ہندوستانی مسلمان آزادی ملک کے
بعد سے اب تک کشمکش کے شکار رہے ہیں اور قابل حیرت امرتو یہ ہے کہ یہ کشمکش
عجیب نو عیت کی رہی ہے گویا ایک لاغر جسم ہیں جس پرہز اروں جراثیم کا
یکبارگی حملہ ہو رہا ہے اب یہ مسلما ن ان ہزارو ں جراثیم کا کس قوت مدافعت
کے ذریعہ اپنا دفاع کریں یہ ہندوستان کے مسلمان جنہوں نے اپنی غفلت و بے
حسی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ آج خو د اقوام عالم میں اپنی وضع کردہ خو کی و
جہ سے غفلت و بے حسی کے بد ترین نشان ہو چکے ہیں آج تک نہ تو اپنی مخفی روح
کی تا بندگی اور تا بانی کا اظہار کیا اور نہ ہی اس ذیل میں کسی عزم و
ارادہ کا عندیہ پیش کیا ہے بلکہ ازل سے اپنی غفلت ،بے حسی اوراحساس کمتر ی
کی بد ترین اورمنحوس تصویر کی رو نمائی کی ہے ۔اس قوم کو جس سب سے موذی مرض
نے اپنی گرفت میں جکڑرکھا ہے وہ کور تقلیدی کا مرض ہے جبکہ تقاضائے پیہم تو
یہ ہے کہ شاہراہ حیات کا ہر لحظہ خو دی کی بیداری کا اعلان کرتا ہے لازما ًبیداری
اور خو دی کے ادراک و شعور کا مظاہر ہ کریں لیکن افسوس !ذکاوت حس مغلوب ہو
گئی ہے اور جس شعور و فہم کا یقین تھا وہ ہر آن مشکوک ہوتا جارہا ہے ۔قوم
کی ابتری اور زبو ں حالی کا جو بادل برسوں سے سایہ کئے ہوا ہے وہ تو خو د
اپنے اعمال کی دین ہے ۔اب کو ئی کیا کرے کس سے اس ستم پیہم کا شکوہ کرے ،کس
کو اپنی فغاں کا سوز سنائے اور کس کو اپنا داغ دل دکھائے خدا ان کی بے حسی
اور غفلت کو کسی درد اورطوفان سے آ شنا کردے جو آنکھو ں سے آنسو بہادے
اورخیمہ ہا ئیے غفلت کی طنابوں کو جڑسے اکھاڑ پھینکے بقول جگر
یا رب ہجوم دردکودے اوروسعتیں
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں
قوم مسلم کا تو اب مزاج ہو چکا ہے کہ ہندوستان کی آزاد فضا میں بھی تقلید
اور اس تقلید کی ضرورت ہو تی ہے جو اس کو قعر مذلت تک پہو نچانے میں کوئی
دقیقہ فروگذاشت نہ کر ے اس کو ر تقلید ی کے کیا مضمرات اور مضر اثرات ہیں
آئیے !ذرا ان دل خراش اور حواس گم کر دینے والے احزائے تر کیبی جو کہ اس کو
ر تقلیدی کا لازمہ ہیں ،کا جائزہ لیں قومسلم دن بہ دن پستی اور پست ہمتی کا
شکارہوتی چلی گئی جب کہ خدائے ذو الجلال نے اس قوم کو طو فان سے نبردآزمائی
کا حو صلہ دیا تھا اور اس عظیم جمہوری ہندوستان میں جو کئی سالوں سے ان کی
عظمت و سطوت کی داستان پارینہ چلی آرہی ہے وہ اسی حوصلہ او ر بلند ہمتی کی
مظہر ہے جو کہ تحفہ آفاقی کی طرف اشارہ کررہے ہیں ،قوم مسلم اپنی عظمت رفتہ
کیلئے آج نہ تو فکر مند ہے اورنہ ہی اس فکر کے ضمن میں اسے کو ئی دل چسپی
ہے اوراس قو م کو کیا ہو ا کہ انتم الاعلون کے پیا م سروش کو بھی فراموش کر
ڈالا !لیکن صورتحال مزید اس ملت مر حومہ کو بیدار کر نے کی نا کام کوشش کر
رہی ہے مگر اف!یہ تغافل کیشی اگر جاگ گئی تو یقینا نصرت خداوندی قدم چومنے
کیلئے بیقرار و مضطر ہے اس قوم نے اس جنوں ،عشق ،دیوانگی سے رشتہ توڑ لیا
ہے جس نے اوج ثریا سے ہم کلامی کا اعزاز بخشا تھا یہ متذکرہ امور کیا تھے ؟جواب
وہی ہے کہ ہم نے اپنے آبائی اورموروثی عزم و حوصلہ اوربیدار مغزی سے کنارہ
کش ہو گئے ہیں ۔قوم کی حالت بد تر ہوتی جارہی ہے اورخدا جانے کب تک حالت
دگرگوں کا لا متنا ہی سلسہ جاری رہے گا اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ اس قوم
کے ہر ایک عنوانات پر تنقید اور زخم نا رسا کی کوشش کی جارہی ہے مقدس و
