بلدیاتی انتخابات کا التوا

ملک میں جاری بلدیاتی انتخابات میں جو جوش و خروش دیکھنے میں آیا وہ شاید بھلایا نہ جا سکے۔ خاص طور پر سیاسی جماعتوں اور معاشرے کی فلاح کا درد رکھنےوالے وہ لوگ جو حقیقت میں عوامی نمائندے ہوتے ہیں کا جوش خروش قابل دید تھا۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو سیاست کو خدمت سمجھتے ہیں اور خدمت کی سیاست کو اپنا شعار بناتے ہیں اور ان میں سے جو لوگ اپنے اپنے علاقے میں کچھ بہتری لے آئیں تو وہ آگے بڑھ جاتے ہیں جبکہ اگر وہ اس قابل نہ ہوں کہ وہ کوئی عوامی دفتر چلا سکیں تو عوام ان کو مسترد کر دیتے ہیں اس سے نہ تو ملک کا کوئی نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی نا اہل لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں نیز عوام کے مسائل انکی دہلیز پر حل کرنے میں مدد ملتی ہے جسکا نعرہ تمام سیاسی جماعتیں لگاتی ہیں ۔بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کی جڑیں عوام میں اسی طرح مضبوط ہوتی ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات نہ ہونے سے گلیاں اور نالیاں پکی کروانے والے لوگ اسمبلیوں کے ممبر منتخب ہو جاتے ہیں اور قانون سازی جس کے لیے انکو اسمبلیوں میں بھیجا جاتا ہے ادھوری رہ جاتی ہے اور وہ ممبران جنازے اور شادیاں بھگتاتے رہتے ہیں۔ لیکن اسے ہمارے عوام کی بد قسمتی کہیے یا ہماری حکومتوں کا اپنی جماعتوں پر عدم اعتماد، الیکشن کمیشن کی نا اہلی کہیے یا اس پورے نظام ہی کی ناکامی جسکی وجہ سے آج ملک میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی گئی ہے واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات لڑنے والوں کی اکثریت متوسط طبقے سے ہوتی ہے اور وہ اپنے کام کاج چھوڑ کر اپنی جمع پونجی کو انتخابی عمل میں لگاتے ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جنکے دوست اور رشتہ دار انکی انتخابی مہم کا بیڑہ اٹھاتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی طرف سے دو دفعہ شیڈول جاری کیے جانے کے جانے نے نہ صرف انکے اخراجات کو بڑھا دیا بلکہ اب تو انکو اپنی ساری محنت ضائع ہوتی نظر آرہی ہے میں یہاں صرف پنجاب کی مثال دینا چاہوں گا کہ پنجاب بھر میں موجود یونین کونسلوں کی تعدادچار ہزار سے زائد ہے اور ہر یونین کونسل میں سے کم ازکم بارہ لوگ منتخب ہونے تھے جو کہ تقریباّ پچاس ہزار کے قریب بنتے ہیں اور ان بچاس ہزار کے قریب نشستوں کے لیئے تقریباّ سوا لاکھ لوگوں نے کاغزات نامزدگی جمع کروائے تھے یہاں ہمارے معاشرے کی بے حسی کہیے کہ سوا لاکھ وہ لوگ جو اس ملک کا مستقبل ہوتے وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر کچھ نہیں کر پارہے انہیں ایسا کوئی بھی ادارہ نظر نہیں آتا جہاں وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں شکایت کر سکیں۔ بلدیاتی انتخابات کا بغیر کسی ٹھوس وجہ کے التوا حکومتوں کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے یہ بات مزید عیاں ہو چکی ہے کہ یہ حکومتیں اپنے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل نہیں کرنا چاہتیں۔ آج اگر ایک نوجوان قرضہ فارم لیئے تصدیق کے لیے کسی کے پاس جاتا ہے اور کوئی اسکی تصدیق کرنے کو تیار نہیں لیکن یہی اگر بلدیاتی ادارے موجود ہوتے تو یونین کونسل کا ناظم اسکو تصدیق کر دیتا۔ دیہات میں خواتین کا شناختی کارڈ بنوانے کے لیئے نادرا آفس میں نہ جانا ایک عام سا مسئلہ ہے لیکن بلدیاتی ادارے اگر کام کر رہے ہوں تو یہ مسئلہ فوراّ حل ہو سکتا ہے ۔ میں ذاتی طور پر کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنکے چار سے پانچ بچے ہیں اور وہ یونین کونسل میں رجسٹرڈ نہیں ہیں کیونکہ یونین کونسل میں دیر سے اندراج کی فیس اتنی ہے کہ وہ غریب لوگ نہیں دے سکتے لیکن اگر کوئی ایسا سہل بلدیاتی نظام اس ملک میں اگر رائج ہو تو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوتا۔ لوگوں کے بہت سے ایسے شادی بیاہ کے مسائل جن کو وہ عدالتوں کے لمبے چکروں میں نہیں ڈالنا چاہتے انکو ایک سہولت تھی کہ وہ یونین کونسل میں اپنے مسئلے کو لے کر جاتے اور یونین کونسل اسکا کوئی بہترین فیصلہ کر دیتی جس سے نہ تو انکاکوئی خرچہ ہوتا اور نہ لمبا چوڑا انتظار کرنا پڑتا۔ آج ہمیں مہنگائی کا جو طوفان درپیش ہے اس میں ذخیرہ اندوزی اور زائد منافع خوری بھی سب سے بڑی وجہ ہے عوام کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جہاں وہ ان دونوں کے خلاف شکایت لے کر جا سکیں۔ کسی نے بجلی کا میٹر لگانا ہو تو واپڈا والے جس طرح عام آدمی سے پیش آتے ہیں اسکا تدارک بھی ہو سکتا تھا۔ بجلی چوری، سکولوں کی حالت زار کی بہتری ، نوجوانوں کومایوسی اور نشہ کی طرف راغب ہونے سے بچاو کے لیئے بھی بلدیاتی ادارے بہترین کام کر سکتے ہیں۔ اگر حکومت چاہے تو یہ ادارے انکو ٹیکس کی چوری میں بھی مدد دے سکتے ہیں لیکن شاید ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا جا رہا میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت یہ انتخابات نہیں کروائے گی لیکن انکے رویے سے کم از کم ایسا ضرور لگ رہا ہے کہ وہ انتخابات نہیں کروا رہے اس میں سب سے زیادہ نااہلی الیکشن کمیشن کی ہے کہ اس نے آئین میں واضح طور پر لکھا ہونے کے باوجود بھی ان انتخابات کے لیئے کچھ نہیں کیا الیکشن کمیشن کے با اختیارہونے کا آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کوئی ایسے قوانین وضع نہیں کر سکا جس سے کرپٹ لوگوں کو انتخابات لڑنے سے روکا جا سکے ایک ایسا شخص جس کے اوپر اربوں روپے کی کرپشن ثابت ہو چکی ہو اور اس پر وہ نا اہل بھی ہو چکا ہو تو کیا اسکی دولت سے مستفید ہونے والا کوئی بھی شخص چاہے وہ اسکا بیٹا ہو یا بھائی وہ الیکشن لڑنے کا اہل ہو سکتا ہے ؟ یہاں انتخابات سے پہلے لوگوں کو اپنے ڈیروں میں بلا کر قرآن پاک کے نیچے سے گزارا جاتا ہے کہ وہ انکو ووٹ دیں اس چیز کے تدارک کے لیے اب تک الیکشن کمیشن نے کیا کیا ہے ؟ تھانہ کچہری کی سیاست کرنے والوں کو کس طریقے سے انتخابات لڑنے سے روکا جا سکتا ہے اس کے لیے ابھی تک کوئی موثر ضابطۃ اخلاق نہیں بنایا جا سکا ۔ ووٹروں کو کھانا کھلانا اور انکو ٹرانسپورٹ فراہم کرنا الیکشن کمیشن کے قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن اس چیز کو روکنے میں الیکشن کمیشن ناکام ہو چکا ہے۔ میری چیف جسٹس آف پاکستان سے بڑے مودبانہ طور پر گزارش ہے کہ عوام کو ان کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور انکو انکے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیئے وزیروں کے پیچھے بھاگنا پڑ رہا ہے یہ لوگ انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں یا تو عدالتوں کوختم کر دیا جائے تاکہ لوگوں کی امید بھی ختم ہو جائے یا پھر انکو انصاف دیا جائے ۔
شاہوں سے انصاف کی توقع نہیں لیکن
آپ جو کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
 

Zahid Mehmood
About the Author: Zahid Mehmood Read More Articles by Zahid Mehmood: 57 Articles with 81560 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.