تاریخی نام’ ابو ظفر‘ پورا نام ابو ظفر سراج الدین محمد
بہادر شاہ،اردو زبان میں تخلص’ ظفر‘، بھاشا اور دوسری زبانوں کی شاعری میں
’شوق رنگ‘ تخلص تھا۔معین الدین اکبر ثانی کی ہندو نژاد بیوی لال بائی جو
ایک راجپوت خاندان سے تھی کے بطن سے ۲۴ ؍اکتوبر ۱۷۷۵ء کو پیدا ہوئے۔اپنے
والدین کی سب سے بڑی اولاد تھے ۔شہنشاہوں کے گھر پیدا ہونے والے بچے کی
تعلیم و تربیت شہزادوں کی طرح ہونا ایک لازمی امر تھا۔حافظ محمد خلیل نے
کلام مجید پڑھایا، اتالیق کے فرائض حافظ ابراھیم نے انجام دئے جنہوں نے
شہزادے کو فارسی انشا پردازی اور عربی کی تعلیم سے سرفراز کیا۔ بہادر شاہ
ظفر ؔکے دادا شاہ عالم ثانی کا انتقال ۱۸ نومبر ۱۸۰۶ء کو ہوا تو بہادر شاہ
کے والد معین الدین اکبر شاہ ثانی تخت نشین ہوئے اس وقت بہادر شاہ ظفر کی
عمر اٹھائیس برس تھی۔بادشاہت کا انحطاط شروع ہوچکا تھا۔ انتظامی امور
انگریز بہادر کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارندے چلایا کرتے تھے۔ ۱۸۰۰ء تک
ہندوستان پر کمپنی کی گرفت انتہائی مضموط ہو چکی تھی، شاہ ثانی نا م کے
حکمراں رہ گئے تھے۔ جنوری ۱۸۱۰ء میں بہادر شاہ ظفرؔ کو ولی عہدی کے مرتبے
پرفائز کیا گیا۔ بہادر شاہ ظفر کی ماں ایک راجپوت تھی شاید یہی تعلق
راجپوتوں سے محبت اور قربت کا تھا جس کے باعث بہادر شاہ ظفر نے ۱۸۲۵ء میں
نواب احمد قلی خان راجپوت جو بھٹنیر(موجودہ نام بیکانیر) کے ایک جاگیر دار
تھے کی بیٹی سے شادی کی اس وقت بہادر شاہ ظفر کی عمر پچاس سال تھی۔بہادر
شاہ ظفر۳۰ ستمبر ۱۸۳۷ء کو جب کہ ان کی عمر ۶۳ سال تھی تخت شاہی پربراجمان
ہوئے۔ بادشاہت کمزور سے کمزورتر اور انگریز طاقت ور ہوتا گیا ۔ رفتہ رفتہ
انگریز دہلی پر قابض ہوگیا ۔ سقوط دہلی ایک درد ناک داستان ہے۔ جون ۱۸۵۸ء
لال قلعہ میں بہادر شاہ پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور موت کی سزا سنادی
گی جس کو بعد میں جلاوطنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ بادشاہ کو تمام اہل و عیال
جو بھی تھے کے ہمراہ دلی سے الہ آباد ، مرزا پور،بکسر، دینا پور،رامپور
بلیا، کھلنا، اور پھر جنگی جہاز ماگارے کے ذریعہ ۹ دسمبر ۱۸۵۸ء کو رنگون
پہنچا دیا گیا۔بہادر شاہ نے اپنے سفرکا کچھ اس طرح اشعار
میں بیان کیا
جلایا یار نے ایسا کہ ہم وطن سے چلے
بطور شمع کے روتے اس انجمن سے چلے
نہ باغ باں نے اجازت دی سیر کر نے کی
خوشی سے آئے تھے روتے ہوئے چمن سے چلے
رنگون کے قید خانے میں قلعے والوں کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا گیا لیکن اس
کے باوجود بہادر شاہ ظفرکی صحت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اس کی وجہ ایک تو
ضعیفی تھی اور یہ بھی کہ کہاں بادشاہ وقت کہاں ایک قیدی۔ صحت پر تو لازمی
اثر پڑنا ہی تھا۔حلق پر فالج کا حملہ ہوا، کھانا پینا جاتا رہا ۔ اس کے
باوجود اسی کیفیت میں چار سال گزار کر ۷ نومبر ۱۸۶۲ء بروز جمعہ بہادر شاہ
