کی وہی
اہمیت ہے جو داستانی عہد کے سورماؤں کے لیے ہفت خواں کی ہوا کرتی تھی کہ
ہفت خواں نہ ہوں تو سورماؤں کے لیے کنویں میں جھانکنے کے سوا کوئی کام ہی
نہ رہتا۔مدرس ان عجوبہء روزگار لوگوں کی اولادِ معنوی ہے جو اگلے زمانے میں
چاول پر قل ہو اﷲ لکھا کرتے تھے ،کہ اُن ادیبوں پر بھی جن کا ادبی جثہ چاول
کے دانہ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے پانچ سو صفحہ کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنا اس
کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے ‘‘(1)
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مدرس جب مکتبی تنقید کی صورت میں
پنے اشہب قلم کی جو لانیاں دکھانے کے لیے تحقیق و تنقید کی وادی میں داخل
ہوتا ہے تو ز ندگی کے تمام حقائق اس ابلہ کے ابلق کے سموں کی گرد میں اوجھل
ہو جاتے ہیں۔تاریخ ،نفسیات ،ادبیات،علم بشریات اور عمرانیات کے بارے مدرس
کا علم بے حد محدود ہوتا ہے ۔اپنی نام نہاد تحقیق میں وہ جو نتائج پیش کرتا
ہے وہ اس قدر گم را ہ کن ہوتے ہیں کہ قاری اس مجرمانہ اسلوب اور پشتارہ
اغلاط کو دیکھ کر سر پیٹ کر رہ جاتا ہے ۔رولاں بارتھ (Roland Barthes )جس
کا عرصہ ء حیات 12-11-1915تا26-03-1980ہے ،وہ بھی مکتبی تنقید کے مسموم
اثرات سے آگا ہ تھا ۔ اُس کے خیالات اور وارث علوی کے خیالات میں گہری مما
ثلت پائی جاتی ہے ۔مکتبی تنقید پر گرفت کرتے ہوئے رولاں بارتھ نے لکھا ہے :
’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ طے شدہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت
ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے ۔متعینہ معانی تو صرف لُغوی معنی ہو سکتے
ہیں اور ادب میں اکثر و بیش تر بے ہُودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں ۔مکتبی
نقادوں کے بارے میں بارتھ نے لکھا ہے کہ ان کا ذہن چھوٹا اور نظر محدود
ہوتی ہے وہ ادعائیت کا شکار ہیں اور ادب میں اکثریت کے علم بردار ہیں؛اس
لیے ادب کے لطف و نشاط میں شرکت کے لیے ان کی آمریت کو تہس نہس کرناضروری
ہے ،‘‘(2)
اﷲ کریم نے وارث علوی کو ذوق سلیم اور اعلا جمالیاتی حِس سے متمتع کیا
تھاوہ ادب پارے کے حسن کو پرکھنے میں اپنی مثال آپ تھے ۔بلند پایہ تحریں
پڑھ کر وہ ذہنی سکون اور جمالیاتی سرورحاصل کرتے تھے لیکن جب کسی متشاعر
اور جعل ساز کی کوئی ناقص تحریر ان کی نظر سے گزرتی تو شدید کرب میں مبتلا
ہو جاتے۔ ان کی تنقیدی تحریروں میں کئی مقامات پر طنز کا شائبہ ہوتا ہے ۔اس
کے پس پردہ بھی ان کا داخلی کرب کار فرما ہے ۔وہ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ
دامنوں میں چُھپانے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ تخلیقی فن کار اپنی
تمام خداد صلاحیتوں اور ذہنی قوتوں اور بصیرتوں کو رو بہ عمل لا کر ارفع
خیالات کوصفحہء قرطاس پر منتقل کریں۔حسن و جمال کی مرقع نگاری اور حقائق کی
گرہ کشائی سے انھیں گہری دلچسپی تھی ۔ وہ حق گوئی اور بے باکی کو ایک ایسی
اخلاقی قدر سے تعبیر کرتے تھے جو زندگی کے ہر شعبے میں انسان کو خود اپنی
نظروں میں با وقار بنادیتی ہے ۔وہ بے سرو پا باتوں سے سخت نفرت کرتے تھے
۔ایسے لوگ جو بے پر کی اڑانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور جو اپنے ممدوح
کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ،ان کو وہ ہمیشہ ہدفِ تنقید
بناتے رہے ۔بد قسمتی سے ہمارے مکتبی نقادوں نے اپنی کو ر مغزی کے باعث
تنقید کی ثقاہت کو شدید ضعف پہنچایا ہے ۔مدرس جس طرح ہر فن مولا بن کر ہر
موضوع پر بے تکان بے مقصد اور مہمل تحریریں لکھ کر وقت اور محنت کا ضیاع کر
رہے ہیں اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وارث علوی نے لکھا ہے :
’’مدرس ہر مضمون پر لکھ سکتا ہے ،ہر مجموعہ کلام پر تبصرہ لکھ سکتا ہے ،ہر
کتاب پر اپنی رائے دے سکتا ہے جو دوسروں کے کام آئے حالانکہ بہت سی کتابیں
ایسی ہوتی ہیں کہ آدمی تزکیہ نفس اور راہ ِ سلوک کے آخری مقام پر پہنچ کر
بھی ان کے متعلق لب کشائی کرے تو بھنچے ہوئے لبوں سے سوائے ے نقط ملفوظات
کے کچھ باہر نہ نکلے لیکن مدرس بے نقط کبھی نہیں بو لتا۔جب بھی بولتا ہے
