غالب‘ شخص کا شاعر

میرصاحب کا تعلق اگلے زمانے سے تھا۔ غالب‘ میر صاحب کی شخصی اور شعری حیٹیت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کے کہے کو اگلے زمانے کا کہا قرار دے کر قابل تقلیلد نہیں سمجھتے۔ غالب کا کہا غلط نہیں‘ کیوں کہ غالب‘ شخص کا شاعر ہے۔ غالب تک آتے آتے فکری سماجی اور شعری شعور میں زمین آسمان کا فرق آ گیا تھا۔ غالب کےدور میں مشرق و مغرب ایک ہو گیے تھے۔ اس کے غروب وطلوع کے زاویے اور انداز واطوار ہی بدل گیے تھے۔ سورج غروب ہونا ہی بھول گیا تھا۔ غالب اور راقم کے درمیان ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ حائل ہو گیا ہے۔آج حالات اس کے دور سے قطعی مختلف ہیں۔ سورج نے مشرق سے طلوع ہونا اپنی توہین سمجھ لیا ہے۔ غالب کے دور میں مغرب چوں کہ یہاں اقامت رکھتا تھا اس لیے کچھ نہ کچھ روشنی بخش رہا تھا۔ اب یہاں اس کے سیاہ اور گندمی نمائندے وقت کی ڈور پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اس لیے جگنو بھی جاپان کے مضافات میں جا بسے ہیں اور ان کے واپسی کے ارادے قطعی مشکوک ہو گیے ہیں۔ اس لیے غالب کےعہد کا کہا ہمارے لیے بےکار اور لایعنی ہو گیا ہے۔ ہم زندگی کے اصول مرتب کرتے وقت غالب کے عہد کو پیمانہ نہیں بنا سکتے۔

غالب کے عہد میں زندگی سے متعلق اصطلاحات کی تفہیم اس عہد سے مخصوص تھی۔ مثلا کسی شخص کو جان سے مار دینے والا قاتل جب کہ جان سے ہاتھ دھونے والا مقتول کہلاتا تھا اور یہ دونوں اصطلاحات برصغیر کے ہر گوشے میں ایک سے معنی رکھتی تھیں۔ شاعری میں مقتول عاشق جب کہ محبوب قاتل کے لقب سے ملقوب ہوتا تھا‘ لیکن یہ دونوں اصطلاحات اپنے معنی بدل چکی ہیں۔ دونوں کے نظریاتی حلقوں میں نام بھی الگ الگ ہیں۔ آج کسی بھی اصطلاح کو کسی مخصوص ماحول‘ مخصوص حالات اور مخصوص علاقہ کے حوالہ سے معنی دیے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ لفظ اپنے معنی ترک کر رہے ہیں۔ لب و لہجہ طبقاتی ہو رہا ہے۔ ہر پرانی بات‘ اصول اور معاملہ اپنی حیثیت اور معنویت تبدیل کر رہا ہے۔ بعض بے کار محض ہو گیے ہیں۔ یہ کوئ نئ بات نہیں ایسا ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ آج جو بھی پرانی باتوں اور اصولوں کے مطابق زنگی کرنے پر مصر ہے‘ بنیاد پرست کا نام پاتا ہے۔ ہر بنیاد پرست‘ دہشت گرد اچھوت اور امن دشمن سمجھا جاتا ہے۔ وہ جوتے کی نوک پر رہتا ہے۔

میر صاحب اپنے عہد کے نمائندہ ہیں۔ ان کے کلام میں‘ ان کا عہد بولتا ہے اس لیے میر صاحب کے کلام کے مطالعہ کے لیے‘ جہاں ان کے ذاتی حالات سے آگہی ضروری ہے‘ وہاں ان کے عہد کا مطالعہ بھی لازم قرار پاتا تھا۔ استاد غالب کے ہاں بھی ان کے عہد کی عکاسی ملتی ہے۔ تاہم استاد غالب اور میر صاحب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ استاد غالب محمد تغلق کی طرح اپنے عہد سے باہر کے بھی شخص ہیں۔ انھوں نے دو چار صدیاں پہلے جنم لے لیا۔ اس حوالہ سے ان کے کلام کو آج کے تناظر میں دیکھ لیا جائے‘ تو غلط نہ ہو گا۔ اٹم بم تو بڑی بعد کی ایجاد ہے‘ اسٹیم انجن بھی بعد میں ایجاد ہوا‘ غالب اس کا آیڈیا کافی پہلے دے چکے تھے۔ کوئ بات مسلسل چلتی رہے‘ تو وہ فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ شخصی کیا‘ اس کا اطلاق سوسائٹی پر بھی ہوتا ہے۔ استاد غالب نے اس نفسیاتی مسلے کا اظہار تو بہت پہلے کر دیا تھا۔ اگر ہم استاد غالب کی کسی کہی کو‘ آج کے حوالہ سے لیتے ہیں‘ تو یہ ایسی غلط بات نہ ہو گی۔