ظفر اﷲ کو پیارے ہوئے جہاں قید تھے اسی جگہ ان کی قبر بھی بنا دی گئی۔
’تاریخِ ادبِ اُردُو ‘کے مصنف ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے کہ ’بہادر شاہ
ظفرؔ عظمتِ رفتہ کی آخری نشانی تھے۔ مزاجاً رحم دل، بامروت، غریب پرور،
وسیع المشرب اور خلیق تھے ۔ نخوت و غرور نام کا نہ تھا۔ خواجہ حسن نظامی نے
ظفرؔ کو ’دہلی کا آخری سانس‘ قرار دیا ۔بہادر شاہ ظفرؔ نے اپنے وطن میں دفن
نہ ہونے کا اظہار کرب اور
افسوس کے ساتھ اپنی ایک غزل میں خوبصورت انداز میں کیا
ہے کتنا بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
حسرت سے بہادر شاہ ظفرؔ نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ان کی خواہش تو
تھی کہ ان کا گھر مدینہ میں بنے
یہی حسرت تھی کہ گھرمیرا مدینہ میں بنے
بنا رنگون میں ارماں مرے سینے میں رہے
بہادر شاہ ظفرؔ کے زمانے کے ایک شاعر نے اسی مضمون کو کچھ اس طرح بیان کیا
نہ دبایا زمیں نے اُنھیں نہ دیا کسی نے کفن اُنھیں
نہ ہوا نصیب وطن اُنھیں نہ کہیں نشان مزار ہے
بہادر شاہ ظفر کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے دادا شاہ عالم ثانی کی زیر
سرپرستی ہوئی ، شاعری اور فن خطاطی کا شوق بھی دادا کی تربیت کا نتیجہ تھا۔
بہادر شاہ ظفر کے والد اکبر شاہ ثانی بھی شاعر تھے اور شعاعؔ تخلص کیا کرتے
تھے۔ جب کہ ان کے دادا شاہ عالم ثانی بھی شاعر تھے اور آفتاب ؔ تخلص کیا
کرتے تھے ۔گویا بہادر شاہ ظفرؔ کو شعر و سخن کی نعمت اپنے اجداد سے وراثت
میں ملی تھی
انہوں نے شاہی ماحول میں آنکھ کھولی جس کا اظہار اپنے ایک شعر میں اس طرح
کیا
جو ہیں ظفرؔ پیدائش ان کی بے فکری میں گزرے ہے
آٹھ پہر اندیشہ ہی میں دانشور کے جاتے ہیں
بہادر شاہ ظفرؔ کے جسم میں شہنشاہوں کے ساتھ ساتھ شعراء اور ادباء کا خون
بھی رواں تھا جس نے بہادر شاہ کو سخن فہمی کی جانب مائل کیا ۔ انہیں شاہی
ماحول میں موجود بلند پایہ شاعر وں و دانشور وں کی صحبت بھی میسر تھی ۔ یہ
دور اکبر شاہ ثانی کا تھا۔ میر عزت اﷲ عشقؔ، شاہ نصیر، محمد ابراہیم ذوقؔ،
میر کاظم حسین اور اسد اﷲ خان غالبؔ جیسے بلند پایہ شعراء دربار سے وابستہ
تھے۔ بہا در شاہ ظفر نے ان شعراء کے درمیان نہ صرف آنکھ کھولی بلکہ ان سے
بہت کچھ سیکھا۔ ان شعراء کی تربیت کا یہ اثر ہوا کہ بہادر شاہ کم عمر ہی سے
شعر کہنے لگے۔ پروفیسر ڈاکٹر سردار احمد خان نے اپنی تصنیف ’بہادر شاہ ظفر
شخصیت، فکر و فن‘ میں لکھا ہے کہ’ ظفر ؔ نے دس سال کی عمر سے شعر گوئی کی
تو انھوں نے میر عزت اﷲ عشقؔ اور شاہ نصیر سے تقریباً بیس سال مشورہ سخن
کیا ہوگا‘۔بہادر شاہ ظفر کی شاعری میں شاہ نصیر کی جھلک دکھائی دیتی ہے ان
کے بعض اشعارسے یہ واضح ہے
سنگ لاخ ایسی غزل تونے یہ لکھی ہے ظفرؔ
سن کے ہوجائیں جیسے طبع کے گھوڑے پتھر
بہادر شاہ ظفرؔ کا تعلق استاد ذوقؔ سے بھی گہرا رہا۔ ظفرؔ کے کلام میں
استاد ذوقؔ کا تذکرہ ملتا ہے۔جس سے اندازہ ہوتا
