اُردو زبان کا ’’افسانہ‘‘ اگرچہ انگریزی زبان کی’’ شارٹ
سٹوری‘‘ کا مترادف مان تو لیا گیا ہے،لیکن جس سٹوری یا کہانی کو ’’شارٹ
سٹوری‘‘کہہ کر اُس کی طوالت کی حقیقت سے تعرض کیا جاتارہا ہے، ’’افسانہ‘‘
ایسی کسی وضاحت کا متحمل نظر نہیں آتا، شاید یہی سبب ہے کہ ’’افسانچہ‘‘کی
نئی اصطلاح کے اختراع کی ضرورت پیش آئی تاکہ ’’ افسانہ‘‘ کو طوالت کے
اعتبار سے اِس نئی اِس اصطلاح کے ذریعہ ممیز کیا جاسکے۔ہمارے ہاں اِس سلسلے
میں تجربے تو ہو رہے ہیں لیکن افسانوی ادب کی اِن اصطلاحات کی فکری بنیادوں
کے حوالے سے بہت کچھ طے کیا جا نا ابھی باقی ہے۔ دُنیا کی زندہ اقوام کی
زبانوں کا ادب مغلوب و محکوم اقوام کے ادب کے مقابلے میں چھلانگیں لگاتا
ہوا کوسوں دور آگے نکل جاتا ہے، جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔یہ
جستجو ضرورہونی چاہیے کہ کیا ہمیں اپنی فکری پیش رفت کے لیے اِن کے ہاں سے
کسی قسم کی بنیادیں فراہم ہو سکتی ہیں ۔یہ ایک اہم ہدف ہے جو ہمارے ادبی و
افسانوی مفکرین کا مطمحِ نظر ہونا چاہیے۔ بہت پہلے انگریزی کا یہ اقتباس
کہانی کی طوالت کے بارے میں صاف اور واضح الفاظ میں بہت کچھ کہہ چکا تھا :
Determining what exactly separates a short story from longer fictional
formats is problematic. A classic definition of a short story is that
one should be able to read it in one sitting, a point most notably made
in Edgar Allan Poe's essay "Thomas Le Moineau (Le Moile)" (1846).
ترجمہ : قطعی طور پر یہ طے کرنا کہ وہ کیا چیز ہے جوایک شارٹ سٹوری یا
افسانے کو، ایک طویل قصہ نویسی کے فارمٹ سے ممیز کرتی ہے،اصلاً ایک بڑا
مسئلہ ہے۔ایک افسانے یا شارٹ سٹوری کی کلاسک تعریف یہ کی گئی ہے کہ’’ ایک
ایسی کہانی افسانہ یا شارٹ سٹوری کہلائے گی، جسے’’ ایک ہی نشست ‘‘میں پڑھا
جاسکے،یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کی طرف’’ ایڈگر الان پو‘‘ کے ایک مضمون
(۱۸۴۶ء)میں خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے‘‘۔ایڈگرپوانیسویں صدی کی امریکی
رومانوی ادبی تحریک کے ایک اہم ستون، مصنف، شاعر، مدیر
اورنقاد(متوفی:۱۸۴۹ء)
قرار دیے جاتے ہیں)۔(حوالہ: ویکی پیڈیا، موضوع:شارٹ سٹوری)۔
یہ سوال پھر بھی جواب طلب باقی رہ جاتا ہے کہ افسانہ کس قدر طوالت کی بنا
پر افسانہ کہلاتا ہے اور کس قدر چھوٹا ہو کر یہ افسانچہ کی حدود میں داخل
ہوکر افسانچہ بن جاتا ہے۔! کیوں کہ ’’ایک ہی نشست‘‘ کی بات طوالت کو متعین
کرنے سے قاصر ہے اوراس میں جو ابہام اور غیر یقینی پائی جاتی ہے وہ اظہر من
الشمس ہے۔ اِس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بعد کے مفکریں نے الفاظ کی تعدا د
بھی متعین کی اور اِس طرح افسانے ؍شارٹ سٹوری کی حدودکومقرر کرنے کی کوشش
کی گئی۔ مثلاً یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
Other definitions place the maximum word count of the short story at
anywhere from 1,000 to 9,000 words. In contemporary usage, the term
short story most often refers to a work of fiction no longer than 20,000
words and no shorter than 1,000, or 5 to 20 pages.
ترجمہ:’’دیگر تعریفیں افسانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ الفاظ کی حد مقرر کرتی
ہیں،ایک ہزار تا نو ہزار الفاظ کی تعداد کے کہیں قریب۔ جدید استعمال کے
نقطۂ نگاہ سے افسانے کی اصطلاح زیادہ تر ایک ایسے افسانوی کاوش پر صادق آتی
ہے، جو بیس ہزار الفاظ سے زیادہ طویل نہ ہو،اورایک ہزار الفاظ سے کم پر
مشتمل نہ ہویا پھرپانچ تا بیس صفحات۔‘‘
لیکن آگے جو کچھ کہا گیا ہے وہ ہمارے ’’افسانچوں‘‘ کی تعریف متعین کرنے میں
معاون ہو سکتا ہے:
Stories of fewer than 1,000 words are sometimes referred to as "short
short stories" or "flash fiction."
