2014 مرکزی انتخابات کی آمد میں کافی وقت باقی ہے مگر اس
کی نوید ہمیں سنائی دینے لگی ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی بساط بچھانا اور اپنا
اپنا بگل بجانا شروع کر دیا ہے۔غرض یہ کہ تمام سیاسی جماعتیں باضابطہ طور
پر الیکشن کی تیاریوں میں جٹ گئی ہیں۔ میڈیا کے نمائندوں سے لے کر عام آدمی
تک سبھی نے اپنے اپنے حربے استعمال کر نے شروع کر دِیے ہیں۔اس کے لیے جہاں
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنے اپنے راگ الاپنے میں مصروف ہیں، وہیں سوشل
نیٹ ورکنگ سائٹوں پر بھی پروپیگنڈہ جاری ہو گیا ہے۔ قیاس آرائیاں ،چہ می
گوئیاں ،تبصرے اور لعن طعن کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ فرقے اور کمیونٹیاں
اپنے اپنے منصوبوں میں جٹ گئی ہیں۔لیکن اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت،
مسلمانوں کی جانب سے اب تک اس قسم کی کوئی سر گرمی شروع نہیں ہو ئی ہے۔ اور
نہ اس کی کوئی رمق دکھائی دے رہی ہے۔ہم بیدار تو ہوتے ہیں لیکن اس وقت جب
پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔حالانکہ دنیا میں کامیاب وہی قوم ہوتی ہے جو
پہلے سے منصوبے بناتی ہے،لائحہ عمل مرتب کرتی ہے اور اس کے مطابق اپنے آپ
کو ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔
ہندوستان میں مسلمان اقلیتی برادری کا درجہ رکھتا ہے۔ ملک کے آئین نے دوسری
قوموں کے ساتھ ساتھ اس ملک کے مسلمانوں کو بھی یکساں حقوق فراہم کیے ہیں،
لیکنآزادی کے 60 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی،آج مسلمان اپنے
حقوق مانگ رہا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ہمارے ملک کے جمہوری نظام پر ایک بڑا
سوال ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ملک میں اب تک بننے والی
حکومتیں مسلمانوں کو ان کاآئینی حق دلانے میں ناکام رہی ہیں۔
مرکزی حکومت کی طرف سے جب مسلمانوں کی پس ماندگی کا راز معلوم کیا جاتا ہے
اور پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 60 سالوں سے سرکار کی طرف سے مسلسل اندیکھی ہونے
کی وجہ سے آج اس ملک کا مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں پچھڑا ہوا ہے، اس کی
تعلیم کا کوئی بہتر انتظام نہیں ہے، بڑے پیمانے پر پھیلی تعصب پرستی کی وجہ
سے اسے سرکاری یا پرائیویٹ نوکری نہیں ملتی، اگر وہ کاروبار کرنے کی کوشش
کرتا ہے تو اس میں بھی مسلمانوں کو بینکوں کی طرف سے قرض نہیں ملتے، ملک کے
جن جن علاقوں میں تجارتی طور پر مسلمان مضبوط تھے ا ±ن ا ±ن جگہوں پر ملک
اور سماج دشمن عناصر ایک سازش کے تحت فرقہ وارانہ فساد کراکر مسلمانوں کو
اقتصادی طور پر کمزور کرد یتے ہیں، غریبی کی وجہ سے مسلمان اپنی زمینیں بیچ
دیتا ہے اور اب یہ حال ہے کہ اس کے پاس قابل کاشت زمینیں نہیں بچی ہیں جن
پر وہ فصل اگاکر اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھر سکے، اور ان سب سے تنگ
حال ہو کر اب وہ اپنی گزر بسر کے لیے زیادہ تر محنت و مزدوری کے کاموں میں
لگا ہوا ہے جہاں پر اس کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ ان اسباب کو جان لینے
کے بعد سرکاری سطح پر مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے
کچھ اسکیمیں بنائی جاتی ہیں، لیکن چونکہ برسر اقتدار سیاسی پارٹیوں کی نیت
صاف نہیں ہے، اس لیے کام کم کیا جاتا ہے اور اس کا ڈھنڈورہ زیادہ پیٹا جاتا
ہے، تاکہ مسلمانوں کو بیوقوف بناکر ان کا ووٹ حاصل کیا جا سکے۔ ایسے میں
بھلا اس ملک کے مسلمانوں کو دوسری قوموں کے ہم پلہ کیسے کھڑا کیا جاسکتا ہے
اور اکیسویں صدی میں ہندوستان عالمی سطح پر سپر پاور بننے کا خواب کیسے
پورا کر سکتا ہے؟ |