محترم عبادت گاہوں کو یک لخت مسمار کرکے تعظیم و تقدیس کوپا مال کر دیا
جاتا ہے ،محترم و معزز خواتین اسلام کی چادر عفت کو چھین لی جا تی ہے اور
معصوم ملت کے شہزادوں کو نیزوں پر بلند کر دیا جاتا ہے یہ تو اب اس عظیم
جمہوریت کے وہ افراد جن کو اپنی نام نہاد اکثریت کا گھمنڈ اور رشک ہے ،کی
فطرت ثانیہ ہوچکی ہے ،تاریخ سے کھلواڑ اور عظمت رفتہ کا استہزاء تو بہت دور
کی چیز ہے عوام تو عوام جو ہوٹلوں ،ٹرینوں اور بسوں میں بھی اس چھیڑ سے
بازنہیں آتے ان کی کیا گفتگو ملک کے ذمہ دار افراد بھی اس سے دل لگی موزوں
خیال کرتے ہیں ۔
راہل گاندھی اس خاندان کے چشم وچراغ ہیں جس نے ملک کی ہر قدم پر خدمت کو
اپنا فریضہ تصور کیا ہے بڑی بڑی قربانیاں نذر کی ہیں اور ملک کے خلاف اٹھنے
والی تمام سرخ آندھیوں کو خاموش کردیا ہے ان کے بڑوں نے ہمیشہ اتحاد و
اتفاق اور ہر مذہب کے احترام کویقینی بنایا ہے اور کبھی بھی تاریخ سے تعریض
نہ کی ہے لیکن راہل گاندھی نے اپنی دھن میں آکر ایسا کہہ گئے جو کم از کم
ان کے لئے بالکل بھی زیب نہیں ،مودی جیسے بدنام زمانہ کو حضرت اورنگ زیب سے
تشبیہ دینا مو دی کیلئے تو فخرورشک ہو سکتا ہے حضرت اورنگ زیب کیلئے ایک تو
ہین اور قابل تضحیک امر بلکہ ایک ایسا الزام جس کا کسی بھی طرح سے بے بنیاد
ہونا طے ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ملک و قوم کے مفادات کو ترجیح
دی ہے دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے خود اپنے خاندان سے اس وجہ کر علم بغاوت
بلند کیا کہ ان کے خاندان کے افراد قوم کی جمع پونجی کو بے راہ بے دریغ اڑا
رہے تھے اور اپنے والد کو اس وجہ سے قید میں ڈال دیا تھا کہ قوم کی کمائی
سے عشق و جنوں کے نشاط نہ بنائیں ۔بلکہ انہوں نے ہر قدم پر ملک کی سالمیت و
تحفظ کو مسلم الثبوت بنا یا اور ہر مذہب کے احترام کو فریضہ تصور کیا ۔ملک
کے شہزادہ کا اپنا یہ زعم ہے یا پھر یہ بھی ہندوتو کے طوفان میں اپنے و جود
کو بہتا ہوا محسوس کر رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم کا کچھ دنوں قبل ہی ایک بیان
آیا تھا کہ مذہبی جنون ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہے لیکن شہزادہ کا پھر یہ
کہنا کہاں تک درست ہے ؟بڑی حیرانی ہوتی ہے یہ دیکھ کر ایک ہی سیکو لر افراد
کے یہ دو متضاد پہلو ہیں کیا شہزادہ کا یہ کہنا درست ہے ؟جبکہ وہ اس امر پر
یقین رکھتے ہیں کہ ملک کی سالمیت بہت بڑی چیز ہے یہ تا ریخ سے نا واقفیت
نہیں ہے کہ ایک عظیم خادم ملک و قوم سے ایک ظالم ،خو نخواراور آدم خو ر کی
تشبیہ دی جائے اور یک لخت ان کی خدمات کو فراموش کر کے اس مر کی تصویب و
تائید کی پر زور کوشش کی جائے کہ وہ عظیم خادم نہیں بلکہ انسانیت کے دشمن
تھے ۔یہ بیان خود شہزادہ کیلئے سوالیہ نشان بنا ہو ا ہے کہ کیا و ہ خو د
سیکو لر ذہنیت کے حامل ہیں ؟کیا انہو ں نے خو د تاریخ کا مکمل مطالعہ
کررکھا ہے ؟ضرورت یہ ہے کہ تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کر نے سے قبل اس کے صفحات کے
گر د جھاڑ بھی لیں ۔
قو م مسلم تو مائل بہ زوال تو ہے ہی ا س کو نہ تو کو ئی بیدار کر سکتا ہے
اور نہ ہی یہ احساس دلا سکتا ہے کہ تیری خو دی و ہو شیا ری بھی کو ئی شے ہے
جس کی ہر ایک ذی عقل کی تلاش تھی وہ تو یکسر مفقود ہے نا صح و و اعظ نے بھی
یہ کہہ کر خاموشی اختیا ر کر لی کہ ع
مرا عشق بھی کہانی ،ترا حسن بھی فسانہ |