میڈیا ملازمین کے مسائل۔۔۔

موجودہ صدی میں ابلاغ عامہ یعنی میڈیا نے جس قدر ترقی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی، مانا کہ دنیا کے قائم ہونے کے بعد پہلی آبادی میں بھی ابلاغ عامہ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ، خبر وہ شے ہے جو کسی واقع، حالات کے جنم لینے کے بعد اس کی اطلاع دی جائے۔ دنیا کے ابتدا میں جب پہلی آبادی کا وجود پیدا ہوا تب لوگ ایک دوسرے سے تعلق پیدا کرنے اور روابط کو بڑھانے کیلئے اطلاعات کا سہارا لیتے تھے یہ الگ بات ہے کہ اس وقت آج کی طرح جدید نظام اور سائنس نہیں تھی اسی لیئے لوگ رو برو اور ایک دوسرے سے بات چیت کرکے اطلاع پہنچایا کرتے تھے۔ اللہ کے پیغمبر، انبیاءکرام نے علم کے ذریعے انسانوں میں شعور بیدا کرنے کی کوشش کیں اور انسان اللہ کے دیئے ہوئے علم سے روشن ہوکر با شعور زندگی گزارنے لگا۔کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءکرام اس دنیا ئے فانی میں تشریف لائے، ان سب میں سب سے معتبر و اعلیٰ حضور اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واآلہ وبارک وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ آپ ﷺ نے دنیا تو دنیا پوری کائنات کے علم سے اور قیامت تک آنے والی امت کو علم و شعور سے بہرہ مند کیا ، حبیب خدا کا کرم ہی ہے کہ آپﷺ نے انسان کو اشرف کا مقام بتایا، تاریخ اسلام شاہد ہے کہ دین محمدی پر گامزن ہونے والا ہر وہ شخص جس نے ظاہری و باطنی طور پر آپ ﷺ کے احکامات کی پیروی میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ زندہ جاوید ہوگیا۔ ایسے شخصیات کے نہ صرف نام بلند ہوئے بلکہ اُن کا ذکر بھی بلند ہوا، ان میں صحابہ اجمعین علیہ رحمت سے لیکر اولیاءعظام و اسلافین کرام تک تمام کے تمام روحانی و فیض کے اعتبار سے آج بھی امت محمدی میں بڑے ادب و احترام کیساتھ دیکھے جاتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے اپنے دور میں بھی سچی و حقیقی صحافت انجام دی ،درحقیقت صحافت ہی نبی پاک ﷺ نے سیکھائی ہے جو سچ، حق پر مشتمل ہے۔آپ ﷺ نے سب سے پہلے اللہ کے دین کی خبر کو بڑی ایمانداری، سچائی اور انتہائی مخالفین کی اذیت کو برداشت کرتے ہوئے بڑے احسن طریقے سے اس امت تک پہنچایا، آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے بڑی سچائی اور لگن کیساتھ اپنے دور حکومت میں حضور پاک ﷺ کی سنتوں ، حدیثوں کو آگے پہنچایا، صحابہ اجمعین علیہ رحمت کی حکومتیں براعظموں پر مشتمل تھیں لیکن پختہ ایمان اور سچائی کی بناءپر ان کے دور حکومت میں کوئی بھی عدل و انصاف سے محروم نہ تھا اور خبر رسانی کا نظام اس قدر مربوط تھا کہ کوئی بھی خبر سے باہر نہیں چھپ سکتا تھا اسی لیئے خلیفہ سے ڈرتے تھے کہ وہ بہت بڑے منصف تھے ان کے ہاں امیر و غریب میں کوئی فرق نہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ انہیں جواب اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو دینا ہے وہ ہمہ وقت عوام کی فلاح اور عدل کیلئے چاق و چونبد رہتے تھے۔ اسلام کے دیئے ہوئے تمام قوانین کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا تھا ، تاریخ اسلام نے بتایا کہ آدھی دنیا میں حکومت کرنے والے خلیفہ زمین پر سوتے اور شب و روز عبادت کے ساتھ نظام ریاست کو بھی دیکھتے تھے ، ان کے نظام ریاست میں کوئی جانور تک بھوکا نہیں سوتا تھا، وہ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور بے جان یعنی درخت پودوں کا بھی حساب کتاب رکھتے تھے ۔ جب تک نظام ریاست دائرہ اسلام میں رہا وہیں ابلاغ عامہ کو بھی سچائی، ایمانداری کا لباس اوڑھنا پڑھا لیکن جب مسلم حکومتوں نے دنیا پرستی کا راستہ اختیار کرلیا تب ابلاغ عامہ بھی مسلم دنیا میں ناپید اور پرگندہ ہوگیا۔ ابلاغ عامہ میں جھوٹ، لفاظی، تہمت،مکاری، عداوت، منافقت اور خود غرضی نے سمیٹ لیا۔ ۔جہاں سائنس نے دیگر شعبوں میں ترقی حاصل کی ہیں وہیں کمیونیکیشن کے شعبے میں گران قدر کارنامے سرانجام دیئے ہیں خاص کر سٹیلائٹ کے شروع ہونے سے رابطہ کا عمل جہاں تیز ترین ہوگیا ہے وہیں فاصلے بھی سمٹ آئے ہیں پل بھر میں دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود واقعات، حالات یا شخصی ملاقات ممکن بن گئی ہے جو با راستہ کمپیوٹر ہے۔ پاکستان بھی ابلاغ عامہ کے جدید نظام سے مروج ہوچکا ہے یہاں پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا تقریبا ً سب سے جدید مشینوں کا ا ستعمال شامل کرلیا ہے، کئی سٹیلائٹ چینلز نیوز سے لیکر انٹرٹینمنٹ مین کام کررہے ہیں ، اسی طرح اخبارات و رسائل خوبصورت رنگ و نقوش کیساتھ پرنٹ ہورہے ہیں ۔۔ ہر کوئی پہلے خبر تک پہنچنا چاہتا ہے اس بھاگ وڈور میں میڈیا کے ملازمین خاص کر رپورٹر، کیمرہ مین، ڈی ایس این جی ٹیکنیشین، ڈرائیور، پروڈیوسر، کاپی رائٹر، کاپی ایڈیٹر، ایڈیٹر، ٹیکر آپریٹر،اینکر، آئی ٹی اور دیگرافراد کام میں جھتے ہوئے ہوتے ہیں ان میں وہ اسٹاف جو آؤٹ ڈور مصروف ہوتا ہے وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہر خطرہ کو موہ لیتا ہے اسی لیئے پاکستان کے موجودہ جنگی حالات میں کئی صحافی حضرات کیساتھ میڈیا پرسن جام شہادت حاصل کرچکے ہیں ، یہی حال پرنٹ میڈیاسے تعلق رکھنے والوں کا ہے مگر حکومتی اور خود ادارے کی جانب سے کیا کوئی سیفٹی پالیسی قائم کی گئی ہے ، کیا ملازمین کی تنخواہیں میں سالانہ اضافہ کیلئے سمری پیمرا سے پاس کرائی ہے ؟کیا قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اس مد میں کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں ؟کیا چند ایک میڈیا پرسن جو اسکرین پر ہیں اور سیاسی شخصیات سے گفتگو کا پروگرام کرتے ہیں انہیں نواز دینے سے کیا دیگر مستحق میڈیا پرسن کے مسائل حل ہوجاتے ہیں ؟ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا کئی سالوں سے نہ قابلیت و تجربہ کی بنیاد پر ترقیاں دی گئی ہیں اور نہ مشاہراہ میں اضافہ کیا گیا ہے ۔