جانورستان

اہلِ سیاست کا تو کام ہی سیاست کے نام پر ستم ظریفی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اب دیکھیے نا آپس کی لڑائی میں جانوروں کو گھسیٹ رہے ہیں۔ جن کے اپنے خوں خوار ہونے میں کوئی شک نہیں وہ ایک دوسرے کو گوشت خور جانوروں سے مشابہ قرار دے رہے ہیں۔ اِس صورتِ حال نے بہت سے جانوروں کو شدید خفت سے دوچار کرکے بے مزا کیا ہے۔ بے چارے نظریں چراتے ہوئے، گردنیں جھکائے گھوم رہے ہیں۔

کل ایک بلی سے گفتگو ہوئی تو شکوہ کرنے لگی۔ ’’سیاسی دودھ کی ساری ملائی تو ایوانِِ اقتدار میں براجمان باگڑ بِلّے پی جاتے ہیں اور بدنام کیا جاتا ہے میرے سرتاج کو۔‘‘

ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ بی بی ! اِسی کو تو سیاست کہتے ہیں۔ کام کسی کا، نام کسی کا! مگر وہ محترمہ نہ مانیں۔ میاؤں کی گردان کے درمیان بولیں۔ ’’ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لیے تشبیہ دینے کو ہمیں رہ گئے ہیں؟ ہمارے بہرحال کچھ اُصول ہوتے ہیں۔ ہم جانور مصلحتوں کے اسیر نہیں۔ ہم مَشیّت کی طے کردہ حدود میں رہتے ہیں۔ پیٹ بھرنے تک کھاتے ہیں، نیت بھرنے تک نہیں۔‘‘

ہم نے پھر سمجھایا کہ سیاست دان مجبور ہیں۔ ان کے ڈیفالٹ میں شامل ہے کہ خوب پیٹ بھر کے اُٹھو اور دستر خوان اٹھانے اور صفائی کا معاملہ بعد میں آنے والوں پر چھوڑ دو۔

بلی صاحبہ بولیں۔ ’’پھر تو ہم اچھے ہوئے۔ چوہدری شجاعت کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ہم لوگ مٹی تو ’پا‘ دیتے ہیں۔ اِس ملک کے سست دانوں سے تو اِتنا بھی نہیں ہوتا کہ اپنی غلاظت کو مٹی سے ڈھانپ دیا کریں! یہ معاملہ بھی بعد میں آنے والوں کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘

شریف امروہوی سے بھی یہ بات اب ہضم نہیں ہو پائی کہ سیاست دان اقتدار کے ایوانوں میں جو کچھ کرتے ہیں اُسے جانوروں کے معمولات سے مشابہ کیوں قرار دیا جاتا ہے۔ اُن کا اصل شکوہ یہ ہے کہ جانور اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں، اُنہیں انسانوں کے درمیان گھسیٹنے کی ضرورت کیا ہے؟ ہم نے (بلی کی طرح) انہیں بھی سمجھایا کہ صاحب! اقتدار کے ایوانوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ جانوروں کے بعض معمولات پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ن لیگ نے شیر کو انتخابی نشان بنایا تو لوگ یہ سمجھے کہ وہ جنگل کا بادشاہ ہونے کی دعوے دار ہے اور ایسی ہی جی داری کا مظاہرہ کرے گی۔ یہ عقدہ تو بعد میں کھلا کہ پارٹی قیادت کے ذہن میں سرکس کا شیر تھا! اب اگر کوئی شیر پر آٹا کھانے یا بجلی کے بحران سے ڈر جانے کی پھبتی کستا ہے تو اُس بے چارے کو یہ معلوم نہیں کہ سرکس کے شیر کا بھی یہی وتیرہ ہوا کرتا ہے!

سرکش کا شیر کوڑے سے ڈرتا ہے۔ ن لیگ کے شیر کے لیے بجلی کا بحران کوڑا ثابت ہوا ہے۔ سرکس کے شیر کو آگ کے رِنگ سے سے گزرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ن لیگ کا شیر آج کل مہنگائی کے جلتے ہوئے رِنگ سے گزرنے کی تربیت حاصل کر رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر جنگل کے شیر بھی اب گریبان کی کچھار میں جھانکتے رہتے ہیں!

