کبھی واہ واہ ۔ کبھی تھو تھو ۔۔۔۔

دب کہ رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالموں جاؤ اپنا کام کر و
سر پھر وں میں ابھی حرارت ہے
ان جیا لوں کا احترام کر و
ہم پچھلے کئی دنوں سے ایک ہی مدعے پر بات کررہے ہیں جس میں کہا جارہاہے کہ قوم میں قیادت کی کمی ہے اور اس کمی کو دور کر نے کے لئے ہمیں اور آپ کو ہی آگے آنا ہے لیکن اس کے لئے ہمارے پا س ایک طرح کا خوف ہے جس میں ہم محسوس کررہے ہیں کہ اگر ہم آگے بڑھتے ہیں تو قوم کے دلا ل ہمارا پتہ کاٹ دینگے ۔ اگر ہم قیادت کرنے کے لئے آگے آتے ہیں تو قوم ہماری قیادت پر سوالیہ نشان لگا ئی گی ، اگر ہم قوم کی قیادت کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں تو ہمار ی قوم کا ہمیں ساتھ ملے گا یا نہیں ؟۔ یہ تمام ایسے سوالا ت ہیں جن کے جوابات ہمیں اسی وقت مل سکتے ہیں جب ہم قوم کی قیادت کر نے کے لئے آگے بڑھیں گے ۔ ہمارے سامنے دنیا کے کئی ایسے انقلابات نمونے کے طو رپر ہیں جو صرف ایک آدمی کی پہل سے رونما ہو ئے تھے ، اگر انقلاب عرب کی بات کر تے ہیں تو ہمارے سامنے حضور محمد مصطفی ﷺ کا وہ تاریخی انقلاب ہے جس میں ہمارے نبی ﷺ نے دنیا ئے عالم کو اسلام سے متعارف کرواتے ہوئے دنیا میں اسلام کا پر چم لہر ایا ۔ جب بات صلاح الدین ایو بی ؒ کی آتی ہے تو ہمیں دنیا کے سب سے بڑے فتوحات کا علم ہوگا اور جب بات ایران کے انقلاب کی آتی ہے تو اس شخص کے جذبے اورقائد انہ صلاحیتوں کااحساس ہو گا جو اپنے ملک سے 22؍ سال تک دو ر رہ کر صرف پیغامات کے ذریعے اپنے انقلاب کو انجام تک پہنچایا اورایر ان کو ایک مملکت اسلامیہ میں تبدیل کر دیا ۔ آیت اﷲ خمینی جس وقت اپنی ہی حکومت کے خلاف محاز آرا ہوئے تو اس وقت ان کی بات سننے والا کو ئی نہیں تھا اگر کوئی تھے تو چند بز رگ اور چند عورتیں ۔ جب کسی نے ان سے پوچھا تھا کہ خمینی کیا تم ان عورتوں اور بز رگوں سے انقلاب کی توقع رکھتے ہو تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہاں میں انہیں سے انقلاب کی توقع رکھتاہوں ، جب ان خواتین کی ذہن سازی ہو گی اور آنے والے دنوں میں انکے بطن سے جو بچے پید ا ہو نگے وہ میر ے انقلاب کے کارکن ہونگے اور انکا ساتھ لیکر میں مملکت اسلامیہ کی داغ بیل ڈالوں گا ۔ انکے کہنے کے مطابق ایسا ہی ہوا ، قریب 22سال بعد آیت خمینی جلاوطنی کے بعد ایران واپس لوٹے تھے انکے ساتھ بالکل نوجوانوں کا بڑا طبقے تھا جس نے انکا ساتھ دیا اور انقلاب لایا ۔ ہمارے لیے ان عظیم شخصیات کی تحریکیں مثال ہیں ، ہم اس بات کو نہ سوچیں کہ ہمارا سننے والا کو ن ہے ؟۔ ہمارا ساتھ دینے والا کو ن ہے اور ہم اکیلے کیسے انقلاب لا سکتے ہیں ؟۔ دنیا میں اﷲ نے انسانوں کے ساتھ ساتھ شیطانوں کو بھی بھیجا ہے اور انسانوں کو شیطانوں پر غالب آنے کی ترغیب دی گئی ہے ایسے میں ہمارا فرض بنتاہے کہ ہم حق کے لیے لڑیں ۔ آج جو لوگ ہماری قیادت کے نام پرہمیں گمراہ کررہے ہیں وہ شیطانوں کے شاگر د ہیں ، انکا واسطہ بر اہ راست شیطانوں سے ہے اس لئے ان شیطانوں کے خلاف محاذ آراء ہو جا ئیں ۔ بھلے ہی ہمیں اس جد وجہد کا نتیجہ فوراََ نہ ملے مگر آنے والے سالوں میں تو مل سکتاہے ۔ جو آم کا پیڑ ہم اب لگا ئیں گے اس کا پھل ہم خود نہ کھا ئیں مگر آنے والی نسلیں تو اس کا پھل کھا سکتے ہیں ۔ انقلاب کی کامیابی لمحوں میں نہیں سالو ں میں ہو تی ہے ایسے میں ہمیں ہمارے مفادات کو چھو ڑ کر قوم کی صحیح رہنمائی کے لئے آگے بڑھیں ۔ قوم کے درمیان کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو وقت کے مطابق رنگ بدلتے ہیں ، کبھی یہ لوگ قوم کے دشمنوں کو کو ستے ہیں تو کبھی یہی لوگ ان دشمنو ں کی پیٹ تھپ تھپا تے ہیں ۔ کبھی مفاد پر ست رہنماؤں کے منہ پر تھو کتے ہیں تو کبھی انکی واہ واہی کرتے ہیں ۔ ایسے ہی لو گ قوم کے لئے خطر نا ک ہیں ، ان لو گوں کا کوئی ضمیر ہو تاہے نہ ہی کو ئی انکے اخلاق ۔ صرف چند روپیوں اور جھوٹی شان کی خاطر قوم کو بیچنا انکا شیو ہ بن جا تاہے ۔ اگر واقعی میں ایسے لوگ اپنے آپ کو قوم کے رہبروں کے طو رپر پیش کر نا چاہتے ہیں تو انہیں مفادات کی آڑ سے ہٹنا ہو گا اور انہیں حق بیانی کرنی ہو گی ۔ ایسے لوگ کچھ دنوں کے لئے ہی رحمت بن سکتے ہیں لیکن مستقل طو رپر قوم کے لئے زحمت بن جاتے ہیں اور جب یہ لوگ زحمت بن جاتے ہیں تو انکا بھی وجو د زیادہ دن تک نہیں رہتا ۔ دنیا میں کسی نہ کسی طر ح سے وہ رسواء ہوجا تے ہیں ۔ حق بیانی کو اپنائیں اورحق کاساتھ دیں ۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں مظلوموں کی آواز بنیں ۔ تبھی قا ئد کہلا سکتے ہیں ورنہ انکا شما ر قوم کے دلالوں میں ہوگا ۔ آج ہمارا بہت بڑا طبقے سیاستدانوں کی چاپلو سی میں لگا ہواہے ۔ یہ لو گ نہ قوم کے ہیں نہ قو م انکی ہے باوجود اسکے وہ قوم کے ٹھیکے دار بنے پھر ررہے ہیں ۔ کسی سیاستدان کی گل پو شی کر تے ہوئے اسکے آگے پیچھے گھومنے سے کوئی قوم کا قائد نہیں بنتا بلکہ اس سیاستدان کے پاس قوم کے لئے حق مانگنے سے قائد بن سکتاہے ۔ جو سیاستدان مسلمانوں کو اپنا ووٹ بینک بنا ئے ہوئے ہیں انکے پاس سے مسلمانوں کو انکا حق دلا یا جا ئے ۔ ہماری قوم چاپلوسی کر نے والی قوم نہیں ہے بلکہ حکم کر نے والی قوم ہے ۔ مصلحت کے نام پر چمچہ گر ی کو شیو ہ بنا کر ہم نے اب تک قوم کو اس کا کیاحق دلوادیا ہے ؟67؍ سالوں سے ملک کے مسلمانوں کی جو بد تر حالت ہے وہ اب بھی بگڑ تی ہی جارہی ہے ۔ اس سنگین صورتحال سے نکالنے کے لیے آج ہم اور آپ جیسے عام لوگوں کو ہی کمر بستہ ہو نا چاہیے ورنہ ہماری داستان تک نہ رہے گی داستانوں میں !۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.