ہے کہ ظفرؔ ، ذوق ؔ کو اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔
ترے سخن میں ہے استاد ذوقؔ کا وہ فیض
غزل نہ لکھی کسی نے ظفر ؔ برابر کی
بعض نقادوں نے ظفرؔ کے کلام کو استاد ذوقؔ سے منسوب کیا اور کہا کہ ظفر ؔ
کیونکہ دینے والے منصب پر تھے اور استاد ذوق لینے والے منصب پر تھے اس لیے
ذوقؔ ،ظفر کو شعر لکھ کر دیا کرتے تھے۔ڈاکٹر جالبی کے مطابق
ظفرؔ(پیدائش۱۱۸۹ھ؍۱۷۷۵ء)ذوقؔ (پیدائش ۱۲۰ھ؍۱۷۸۹ء) کے ہوش سنبھالنے سے پہلے
صاحب دیوان بن چکے تھے اور ظفر،ؔ ذوقؔ سے عمر میں چودہ سال بڑے تھے۔ دیوانِ
کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ظفر اپنا دیوان ۱۲۱۴ھ؍۱۸۰۰ء میں مکمل کر چکے
تھے ‘۔ جالبی صاحب نے حافظ محمود شیرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے
بھی اس بات کی تردید کی ہے کہ ظفرؔ کا کلام استاد ذوقؔ کاکہا ہوا ہے اس بات
کی نفی کرتے ہوئے اسے بے بنیاد اور اور لغو قرار دیا ہے۔ اسی طرح مورخین نے
مولانا محمد حسین آزادؔ اور انگزیز مورخ اسپرنگر کی تنقید کو بھی بے سرو پا
قرار دیاہے۔منشی امیر احمد علوی نے اپنی کتاب’ تاجدارِدہلی محمد سراج الدین
بہادر شاہ ظفر‘مطبع ۱۹۲۵ء لکھنؤ میں لکھا ہے کہ ’کلیات ظفرؔ کا بیشتر حصہ
ذوقؔ کا اصلاحی ہے اس میں کلام نہیں ظفرؔ کی شاعری کو ذوقؔ کی تربیت سے
فروغ ہوا‘۔ امیر احمد علوی کے مطابق’ مؤلف تذکرۂ گل رعنا ‘ کا کہنا ہے کہ
’ذوقؔ، ذوقؔ ہیں،ظفرؔ کے استاد، ان کے کلام کی رنگینی، ترکیب کی چستی،
مضمون کی بندش، جوش و خروش ان کی باتیں ان کے ساتھ ہیں۔ ظفرؔ کے یہاں جو
سامان نطر آئے گا وہ اس سے ملتا جلتا ہوگا۔ محاوروں کی فراوانی یہاں زیادہ
ملے گی مگر جوش و خروش کی جگہ دل و جگر کے ٹکڑے حروف والفاظ بن کرآنسؤں کی
سیاہی اور جگر دوکے قلم سے لکھے ہوئے تم کو ملیں گے اب انہیں ظفرؔ کا سمجھو
یا ذوقؔ کا‘۔
استادذوقؔ ۱۸۵۴ء مطابق ۱۲۷۱ھ میں انتقال کرگئے۔ اب بہادر شاہ ظفرؔ کو اپنے
کلام پر اصلاح لینے کے لیے کسی اور استاد شاعر کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت
پیش آئی۔ مرزا غالبؔ سے بہتر کوئی اور استاد کون ہو سکتا تھا۔چنانچہ ذوقؔ
کے بعد قلعہ میں غالبؔ کی خوب قدر افزائی ہوئی اور غالبؔ نے بہادر شاہ کے
کلام پر اصلاح بھی دی ۔ لیکن بقول الطاف حسین حالیؔ ،’ مرزا غالبؔ اس کام
کو بادل ناخواستہ سر انجام کرتے تھے‘۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غالب ؔکا اصلاح
شدہ کلام غدر میں تلف ہوگیا۔ قلعہ میں مرزا غالبؔ کی قدر دانی عروج پر تھی
، غالب ؔ اپنی شوخی سے بھلا کیسے باز آسکتے تھے۔ ایک روز شہنشاہ کے حضور یہ
شعر کہا
ملے دو مرشدوں کو قدرت حق سے ہیں دو طالب
نظام الدین خسرو ، سراج الدین کو غالبؔ
بہادر شاہ ظفر ؔ ان شعرا ء میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہمعصر شعرا کا
باریک بینی سے مطالعہ کیا ۔ مرزا مظہر جاں جانا، میر دردؔ، مرزا رفیع