تنقید ہی بو لتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب تک مدرس کے دم میں دم ہے وہ کسی شاعر
کو طبعی موت مرنے نہیں دیتا۔وہ جو دوسروں کے لیے مر گئے وہ بھی حنوط شدہ
ممیوں کی طرح مدرس کے مقالوں میں زندہ ہیں۔جن شاعروں پر نول کشور فاتحہ پڑھ
چکے ،ان کا عرس منانے کے لیے مدرس ماوراالنہر سے چلتا ہے تو پانی پت میں
آکر دم لیتا ہے ۔‘‘ (3)
معاشرتی زندگی میں نظام اقدار کے تحفظ کو وارث علوی نے ہمیشہ کلیدی اہمیت
کا حامل قرار دیا۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انھوں نے قلم و
قرطاس کا سہارا لیا ۔نھوں نے زندگی بھر قلم کی حرمت کو ملحوظ رکھااور بے
لوث محبت ،اخوت ،ایثار اور قناعت کو اپنا نصب العین بنایا۔انسانیت کے ساتھ
محبت ان کی جبلت میں داخل تھی ۔ ان کا جذبہ انسانیت نوازی نھیں عظیم انسان
کے منصب پر فائز کرتا ہے ۔ان کے لا شعور میں انسانیت کے ساتھ قلبی لگاؤ اور
محبت کے غیر مختتم جذبات سرایت کر گئے تھے ۔ان کی تحریریں اسی محبت کی
تنظیم کی ایک لائق صد رشک صورت ہیں۔انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت ان کے لیے
ذہنی سکون ،روحانی مسرت اور اطمینانِ قلب کا وسیلہ بن جاتی ہے ۔اپنی
تحریروں میں وارث علوی نے ہمیشہ اس موضوع کاانتخاب کیا جو انسانی ہمدردی
اور محبت کا آئینہ دار ہو ۔مادی دور کی لعنتوں نے ہوس زر کو ہوا دی ہے اور
اس کے نتیجے معاشرتی زندگی میں خوف ناک بگاڑ اور انتشار پیدا ہو گیاہے ۔
مسلسل شکستِ دل کے باعث فرد اپنی ذات کی تنہائی کے اذیت ناک ماحول میں بے
حسی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے ۔یہ کیفیت کسی بھی معاشرے کی بقا کے لیے بہت
بُرا شگون ہے ۔وارث علوی نے جان لیوا تنہائی کے کرب کے بارے میں نہایت خلوص
کے ساتھ اپنا مطمح نظر پیش کیا ہے جو قارئین ادب کو سوچنے پر مجبور کر دیتا
ہے ۔ان کا انداز فکر زندگی کی حقیقی معنویت کا مظہر ہے :
’’تنہائی کے کرب کا علاج محبت ہے ۔محبت آدمی کو ذات کے صنم کدے سے باہر
نکال کر غیر ذات سے جذباتی اور حیاتیاتی رشتہ قائم کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے
۔‘‘ (4)
شام الم ڈھلتے ہی جب درد کی ہوا چلتی ہے تو تنہائیوں کا زہر آدمی کے ریشے
ریشے میں سرایت کر جاتا ہے ۔ تنہائی ایک مسلسل عذاب کی صورت اختیار کر لیتی
ہے ،اس کے مسموم اثرات سے بچنے کے لیے محبت ہی واحد حل ہے ۔تنہائی کے زہر
کا تریاق محبت کے سوا اور کچھ نہیں۔محبت کے معاملے میں یہ بات یاد رکھنی
چاہیے کہ اس میں سود و زیاں کا کوئی دخل نہیں ۔جہاں تک فہم و فراست اور ہوش
و خرد کا تعلق ہے اگر یہ مصلحت اور سود و زیاں کو پیش نظر رکھے تو یہ اس کی
پختگی کی دلیل ہے ۔اس کے بر عکس اگر محبت میں مصلحت اور نقصان کا خیال کیا
جائے تو یہ محبت کے نا پختہ ہونے کا ثبوت ہے ۔وارث علوی نے ہمیشہ انسانیت
کے ساتھ والہانہ محبت کے جذبات کا اظہار کیا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سارے
جہاں کا درد ان کے جگر میں سمٹ آیا تھا ۔وارث علوی کی وفات سے اردو زبان و
ادب کو ایک ایسے تخلیق کار سے محرومی کا نقصان اٹھانا پڑا ہے جس نے انسانیت
کے وقار اور سر بلندی کو ہمیشہ اولیت دی ۔اردو تنقید کو حریت فکر کی راہ
دکھائی اور ہر قسم کی عصبیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھیکنے کی مقدور بھر کوشش
کی ۔آج ایسا کوئی تخلیق کار دکھائی نہیں دیتا جسے وارث علوی جیسا کہا جا
سکے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی ۔اﷲ کریم
ان کو جوار رحمت میں جگہ دے ۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
مآخذ
(1)وار ث علوی :’’روح کی اڑان ‘‘،مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو ،راول پنڈی
،جلد 22،شمارہ جنوری ۔مارچ 2013،صفحہ 11۔
(2)بہ حوالہ گوپی چند نارنگ :ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات ،سنگ ِ
میل پبلی کیشنز ،لاہور ،1994 ،صفحہ 163۔
(3)وارث علوی :’’روح کی اڑان ‘‘ صفحہ 11۔
(4)ارث علوی :تیسرے درجے کا مسافر ،نگارشات ،لاہور ، 1986،صفحہ 116۔
Ghulam Shabbir
Mustafa Abad Jhang City
|