بس چند ایک بالائی افسران اپنی ذات تک محدود رہتے ہوئے خود نمائی اور ذاتی فائدہ لیکر دیگر تمام ٹیم کیساتھ استحصال کررہے ہیں آخر ایسے افسران سے پوچھ گچھ کیوں نہیں ؟؟یقینا ٹیم ورک سے ہی کوئی چینل اور اخبار بہتر خدمات پیش کرسکتا ہے ۔۔ پیمرا میں آؤٹ ڈور افسر کس لیئے تعینات کیئے جاتے ہیں کیا ان کی ذمہ داریاں نہیں کہ وہ ملازمین کے مسائل سے آشنا ہوں اور ان کے مسائل کے سدباب کیلئے قانونی چارہ گوئی کی جائے تاکہ پاکستانی میڈیا بہتر انداز میں کام کرسکے ۔ یقینا مشینیں خود نہیں چلتی بلکہ انسان ہی انہیں چلاتے ہیں وہ انسان جو اس شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بہت سے چینلزمیں اس سلسلے میں پروگرام تو ہوئے مگر کبھی بھی حقائق کو ظاہر نہیں کیا گیا کیوں ؟؟؟ اینکرز کے ذاتی مفادات تھے کیا؟؟۔۔ دیکھا تو یہ بھی گیا ہے کہ کچھ ذمہ دار افسران اپنے تابع افراد کو ذاتیات کا نشانہ بھی بناتے ہیں اور پروفیشنلزم سے آنکھ چراتے ہوئے من پسند تابع افراد کو سہولت، ترقی اور تنخواہوں میں اضافہ کیلئے مالکان سے شفارش کرتے ہیں جبکہ ان افراد میں کافی نا اہل بھی ہوتے ہیں۔پاکستان مین یہ سلسلہ نہ صرف الیکٹرونک میڈیا میں پایا جاتا ہے بلکہ پرنٹ میڈیا بھی اس سے خالی نہیں ،اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اخلاقی لائحہ عمل بنانے کی اشد ضرورت ہے ،کہیں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مالکان ملازمین مین پھوٹ پیدا کیئے رکھتے ہیں تاکہ ملازمین میں ایکا نہ ہوسکے بحرحال دونوں جانب سے وہ ملازمین پس رہے ہیں جو ادارے اور کام سے مخلص ہیں ،ایسے ملازمین کی نہ ترقی ہوتی ہے اور نہ تنخواہوں میں کوئی خاطر خوا اضافہ۔اخلاقی نقطہ نظر سے تمام ملازمین کیلئے میڈیکل کی سہولت جہاں یقینی بنائی جائے وہیں انہیں بینیونٹ فنڈ سے بھی مستفیض کیا جانا چاہیئے۔ پاکستان میں فورسس کے ساتھ میڈیا کی خدمات بھی حالات جنگ سے کم نہیں ،ان کیلئے ہمدردی اور انسانی اخلاقی بنیادوں پر ایسے پر کشش مراعات دی جائیں تاکہ ہر شخص ادارے کیساتھ کیساتھ ملک و قوم کیلئے اپنی جان نچاور کرتے ہوئے پچھتائے نہیں!!!۔۔ہم اکثر چینلز پر دیکھتے ہیں کہ اسمبلیوں کے ممبران میڈیا میں کام کرنے والوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھکتے نظر نہیں۔۔۔ آخریہ منتخب نمائندے کوئی فلاحی قانون کیوں نہیں اسمبلی میں پاس کراتے تاکہ میڈیا سے تعلق رکھ نے والے بیشمار لوگوں کو ان کا حق میسر آسکے ، آخر ان کی فریاد کون سنے گا۔۔۔ اگر پیمرا میں قانون پہلے سے قائم ہے تو کون اس پر عمل درآمد کرائے گا ؟؟ یہ وہ سوال ہے کہ جن کو حل کرکے ہی میڈیا سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں کے مسائل حل کیئے جاسکتے ہیں۔ ورنہ شائد پاکستان میں ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہے یہاں بھی سہی!!!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد ٭٭٭٭٭٭

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 245976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.