سوداؔ، کا دور گزر چکا تھا، میر تقی میر ؔ موجودتو تھے لیکن وہ ضعیف ہو چکے
تھے ۔ظفرؔ کی متعدد غزلیں معروف شعراء کی زمین میں ہیں لیکن ظفرؔ کا انداز
سخن اپنی جگہ انفرادیت لیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ان کا شعری قد بلند پایہ
شعراء سے کسی بھی طور پیچھے نظر نہیں آتا کسی کسی جگہ تو وہ ان سے آگے ہی
دکھائی دیتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر سردار احمد خان’غالبؔ کا انداز سخن اگر چہ
دوسرے شعراء سے علیحدہ ہے لیکن ظفرؔ نے غالبؔ کی طرح جو غزلیں کہیں ان میں
وہ غالبؔ کے دوش بدوش نظر آتے ہیں‘۔ اس حوالے سے ظفرؔ کے بعض شعر ملاحظہ
کیجئے
حیدر علی آتشؔ کا یہ شعر
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالعِ بیدار نے ہونے نہ دیا
اسی زمین میں ظفرؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو
رات بھر مجھ کو غم یار نے سونے نہ دیا
صبح کو خوفِ شبِ تار نے سونے نہ دیا
غالبؔکا یہ شعر دیکھئے
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیان اور
اب ظفرؔ کا شعر ملاحظہ ہو
مینھ خوب برستا ہے جو ہوتی ہے ہوا بند
بہتے ہیں ظفرؔ اشک دمِ صبطِ فغاں اور
بہادر شاہ ظفرؔ کی شاعری ، شاعری کے جملہ رموز و اوقاف کی پابند نظرآتی ہے۔
ان کی شاعری اپنے اندر ایک مقصد لیے ہوئے ہے۔ وہ اپنی شاعری سے اخلاقیات کا
پیغام دیتے ہیں ، شاعری کو لفظوں کی کتھا نہیں سمجھتے بلکہ وہ شاعری کو ادب
کا اہم فن تصور کرتے ہیں اور اسے علماء و فضلاء کی ذمہ داری بھی۔ وہ شاعری
میں نئے نئے مضامین اور خیالات کو سامنے لانے کے قائل ہیں
ایک جگہ کہتے ہیں
جسے تلاش ہے مضمون کی جانتا ہے وہ
کہ ہے تلاش سے سب کی جدا ظفرؔ کی تلاش
بہادر شاہ کی شاعری سادہ اور عام فہم ہے ۔ ہر خاص و عام اس سے لطف اٹھا تا
ہے۔ ساتھ ہی ظفرؔ خوش فکر کے بھی قائل ہیں۔ کہتے ہیں
تجھ سا تو خوش فکر و خوش گفتار دیکھا ہی نہیں
جو غزل تیری سنی ہم نے ظفرؔ اچھی سنی
بہادر شاہ ظفرؔ نیک ، پابند صوم و صلوۃ تھے۔ غالبؔ نے انہیں ’شاہِ دیں دار‘
کہا ۔ مذہبی طور پر پیر مریدی کی جانب مائل
اور مولانا فخر الدین سے بیعت تھے ۔ اپنے پیر و مرشد کے لیے یہ شعر کہا
اے ظفرؔ دل سے ہوں خاکِ در ِ فخر الدین
معتقدمیں نہ گداؤں کا ہوں نہ شاہوں کا
منشی امیر احمد علوی نے لکھا ہے کہ ’بہادر شاہ ظفر پر درویش کا رنگ چھڑا
ہوا تھا ۔ اسرار و نکاتِ تصوف بیان فرمانے اور پیری ومریدی فروغ پر تھا۔
اپنے مریدین کو پانچ سو روپے ماہوار بطور مددِ معا ش کے خزانہ عام سے ملتا
تھا۔دوسری جانب بہادر شاہ کورقص و موسیقی سے بھی جذباتی لگاؤ تھا۔ بقول
ڈاکٹر جمیل جالبی ’تقویٰ اور رقص و موسیقی کا یہ تضاد اس لیے تھا کہ عظمتِ
رفتہ کی روایت کا حصہ تھا۔ ایسا ہی ہوتا آیا تھا، اس لیے ایسا ہی ہونا
چاہیے اور اسی لیے ایسا ہی ہوتا رہا‘۔
ظفرؔ مسلمانوں اور ہندوں میں یکساں عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ اس کی
