سابق صدر مشرف جیسے کمانڈو ہیں
ویسے ہی کمانڈو ان کے وکیل احمدرضا قصوری ہیں۔ وہ ایک وکیل کے ساتھ ساتھ
ایک اچھے اداکار ہیں،جو حالات کے مطابق اپنے کردار کو ڈھال کر مکالمات
بولنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو خبروں میں رکھنے کا فن جانتے ہیں۔
گزشتہ روز مشرف کی عدالت میں عدم پیشی اور میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے پوچھے
گئے سوال پر وہ پھر آپے سے باہر ہوگئے۔ وہ سوال پوچھنے والے صحافی پر برس
پڑے اور اسے لفافہ جرنلسٹ اور بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ
تم وہ لوگ ہو جو لفافہ جرنلزم کررہے ہوں، ہمیں تمہارے ساتھ بھی مقابلہ کرنا
پڑے گا۔ احمدرضا قصوری نے اتنی بار شیم آن یو کے الفاظ کہے، کہ ان الفاظ کو
بھی اس معزز وکیل پر شرم آنے لگی۔ مشرف کیس میں اب ان کے حمائیتی بے نقاب
ہونے لگے ہیں۔ برسوں ایک آمر کے سائے میں پلنے والے جمہوری گدھ، ایک آئین
شکن،لال مسجد کے خاک نشینوں پر کلسٹر بم گرانے والے ، کراچی میں بارہ مئی
کو خون میں نہلانے اور اسے اپنے جلسے میں طاقت کا مظاہرہ قرار دینے والے اس
کمانڈو کی حمایت میں صف بندی کرتے نظر آتے ہیں، نمک کھانے والے اپنا حق نمک
ادا کر رہے ہیں۔ مشرف کے دور میں ایک جمہوری وزیر اعظم پر غداری کے مقدمے
میں مہر بلب سیاستدان، اب غداری کے لفظ سے خوف کھاتے ہیں۔ کیا آئین صرف ایک
دستاویز ہے، کیا اس میں لکھے حرفوں کی کوئی حرمت نہیں ہے، کوئی جب چاہئے
اسے اٹھا کر پھینک دے۔ پر اسے اپنے حلف کا بھی پاس نہ ہو، ایسے آمر کو غدار
نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ غدار کی حمایت کرنے والے بہت ہیں ۔لیکن احمد
رضا قصوری کا جواب نہیں ۔ ایک بار ٹی وی پروگرام میں یوں گویا ہوئے،،
نوازشریف اور سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری مل کر مشرف کو سزادلانا چاہتے ہیں
لیکن ایسا نہیں ہوگا۔،، اور دوسرے ہی لمحے کہنے لگے،، میں پاکستان کی تاریخ
میں طاقتور افراد میں سے ہوں۔ میں نے بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دیا تھا۔
بھٹو کے کیس میں سزاکا مطالبہ کررہا تھا اور مشرف کے کیس میں ان کا دفاع
کررہا ہوں۔ وہاں بھی جیتا تھا اور اس مرتبہ بھی جیتوں گا۔،، احمد رضا قصوی
کے والدقصور کے نواب محمد احمد خان قصوری نے انگریز کے زمانے میں بطور
مجسٹریٹ ایک کارنامہ انجام دیا تھا۔ ان دنوں جنگِ آزادی کے ایک ہیرو بھگت
سنگھ کو جیل میں پھانسی دینے کے لئے کوئی مجسٹریٹ وہاں جانے کے لئے راضی
نہیں ہو رہا تھا، کیونکہ جیل کے تمام قیدی مشتعل تھے، نواب محمد احمد خان
نے انگریز کیا کاسہ لیسی میں یہ خدمت سرکار انگلشیہ انجام دی۔د احمد رضا
قصوری گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے طالب علم لیڈر
تھے ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں پیپلز پارٹی بنائی تو وہ ذوالفقار علی
بھٹو کے پرستاروں میں سے تھے۔ انہیں 1970ء کے الیکشن میں پی پی پی کی ٹکٹ
بھی حاصل کی اور ممبر قومی اسمبلی منتخب بھی ہو گئے۔لیکن جلد ہی بھٹو سے دل
بھر گیا۔ ابتدائی دور میں وہ ذوالفقار علی بھٹو کو جمہوریت کا چیمپیئن کہا
کرتے تھے اور خوب زور دار آواز میں پارٹی اجلاس میں انہیں،، میرے چیمپیئن
،،کہتے نہ تھکتے تھے۔سابق صدر پرویز سے احمد رضا قصوری کو اتنی محبت ہے کہ
ایک ٹی وی پروگرام میں وہ یہ کہ کر آبدیدہ ہوگئے کہ سابق صدر دو کمروں میں
قید ہیں۔ احمد رضا قصوری کے ساتھ ہاتھ اس وقت ہوا تھا ۔ جب سپریم کورٹ میں
صدر کے دوعہدوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت سے پہلے پشاور سے آئے ایک وکیل
نے ان کے( احمد رضا قصوری) کے چہرے پر سیاہ رنگ کا اسپرے کردیا۔ پشاور کے
وکیل محمد خورشید نے اچانک ان کے چہرے پر سیاہ رنگ کا اسپرے کرکے داغ بھی
ایسے دیئے کہ چھڑائے نہ بنے ، اور یوں احمد رضا قصوری اپنے رو سیاہ کے ساتھ
مقدمے کی سماعت کرنے والے نو رکنی لارجر بینچ کے روبرو پیش ہوئے اور اپنے
ساتھ پیش آنے والے واقعے پر غم و غصہ کا اظہار کیا۔بینچ کے سربراہ جسٹس
رانا بھگوان داس نے انہیں ہدایت کی کہ وہ تحریری شکایت پیش کریں۔ اسوقت
انھوں نے اپنے وکیل برادری کے لئے کہا تھا کہ ،، میرے ساتھ ایساکر نے والے
کالے کوٹ میں دہشت گرد ہیں ، یہ لوگ ہمارے پیشے پر بد نما دھبہ ہیں،، مجھے
مشرف غداری کیس سے بھٹو کا مقدمہ اور یحیی بختیار یا د آگئے، جو اخباروں
میں تو شہ شرخیوں میں شوشے چھوڑتے رہے ۔ لیکن مقدمے پر دھیان نہ دیا ، مشرف
کے وکیلوں کو چاہیے کہ دھیان سے مقدمے پر توجہ دیں۔ ٹرائل کو سنجیدگی سے
لیں، یہ نہ ہو کہ جس طرح منتخب وزیراعظم پھانسی پر چڑھ گیا اسی طرح سابق
ڈکٹیٹر کے ساتھ بھی کچھ ہوجائے۔ |