’’لوٹے ‘‘ ہرجائی

لوٹوں کی اقسام تو بہت ہیں اور اس کو مختلف چیزوں سونا، چاندی،پیتل، لوہا اور پلاسٹک سے بنایا جاتا ہے لیکن ایک قسم ایسی ہے جس کو سیاسی اـصطلاح میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ ہے بے پیندے کے لوٹے، یعنی وہ لوٹا جس کا کوئی پیندہ ہی نہیں ہوتا اور اس کو سیاسی اصطلاح میں اس سیاستدان کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ تیزی سے اپنی وفاداری سیاسی جماعتوں کی مشہوری دیکھ کر تبدیل کرتا ہے۔جن لوگوں یا احباب نے لوٹے کی خصوصیات کو سیاستدانوں سے ملایا ہے وہ شاید اس کی تاریخی شان و شوکت سے نا آشنا ہیں، زمانۂ قدیم ہی سے لوٹے کا استعمال مختلف تہذیبوں میں مذہبی رسومات سے لے کر روز مرہ کے کاموں میں ہوتا آیا ہے جبکہ جنوبی ایشیا کے تقریباًتمام ملکوں میں اس کو دل کھول کر استعمال کیا جاتا ہے ۔ مغربی ممالک میں اسے ایک ڈیکوریشن پیس کے طور پر ڈرائنگ رومز میں سجا کر رکھا جاتا ہے، امریکن اسے ایک خوبصورت نمونہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ان چند نایاب چیزوں میں سے ہے جو غالباً مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ یہ بادشاہوں کے دور میں صرف محلوں تک محدود تھی کیونکہ سونے چاندی کے غلاف شروع ہی سے ان کی چمک اور قیمت میں اضافہ کرتے آئے ہیں، یہ امراء اور اشرافیہ کی عزت و توقیر کا باعث بھی رہا ہے کیونکہ قیمتی لوٹے مہمانوں کا استقبال کرتے تھے۔

تاریخی حوالے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ لوٹے کو وفاداری بدلنے والے سیاستداں سے تشبیہ دینا دراصل لوٹے کی توہین ہے، ذرا غور فرمایئے کہ جتنا لوٹا انسان کا وفادار ہوتا ہے اتنا تو پالتو جانور بھی نہیں ہوتا۔ انسان لوٹے کو جب تک گھر میں رکھتا ہے اس سے سب مستفید ہوتے رہتے ہیں اور جیسے چاہیں اسے بے دردی سے استعمال کرتے رہیں، جب جی کرے نیا خرید لیں اور پرانا پھینک دیں۔ یہ مائنڈ نہیں کرتا پھر اس لوٹے کو سیاستدان سے ملا کر لوٹے کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟

ہو سکتا ہے کہ وفاداری بدلنے والے سیاستدا ن اپنی مرضی کی قیمت وصول کر کے اپنے آپ کو بیچتے ہوں اور جس نے خریدا ہوتا ہے اسی کو دغا دے کر کسی اور کے ہاتھوں بک جاتے ہیں، اسی وجہ سے مارکیٹ میں پلاسٹک کے لوٹے آگئے ہیں جو اکثر گھٹیا میٹریل استعمال ہونے کی وجہ سے لیک ہو جاتے ہیں، اب کوئی سیاسی مارکیٹ اور پلاسٹک کے لوٹوں کو موجودہ سیاستدانوں سے ملانے کی کوشش کرے تو وہ پھر لوٹے کی بے عزتی کرنے والی بات ہوگی۔ اصلی اور قیمتی لوٹے نایاب اور ناپید ہوتے جا رہے ہیں، ہمارا اشارہ ایسے سیاسدانوں کی طرف نہیں جا کا کردار نایاب اور ناپید ہو چکا ہے۔

موجودہ سیٹ اپ اور موجودہ اپوزیشن میں بھی لوٹے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ملک میں ایک اور قسم کا لوٹا بھی دستیاب ہے ، وہ جو دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں، یعنی ’’دوسروں کو نصیحت اور خود پہ فصیحت‘‘کل ہی موصوف کے دو وزیر وں نے حلف لے لیا ہے ۔ اسے ہی کہتے ہیں کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہوتا ہے، جیسے کرکٹ بائی چانس، جب تک آخری گیند نہ پھینک دی جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا اسی طرح ہماری سیاست بھی ہے ۔ مصلحتوں کے بغیر تو سیاست کے میدان میں جینا یا اِن رہنا ناممکن نہیں تو مشکل تو ہے نا۔ویسے بھی ہمارے ملک میں غالباً دنیا کے سب سے زیادہ لوٹے موجود ہیں ، اس میں کئی بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں، کس کس کا نام لیا جائے، کسی ایک کا رہ گیا تو بدنامی ہوگی، رہنے دیجئے؟اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ قوم جاگتی نہیں ہماری، آج بھی وہ قیامت خیز لوٹے یا لوٹوں کی اقسام قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں نا کہ:
پھر اُصولوں کی جگہ نوٹوں کا موسم آگیا
چیختے ہیں بام و در لوٹوں کا موسم آگیا

