مغربی مکتبوں کی نئی روشنی تیری تاریکیوں کا ازالہ نہیں

دنیااسکے سامنے سرنگوں ہوتی ہے جو قومیں اپنا اصول اپنا ضابطہءحیات رکھتی ہوں ان اصولوں کو لیکر چلنے والی ہوں اور اپنے ضابطہءحیات کا درس مجسم عمل بنکر دیتی ہوں ایسی ہی قومیں بلند مقام پاتی ہیں امامت و پیشوائی انہی کا مقدر بنتی ہے اور پھر مسلمانوں کو خیر امت کا لقب دیا گیا تمام قوموں کا امام بنا کر خوش قسمتی انکا مقدر کردی گئی ایک بہترین کتاب انکو عطا کی گئی جو تمام تحریفات سے پاک ہے جو ساری زندگی کا دستور لیکر آئی ہے جو اسکی فلاح کا سامان و نجات کا زریعہ ہے بشرطیکہ وہ اس پر عمل پیرا ہوجائے۔ آج کے مسلمان اس ا’م ّ الکتاب کی تعلیمات تو اپنے پاس رکھتے ہیں لیکن اسکو صرف پڑھنے کی حد تک محدود کردیا ہے نہ اسکو سمجھتے ہیں نہ اسکی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں نا فذ کرتے ہیںبلکہ اس عظیم ضابطہءحیات کو جو اسکے خدا نے اسے عطا کیا ہے پس پشت ڈالدیا ہے اور اغیار کی تقلید کو اپنے لئے باعث شان و فخر سمجھتے ہیںاور انکی تہذیب کوزندگی کے تمام ہی شعبوں میں اپنالیا۔
جسکے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے یوں فرمایا تھا۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

اس تہذیب کی تقلید نے ایسی ناپائیداری انکو عطا کی کہ ایک انتشارزدہ معاشرہ دیاہر طرف پراگندگی پھیلادی انکی حیثییت و وقار کو ختم کردیا آج مسلمانوں کے نام تو بظاہر اسلامی ہیںلیکن انکی سوچیں مغرب کی پروردہ ہیں اسطرح مغرب کے پرورش یافتہ ذہنوں نے اپنی اس تقلید کو ترقی کی علامت سمجھ لیالیکن حقیقت میں وہ اسکی زندگی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں۔

مغربی قوانین کی اندھی تقلیداور غیر ملکی قدریں مسلمانوں کی زندگیوں پر اسقدر مسلط ہوچکی ہیں کہ یہی نئی تہذیب کے دلدادہ اور اسکے نام نہادعلمبردار بن چکے ہیں ۔

مغربی تہذیب کی تقلید نے معاشرے کو ایسی قدریں عطا کیں کہ جو بظاہر تو روشنی نظر آتی ہیں جو بظاہر آزادی جیسی لگتی ہیںیوں محسوس ہوتاہے کہ وہ انسان کے سکون دل کا سامان کرسکے گی لیکن وہ اپنی اصل کے اعتبار سے اسکے باطن کی گرفتاری ہے۔
گویا اس شعر کے مصداق:
ہمیں تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری

یہ مغربی تہذیب جسکو آج کا نوجواں انسانیت کی معراج سمجھتا ہے اس تہذیب نے جو تحفے بظاہر روشنیوں کی شکل مین عطا کیئے ہیں وہ یہ کہ ایک بے مقصد زندگی اسکے حصے میں ڈالدی جسمیں کھانے پینے اور دولت کا حصول ، تعیشات وتنعم کو پالینا ہی وہ زندگی کا حاصل سمجھتے ہیںاسکے سوانکی زندگی محض سانسوں کی آمدورفت کے علاوہ کچھ نہیں۔“

پھر دوسرا تحفہ مغربی مکاتب فکرنے آج کے نوجواں کو نئی روشنی کے طور پر جو عطا کیا ہے وہ یہ کہ بے حیائی ،فحش کاری،عریانیت کو آزادی کا نام دیکر اسکے سامنے پیش کیا اور پھر نوجوانوں نے اسے روشن خیالی سمجھ کر قبول کر لیااسی روشن خیالی نے جنسی آوارگی کو جنم دیاپھر اسی تہذیب جدیدکے فلسفوں نے انسان کو انسانیت کے مقام سے ہٹاکر حیوانیت کی سطح پر پہنچادیا۔ایسی آزادی کا اسکوخواہشمند بنادیا کہ جسکو اپناکروہ کسی آئین کا پابند بننا نہیں چاہتامذہب کو بندش بنا دیا اسکی رو سے جو حدود اس پر نافذ کیئے گئے تھے وہ اسکی پاسداری کرنا ہی نہیں چاہتا۔

اسکے علاوہ مغربی تہذیب کی تقلید نے ٹوٹتے خاندان ، بکھرتا ہوا معاشرہ ،رشتوں کے تقدس کی پامالی اور سامان تعیش آج کے نوجواں کو بظاہر روشنیوں کی شکل میں دئیے ہیں لیکن یہ ساری روشنیاں یا روشن خیالیاں جو آج کے نوجوان کو عطا کی گئی ہے وہ اسکے دل کے اندھیروں کو کم نہیں کریگی بلکہ آج کے نوجوان کو اپنے اندر کی ظلمتوں کو دور کرنا ہو اور عظمتوں کوپانا ہے تو اسلام ہی اجالا ہے اسلام ہی روشنی ہے یہی اسکے دکھوں کا مداوا، اسکے درد کا درماں بن سکتا ہے اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جو اسکے دل کے تالوں کو کھول سکتی ہے۔
الا بذکراللہ تطمئن القلوب (رعد۸۲)
اللہ کا ذکر ہی اطمینان قلب عطا کرتا ہے۔

