یہ ہے چنگچی میری جان!

جو عقل کو حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے پر مجبور کرنے والے واقعات پر یقین نہیں رکھتے وہ اپنے ماحول پر ’’دیکھ مگر پیار سے‘‘ والی نظر ڈالیں تو دنگ رہ جائیں گے کہ اب تک اُنہوں نے دیکھا ہی کیا تھا!

ہماری سڑکیں، اﷲ بُری نظر سے بچائے، عقل کو چکرادینے والے آئٹمز پیش کرنے میں درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ زمانے ہوا ہوئے جب کھیل کے میدانوں یا خالی سرکاری پلاٹس پر سرکس لگا کرتے تھے۔ قبضہ مافیا کی مہربانی سے خالی سرکاری پلاٹس بچے ہی نہیں۔ ایسے میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے اُصول کی بنیاد پر خانہ ساز سرکس متعارف کرائے ہیں۔

نئی نسل نے سڑکوں کو موت کا کنواں سمجھ کر موٹر سائیکل پر کرتب دِکھانے کی روایت کو پروان چڑھایا ہوا ہے۔ جان جوکھم میں ڈالنے والی ون وھیلنگ کے آگے موت کا کنواں کیا چیز ہے؟ موت کے کنویں میں کرتب دِکھانے والے کے لیے تو میدان خالی ہوا کرتا تھا اور اُسے تھوڑا سا رسک لیکر موٹر سائیکل پر ون مین شو کرنا ہوتا تھا۔ آج کے نوجوان بھری پُری، چلتی ہوئی سڑک پر تیز رفتار ہیوی گاڑیوں کے درمیان پیٹ کے بل لیٹ کر موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور آن کی آن میں کہیں سے کہیں جانکلتے ہیں! کبھی کبھی تو وہ کسی بھی سمت ایسے بڑھتے جاتے ہیں کہ پھر اپنے پیروں پر چل کر واپس نہیں آ پاتے!

مگر خیر سڑکوں کی رونق کچھ ون وھیلنگ کی محتاج نہیں۔ چنگچی رکشے بھی تفریح طبع کیلئے پوری آب و تاب حاضر ہیں۔ صاحبِ طرز مزاح نگار شفیق الرحمٰن نے لکھا ہے کہ اُلّو کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت کچھ کرنے کی ٹھان لے تو کرکے دم لیتی ہے۔ یہی بات چنگچی کے حوالے سے بھی کہی جاسکتی ہے۔ جس کسی نے بھی یہ دوغلی گاڑی (آدھی موٹر سائیکل اور آدھا ٹانگہ) ڈیزائن کی اُسے خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ خراجِ عقیدت ہم نے چنگچی میں سفر کرنے والوں کے لیے رکھ چھوڑا ہے!

اب تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ چنگچی رکشے سرکس کی دُنیا سے آئے ہیں یا میلۂ مویشیاں و اسپاں سے! سچ تو یہ ہے کہ ہر چنگچی رکشا اپنے آپ میں لوک ورثہ ہے، میلہ ہے، سرکس ہے! جو لوگ روزانہ چنگچی رکشوں میں سفر کے عادی ہوچکے ہیں وہ بھی یہ دیکھ کر حیران ہوتے رہتے ہیں کہ بدمزاج بیوی کے دماغ کی طرح جس گاڑی کا اپنا توازن پل بھر میں بگڑ جاتا ہے وہ درجن بھر مسافروں کو اپنے اندر سموکر کِس خوبی اور توازن کے ساتھ سڑک پر رواں رہتی ہے! بہت سے لوگ چنگچی رکشے میں بیٹھنے کے بعد اِس سوچ میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ چلے گا کیسے۔ اور جب وہ چل پڑتا ہے تو سفر اِس اُلجھن میں کٹتا ہے کہ یہ چل کیسے رہا ہے!

تین پہیوں کی اِس سواری میں مُسافر اِس طرح ایڈجسٹ ہوتے جاتے ہیں کہ خود بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ مُسافروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ڈرائیور کے ’’ایثار‘‘ کا گراف بھی بُلند ہوتا جاتا ہے۔ پہلے وہ اپنی سیٹ پر ہوتا ہے۔ پھر فراخ دِلی کا مُظاہرہ کرتے ہوئے آدھی سیٹ مُسافر کو دیتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں وہ آدھی سیٹ بھی مُسافر کو دیکر ’’ٹینکی‘‘ کے پچھلے حصے پر بیٹھتا ہے۔ چوتھے اور حتمی مرحلے میں اُس کی سیٹ بننے کا اعزاز پاتا ہے ٹینکی کا ڈھکن! اور اِس کے بعد وہ گاڑیوں کی بھیڑ سے گزار کر چنگچی کو جس طرح دوڑاتا ہے اُس تماشے کو دیکھنے پر اب تک ٹکٹ نہیں لگا!