ستم ظریقی تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ وزن گدھا اُٹھاتا ہے اور ہر معاملے میں تضحیک اور تذلیل کا نشانہ بھی وہی بنتا ہے۔ اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ مار بھی بے چارا گدھا ہی کھاتا ہے! ہماری سیاست میں بھی سب سے زیادہ مخلص کارکنوں سے یہ گدھوں والا سلوک ہی روا رکھا جاتا رہا ہے۔ جلسوں سے سب سے آگے یہ مخلص کارکن ہی ہوتے ہیں۔ حلق پھاڑ کر، پھیپھڑوں کا پورا زور لگاکر نعرے لگاتے ہیں اور ثمرات کی تقسیم کا مرحلہ آئے قطار کے آخر میں کھڑے ملتے ہیں! آپ ایسے مخلص (اور ثمرات سے محروم) کارکنوں کے لیے اپنے دل میں ہمدردی ابھرتی ہوئی محسوس کر رہے ہوں گے۔ آپ کی سادگی کا بھی جواب نہیں۔ ارے صاحب! یہ لوگ ’’زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ کی عملی شکل ہیں۔ دس بار گندا سلوک روا رکھے جانے پر بھی یہ گیارہویں بار پھر قطار کے آخر میں کھڑے ملتے ہیں! اصلی اور نسلی گدھے اِنہیں دیکھ کر شرمائیں تو شرمائیں، یہ اپنا کھوتا پن ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے!

سیاست میں جانوروں کے اطوار اور خصائل قدم قدم پر ملتے ہیں۔ جن کے دل و دماغ پر سیاست سوار ہے وہ بھیڑ چال رہتے ہیں۔ ذرا سے قامت والے گدھے سارا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں اور دوسری طرف سفید ہاتھی مزے ایک طرف کھڑے ہوکر جھومتے، جھولتے رہتے ہیں۔ عوامی جانوروں کی خوراک میں ڈنڈی مار کر سفید ہاتھیوں کی پرورش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ملک کا نظم و نسق سنبھالنے والے خود کو عقاب کہتے نہیں تھکتے۔ اور شاہین کے مانند ہمیشہ اونچی اُڑان کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ کبوتروں کی طرح ایک ایک ووٹ چُگنے کے لیے در در جانے والے سیاست دان کامیابی کے بعد شاہین ہی تو بن جاتے ہیں۔ اُن کی اُڑان اِتنی اونچی رہتی ہے کہ بے چارے عوام اُنہیں دیکھنے کو بھی ترس جاتے ہیں! ہاں، جب کبھی اپنی مرضی کی کوئی چیز دم توڑتی دکھائی دیتی ہے تو یہ فوراً نیچے اُتر آتے ہیں اور گِدھوں کی مانند مُردے کی بوٹیاں نوچنے لگتے ہیں۔ ملک اﷲ میاں کی گائے کی مثال ہوگیا ہے۔ مرتا ہے، اپنی بوٹیاں نُچواتا ہے اور پھر جی اُٹھتا ہے۔

بہت سے سرکاری ادارے سونے کے انڈے دینے والی مُرغی کی مانند تھے۔ مگر لومڑی صفت یارانِ اقتدار بے صبرے ہوئے اور یکے بعد دیگر اِن مُرغیوں کے پیٹ چاک کرتے گئے۔ انڈے تو کیا مِلنے تھے، صرف آلائشیں ہاتھ آئیں!

ناقدری اور کم ظرفی کا یہ عالم ہے کہ مور پر کَوّا راج کر رہا ہے۔ بُلبُل کی صدائے دل نشیں پر کُتوں کے بھونکنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ کوئل کی کوک سے بھیڑیوں کی ہاؤ ہُو کو افضل گردانا جارہا ہے۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار کا بُغدا ہے اُنہوں نے ذاتی مفادات کے استھان پر ریاستی ملکیت کی ہر شے کو قربانی کے بکرے میں تبدیل کردیا ہے۔ اگر بکرے کو ذبح کرکے کھالیا جائے تو کچھ ہرج نہیں کہ چلو، گوشت ٹھکانے تو لگا۔ یہاں تو سَفّاکی کا یہ عالم ہے کہ اپنی بوٹی کے لیے بکرا ذبح کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا!

