ہم بھی بہت عجیب ہیں اتنے عجیب
کہ ہمارے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا آسان کام نہیں۔میری یادداشت کے
مطابق مدتوں سے قوم کی اکثریت اس رائے کا اظہار کرتی رہی ہے کہ پاکستان میں
اتنی جرآت کسی میں نہیں کہ وہ فوجی جنرلوں سے ان کے کئے غلط کاموں کا حساب
لے سکے۔بے بسی کے عالم میں بس یہی طعنہ دیا جاتا رہاہے کہ سولیّن ہی ہیں کہ
جن سے حساب طلب کیا جاتا ہے ، جنہیں نا صرف غدّار قرار دیا جاتا ہے بلکہ
سزائیں سنائیں جاتی ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی کروایا جاتا ہے۔ اس کے بر
عکس عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والوں کو پورے قومی اعزاز کے ساتھ
ان کے منصب سے رخصت کیا جاتا ہے ۔موجودہ دورحکومت میں یہ پہلی بار ہوا کہ
کسی سابق فوجی آمر کے خلاف آئین کی دفعہ 6کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ قائم
کیا گیا ہے ۔جب تک موجودہ حکومت نے اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں کی تھی
اُس وقت تک اس پر سخت تنقید کی جارہی تھی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف پر تنقید کا آغاز اُس وقت ہوگیا تھا جب جنرل (ریٹائر )
پرویز مشرف ’’آل پاکستان مسلم لیگ‘‘ کے سربراہ کے طور پر، 11مئی 2013 کے
انتخابات سے قبل پاکستان تشریف لائے اور میاں نواز شریف نے پوری انتخابی
مہم کے دوران، اُن کی 12اکتوبر1999 اور 3 نومبر 2007کی غیر آئینی مہم جوئی
کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔تجزیہ کاروں نے اُن کے اس طرز عمل کو عالمی
ثالثوں سے مصالحت یا ڈیل کا نتیجہ قرار دیا ۔اِسی طرح کی شدید تنقید کا
سامناپاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کو بھی رہا ۔اُن پر الزام یہ عائد
کیا جاتا رہا کہ انہوں نے اپنے پورے دور حکومت میں نا صرف فوجی آمر کے خلاف
آئین کی دفعہ 6کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ قائم نہیں کیا بلکہ اُسے پورے
اعزاز اور شان و شوکت کے ساتھ گارڈآف آنر دے کر رخصت کیا ۔ تاہم ،اب وفاقی
حکومت نے سابق فوجی آمر کے خلاف آئین کی دفعہ6کے تحت مقدمہ قائم کردیا ہے
اور خصوصی عدالت میں اس کی پیروی کا آغاز بھی ہوچکا ہے تو اس اقدام پر کچھ
عاقبت نا اندیش عناصر بے جا تنقید کرکے قوم کو اضطراب کا شکار کردینا چاہتے
ہیں ۔جو لوگ کل تک حکومت کو اس بات کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے تھے ۔ آج وہی
عناصر اس مقدمہ کو کسی سازش کا پیش خیمہ قرار دے کر قوم کے سامنے اسے
متنازع بنانے کے خواہشمند ہیں۔
یہ مقدمہ آئین کی با لا دستی اور قانون کی حکمرانی کی جانب ایک سنگِ میل کی
حیثیت رکھتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سابق صدر کے منہ سے نکلا ہر لفظ
قانون کا درجہ رکھتا تھا ۔ان کی محفل میں موجود ہر شخص کی یہ کو شش ہوتی
تھی کہ ان کی زیادہ سے زیادہ مدح سرائی کرے تاکہ ان کی نظروں میں خود کوان
کا سب سے بڑا بہی خواہ ثابت کیا جائے اوروہ ان کے دربارسے زیادہ سے زیادہ
انعام و اکرام کا مستحق قرارپائے۔پھر وقت نے کروٹ بدلی لیکن وہ اپنی خوشامد
پسند اور سخت گیرطبیعت کی وجہ سے آج کی تبدیل شدہ دنیا کے نئے تقاضوں کو
پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔ ان سے ایک بڑی غلطی اس وقت سرزد ہوئی جب انہوں نے
چیف جسٹس آف پاکستان کو ان کے منصب سے ہٹانے کی غرض سے اپنی رہا ئش گاہ پر
طلب کیا لیکن چیف جسٹس نے مستعفی ہونے سے انکار کردیا۔ یہ گستا خی ان کی
طبع نازک پر بہت گراں گزری چنانچہ چیف جسٹس کے خلاف ایک پروانا جاری ہوا
اور انہیں ان کے گھر میں مقید کردیا گیا ۔چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائرہوا
اوران کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ اس موقع پر ان کے اہل خانہ کو
بھی نظر بند کردیا گیا ۔اس توہین آمیز سلوک پر ملک کی سول سوسائیٹی ،وکلا
ء،میڈیا اور سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہوگئیں۔احتجاج کا دائرہ روز بروز
وسیع تر ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ آمرو قت کے اقتدار کا سورج جو اس واقعہ سے
پہلے پورے آب وتاب کے ساتھ اپنی جوبن پر تھا، کا زوال شروع ہوگیا اور
بالآخر پوری کایا کی کایا ہی پلٹ گئی ۔اقتدار کا سورج غروب ہوا تو پنچھیوں