لوگ ٹی وی پر کار ریسنگ بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ خالی ٹریک پر کار دوڑانا کون سی کمال کی بات ہے؟ مزا تو جب ہے کہ کار ریسنگ کے چیمپین چنگچی میں بارہ پندرہ افراد کو سوار کرکے بھری پُری سڑک پر پوری رفتار سے تین چار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے دکھائیں۔ ذرا سی دیر میں لگ پتا جائے گا، ساری مہارت دست بستہ رخصت چاہے گی اور جتنی بھی پَھنّے خانی ہے وہ جان کی امان چاہنے کے چکر میں پڑے بغیر نو دو گیارہ ہوجائے گی!

کہتے ہیں دِل میں جگہ ہونی چاہیے۔ چنگچی رکشے اِسی اُصول کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ ڈرائیور کو سڑک پر پیسنجر صرف نظر آنا چاہیے۔ بٹھانا یا ایڈجسٹ کرنا اُس کا کام ہے۔ بہت سے سیاست دانوں کی عادت ہے کہ بات بات پر ’’ہے کوئی مائی کا لعل‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ایسے تمام سیاست دانوں کو چیلینج ہے کہ ذرا بھرے ہوئے چنگچی کے ڈرائیور کے سامنے اِتنا کا کہہ کر دیکھیں کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو چنگچی میں سوار ہوکر دکھائے۔ اور پھر خود ہی دیکھ لیں کہ چنگچی ڈرائیور کس طرح ایک نہیں، کئی بندے فِٹ کرکے اُنہیں غلط ثابت کرتا ہے!

اب تو پورا پاکستانی معاشرہ چنگچی کے اُصول کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ چنگچی رکشا پاکستانی معاشرے کی ساخت کو دیکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہوگا۔ جہاں گنجائش کے گنّے سے آخری قطرہ تک نچوڑا جاچکا ہے وہاں بھی گنجائش پیدا کرنا پاکستانیوں کا سب سے بڑا ہُنر ہے۔ اور یہ ہُنر ہمیں چنگچی رکشے میں بدرجۂ اتم دکھائی دیتا ہے۔

ہمارا پُرخلوص مشورہ یہ ہے کہ انتخابات کے بعد جب حکومت سازی کا مرحلہ آئے تو چنگچی ڈرائیورز کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ وہ مختلف ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کو سانجھے کی ہنڈیا یعنی مخلوط حکومت میں اچھی طرح ایڈجسٹ کرسکیں! یہ ایڈجسٹمنٹ اِس طرح کی ہوگی کہ اسٹیک ہولڈرز کو ڈھنگ سے سانس لینے کا موقع نہ مل سکے گا اور جب تک وہ کوئی شِکوہ زبان پر لانے کے قابل ہو پائیں گے، سفر ختم ہوچکا ہوگا!

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہر وزارت، ہر محکمے میں چنگچی کی رُوح حلول کرگئی ہے۔ ’’ون ٹو کا فور‘‘ کے فارمولے پر عمل ہو رہا ہے۔ مطلب یہ کہ جہاں ایک یا دو کی گنجائش بھی مشکل سے نکل سکتی ہو وہاں چار افراد کو ایڈجسٹ کیا جارہا ہے! یعنی بندے اِس طرح add کرو کہ سب کو معاملہ just دِکھائی دے! آپ سوچیں گے اِس طرح تو وزارت، محکمے یا ادارے کا سانس پُھول جائے گا، وہ اُلٹ یا پَلٹ بھی سکتا ہے۔ کوئی بات نہیں، سڑک پر ہم نے چنگچی رکشے بھی پَلٹتے دیکھے ہیں۔ تو کیا اُلٹنے، پَلٹنے سے یہ رکشے بند ہوگئے؟ ہمارے ہاں جمہوریت نے بھی چنگچیانہ مزاج اپنالیا ہے۔ جمہوری حکومتیں بھی چنگچی رکشے کی طرح ڈولتی ہوئی سفر کرتی ہیں۔ ہر قدم پر گمان گزرتا ہے کہ شاید اب جمہوریت کی بساط اُلٹ جائے گی مگر ایسا ہوتا نہیں۔ لوگ بہت ناشکرے ہیں۔ چنگچی کے اُلٹنے یا پَلٹنے کا واقعہ تو اُنہیں یاد رہ جاتا ہے اور یہ جو ڈرائیور روزانہ سو بار چنگچی کو گِرنے سے بچاتے ہیں اُس کی داد کون دے گا!

چنگچی رکشا ہمارے خاندانی نظام کا بھی بھرپور عکاس ہے۔ باپ کے چھوڑے ہوئے 80 گز کے مکان میں چار بھائی اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اِسی طرح تو ٹُھنس کر رہتے ہیں! باپ کے گھر میں کوئی پورے فلور پر قبضہ کرلیتا ہے اور کسی کے حصے میں قبر سے مُشابہ کمرا بھی مشکل سے آتا ہے۔ چنگچی میں بھی کوئی پوری سیٹ پر قابض ہو رہتا ہے اور کسی کے حصے میں صرف ٹینکی کا ڈھکن آتا ہے!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483151 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More