ہمارے یہاں تو خیر سے یہ سلسلہ سالہا سال ہی چلتا رہتا ہے کیونکہ الیکشن کا کیا ہے وہ تو وقتاً فوقتاً ہوتا ہی رہتا ہے کبھی جنرل تو کبھی بلدیاتی، اور ہمیشہ ضمنی سطح کے الیکشن تو جاری ہی رہتے ہیں۔ اس لیئے لوٹوں کے لئے ہمارے یہاں موسم کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ لوٹے اور وہ بھی بے پیوند کے سالہا سال دستیاب رہتے ہیں۔پروین شاکر کا ایک شعر ہے جس کو نثر میں بیان کر رہا ہوں بہت معذرت کے ساتھ کیونکہ شعروں کی کثرت زیادہ ہوگئی ہے۔ ان کے اس شعر کو کئی معنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے میں تو یہاں لوٹے سے تشبیح دے رہا ہوں۔ کہ لوٹے کہیں بھی، کسی بھی پارٹی میں چلے جائیں ان کا یہ انداز ہی نرالا ہوتا ہے کہ وہ یکسوئی سے کسی جگہ ٹِکتے ہی نہیں اور پارٹیوں کو یہی بات اچھی لگتی ہے کہ لوٹے کہیں بھی چلے جائیں انہیں آنے جانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ وہ کہیں بھی جائے لوٹے گا تو میرے ہی پاس آئے گا یعنی کہ انہیں یہی بات اچھی لگتی ہے ’’لوٹے ‘‘ہرجائی کی۔

اب دیکھیں نا کہ جب اصلی مال دستیاب نہ ہو تو مارکیٹ میں نقلی مال آجاتا ہے یا اس شئے کا متبادل مل جاتا ہے جیسے لوٹوں کی جگہ ٹشو پیپر نے لے لی ہے اور اس کو اگر سیاسی اصطلاح میں استعمال کیا جائے تو شاید لوٹے کی عزت و توقیر واپس آجائے۔ تمام سماجی اور غیر سیاسی تنظیمنوں کو اس طرف بھرپور توجہ دینی چاہیئے اور لوٹے کی شان و شوکت واپس لانے کے لیئے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہیئں۔عوام میں بھی شعور کو بیدار کرنا چاہیئے تاکہ آئندہ کوئی اس کا نام سیاستدان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش بھی نہ کرے، اگر عوام لوٹے کی کھوئی ہوئی عزت واپس لانا چاہتے ہیں تو جو سیاستداں لوٹے کا نام استعمال کرکے اس کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں اور ایک تاریخی شئے کی بدنامی کا باعث بنے ہیں تو ان سے بدلہ لینے کا بہترین موقع آنے والے الیکشن ہیں ، اگر آپ اپنے ورثے کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور مزید ضرورت کی چیزیں جیسے بجلی، پانی، گیس کو لوٹے کی طرح ناپید ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو ہر الیکشن میں خاص کر لوٹا میرا مطلب ہے کوئی ’’ٹشو پیپر‘‘ الیکشن میں کھڑا ہو جائے تو فیصلہ آپ نے ہی کرنا ہے کہ ووٹ کا حقدار کون ہونا چاہیئے ۔ ملک میں تبدیلی لوٹے کے استعمال سے نہیں آنے والی کیونکہ پانی کا مقابلہ ٹشو پیپر نہیں کر سکتا۔ اس لیئے ضروری ہے کہ کھڑے اور کھوٹے کی پہچان کے بعد ہی ووٹ کا استعمال کیا کریں ۔شاعر نے بھی لوٹے کو نہیں بخشا ہے وہ کہتے ہیں کہ:
ملتی ہے زندگی میں لوٹے کبھی کبھی
ہوتی ہے حکمرانوں کی عنایت کبھی کبھی
تنہا نہ کت سکیں گے سیاست کے راستے
چمچوں کی پیش آئے گی حاجت کبھی کبھی

Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 337876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.