یہ بات اظہر من ا لشمس ہے کہ فوج پاکستان میں سب سے مضبوط
ادارہ ہے اور کسی حکمران میں اتنی جرات نہیں کہ وہ فوج کے سامنے کھڑا ہو
سکے،اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے،اسے ناراض کرسکے اور اس کے بعد یہ
توقع بھی رکھے کہ اس کا اقتدار محفوظ و مامون بھی رہے گا۔ہاتھی کہ پاؤں میں
سب کا پاؤں اور پاک فوج کو ہاتھی کے اسی پاؤں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس کے
پاؤں میں سب کا پاؤں ہے۔ یہ بات آصف علی زرداری نے پہلے دن ہی اپنے پلے
باندھ لی تھی کہ اگر حکومت کرنی ہے تو پھر فوج کو ناراض نہیں کرنا ہے لہذا
اپنے پانچ سالہ اقتدار میں آصف علی زرداری نے فوج سے کوئی بھی مہم جوئی
کرنے کی کوشش نہیں کی۔فوج نے آصف علی زرداری کو تنگ ضرور کیا لیکن آصف علی
زرداری نے فوج سے پنگا لینے کی شعوری یا لا شعوری کوئی کوشش نہیں کی۔کئی
دفعہ یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ فوج پی پی پی حکومت کی چھٹی کروانا
چاہتی ہے لیکن پھر بھی منت سماجت سے معا ملات ٹالے جاتے رہے اور حکومت کی
رخصتی کی خبریں حقیقت کا روپ اختیار نہ کر سکیں۔وزارتِ دفاع اور وزارتِ خا
رجہ ہ فوج کی مرضی اور منشاء کے مطابق پالیساں تشکیل دیتی رہیں تا کہ فوج
کو کسی بھی بات پر شکائت کا موقعہ نہ ملے۔افغان پالیسی اور نیٹو سپلائی بھی
فوج کی مرضی کے تابع تھی ۔جب کہاجاتا تھا سپلائی کھول دو سپلائی کھول دی
جاتی تھی اور جب کہا جاتا تھا کہ سپلائی لائن بند کر دو تو سپلائی لائن بند
کر دی جاتی تھی۔پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں فوج سے چھیڑ چھا ڑ سے حتی
الوسع پر ھیز کیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی پی پی اپنے پانچ سال پورے کر
گئی۔ویسے بھی ہمارے حکمران اتنے با شعور اور سمجھدار تو ہیں نہیں کہ وہ
علاقے کی سٹریٹیجک پوزیشن اور عالمی تناظر میں اس کی دفاعی ضروریات کی سمجھ
سکتے ہوں ۔ان کا جاگیردا رانہ ذہن ایک محدود حدتک سوچ سکتا ہے جس کی وجہ سے
فوج کی مشاورت اور ڈکٹیشن ناگزیر ہو جاتی ہے۔ویسے بھی دفاعی اور خارجہ امور
کو سیاست دانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ وہ اپنے کارو
باری معاملات میں پاکستان کی عزت و وقار کو داؤ پر لگانے سے بھی نہیں
چوکتے۔بھارت کو سب سے زیادہ پسندیدہ ملک قرار دینے کا فیصلہ اس بات کی
نشاندہی کرنے کیلئے کافی ہے کہ کاروباری معاملات ملکی مفادات پر حاوی ہو
جاتے ہیں جس سے ملک کی پہچان کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں لہذا سیاستدا نوں
کو فری ہینڈ نہیں دیا جا سکتا۔
سیاست دا نوں کی شدید خواہش ہے کہ فوج کو پاکستان میں اسی طرح ذلیل و رسوا
کیا جائے کہ یہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہے اسکیلئے رؤترکی کی مثال دی
جاتی ہے لیکن پاکستان ترکی نہیں ہے۔پاکستان کا معاشرہ ترکی سے بالکل مختلف
ہے ۔اس کی عادات اس کی ترجیحات اور اس کی ثقافت ترکی سے بالکل تال میل نہیں