وجہ ان ان کے مزاج میں پایا جانے والا وہ جذبہ تھا جس کے باعث وہ ملت سے
محبت ، مذہب سے عشق کے علمدار تھے ۔ تعصب جیسی کوئی چیز بہادر شاہ ظفرؔ میں
موجود نہیں تھی۔خطاطی میں خطِ نسخ کے ماہر تھے ۔ اپنے خوش نویس ہونے پر
فخرتھا ۔ کہتے ہیں
خوش نویس ایسا ہے تو دیکھ کے ہوتے ہیں خجل
تیرے خامے کی ظفر ؔ صاحبِ فرہنگ تراش
بہادر شاہ ظفرؔ غزل میں جدت پسندی اور نئے نئے موضوعات ، انوکھے پن کے قائل
ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر غزل میں کوئی انوکھی چیز نہ ہوتو اس غزل کے بیان
کرنے میں انہیں لطف نہیں آتا ایک جگہ وہ کہتے ہیں
دل اپنا فکر غزل میں نہیں لگتا
زمیں غزل کی نہ ہووے اگر انو کھی سی
باندھے نئے مضامین چن کر ظفرؔ سب اس میں
تجویز جس غزل کی ہم نے زمیں نئی کی
ظفر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے ہر صنف سخن میں طبع
آزمائی کی ہے اسی طرح اردو اور فارسی کے علاوہ ہندی اور پنجابی میں بھی طبع
آزمائی کی ہے ۔حمدِ باری تعالیٰ کے حوالے سے ظفرؔ کہتے ہیں
کہاں ایسا ہمارا منہ کہ ہوجاوے ادا ہم سے
ظفر ؔ حمدِ الہٰی وہ جو شایانِ الہٰی ہے
نعت ِ رسول مقبول ﷺ کے بیان کرنے پر ظفر ؔ نے کہا
منہ کیا مر ا ظفرؔ جو کہوں نعت مصطفےٰ
ان کی ثنا خدانے ہے قرآن میں لکھی
خلفہ ٔ راشدین سے محبت و عقیدت ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ اس کا اظہار انہوں
نے اس طر ح کیا
ابوبکر و عمر ، عثمان و حیدر کا ہے کہا کہنا
ظفر ہم خاکِ پا ان چار یار مصطفیٰ کے ہیں
وہ مسلماں ہیں ظفر ساحب ِ ایماں کہ جنھیں
نہ صحابہ سے ہو بغض اور نہ شبیر سے لاگ
بہادر شاہ ظفر ؔ نے ادب کی تمام تر اصناف میں شعر کہے ان میں حمد، نعت رسول
مقبول ﷺ ، رباعی،مثلث،مخمس،پنکھا، قطعات، سہرے،سلام مرثیہ،دوہے،ٹھمریاں،
مسدس،تضمین شامل ہیں۔ظفر کے کلام میں موسیقیت بھی پائی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے
کہ گانے والوں نے ان کے کلام کو خوبصورتی سے گایا ہے۔ظفرؔ کی مشہور غزل کے
یہ شعر ملاحظہ کیجئے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکا میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
نہ تو میں کسی کا حبیب ہوں‘ نہ تو میں کسی کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں ‘ جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
ظفر ؔ کی ایک اور خوبصورت غزل کے چند اشعار
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے دل کون ترا صبر و قرار
بے قراری مجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
بہادر شاہ ظفرؔ کی شاعری میں یاسیت ہے، نرماہٹ ہے، غم انگیزی ہے، میٹھاس ہے
اثر انگیزی ہے ، قیدکی تنہائی کا دکھ ہے، کرب ہے، ویرانگی ہے، ٹوٹ پھوٹ ہے،
عرش سے فرش پر آنے کی کسک ہے۔ظفرؔ کی شاعری دل پر اثر کرتی ہے۔
خوب گزری گرچہ اوروں کی نشاط و عیش میں
اپنی بھی رنج و الم کے ساتھ اچھی نبھ گئی
اے ظفرؔ یہ ترے اشعار ہیں یا لۂ زار