استاد غالب شخص کے شاعر ہیں۔ شخص صرف دلی ہی میں نہیں اقامت رکھتا۔ اس لیے‘ غالب کو مکانی شاعر بھی نہیں کہا یا سمجھا جا سکتا۔ غالب نے کبھی سر فلپ سڈنی کا نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ ولیم ورڑز ورتھ کا یہاں شہرہ بڑی بعد کی بات ہے۔ شیلی اور گوءٹے‘ اس وقت کب تھے۔ جان کیٹس کی معروف اصطلاح a fine excess‘ غالب کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہو گی‘ زرا غالب کی زبان کو بڑے کینوس پر رکھ کر غور کریں‘ تو یہ لوگ اس کے قریب کے لوگ ہیں۔ امریکہ کے ہنری لانگ فیلو اور ایملی ڈکنسن اس کےمزاج کے لوگ نہیں ہیں‘ لیکن بعض چیزوں کا اشتراق قابل حیرت ہے۔ شارل بودلیئر اور غالب کئ معالات میں‘ ہم مزاج محسوس ہوتے ہیں۔اسی طرح میں غور کر رہا تھا اوشو اور فینگ سیو فینگ بھی فکری قربت کے حامل ہیں۔

اقبال‘ غالب کے بعد کا شاعر ہے۔ شکوہ اس کی معروف نظم ہے۔غالب نے اس کا کہا دو مصرعوں میں کہہ دیا تھا۔ لگتا ہے‘ یہ نظم ان کے اس شعر کی خوبصورت تشریح ہے۔ غور فرمائیں گے تو عظیم صوفی شاعر شاہ حسین لاہوری کے کہے کی بازگشت استاد غالب کے ہاں سنائ دے گی۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ استاد غالب کے کلام کا مطالعہ‘ مخصوص زمانی و مکانی حوالہ سے کرنا‘ کار گر ثابت نہیں ہو سکتا۔ کوئ جہاں بھی ہے‘ اسے اپنے حوالہ سے دیکھے‘ غالب مایوس نہیں کرے گا۔ استاد غالب کا مطالعہ‘ گویا شخص کا مطالعہ ہے۔ شخص بھی ایسا‘ جو مخصوص زمان و مکان کا پندی نہیں۔ استاد غالب شرق و غرب کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ صرف گزرے کل کے شاعر نہیں ہیں‘ وہ گزرتے آج کے شاعر بھی ہیں۔

زندگی ہر حواالہ سے سنجیدہ ہی نہیں پچیدہ عمل بھی ہے۔ اس کی ایک کروٹ سوچ کو کہیں کا کہیں لا کھڑا کرتی ہے۔ یہی نہیں‘ ہر لمحہ کروٹ لینا‘ زندگی کا چلن اور وتیرہ ہے۔ ایسے میں مستقل نوعیت کی بات کرنا‘ حیرت کدے میں لے جاتی ہے۔ زندگی کے کسی ایک حوالے اور ایک رویے سے آگہی کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ غالب کے لیے یہ سب بچوں کا کھیل ہے۔ دونوں جہاں لے کر مذید کی توقع‘ انسانی نفسیات کا خصوصی پہلو ہے۔ یہ بھی کہ‘ یہ ٹھہراؤ کے عمل پر گہری چوٹ کے مترادف ہے۔ استاد غالب کے قاری پر لازم آتا ہے‘ کہ وہ اس کی زبان کو آفاقی کینوس پر رکھ کر‘ مفاہیم دریافت کرے‘ ورنہ غالب کا کہا‘ ہاتھ سے پھسل پھسل جائے گا۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190922 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.