ر کھتی لہذا یہ کہنا کہ ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے من و عن پاکستان پر
بھی لاگو کر دیا جائے ممکن نہیں ہے ۔اگر ترکی میں جرنیلوں کا احتساب ہو
سکتا ہے تو پھر پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔؟یہ ایک ایسی سوچ ہے جس
کا زمینی حقا ئق سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ایسا کہنا حقائق کو جھٹلانے
اور فوج کو طیش دلانے کے مترادف بھی ہے جس سے نام نہاد جمہوری نظام کو شدید
نقصان بھی پہنچ سکتا ہے ۔ترکی کی قیادت اور ان کا اندازِ سیاست پاکستان سے
بالکل مختلف ہے لہذا ترکی کا موازنہ پاکستانی سیاست سے کسی بھی طرح نہیں
کیا جا سکتا۔ترکی کی قیادت اور پاکستانی قیادت میں بھی زمین و آسمان کا فرق
ہے کہاں کاروباری دنیا سے ابھرنے والی قیادتیں اور کہاں متوسط طبقے سے ابھر
کر آنے والی قیادتیں جن کے ہاں کرپشن اور ہوسِ زر کا کوئی تصور نہیں
ہے۔پاکستا ن میں تو سیاست حصولِ دولت کی ایک سیڑھی ہے جبکہ ترکی میں سیاست
ملک کی خدمت اور عوام کی حالتِ زار بہتر بنانے کاعزم ہے۔تین دفعہ لگا تار
جیت کے ریکارڈ قائم کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ہمارے ہاں تو ایک دفعہ کے
بعد ہی عوام کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں ۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پچھلے
آٹھ ماہ میں جو گل کھلائے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔مہنگائی،کرپشن اور لوٹ
کھسوٹ کا جس طرح بازار گرم ہے اس نے عوام کی جمہوریت سے وابستگی کو تا ر
تار کر کے رکھ دیا ہے۔بجلی اور گیس کی عدمِِ فراہمی نے عوام کو عذاب میں
ڈال رکھا ہے،بے روزگاری اور امن و امان کی صورتِ حا ل نے عام آدمی کا جینا
اجیرن کر رکھا ہے۔وہ اس سے نکلنا چاہتا ہے لیکن اسے کوئی راہ سجھائی نہیں
دے رہی کیونکہ پاکستان کے سیاست دان بہتری کی ہر راہ کو مسدود کر رہے
ہیں۔سیاستدانوں کے وہ مسائل ہی نہیں ہیں جو ایک عام آدمی کے مسائل
ہیں۔سیاستدانوں کے پاس دولت کی ریل پیل نے ان کے اندازِ فکر کو بالکل بدل
کر رکھ دیا ہوا ہے جبکہ عام آدمی کی پہلی ترجیح روزگار کا حصول اور اپنے
خاندان کی کفالت ا ہوتی ہے۔سیاستدانوں کا تو یہ ایشو ہی نہیں ہوتا ان کا
ایشوتو دولت کے انبار لگانا اور ملکی وسائل پر قبضہ کرنا ہوتا ہے اور یہ
قبضہ ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے قائدین کے نعرے
بلند کرنے سے باز نہیں آتے۔وہ ہماری آئیندہ آنے والی نسلوں کے مستقبل سے
کھلواڑ کرتے ہیں لیکن ہم پھر بھی انھیں عظیم ترین انسا نوں کی صف میں کھڑا
کرتے ہیں حالانکہ ان کا مقام جیل کی سنگلاخ دیواریں ہونی چائیں۔پی پی پی کے
پانچ سالہ دورِ حکومت میں لوگ شاکی تھے کہ ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی گئی
۔کرپشن ،نا انصافی اورمہنگائی نے انھیں لاچا رو بے بس بنا دیا ہے لیکن یہ
سلسلہ تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بھی جاری و ساری ہے اور اس میں کوئی
کمی نہیں آئی بلکہ مسائل کی شدت موجودہ دور میں اور زیادہ گہری ہو گئی
