جانشین فصیح الملک داغؔ دہلوی
۱۸۶۳ء تا ۱۹۵۵ء
بیخود ؔ دہلوی اردو زبان کے شعرائے متوسطین میں سے ہیں۔اردو شاعری کا یہ
دور اُنیسویں صدی کے آغاز سے کوئی ۱۸۷۰ء تک شمار کیا جاتاہے۔اس دور نے دہلی
(دلی) اور لکھنؤ میں اردو کے مایہ ناز اور بلند درجے پر فائز شعرا کو جنم
دیا۔ولیؔ کے بعد میرؔ، غالبؔ،سوداؔکا شعری زمانہ اردو شاعری کو بام عروج پر
پہنچانے کا دور تھا۔ہر استاد نے اردو شاعری کی بنادوں کو دوام بخشا۔دورِ
متوسطین کے شعرا دورِ مقتدمین کے نقش قدم پر ہی چلتے دکھا ئی دیتے ہیں۔
بیخودؔ کے ہمعصر شعرا میں داغؔ دہلوی(۱۸۳۱ء ۔۱۹۰۵ء)، الطاف حسین حالی ؔ
(۱۸۳۷ء ۔ ۱۹۱۴ء)،اسماعیلؔ میرٹھی (۱۸۴۴ء ۔۱۹۱۷ء)، شادؔ عظیم
آباد(۱۸۴۶ء۔۱۹۲۷ء) ، نظمؔ طباطبائی (۱۸۵۲ء)،احمد رضاؔ بریلوی(۱۸۵۶ء ۔ ۱
۱۹۲ء)، شیخ محمدابراہیم آزادؔ(۱۸۶۸ء ۔ ۱۹۴۷ء)، سائلؔ دہلوی (۱۸۶۸ء ۔ ۱۰
ستمبر ۱۹۴۵ء)،مولانا ظفرؔ علی خان(۱۸۷۰ء ) ، علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ
(۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۸ء)، مولانا محمد علی جوہرؔ(۱۸۷۸ء ۔ ۱۹۳۱ء)، حسرتؔ
موہانی(۱۸۷۸ء ۱۹۵۱ء)، فانی بدایونی(۱۸۷۹ء)،اصغر گونڈوی (۱۸۸۴ء) شامل
ہیں۔ڈاکٹر اے وحید نے اس دور کے شعراکی جو فہرست مرتب کی ہے ان میں رنگین،
جان صاحب، سلیمان، قائم، منت، ممنون، قدر ت، بیدار، ہدایت، ضیا، بقا، فراق،
حزیں، بیان، راسخ، نظیر، ناسخ، آتش، اسیر، برق، مہر، منیر، قلق، بحر، سحر،
ذکی، درخشاں ، شفیق، بیخود، ھنر، ھلال، وزیر، رشک، مہر، منیر، سعادت، واجد
علی شاہ اختر، انیس، دبیر، رشید ، اوج، ذوق، شیفتہ، تسکی، ظہیر، انور،
مجروح،سالک، آرزو شامل ہیں۔ بقول ڈاکٹر وحید غیر معروف شعرا تو ان گنت
ہیں۔
بیخود ؔ دہلوی اتوار۲۲ فروری ۱۸۶۳ء میں ہندوستان کی ریاست بھرت پور میں
پیدا ہوئے ۔ احمد حسین صدیقی نے شعرا کا جو تصویریں البم ’’چند تصویرِ
رفتگاں‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا ہے اس میں بیخودؔ کی تاریخ پیدائش ۲۱ مارچ
۱۸۶۰ء لکھی ہے۔وہاب اشرفی نے ’تاریخِ ادبِ اردو :ابتداء سے ۲۰۰۰ء تک‘جلد
اول میں بیخود کی تاریخ ِ پیدائش کا سال ۱۸۵۸ء لکھا ہے جب کہ لالہ سری رام
اس بات پر خاموش ہیں۔ڈاکٹر وحید نے ۳ رمضان المبارک ۱۲۷۹ھ (۱۹۶۲ء) تحریر
کیا ہے۔ اسلامی تاریخ کے حساب سے ان کی تاریخ پیدائش اتوار ۲۲ فروری ۱۸۶۳ئء
ہوئی جو زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ بھرت پور ہندوستان کے صوبے راجستھان کے
مشرقی حصے میں ہے اسے مہاراجہ ’سورج مل‘ نے ۱۷۳۳ء میں آباد کیا تھا۔ اس کا
قدیم نام ’میوات‘ تھا لیکن جب ہندوستان بھارت کہلایا تو ’میوات ‘ بھرت
