کہنے کو توکشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے ، جنت بے نظیر
ہے، دنیا کا سب سے خوبصورت ترین مقام ہے لیکن کیا ہندوستانی حکومت وہاں کے
عوام کو بھی اسی نظریے سے دیکھتی ہے۔ وہاں جمہوری حکومت رہی ہے لیکن کیا
واقعی وہاں بااختیار حکومت رہی ہے جو اپنی مرضی کے حساب سے فیصلہ کرسکے۔ جو
حکومت اپنے عوام کو انصاف نہ دلاسکے ،قاتلوں اور زانیوں کے گردقانون کا
پھندا نہ تنگ کرسکے اس حکومت کوبااختیار حکومت کیسے کہا جاسکتا ہے۔ کیا
وہاں عملاً فوجی حکومت نہیں ہے، بیوروکریٹس اصل حکومت نہیں چلا رہے ہیں۔
انتخابات کے نام پر ڈرامے نہیں ہوتے۔ کرفیو کے دوران ہونے والے انتخاباتات
کو جمہوری کیسے کہا جاسکتاہے۔ ہندوستان میں کشمیر کے بارے میں غلط فہمیاں
پھیلائی جارہی ہیں۔ اس کا مقصد ہوتاہے کہ کشمیریوں کے لئے زمین تنگ کرنا ۔
اس میں حکومت کامیاب بھی رہی ہے۔ اب حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں لیکن 1989 سے
2004کے واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ انداز ہ ہوجائے گاکہ ان کے ساتھ کس قدر
ظلم و زیادتی، کشمیری خواتین کی آبروریزی، بچوں کو جیل میں ڈالنا، آٹھ دس
سال کے بچے سے توپ برآمد کرنا، فرضی تصادم میں ہزاروں نوجوانو ں کا قتل،
مسلم علاقوں کو تمام بنیادی سہولتوں سے محروم کرنا، کشمیر کو بیواؤں کا شہر
بنادینا ۔یہ ایسے سیاہ کارنامے ہیں جو بدنما داغ ہیں۔ امتیاز کے معاملے میں
جموں و کشمیر سب سے زیادہ بدنام ہے۔ انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل آن ہیومن
رائٹس اینڈ جسٹس اِن انڈین ایڈمنسٹریٹرکشمیر (آئی پی ٹی کے) اور لاپتہ
افراد کے والدین کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈِس اپیئرڈ پرسنز (اے
پی ڈی پی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینکڑوں سکیورٹی اہلکاروں کو کشمیر
میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔ 354 صفحات
پر مبنی یہ رپورٹ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دو مقامی گروپوں نے
مرتب کی ہے۔ یہ رپورٹ معلومات حاصل کرنے کی آزادی سے متعلق قوانین کے ذریعے
حاصل کی گئی سرکاری دستاویزات کی مدد سے تیار کی گئی ہے اور اس میں قتل،
تشدد اور وسیع تر گمشدگیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔اس مسلم اکثریتی علاقے
میں بھاری تعداد میں فوج تعینات ہے اور اسے گزشتہ دو دہائیوں سے علیحدگی
پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں اور حکومتی کریک ڈاؤنز کا سامنا ہے۔’’حیرت کی
بات یہ ہے کہ ریاست کے پاس موجود دستاویزات ہی مخصوص جرائم کا مبینہ طور پر
ارتکاب کرنے والوں کے کردار پر مناسب، ٹھوس اور مدلل شواہد پیش کرتے ہوئے
مسلح افواج اور پولیس کو ملوث قرار دیتی ہیں۔‘‘ وہاں مسلم وزیر اعلی اور
مسلم ممبران اسمبلی کی اکثریت کے باوجود مسلم طبقہ اور مسلم حلقہ بنیادی
سہولتوں سے محروم ہے۔ دور دراز علاقے کے گاؤں کوروڈ سے منقطع رکھا گیاہے
جبکہ بیشترہندو آبادی والے گاؤں سڑک سے مربوط ہے۔ جموں و کشمیر کے کئی
افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فون کرکے بتایاکہ مرکزی وزیر
صحت کے حلقہ میں ہی کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں خواتین کو درد زہ کی حالت میں
چار پائی پر جنازے کی طرح لے جایا جاتاہے۔ ان میں سے کئی خواتین درد زہ کی
حالت میں اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے
کہ گاؤں سڑک سے مربوط نہیں ہوتا اس لئے چار پاپائی پر لے جانا پڑتاہے۔ اس
