زندگی میں بطور انسان ہمیں بہت
کم مواقع ملتے ہیں کہ ہم اپنے اندر کی صلاحیتیں کسی ایسے اچھے کام میں صرف
کردے کہ آنے والے کل میں ہمیں کاش جیسا لفظ استعمال کرنے کی کوفت سے نہ
گذرنا پڑے جو وقت آج ہمارے پاس ہے آنے والے دنوں میں ہمارے پاس نہیں ہوگا
ہوسکتا ہے کہ نہ اقتدار ہو نہ یہ اختیار ہو اور نہ ہی یہ طاقت موجود ہواور
زندگی ویسے بھی مواقع نہیں دیتی کیونکہ ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے مسئلے
مسائل اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ خود ہمیں اپنے آپ سے ہی فرصت نہیں ملتی اور
زندگی کے اسی گورکھ دھندے میں ہم نہ کچھ اپنا سنوار پاتے ہیں اور نہ ہی کسی
اور کا بھلا کرتے ہیں انسانی زندگی اب اتنی تیز ہوچکی ہے کہ ایک لمحے کی
تاخیر برداشت سے باہر ہوجاتی ہے اسی لیے تو کسی اشارے کی لال بتی پر کچھ
سیکنڈ کے لیے رکنا بھی ہمارے لیے باعث تکلیف بن جاتا ہے ایک دوسرے کے جذبات
اور احساسات کو روندتے ہوئے ہم اس برق رفتاری سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہیں
کہ اپنے پرائے کی پہچان کہیں دور کھو چکے ہیں مگر جب اچانک سانسوں کا زندگی
اور جسم سے رابطہ ٹوٹتا ہے تو پھر ہماری ساری کی ساری تیزی اور مصروفیات
دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے آج کے
بارے میں سوچتے ہونگے اکثر لوگ ماضی کو لیکر بیٹھے رہتے ہیں یا مستقبل کے
سنہری خواب دیکھتے رہتے ہیں ہماری تربیت میں شائد کہیں نہ کہیں کوئی کمی
ہوتی ہے کہ ہم بچپن میں جلدی جلدی بڑے ہونے کی سوچتے ہیں جب بڑے ہوجاتے ہیں
اور کچھ کرنے کی ہمت ہوتی ہے تو پھر کہتے ہیں کہ بچپن بڑا اچھا تھا کاش ہم
بچے ہی رہتے جب جوانی کی سرحدپر قدم رکھ کرکے ہم بڑھاپے کی دہلیز پار
کرجاتے ہیں تو اس وقت ہمیں جوانی بڑی شدت سے یاد آتی ہے اگر ہم نے اپنی
زندگی کے ہر حصہ میں اپنی استطاعت کے مطابق کام کیا ہو اور خلق خدا کی نیک
نیتی سے خدمت کی ہو تو پھرآنے والا ہر پل ہمیں ایک نئی خوشی سے سرشار
کریگااور ایسے لوگ اب ہمارے معاشرہ میں بہت ہی کم رہ گئے ہیں جن کے کیے
ہوئے کام مدتوں یاد رکھے جائیں گے بعض لوگوں کے لیے قدرت ایسے مواقع پیدا
کرتی ہے کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی وہاں کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو
انکے مزاج کے خلاف ہو مگر انکے کے اندر جو انسان بیٹھا ہوا ہے وہ انہیں
مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ ابو بن ادم کے خواب کی طرح ایسے کام کرتے رہیں جن
سے اﷲ تعالی خوش ہوتا ہے آج کے اس نفسا نفسی اور مفاد پرستی کے دور میں بھی
اگر کسی کو ایسے افراد سے ملنے اور انہیں دیکھنے کا شوق ہو تو دو افراد کا
میں آپ کو بتائے دیتا ہوں ان میں سے ایک جاوید محمود ہے جو آپ کوکبھی
صوبائی محتسب کے دفتر میں اور کبھی پنجاب کے دور دراز دیہاتی علاقوں میں
بوڑھے اور بے سہارا پاکستانیوں کی خدمت کرتا ہوا نظر آئے گااس عمر میں انکی
پھرتیاں دیکھ کر ایسا لگتا ہے شائد وہ اپنا کوئی پچھلا حساب کتاب برابر
کرنے میں مصروف ہیں ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے دور میں اتنا کام نہ
کیا جتنا یہ آجکل کررہے ہیں دوسرے شخص ڈاکٹر سہیل ثقلین ہیں جو آپ کو لیڈی
ایچی سن ہسپتال میں کبھی مالی کے روپ میں نظر آئے گا تو کبھی وارڈ بوائے کے
رنگ میں رنگا ہوا ملے گا یہ منفرد انداز کا شخص اتنے اہم اہم عہدوں پر رہنے
کے باوجود بھی اپنے مشن سے نہیں بھٹکا جہان گیا وہیں داستانیں چھوڑآیا
زندگی ہمیشہ انسان کا ساتھ نہیں دیتی ان جیسے افراد سے ہم نے بہت سے کام
لینے ہیں اگر آپ آج اس سیٹ پر ہیں تو ہوسکتا ہے کہ قدرت نے آپ سے اسی جگہ
کوئی کام لینا ہو اور ہمیں ایسے افراد کو چن چن کر ایک لڑی میں پرونا ہے
یہی ہماری امید ہیں یہی ہمارا پاکستان ہیں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ
ہیں جو زندگی کے مختلف حصوں میں اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور
اپنے طور پر اچھے کام بھی کررہے ہونگے اگر انہوں نے ایک سو افراد کی خدمت
بغیر کسی لالچ کے کی اور ایک فرد سے کسی قسم کے لالچ کی امید رکھ لی تو
سمجھیں کہ انکی پچھلی نیکیاں انکے نامہ عمال میں درج تو ضرور ہونگی مگر
انکی عزت میں اضافے کا باعث نہیں بنے گی اس لیے بغیر کسی لالچ اور مفاد کے
کام کرنے والے شخص سے اﷲ تعالی ایسے ایسے کام کروالیتا ہے جو مرنے کے بعد
بھی صدقہ جاریہ بن کر اسے زندگی بخشتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی
ایسے افرد کا ذکر ہوتا ہے جسکی انسانیت کے لیے لازوال قربانیاں ہوں یا جس
نے نیک نیتی کے جذبہ سے عوامی خدمت کے کام کیے ہوتو وہ شخص اپنے اصل حلیے
میں ہماری تصوراتی آنکھ کے سامنے مسکراتا ہوا موجود ہوتا ہے آخر میں ان
دونوں زندہ ہستیوں کے نام ایک اپنا ہی شعر۔
چلے آؤ کہ در کھلے ہیں ابھی آنکھوں کے روحیل
نکالو ڈول خواہشوں کے ہم ہیں کنویں محبت کے |