پوربن گیا۔اس اعتبار سے بیخودؔ پیدائشی راجپوت ہیں لیکن ان کا آبائی وطن
دہلی تھا۔
’’تذکرہ ہزارداستان معروف بہ خمخانہ ٔ جاید ‘‘ کے مصنف لالہ سری رام نے
اپنے تذکرے میں لکھا ہے کہ’’ بیخودؔ کی عمر کا ابتدائی زمانہ اپنے والد شمس
الدین احمد کے ساتھ ریاست بھرت پور میں گزرا اور وہین فارسی و عربی کی
ابتدائی تعلیم پائی پھر دہلی آکر اپنے شوق سے اچھی علمی استعداد پیدا کی
اور وجاہت خاندانی و میلان طبع سے اچھے بزرگوں کی صحبت اٹھائی۔بیخودشاعروں
کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد شاعر تھے اور سالمؔ تخلص کیا کرتے
تھے۔ یہ خاندان شاعر ہی نہ تھا بلکہ ان کے پردادا عالمگیر ثانی کے
دورِحکمرانی میں وزیر کے عہدہ پر فائز تھے۔ چنانچہ خاندانی وجاہت کے ساتھ
ساتھ علم و فضل میں بھی بیخودؔ کا خاندان اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔اس اعتبار
سے کہا جاسکتا ہے کہ شاعری بیخودؔ کا فطری ذوق اور آبائی میراث تھی۔ بیخودؔ
نے شاعری شروع کی تو ان کی عمر ۱۲ سال تھی۔خاندانی روایات کے مطابق بیخودؔ
کو بچپن میں ہی فن سپہ گری، شکاریات، پہلوانی اور دیگر فنون لطیفہ کی جانب
مائل کرنے کی تدابیر کی گئیں لیکن وہ تو ایک شاعر کی سوچ اورشاعر کی روح لے
کر پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ شاعر ی کے سفر کو طے کرتے
ہوئے شاعری کے بلند مرتبے کو جا لگے۔ تمام فنون پیچھے رہ گئے اور شاعری ان
کی زندگی کی میراث ٹہری۔
بیخود ؔ دہلوی کا نام سید وحید الدین احمد تھا ،ابتد ا میں ’نادر‘ تخلص کیا
لیکن جلد بیخود ؔ تخلص کرنے لگے اسی سے معروف ہوئے، دہلی آبائی وطن تھا اس
لیے دہلوی کہلائے۔ اردو اور فارسی کی تعلیم مولانا الطاف حسین حالیؔ سے
حاصل کی ، حالیؔ کی صحبت میں ہی بیخودؔکو شعر و سخن سے رغبت پیدا
ہوئی۔حالیؔ نے بیخود میں شعری ذوق دیکھتے ہوئے انہیں اس یگانہ روز گار شاعر
داغؔ دہلوی جن کا شاعری میں اس وقت طوطی بول رہا تھا کی باقاعدہ شاگردگی
اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ بیخود ؔ دہلوی نے حالیؔ کے مشورے
کومُعَتَبرجانااور داغؔ کے باقاعدہ شاگرد ہوگئے۔ یہ واقع ۱۸۹۱ء کا ہے۔ اس
وقت داغؔ حیدر آباد دکن میں تھے۔ بیخود ؔ حیدر آباد دکن چلے گئے اور کوئی
چھ ماہ استاد سے مشق سخن حاصل کرتے رہے۔ بیخود ؔ اپنے استاد کے سامنے دل و
جان سے فدا تھے ۔ استاد نے بھی اپنے شاگرد کو سخن فہمی کے تمام نکات اس طرح
سمجھائے کہ شاگرد کی شاعری میں نکھار آگیا۔ شاگرد نے اپنے استاد کے شا
عرانہ روپ و رنگ کو ایسا اپنا یا کہ ان کا شمارداغؔ کے خاص تلامذہ میں ہوا