کیا بلا ہیں کہ جویوں دل میں اثر کرتے ہیں
بہادر شاہ ظفرؔتاجدارِ دہلی کے علاوہ ایک شاعر کی حیثیت سے عوام الناس میں
زیادہ جانے جاتے ہیں ۔ انہیں مقبول شاعروں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔
ان کی بعض بعض غزلیں عوام میں بے انتہا مقبول ہیں۔ مختلف موضوعات پر ظفرؔ
کے اشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ چند موضوعات اور شعر ملاحظہ کیجئے
بھلائی کرناواجب
ہے یہ نسخہ خوب ظفرؔ کام آئے گا اس کو یاد رکھو
کوئی برائی لاکھ کرے پر تم پر بھلائی واجب ہے
خاکساری
اے ظفرؔ خاک سے انسان کا بنا ہے پتلا
خاکساری ہی سے دنیا میں ہے انساں کی نمود
خدمت میں عظت ہے
وہ سچ کہتے ہیں خدمت ہی میں عظمت ہے
کہ جو ہوتا ہے خادم پھر وہی مخدوم ہوتا ہے
حرص
خدا محفوظ رکھے آدمی کو حرص دنیا سے
کہ جو رہتا ہے اس میں ذلت و خواری میں رہتا ہے
دوستی
دوست اچھے ہو تو پوری دوستی کے ہو رہو
یا کسی کو کر رکھو تم یا کسی کے ہو رہو
نادان کی دوستی
نہیں ناداں کی دوستی بہتر بلکہ دانا کی دشمنی اچھی
وضع داری
ہم اس کی بات کے قائل ہیں اے ظفرؔ جس نے
بھلا کہا جسے منہ سے اسے برا نہ کہا
ڈاکٹر جمیل جالبی نے ظفرؔ کی شاعری کو ان کی آپ بیتی قرار دیا اور کہا کہ’
اس کے مطالعہ سے ان کی زندگی اور رویوں کا کھوج لگایا جا سکتا ہے ان کی
شخصیت کی تصویر اتاری جاسکتی ہے‘۔ ظفرؔ کی مشہور زمانہ غزل کے چند شعر
لگتا نہیں ہے دل میرا جڑے دیا میں
کس کی بنی ہے عالم ِ نا پا ئیدار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں
کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہا ہے دلِ د اغدار میں
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
ہے کتنا بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
منشی امیر احمد علوی کے مطابق بادشاہ کے پانچ دیوان تھے لیکن دفتر پنجم
آشوب غدر میں ضائع ہو گیا۔ دیوان اول ، دوم، سوم اور چہارم راقم کو انجمن
ترقی اردو کے ’کتب خانہ خاص‘ میں ملے اور راقم نے ان کا مطالعہ کیا۔ یہ
مطبع منشی نول کشور لکھنؤ سے شائع شدہ ہیں۔ دیوان اول پر تاریخ اشاعت درج
نہیں، یہ جلد ۳۹۴ صفحات پر مشتمل ہے۔جلد دوم کے ۱۹۸صفحات ہیں، جلد سوم ۱۹۶
اور جلد چہارم ۲۴۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے کہ یہ
سب مطبع سلطانی سے چھپے ہوئے دوادین کی نقل ہیں جنہیں مطبع نول کشور نے
۱۸۶۹ء میں ’کلیات ظفر‘ کے نام سے شائع کیا۔ بنیادی طور پریہ دیوان ۱۸۴۵ء
(دیوان اول )، ۱۸۵۰ء (دیوان دوم) اور پھر چارو دیوان میرٹھ سے ۱۲۷۸ھ ؍۱۸۶۱ء
میں شائع ہوئے تھے۔کلیات ظفر کے علاوہ ظفر کی نثری تصانیف میں ظفرؔ نے
۱۲۲۶ھ میں’ لغت اور اصطلاح دکن‘ تین جلدوں میں مرتب کی تھی اس تصنیف کا نام
’تالیفات ابو ظفری ‘ ہے اس تصنیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کہاں گئی
کچھ نہیں معلوم۔ دوسری نثری تصنیف ’خیابانِ تصوف‘ ہے ، شرح گلستان یہ ۱۲۵۹ھ
میں مطبع سلطانی سے طبع ہوئی۔ |