قومی خزانے کی کو بدعنوانی اور پرچی کلچر کے بھیڑیے نے دبوچ رکھا ہے۔ تیزی سے بلند ہوتی ہوئی قیمتیں شکاری کُتّوں کی طرح کی گردن میں دانت گاڑے ہوئے ہیں۔ منتخب اداروں سے اصلاحِ احوال کے اقدامات کی توقع رکھی جاتی ہے مگر یہ توقع بھی لاحاصل ثابت ہوتی آئی ہے۔ قوم جنہیں مسائل حل کرنے کے لیے منتخب ایوانوں میں بھیجتی ہے وہ بندر بانٹ میں مشغول رہتے ہیں۔

منتخب اداروں میں ہمہ وقت جنگل کا سا ماحول برقرار رہتا ہے۔ ملک اور قوم کے بارے میں سوچنے سے زیادہ توجہ آپس کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے پر دی جاتی ہے۔ شریف امروہوی اس بات پر بھی معترض ہوتے ہیں کہ اہلِ اقتدار کی باہمی کشمکش کو جنگل کے ماحول سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے۔ شریف امروہوی کہتے ہیں۔ ’’سیاست کے نام پر ہمارے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھنے والے جنگل ونگل سب کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ جنگل میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ بہر حال چند اُصولوں کے تابع ہوتا ہے۔ کوئی جانور محض دِل پشوری کے لیے کبھی کسی کو نہیں مارتا۔ پیٹ بھر چکنے کے بعد کوئی بھی جانور کسی کے مال پر مُنہ نہیں مارتا۔ بیشتر جانور ذخیرہ اندوزی پر یقین نہیں رکھتے۔ جنگل میں ٹارگٹ کلنگ کا کلچر ہے نہ بھتہ خوری کا۔ کسی جانور کو راہ چلتے لُٹ جانے کا خوف نہیں ہوتا۔ جانور کسے اپنا سربراہ، سردار یا حکمران مقرر کرتے ہیں وہ کبھی ایموشنل بلیک میلنگ نہیں کرتا، منافرت نہیں پھیلاتا، دِلوں میں دیواریں کھڑی نہیں کرتا، تمام جانوروں کے وسائل پر قبضہ کرکے اپنے لیے محل تعمیر نہیں کرتا۔ کبھی نہیں سُنا گیا کہ جانوروں کے کسی قائد نے فارم ہاؤس بنوایا ہو۔ شیر جنگل کا بادشاہ گردانا جاتا ہے مگر اُس کی کچھار میں بھی مخمل کے گَدّے نہیں ہوتے۔‘‘

حکومت سازی کے لیے منتخب ارکان کی خرید و فروخت کو گھوڑوں کی تجارت کیوں کہا جائے؟ گھوڑے تو پھر کام کے ہوتے ہیں! جنہیں ہم اپنے معاملات کی درستی کے لیے ووٹ دیتے ہیں وہ امریکا کی رَسّی اپنے گلے میں ڈال کر اُس کی ڈگڈگی پر ناچتے رہتے ہیں۔ یہ تماشا اگرچہ مفت ہے مگر قوم دیکھتے دیکھتے تھک چکی ہے۔

جانور بے چارے بے زبان ہیں، بول نہیں سکتے۔ ان کی بے زبانی کا ناجائز فائدہ اُٹھایا جارہا ہے۔ ایسے میں ہم جانوروں کی طرف سے التماس کرتے ہیں کہ ملک پر راج کرنے والے اور راج کے خواہش مند آپس کی کشمکش اور مناقشوں میں جانوروں کا نام لے کر اُنہیں ذلیل و رُسوا نہ کیا کریں۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 481828 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More