۔ جانشین داغؔ اور وحید العصر کہلائے۔ یہی نہیں بلکہ داغؔ نے بیخود ؔ کو
بھی استادی کے مرتبے پر فائز کردیا۔بیخود ؔ دہلوی اپنے استاد کی استادی کے
قدر دان تھے۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنے اس شعر میں کیا
زباں استاد کی بیخود ؔ ترے حصے میں آئی ہے
پھر اتنا بھی نہیں کوئی خدا رکھے ترے دم کو
بیخودؔ،داغؔ کے علاوہ مومنؔ اور غالب ؔ کی شعری صلاحیتوں کے دل سے مُعتَرف
تھے۔ ان کا احترام اور ان جیسی صلاحیتوں کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ بیخود ؔ
دہلوی کا یہ شعر استاد کے ساتھ ساتھ مومن ؔ اور غالبؔ کی صفات کی تمنا لیے
ہوئے ہے۔
زباں استاد کی بیخود ؔ توہو مضمون مومن ؔکا
بیاں غالبؔ کا ہو اشعار کی یہ شان پیدا کر
استاد داغؔ بھی اپنے ہونہارشاگرد کی صلاحیتوں کے قدر داں تھے۔ لالہ سری رام
نے بیخودؔ کے بارے میں داغؔ کے خیالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’داغؔ
صاحب فرماتے ہیں کہ ان کی شاعری اور زبان دانی میرے قابلِ اطمینان ہے،
اصناف کلام پر بہ فضل تعالیٰ قدرت رکھتے ہیں داغ کی زبان ان کی زبان ہے یہ
مجھے اُستاد کہہ کر ناز کرتے ہیں میں ان کو اپنا بچہ سعید جان کر دعا ئے
عمردراز‘‘ ۔شاہد احمد دہلوی بیخودؔ کے خاکے میں لکھتے ہیں کہ ‘حکیم واصل
خان نے استاد داغؔ سے پوچھا ’’آپ کی زبان لکھنے والا بھی کوئی
باقی رہے گا‘‘؟ استاد نے فرمایا’’بیخودؔ۔ خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہاری
زبان گھر کے گھر میں رہی‘‘۔
بیخود ؔمطالعے کے بے حد شوقین تھے۔شاعری کے ساتھ ساتھ ماہر نثر نگار بھی
تھے۔ ناول سے انہیں خصوصی لگاؤ تھا۔ بہت ناول پڑھا کرتے تھے۔ ناول کے اسی
شوق نے ان سے ایک ناول ’’ننگ و ناموس‘‘ لکھا۔ یہ ناول عورتوں کے پردے کے
بارے میں مولانا عبدالحلیم شررؔ کی تحریک پر لکھا گیاتھا جس میں پردے کی
اچھائیاں اور خامیوں کا ذکر تھا۔انہوں نے دیوانِ غالب کی شرح بھی لکھی تھی۔
بیخود ؔ شاعری میں ہی استاد نہ تھے بلکہ وہ معلم کی حیثیت سے ان لوگوں کو
جنہیں اردو زبان نہیں آتی تھی خاص طور پر انگریزوں اور عیسائیوں کو اردو
اور فارسی پڑھایا کرتے تھے، یہی ان کا ذریعہ معاش بھی تھا۔ یہ عمل ۳۲ سالوں
پر محیط رہا۔ گویا ان کا پیشہ معلمی تھا۔
بیخودؔ نے طویل عمرپائی تھی ،شاہد احمد دہلوی نے بیخود دہلوی کا خاکہ تحریر
کیا جو ان کی کتاب’’ گنجینۂ گوہر‘‘ میں شامل ہے۔ شاہد دہلوی نے بیخود کو ان
کی آخری عمر میں دیکھا ۔ طویل عمر کی صورت میں زندگی کے آخری شب و روز بہت
مختلف ہوا کرتے ہیں۔ صحت کا کمزور ہوجانا، چلنے میں مشکلات پیش آنا، ہاتھوں