نے آب و دانہ کے لئے نئے ٹھکانے تلاش کرلئے اور آمر کو مجبوراًدیار غیر میں
پناہ ڈھونڈنی پڑی۔
پھر نہ جانے کس کے مشورے پر وہ اپنی خود ساختہ چار سالہ جلا وطنی کو ترک
کرکے وطن واپس پہنچے، ائیر پورٹ پر ان کا کوئی پرانامدح سرا موجود نہیں
تھا۔ چند روز کراچی میں قیام کے بعد وہ اپنے محل میں اسلام آباد منتقل
ہوگئے ، جہاں وہ اپنے عشاق کے منتظر تھے لیکن ان کے محل کی جانب جانے والے
سارے راستے ویران اور سنسان ہی رہے کیونکہ ان سے فیضیاب ہونے والے اور
انہیں 10بار فوجی وردی میں منتخب کروانے کا برملا اعلان کرنے والے اپنے
مستقبل کو زیادہ محفوظ بنوانے کے لئے اس وقت کے بادشاہوں سے توڑ جوڑ میں
مصروف تھے۔یہ زمانہ شناس لوگ ماضی کے مزاروں کے متولی نہیں بلکہ کامیاب
زندگی کا ہنر جاننے والے ذہین لوگ ہیں جو بلا وجہ کسی دہلیز پر سجدۂ ریز رہ
کر اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنے پر یقین نہیں رکھتے ۔چنانچہ ان عناصر نے
بھی اپنی مخصوص طبیعت اور نظریات کے مطابق وہی کیا جو ان کو کرنا چاہیے
تھا۔یہ ہے ایک آمر کا انجام ،کس قدر عبرت ناک۔ آج ساری دنیا اس منظر کو
دیکھ رہی ہے کہ آمر ،عوام میں اکیلا و تنہا ہے اور دوسری طرف سیاسی رہنماء
عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ بھٹو اپنی قبر سے حکمرانی کررہا ہے ، اپنی شہاد
ت کے بعد تین بار اپنی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں میں بھیج کر بھی زندہ
ہے۔ نواز شریف عمر قید کی سزا اور جبری جلاوطنی کے باوجود بھی اس وقت ملک
کے مقبول ترین سیاسی رہنما اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تیسری بار
وزیراعظم منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آصف علی
ذرداری سینکڑوں جانثاروں کی دولت سے ما لا مال ہیں جو ان کے لئے اپنا سب
کچھ لٹانے کو ہمہ وقت تیار ہیں ۔الطاف حسین دو عشروں سے زائد عرصہ دیار غیر
میں رہنے کے باوجود آج بھی لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہیں ان کے ایک اشارے پر ان
کے کارکنان اپنا سب کچھ لٹادینے کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ اس ہی طرح دوسرے
سیاسی رہنما خواہ انہیں ملک کی طاقتور اشرافیہ نے کسی بھی لقب سے نوازا ہو
وہ اپنی سیاسی طبیعت اور بصیرت کی وجہ سے جانثار سیاسی کارکنان کی دولت سے
مالا مال ہیں۔
سابق صدرجنرل (ریٹائر) پرویز مشرف اپنے اقتدار سے معزول ہونے کے بعد کل تک
بہت اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ اگر مجھے عدلیہ کے روبرو پیش ہونا پڑا تو
مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہوگا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ مقدمہ ایک
پنڈورا بکس کی مانند ہے اگر اس کو چھیڑا گیا تو پورا پینڈورا بکس کھل جائے
گا۔ یہ ان کے لئے ایک ناد ر موقع ہے کہ وہ عدلیہ کے روبرو پیش ہوکر پینڈورا
بکس کھول دیں اور ان تمام پردہ نشینوں کے نام پوری قوم پرآشکار کردیں جنہوں
نے انہیں ایسا غیر آئینی اقدام کرنے کا مشورہ دیا تھا، اس غیر آئینی اقدام
کو قانونی تحفظ فراہم کیا تھااور جوآج اپنے آپ کو پارسا ثابت کرکے سارا
ملبہ ان پر ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سابق صدرنے ماضی میں یہ بھی
اعلان کیا تھاکہ میں عدالتوں کا سامناکرنے کو تیار ہوں اور پھر وہ تو پوری
صورتحال کو سمجھتے بوجھتے پاکستان آئے تھے لیکن افسوس کہ جب آج انہیں عدلیہ
میں طلب کیا جارہا ہے تو وہ عدلیہ کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں اور ابھی تک
اس کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔اب انہیں اپنے طرز عمل کو تبدیل کرکے عدلیہ
پر اعتماد کرنا ہوگا اور اپنے کہے کہ مطابق عدلیہ کے روبرو پیش ہونا ہوگا
۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی عدلیہ کو بندوق کے زور پر
بے توقیر کیا جاسکتا ہے تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہے ۔اب ہمیں اپنے سوچ کے
دھارے تبدیل کرکے حقیقت پسند بننا پڑے گا۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں
عدلیہ آزاد اور خود مختار ہے ۔ ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی قائم
ہوچکی ہے۔اب تبدیل شدہ پاکستان میں کوئی قانون اور آئین سے بالاتر یا
ماوراء نہیں، ملک کے تمام شہری قانون اور آئین کی نظر میں برابر ہیں۔ |