کے علاوہ مسلم گاؤں بجلی، پانی اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتا ہے۔
یہ سب جموں کے اس حلقے میں ہوتا ہے جس حلقے کی نمائندگی ایک مسلمان کرتا ہے۔
اسی طرح سرکاری اسکیموں میں امتیاز برتا جاتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو
سرکاری اسکیموں کا فائدہ بھرپور طریقے سے نہیں مل پاتا۔ کشمیر میں شورش
پھیلنے کی واحد وجہ حد درجہ امتیازتھی۔تمام اہم عہدوں پر مسلمانوں کا کوئی
عملاً عمل دخل نہیں تھا۔ حق مانگے کی کوشش کی تو کشمیر کو قبرستان میں
تبدیل کردیا گیا۔لیکن کسی نے بھی کشمیر اور نہ ہی کشمیریوں کے ساتھ ہونے
والی ناانصافی اور اس کے درد کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اب جب کہ حالات معمول
پر ہیں لیکن ناانصافی اور امتیاز کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہاہے۔
یہاں ریزرویشن کے معاملے میں بھی یہ ہورہا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں جو مسلمان او بی سی کے زمرے میں
آتے ہیں انہیں ریزرویشن کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ حکومت جموں و کشمیر نے غیر
آئینی کام انجام دیتے ہوئے او بی سی کو او ایس سی (ادر سوشل کاسٹس) میں
تبدیل کردیا ہے اور اس کے لئے محض دو فیصد ریزویشن کا انتظام ہے۔ 27 فیصد
ریزرویشن میں سے 20فیصد ریزرویشن بیکورڈ ایر یاکے لئے مخصوص کردیا ہے ، جب
کہ 3فیصد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے لئے، دو فیصد گجر اور بکروال کے
لئے اور دو فیصد ادر سوشل کاسٹس کے لئے مخصوص کرکے مسلم او بی سی کے حق پر
شب خون مارا گیا ہے۔صورت حال یہ ہے کہ آزادی کے اتنے طویل عرصہ گُزر جانے
کے باوجود آج بھی ریاست جموں و کشمیر کے پسماندہ عوام کی نظروں میں غلامی
کی بد نُماتصویر کی صورت میں موجودہے۔ ریاست کے عوام کوجب شخصی و
جاگیردارانہ نظام سے چھُٹکاراحاصل ہوا اور عوامی حکومت قائم ہونے پر عام
لوگوں کو حکومت سے فائدہ پہنچانے کی بات جموں و کشمیر کے لیڈران کے زیر غور
آئی تو چند ہی برسوں میں ریاست کے اند ر طاقتور طبقوں، کئی بیورو کریٹس
اورچالاک و مفاد پرست سیاست دانوں نے پسماندہ طبقہ کو اپنا ووٹ بنک بنانے
کے حربے استعمال کرنا شروع کر دِیا ۔لیکن اُن کے آئینی حقوق اور مفادات کے
سوال پر ہمیشہ اُن کا رویہ مخالف رہا۔ یہ ایسی تصویر ہے جو ریاست جموں و
کشمیر میں تعلیمی وسماجی طور پر پسماندہ طبقہ جات کیلئے بڑی خصوصیت سے
اُنھیں اپنے حقوق سے محروم رکھنے کیلئے آج تک دکھائی دیتی ہے۔دیدہ دانستہ
طور اپنے زوروجبر سے پسماندہ طبقہ کو اُن کی آئینی مراعات سے دوُر رکھنے
کیلئے استعمال کئے گئے غیر آئینی طریقے استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ کس
قدر حیرانی کی بات ہے کہ صوبہ جموں ، کشمیر اور لدّاخ میں تعلیمی و اقتصادی
طور پر پسماندہ طبقہ کی کل آبادی ر یاست کے طاقتور طبقوں سے دو تین گُنا
زیادہ ہے۔ مگر اُن کے پاس سرکاری مفادات کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے ۔اِس میں
شک نہیں کہ ریاست جموں و کشمیر میں بھی ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح ہی
تعلیمی وسماجی طور پر پسماندہ طبقہ مختلف مذہبوں وطبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے کوئی ان کا دکھ درد سمجھنے والا نہیں ہے۔
جموں و کشمیر او بی سی کے لئے ریزرویشن کی تحریک چلانے والے صدر بنسی لال
اور جنرل سکریٹری عبدالقادر کے مطابق (۱) صرف ریاست جموں و کشمیر میں ملک
کے دوسرے حصوں کی طرح پسماندہ طبقہ جات کیلئے27%ریزرویشن منظور نہیں کی گئی۔