ہے۔پتہ نہیں کہ موجودہ جمہوری نظام اب اس کا کون سا حل تلاش کریگا؟
جنرل پرویز مشرف نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ میں میاں محمد نواز شریف کی سول آمریت
کو الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا جسے عدالت نے جائز قرار دیا تھا ۔لیکن
کوئی ہے جو ان معزز ججز سے یہ سوال کرنے کی جسارت کرے کہ وہ آئین کی کونسی
شق تھی جس کے تحت آپ نے شب خون کو جائز قرار دیا تھا؟۔۳ نومبر ۲۰۰۷ کو اگر
جنرل پرویز مشرف نے ایمرجیسنی لگا کر کچھ ججز کو فارغ کیا تھا تو اسے آئین
سے ماورا قرار دے کر جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے
لیکن ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ کو عدلیہ کے جن ججز نے جنرل پرویز مشرف کے شب خون کو
جائز قرار دیا تھا اور اسے آئین میں ترمیم کا اختیار دیا تھا وہ کس آئینی
شق کے تحت تھا؟اگر ایک اقدام غیر آئینی ہے تو دوسرا اقدام غیر آئینی کیوں
نہیں ہے؟اس ملک میں مارشل لاؤں کی تاریخ کافی طویل ہے اور اس میں عدلیہ اور
جرنیل باہم ملے ہوئے ہیں ۔ایک مارشل لا لگاتا ہے تو دوسرا اسے جائز قرار دے
دیتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے وقت بھی یہی ہوا تھا یہ مارشل لا
بھی پہلے مارشل لاؤں کی طرح جائز قرار پایا تھالیکن جنرل پرویز مشرف سے
غلطی یہ ہوگئی کہ اس نے اپنی سانجھے دار عدلیہ کے ساتھ بھی پنگا لے لیا جس
نے اسے آئینی ہونے کا پروانہ تھمایا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا
کوئی ایسا ادراہ ہے جو ججز سے یہ پوچھ سکے کہ جب وہ آئین سے ماورا فیصلے
کرتے ہیں تو ان کی جوابدہی کیسے کی جائیگی؟ایک ادارہ تھا جسے سپریم جوڈیشل
کونسل کہتے ہیں لیکن افتحار محمد چوہدری کے مقدمے میں اسے بھی بے اثر کر کے
رکھ دیا گیا تھا ۔افتحار محمد چوہدری کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس
ہی بھیجا گیا تھا لیکن چونکہ وکلا کو علم تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں وہ
یہ مقدمہ ہار جائیں گیں اس لئے وکلا برادری اور ججز کی ملی بھگت سے اس
مقدمے کا سپریم جوڈیشل کی بجائے فل کورٹ ریفرنس ہوا تھا جس میں افتحار محمد
چوہدری بحال ہو گئے تھے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدلیہ کے اندر جوابدہی
کاطریقہ کار ججز کے گرد ہی گھومتا ہے۔ایک جج کا احتساب دوسرا جج کریگا ۔اب
اگر ججز باہم متحد ہو جائیں تو پھر کسی بھی جج کا ا حتساب نہیں ہو سکے گا
جیسا کہ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ججز کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والا اپنے
منصب سے ہٹا دیا جاتاہے جیسا کہ سید یوسف رضا گیلانی کے معاملے میں ہوا
تھا۔اگر سارے اداروں کے افراد اور سربراہ کسی دوسرے ادارے کے سامنے جوابدہ
ہیں تو پھر ججز کو بھی کسی ایسے ادارے کے سامنے جواب دہ ہونا چائیے جو ان
کو ان کی حدود میں رکھ سکے تا کہ ملک میں حقیقی انصاف کا بول بالا ہو سکے۔۔ |