میں رعشہ کا آجانا،دانت مصنوعی ہونے کے باعث گفتگوکا انداز بدل جانا، سب سے
بڑھ کر مزاج میں تبدیلی عام سے بات ہے۔ بیخودؔ کے ظاہری حلیہ کا ذکر شاہد
احمد دہلوی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔’’بیخودؔ صاحب اس وقت اسّی سے اوپر ہوچکے
تھے۔ ہاتھوں میں رعشہ آگیا تھا۔ رنگ گُھٹاہوا گندمی، سفید براق سرسیدی
داڑھی، لبیں ترشی ہوئیں۔ اتنی عمر ہونے پر خاصے ٹانٹے تھے اور سیدھے چلتے
تھے۔ بتیسی پوری نقلی چڑھی ہوئی تھی۔ جس کا تالو اکثر ڈھیلا ہوجاتا اور بات
کرنے میں پورا جبڑا نیچے آرہتا۔ پھراسے چبا کر ٹھیک کرتے تو بات کرتے ۔
لہجہ خالص دلی والوں کا تھا۔ تکلف سے بری، اور آواز اونچی اور کراری تھی‘‘۔
آخری عمر میں ان کے مزاج میں خاصی تبدیلی آ گئی تھی۔ خاص طور پر حج کرنے کے
بعد ان کے مزاج اور ان کے کلام بھی وہ نہیں رہ تھا ۔لالہ سری رام نے بیخودؔ
کو بڑا خلیق ملنسار، زندہ دل، پابند وضع شٰخص لکھا ہے۔
بیخودؔاپنی شاعری پر بہت نازاں تھے۔ شاعری میں ان کے بے شمار شاگرد تھے۔
میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا کلام ’’دیوان آزاد‘‘کے نام سے ۱۹۳۲ء
میں آگرہ سے شائع ہوا تھا۔ جناب آزادؔ ، بیخودؔ کے تلامذہ میں سے تھے۔
آزادؔ صاحب۱۹۱۳ء میں باقاعدسلسلہ شاگردی استاذ الشعراء افتخارالملک سید
وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی جانشیں فصیح الملک داغ ؔدہلوی داخل
ہوئے۔بیخودؔ دہلوی نے آزادؔ کے بارے میں لکھا کہ’’ خمخانۂ بیخودؔ کے جرعہ
کشوں میں ایک حاجی شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا نام بھی درج رجسٹر شاگرداں ہے
خدااُن کو زندہ رکھے صوفی منش انسان ہیں حمد و نعت کہتے ہیں عاشقانہ شعر
نہیں کہتے تعجب خیز امر یہ ہے کہ باوجودشغل وکالت شعر کہتے ہیں ان کا کلام
بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چندہ محتاج نہیں ، کئی سال ہوئے میں نے ان کو
نعت گوئی میں اپنا خلیفہ بنالیا تھا‘‘۔ بیخود ؔ نے نظم
میں آزادؔ صاحب کی شخصیت اور کلام کا نقشہ اس طرح کھینچا
نام آزادؔ وضع کے پا بند میرے شاگر دمیرے عاشقِ زار
ہیں یہ مداح سرور ِ عالم نعت گوئی ہے خاص ان کاشعار
ان کے اشعار سب ہیں تاریخی
کرتے ہیں واقعات کا اظہار
یہ محدث نہ یہ مُورخ ہیں یہ تو عشق نبی کے ہیں بیمار
ہیں یہ مداح سیرت نبوی اور مداح اِن کا بیخودؔ زار
بیخودؔ کے ایک اور شاگرد شیخ محمد عبداﷲ بیدلؔ بیکانیری، راجستھان کے معروف
شاعر اور استاد بیخود ؔ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔مالک رام نے ’تذکرہ