(2) صرف ریاست میں اِن کام کاجی طبقوں کے بچوں کو وظیفے نہیں دئے جا رہے
ہیں۔(3) صرف صوبہ جموں کشمیرسے قانون سازیہ کے دونوں ایوانوں میں ریاست کے
پسماندہ طبقات کی اتنی بڑی آبادی کا ایک بھی عوامی نمائندہ نہیں ہے۔بلکہ
اِن کیلئے مخصوص نشستوں پر بھی ہمیشہ دوسرے طبقوں سے ممبر لئے جاتے رہے ہیں۔(4)
مُلک اور ریاست میں پسماندہ طبقات کی بھلائی اور بہتری کے نام پر کمیشنوں
پر کمیشن بنائے جاتے رہے ہیں۔ مگر صرف ریاست میں پسماندہ طبقہ جات کو اِن
کمیشنوں سے اُن کو اُن کی آئینی مراعات دینے کی بجائے سرکا ر کی پشت پناہی
سے وہ مراعات نہ لینے دینے کے کوششیں کامیاب ہوتی آئی ہیں۔مثال کے طور پر
اِس مقصد کیلئے 29جنوری1953ء میں کاکا کالیکر کمیشن بنایا گیا۔جس نے
30مارچ1955کو اپنی رپورٹ مرکزی حکومت کو پیش کی۔ مگر جموں و کشمیر سرکار نے
بھی ریاستی سطح پر ایک کمیشن بنا کر 1956ء میں زیر آرڈر نمبر826/C اپنی ایک
رپورٹ مرکزی حکومت کو ارسال کردی ۔جس کے تحت ریاست کے تعلیمی وسماجی طور پر
پسماندہ طبقہ جات کو حکومت کی طرف سے آئینی فائدہ پہچانے کی بجائے اس کے
برعکس انہیں دئے گئے اس حق سے محروم کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے پسماندہ طبقہ
جات کو پھر اُنہیں آفیسروں اور سیاست دانوں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑ
گئے۔مرکزی حکومت نے زیر آرڈر نمبر876 مورخہ 6فر وری1967ء پی بی گجیندر گڑکر
کمیشن بنا یا۔ جس نے 42برادریوں کو اپنی فہرست میں شامل کیا۔ریاستی حکومت
نے اُس پر اپنی ایک اور کمیٹی بنادی ۔ جس کے چیر مین جسٹس جے این وزیر مقرر
کئے گئے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کے تحت ریاستی سرکار نے ایک نوٹیفکیشن نمبر
36بمورخہ 20اپریل1970 شیڈولڈ کاسٹ و بیکورڈ کلاسز کیلئے ایک قانون بنایا ۔جس
پر بھی ایک ترمیم کرکے ایک نوٹیفکیشن زیر نمبر60/GDبتاریخ 12مئی1970ء جاری
کیاگیا۔جس میں درجہ فہرست ذاتوں کو 8فیصد اور بیکورڈ کلاسزکو 42 فیصد
ریزرویشن دیا گیا۔ مگر 22ستمبر1976ء میں ریاستی حکومت نے زیر آرڈر نمبر
540بمورخہ 22فروری1976ء ڈاکٹر اے ایس آنند کی چئیرمین شپ میں ایک کمیٹی
قائم کر دی جس کی رپورٹ کے تحت ریاست کے تعلیمی وسماجی طور پر پسماندہ طبقہ
جات کووزیر کمیٹی کی سفارش پر دیا گیا 42 فیصد ریزرویشن ختم کر دیا گیا اور
طاقتور طبقوں میں سے کسی کی ایک فرقہ پرستانہ سازش کے تحت صرف 2%ریزرویشن
کر دیا گیاجو ریاستی سرکار اور کمیشن کے طرف سے ریاست کے پسماندہ طبقہ کے
ساتھ ایک کھُلم کھلا ظلم تھا۔ جِس کے خلاف پھر احتجاج کیا گیا اورمرکزی
حکومت نے 21 مارچ 1979ء کے روز وی پی منڈل کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا
۔جس نے ریاست جموں و کشمیر میں پسماندہ طبقات کی63 ذاتوں سمیت سارے مُلک کی
فہرستوں کے بارے 1980ء میں اپنی سفارشات حکومت کو پیش کیں۔جنھیں 1990ء میں
سابق وزیراعظم جناب وی پی سنگھ مرحوم اس کے بعداے ایس آنند کمیٹی کی
سفارشات پر ریاستی سرکار نے ایک ایس آر او نمبر 272مورخہ 3-7-82کے تحت
42فیصد ریزرویشن ختم کرکے صرف2 فیصد کردیا ۔ جبکہ ریاست جموں کشمیر کے
علاوہ سارے ملک میں منڈل کمیشن کے تحت پسماندہ طبقات کو ریزرویشن باقاعدہ
طور دیا جانے لگا۔مگر مورخہ 16نومبر1992ء منڈل کمیشن کو نافذ کرنے سے قبل
اِندرا ساہنی بنام یونیّن آف انڈیااور دیگران معاملہ میں سُپریم کورٹ نے
زیر نمبرAIR/1993/ SC/477 Verdict 16-11-93 تمام ریاستوں کوایک حکم جاری
کیا کہ چار ماہ کے اندر اندر منڈل کمیشن کی رپورٹ کونافذ کیا جائے۔اس کے