جس نے اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں اپنی زندگی کو اللہ رب العالمین کے احکام کے تابع کر لیاگویا حقیقی خوشی اسکا مقدر بنے گی۔یہ چودہ سوسالہ پرانی تعلیمات ہی ہے جو نبی کریم دنیا کے سامنے پیش کیئے تھے جسمیں انسان کا سب سی پہلا عہد خدا کی ساتھ تھاکہ جب اللہ تعالی نے الست بربکم کہا توتمام ارواح نے بلی شھدنا (الاعراف) کا جواب دیاآج اسی عہد کو تازہ کرنا ہے اسی عہد کو ایفا کرنا ہے۔

آج کے نوجوانوں کو اور مسلمانوں کوسچائی ،دیانتداری،امانتوں کی پاسداری، صلہ رحمی،اخلاص،عدل وانصاف،محبت و شفقت ،حسن سلوک،فیاضی، شرافت،احسانمندی،رواداری،بھائی چارگی،صبرواستقامت، عفوودرگزر، ظاہر وباطن میںیکسانیت،شر م و حیا ،شکر،حلم وبردباری،نظافت،حسن کلا م ا ور فواحش سے اجتناب جیسی احسن وبہترین قدریں اس پاکیزہ نظام حیات اسلام نے دی ہیں۔

جن جن لوگوں نے بھی ان قدروں کو اپنا یاوہ وقت کے امام بن گئے عرب کے جاہل وبدو جنکی زندگیوں میں ہر طرف تاریکیاں تھی جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے تھے جب انھوں نے مذکورہ بالا اوصاف اپنالیئے تو وہ قائد وقت کہلائے گئے انھوں نے دنیا کے لوگوں کی رہبر ی کی اور تاریخ نے انکے ناموں کو رہتی دنیا تک کیلئے محفوظ کرلیا۔

اورپھرنوجوانوں کیلئے یہ مثال بھی قابل تقلید بن سکتی ہے جو فاتح سندھ کی ہے ایک سترہ سالہ نوجوان جنکو دنیا محمد بن قاسم کے نام سے جانتی ہے جب ہندوستان کی رانی نے انکی کم عمری کا مذاق بناتے ہوئے انکا موازنہ ےونان کے سکندر سے کرتے ہوئے کہا کہآپکا ہندوستان کو فتح کرنے کا ارادہ ایک خواب کے سوا کچھ نہیں۔ تو جواب میں محمد بن قاسم نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے۔

سکندر بادشاہوں کے مقابلے میںشہنشاہ بنکر آیا تھااسکا مقصد لوگوں کو بادشاہوں کی غلامی سے آزادی دلانا نہ تھابلکہ انھیںاپنا غلام بنانا تھا۔ میں خدا کی زمین پرانسان کی بادشاہت سے منکر ہوں ۔ اسے اپنی طاقت پر بھروسہ تھامجھے خدا کی رحمت پر بھروسہ ہے۔اسے انسانوں کی مدد کا بھروسہ تھا لیکن مجھے اللہ کی مدد کا بھروسہ ہے اسکی سب سے بڑی شکست یہ تھی کہ اسکے اپنے سپاہی اس سے بگڑ گئے اور میری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ جو کل تک میرے دشمن تھے آج وہ میرے ساتھی ہیں اور یہ میری فتح نہیں ،اسلام کی صداقت کی فتح ہے۔

اسطرح آج کے نوجوانوں کو بھی مغربی تہذیب کی تقلید کے بجائے اپنے اسلاف کی تقلید کرتے ہو ئے اسلام کی صداقت کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے اسکو اپنی زندگیوںمیں نافذ کرنا ہے بدر و حنین کے مجاہدوں کی سنت ادا کرنا ہے قادسیہ اور یرموک کے شہیدوں کے نقش قدم پر چل کر دکھانا ہے۔

دنیا بھر کے ازمس(isms)، مغربی مکاتب فکرکی بظاہر روشنیاں ،انسانوں کے تراشیدہ ہائے قوانین تمام ہی نقائص سے خالی نہیں۔لیکن وہ نظام جو حقیقتاقدیم ہے کائنات کی ابتداءسے ہے وہی انسان کی زندگی میں اجالا بکھیرے گاکیونکہ یہ خدا کا عطا کردہ ہے۔وہ آج بھی طاقت رکھتا ہے اور قیامت تک کیلئے بھی کہ باطل نظاموں کی بلندو بالا عمارتیں بھی اسکے ذریعہ سے پاش پاش کی جاسکتی ہیں یہ پرانے نظام سے نکلنے والی شعاعیں ہر طرف روشنیاں ہی روشنیاں کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔
گویا یوں کہ:
مغربی مکتبوں کی نئی روشنی تیری تاریکیوں کا ازالہ نہیں
طاق دل میں اجالا اگر چائیے تو پرانے ہی چراغوں سے پیار کر
Shahmeena Subhan
About the Author: Shahmeena Subhan Read More Articles by Shahmeena Subhan: 4 Articles with 4418 views i am a simple girl with mercy in deeds...:).. View More