معاصرین‘ میں لکھا ہے کہ بیخودؔ نے اپنے شاگرد بیدلؔ بیکانیری کے بارے میں
کہا جو بیدلؔ کے دیوان ’’باغ فردوس‘‘ کے آخر میں موجود ہے کہ ’’بیدلؔ نے
میری زبان پر ڈاکہ ڈالا ہے میرے پاس مالِ دنیا سے اور کچھ تو تھا نہیں، ایک
زبان رکھتا تھا، وہ حضرت بیدلؔ کی نذر ہوئی، ان کے بہت سے شعر میرے ہی رنگ
میں ڈوبے ہوئے ہیں‘‘۔ بیدلؔ بیکانیری بھی دل و جان
سے اپنے استاد کے قدر داں تھے۔بیدلؔ اپنے استاد کی شان میں بیان کرتے ہوئے
کہتے ہیں
شاعر نہیں ہے حضرت بیخود سا ہند میں
شہرہ ہے آج جن کا جہاں میں بجائے داغ
ایک اور جگہ بیدلؔ بیکانیری نے کہا
حضرت بیخودکا ہر شاگرد ہے ساعر بکف
بیخودی طاری ہو بیدل کا دیوان دیکھ کر
بیخود ؔ دہلوی اسلوب بیان میں اپنے استاد داغؔ دہلوی کے شانا بہ شانہ چلتے
دکھائی دیتے ہیں۔ یہ داغؔ کی شعری تربیت کا نتیجہ ہے ۔معمولی معمولی
موضوعات کوخوبصورتی کے ساتھ بیان کرنے کا سلیقہ بیخودؔ کو خوب آتا ہے۔
ملاحظہ ہو یہ شعر
مل جائے وہ تو اس کی بلائیں ضرور لوں
میں ڈھونڈنے چلا ہوں دعا کو اثر کے بعد
نکلی یہ جان یا کوئی کانٹا نکل گیا
راحت ملی ہے آج مجھے عمر بھر کے بعد
بیخودؔ مومن خان مومن ؔاور سائل ؔدہلوی کی طرح مقطع میں اپنا تخلص عمدگی کے
ساتھ استعمال کرتے ہیں جس سے مقطع و تخلص دونوں میں نکھار آجاتا ہے۔ اپنے
تخلص کے حوالے سے بیخودؔ نے خوبصورت شعر کہا ہے
ہمیں معنی تو سمجھا دے ذرا بیخود کے اے بیخودؔ
یہ تونے نام کیا رکھا ہے اپنا پار سا ہوکر
بیخودؔ دہلوی کے کلام میں سادگی، روانی، تسلسل اور بڑی حد تک ہمواری اور
یکسانیت نظر آتی ہے۔ وہ منظر نگاری ، واقعہ نگاری ،سیرت نگاری، اخلاق،
ہمدردی، فلسفہ، وسعت نظر، حقیقت پسندی کی روح جا بجا دکھائی دیتی ہے۔ دہلی
جسے دلی بھی کہا گیا کے اجڑنے کو کئی شعرا نے اپنے شاعری کا موضوع بنایا
اور خوبصورت شعر کہے۔دہلی کے حالات اور واقعات سے بیخودؔ کا کلام خالی نہیں
، بیخودؔ نے
دلی کے اجڑنے کے درد کو اپنے اس شعر میں کس کرب کے ساتھ بیان کیا ہے
نہ لینا نام دلی کا ہمارے سامنے بیخودؔ
اُسی اُجڑے ہوئے گلشن کے ہم بھی رہنے والے ہیں
بیخودؔکے اکثر اشعار میں فطری اندازکی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔
شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا
تم جس پہ رو رہے تھے یہ کس کا مزار تھا
رقیبوں کے حوالے سے بیخودؔ کا یہ اچھا شعر ملاحظہ کیجئے
رقیبوں کے لیے اچھا ٹھکانا ہوگیا پیدا
خدا آباد رکھے میں تو کہتا ہوں جہنم کو
تحقیر اور توقیر کا امتزاج کیا خوب اس شعر میں کیا گیا ہے
دل کا سودا نہیں کرنا مجھے تحقیر کے ساتھ