باوجود ریاستی سرکار نے مورخہ 28جون 1994ء کو بیکورڈ کلاسز کیلئے ایس آر او
126کے تحت پسماندہ طبقات کو 2فیصد ریزرویشن دینا ہی جاری رکھا۔ لیکن
پسماندہ طبقات سے حسد کرنے والے چند بااختیار لوگوں نے1996ء میں سرکار سے
یہ آرڈر جاری کروا لِیا کہ دھوبی ذات کا جو شخص آج دھوبی کا کام کرتا ہے
صرف وہی اُس ریزرویشن سے استفادحاصل کر سکتا ہے۔ اس پر او بی سی کے لوگوں
کو پھر سے جدّو جہد کرنا پڑی اور سرکار نے پھر سے ایس آر او 126میں ترمیم
کرکے 104بتاریخ24مارچ1998ء او بی سی کی بجائے او ایس سی(Other social cast)
کے نام پرمگرذاتوں کی بنیاد پر ہی ریزرویشن دینا شروع کردیا۔لیکن سرکار کی
انتظامیہ میں سیاسی مکینِک اِزم کے ماہرین نے پھر سے ایک چال چلی
اور10اکتوبر 2005ء کو ایک اور ایس آر او 294نِکال کر اوبی سی کے نام پر
سرٹیفیکیٹ دینا بند کردئے۔ جس وجہ سے او بی سی کے لوگوں کو پھر سے ایک نئی
جدّو جہدسے دوچار ہونا پڑا۔جس پر سرکار نے294 ایس آر او میں ترمیم لا کر
ایس آر او نمبر 144 مورخہ 28 مئی 2008ء کے تحت پھر ذاتوں کی بُنیاد پر
ریزرویشن دینا جاری کر دیا۔بالآخر ایک طویل جدو جہد کے بعد15 فروری 2010ء
میں او بی سی ڈیولپمنٹ ایڈوائزری بورڈ تشکیل دے دیا گیا۔اس بورڈکے چیرمین
ریاست کے وزیر اعلیٰ صاحب خود ہیں جبکہ اِس کے وائس چئیرمین کانگرس پارٹی
کی طرف سے پسماندہ طبقات سے متعلقہ شری کلدیپ راج ورما صا حب ہیں۔ اسکے
باوجود اس بورڈ میں ساڑھے نو ماہ تک کوئی ممبر نہ لِیا جا سکاجس کی وجہ سے
یہ بورڈ ادھورارہا۔جو ممبر لئے گئے ان میں سے دس ممبر وں کا تعلق اعلی ذات
سے ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔ بہت لیت ولعل کے بعد کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش
کردی جس میں ریزرویشن دینے کی بات کہی گئی لیکن اب تک رپورٹ دھول پھانک رہی
ہے۔ریزرویشن کے معاملے میں صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی ناانصافی نہیں کی جارہی
ہے بلکہ او بی سی ہندو بھی اس سے محروم ہیں۔
منڈل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق واضح طورپر سفارشات موجود ہیں کہ ہندوستان کی
تمام ریاستوں میں او بی سی کو 27فیصد ریزرویش دیا جائے گامگر جموں وکشمیر
کے چالاک بیوروکریٹس اور طاقتور سیاست دانوں نے او بی سی کو او ایس سی (ادر
سوشل کاسٹ) میں تبدیل کرکے کثیر آبادی کو ریزرویشن کی سہولت سے محروم کردیا
۔27فیصد ریزرویشن میں بیس فیصد ایک جعلسازی کے تحت او بی سی کی جگہ بیکورڈ
ایریا کیلئے مخصوص کردیا۔ جس سے مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کردیاگیا۔
ایل او سی علاقے میں رہنے والوں کو تین فیصد ریزرویشن دیا گیا جو کہ
سراسرغیرآئینی ہے۔ او بی سی کو 27فیصد میں سے دو فیصد ادرسوشکل کاسٹس کے
نام دیاگیا۔بیکورڈ ایریا اور ایل او سی کا ذکر منڈل کمیشن میں کہیں نہیں
ملتا۔عبدالقادر کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق ایل او سی ایریا میں پانچ
فیصد مسلم آباد ی ہے ۔ ریزرویشن کا نظام نافذ نہ ہونے کی وجہ سے سب سے
زیادہ نقصان جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا ہورہا ہے۔ جموں و کشمیر میں
59فیصد او بی سی ہیں جن میں 40 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے۔ جن علاقوں کو
بیکورڈ ایریا قرار دیاگیا ہے وہاں بھی مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس طرح
حکومت جموں و کشمیر نے مسلمانوں کے ساتھ ریزرویشن کا نظام نافذ نہ کرکے
اپنی مسلم دشمنی کا ثبوت دے رہی ہے۔ |