جان حاضر ہے اگر لیجئے توقیر کے ساتھ
بیخودؔ کے اشعار میں اس حوالے سے افسوس ناک باتیں، دکھ اور درد پایا جاتا
ہے۔زبان عام فہم اور سادہ ہے۔ سوز و گداز ان کی شاعری کا حصہ ہے ، سادگی
اور بے ساختگی بھی پائی جاتی ہے۔وہ شیریں ، مترنم اور منتخب الفاظ استعمال
کرکے اپنے اشعار کو پر تاثیر بنا نے کا فن خوب جانتے ہیں۔ ان کے قادر
الکلام اور کہنہ مشق شاعر ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ مشکل سے مشکل
مضمون کو عام فہم الفاظ کے ذریعہ نظم کردیتے ہیں۔ ان کا انداز بیان کچھ کچھ
حالی ؔ اور استاد داغؔ سے ملتا جلتا ہے۔ بیخودؔ بنیادی طور پر سیدھے سادھے
سچے ، خلیق، ملنسار، زندہ دل اور پابند وضع انسان تھے ان کے مجموعوں میں ’
شہسوارِ بیخود‘ ، ’گفتارِ بیخود‘ اور’دیوان ِ بیخودؔ کے علاوہ شرح دیوان ِ
غالب اور ایک ناول ’’ننگ و ناموس‘‘ شامل ہے۔
بیخودؔ پاکستان آگئے تھے شاید ان کا دل پاکستان میں نہیں لگا ۔ انہیں اپنی
دلی (دہلی ) زیادہ عزیز تھی۔ شاید ان کی مٹی وہیں کی تھی،طویل عمر پائی،
والد کی طرح سینچری تو نہ کرسکے ۹۳ سال کی عمر میں ۲ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں داعی
اجل کو لبیک کہا ۔ دہلی میں درگاہ خواجہ
باقی باﷲ میں دفن ہوئے
مرگیا بیخود ؔ تو اِس کا کیا ملال
موت تو آخر سب ہی کے ساتھ ہے
اسی موضوع کو ایک انداز سے اس طرح بیان کیا
مدفن میں اپنی خاک سے آئی صدا مجھے
میں نقش پائے یار ہوں لیکن مٹا ہوا
انتخاب کلام :
بگڑنا اس کا غصہ میں بھی شوخی سے نہیں خالی
مزے کی بات کہہ جاتا ہے ظالم بے مزا ہوکر
نام بیخود ہے تو مے خوار بھی ہوگا وہ ضرور
پارسا ہم تو سمجھتے نہیں کہتا ہے وہی
بات سُننے میں کیا قیامت ہے
ہر سخن مد عا نہیں ہوتا
کھٹکتی ہے مرے سینے میں یارب آرزو اُس کی
نکل جائے یہ دل کی پھانس وہ سامان پیدا کر
آپ کہتے ہیں کہ رہتا ہے ترا ا کثر خیال
آپ کے دل میں تو گنجائش کہیں اتنی نہیں
لڑائی سے یوں جب ہی تو روکتے رہتے ہیں ہم تم کو
کہ دل کا بھید کہہ دیتی ہے لڑنے میں نظر دیکھو
خدا جانے کہ کیا گزری خدا جانے کہ کیا بیتی
جنابِ شیخ کعبے سے نہایت شرمسار آئے
محفل وہی مکان وہی آدمی وہی
یا ہم نئے ہیں یا تیری عادت بدل گئی
دل کو پہلو میں اضطراب رہا
زندگی بھر یہی عذاب رہا
رہے گی دھن میں زباں اپنے جب تک
زباں پر رہے گا فسا نہ کسی کا
یہ دل کبھی نہ محبت میں کامیاب ہوا
مجھے خراب کیا آپ بھی خراب ہوا
نہ دیکھے ہوں گے رند لااُبالی تم نے بیخود ؔ سے
کہ ایسے لوگ اب آنکھوں سے پنہا ہوتے جاتے ہیں
(انجمن ترقی اردو پاکستان کے ادبی رسالے ’’قومی زبان‘‘ کے شمارے دسمبر
۲۰۱۳ء میں شائع ہوا) |