ترجمہ: ’’کہانیاں جو ہزار سے کم، تھوڑے ہی الفاظ پر مشتمل ہوں،کبھی کبھی
’’شارٹ شارٹ سٹوریز‘‘ یا فلاش فکشن کہے جائیں گے۔‘‘
پھر یہ قطعی تعریف بھی ہمیں ملتی ہے:
’’افسانچہ (مختصر ترین کہانی) Story Short Short انسانی تجربے کو نثری صورت
میں کم سے کم لفظوں میں بیان کرنا افسانچہ کہلاتا ہے۔ادب میں یہ صنف
انگریزی ادبیات کے تتبّع سے متعارف ہوئی، جس میں شعور کی روStream of
consciousness اور آزاد فکری تلازمے Free Association Of Thought کی عمل
داری ہوتی ہے۔ شاعری میں مختصر نظم اور نثر میں افسانچہ ایک ہی نوع کی
چیزیں ہیں لیکن اْردو ادب میں مقبول نہیں ہو سکیں……‘‘(حوالہ: ویکی پیڈیا:
افسانچہ)۔
بالفاظ ِ دیگر یہی فلاش فکشن ہی دراصل’’ افسانچے ‘‘ہیں اورہونے چاہئیں، جو
آج تواتر کے ساتھ لکھے جار ہے ہیں اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا ، جب اِس کی
طوالت کو لے کر جوSuspenseپایا جاتا ہے، وہ ختم ہوکر رہے گا۔
بہر کیف اِن مباحث کے درمیان ہندوستان میں افسانچہ نگاروں میں اِس وقت ایک
معتبر بلکہ سر فہرست نام جھارکھنڈ کے معروف قلمکار ڈاکٹر ایم اے حق صاحب کا
ہے۔ اُردو افسانوی ادب کی اِس صنف میں موصوف کی قدآوری کا اندازہ اِس حقیقت
سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی جیسی معروف شخصیت نے
ڈاکٹر حق کے افسانچوں پرعالمی سطح کی۵۴ جلیل القدر شخصیات کی آراء پر مشتمل
۱۷۶ صفحات کی کتاب مرتب کرنے کی ضرورت محسوس فرمائی ،جسے ہندوستان پبلشنگ
ہاؤز دہلی نے شائع کیا ہے۔اِ ن آراء کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف
نے نہایت ہی قلیل عرصے میں لمبی لمبی چھلانگیں لگائی ہیں۔ اِن چوّن احباب
میں دُنیائے ادب کی شہرت یافتہ شخصیات شامل ہیں اوراِن اصحاب نے میدانِ
افسانچہ نگاری میں حق صاحب کی منفرد صلاحیتوں اورخدمات کوبجا طور پر بھرپور
خراجِ تحسین پیش فرمایا ہے، جو غماز ہے اِس حقیقت کا کہ اب افسانوں اور
افسانچوں کے درمیان تمیز کا معاملہ کوئی معمہ بن کر بہت دیر تک باقی رہنے
والانہیں ہے۔ ایک زندہ ادبی معاشرے کا خاصہ ہوتاہے کہ معاصرانہ چشمک سے
بلند تر ہوکر معاصرین فنکار اپنے با صلاحیت اور اہم سینئر ہم عصروں کو
ہاتھوں ہاتھ لیں۔حق صاحب تو اِس سے بھی کہیں زیادہ کے مستحق ہیں۔ اِس لیے
کہ موصوف ایک ذمہ دارانہ سرکار ی منصب کی بے پناہ مصروفیات کے درمیان بھی
نہ صرف اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ، بلکہ، وقت کی نبض محسوس
کی۔ عصر حاضر کا اِنسان یہ جو خواہ مخواہ کے مسائل میں اُلجھ کر رہ گیا ہے
اور جسے ایک شعر تک پڑھنے کی فرصت نہیں، کجا کہ طویل افسانوں کے مطالعے کے
لیے وقت نکا سکے،ایسے پر آشوب دور میں قاری کو قلمکاروں کی افسانوی تخلیقات
سے وابستہ رکھنے کی حق صاحب نے جو شعوری کاوش فرمائی وہ قابلِ صد تحسین ہے
اور یہی چیز حق صاحب کو اِس میدان کا نمایاں شہسوار بنا دیتی ہے۔
جس دورِ ادب بیزاری میں حق صاحب تخلیق کار ی کے فرائض انجام دینے میں مصروف
ہیں،اُس میں مقصدیت کو سینے سے لگائے رکھنا بڑی جرٔت کا کام ہے۔ظاہر ہے یہ
ایک ایسا دور ہے جس میں رُومانیت اپنا محلRelevanceکھو چکی ہے، اور اگر
کہیں ہے بھی تو اِس پر مقصدیت اور اصلاح کا پہلوہی غالب رہا ہے۔تاریخ گواہ
ہے کہ اُردو افسانے کے ابتدائی دور میں بھی،جب سجاد حید ر اور پریم چند نے
افسانہ نگاری کی کمان سنبھالی تھی ،تو دونوں کی مختلف المزاجی ایک حقیقت
تھی۔ ایک طرف (سجاد حیدرکی )رومانیت تھی تو دوسری طرف پریم چند کی
مقصدیت،اور یہی مقصدیت تھی جو با لآخرحیدر کی رومانیت پر غالب آگئی تھی۔دور
جدید کے انقلابات نے ایک فنکار کو تاریخِ افسانوی ادب کے جس موڑ پر لاکر
کھڑا کر دیا ہے وہاں صرف مقصدیت ہی اپنا لوہا منوا سکتی ہے اور رومانیت پر
بازی لے جاسکتی ہے، چاہے وہ افسانے ہوں کہ افسانچے۔
ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ایم اے حق صاحب نے خود کو سدرشن ، علی عباس حسینی ،
اعظم کریوی وغیرہ جیسے بامقصد متبعین افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہونے کو
ترجیح دی، جنہوں نے پریم چند کی روایت کو مزید آگے بڑھایاہے۔میں سمجھتا ہوں
کہ اُن کی کاوشوں کو کھلے طور پر معاصر فنکاران برادری کی بھرپور تائید و
نصرت حاصل ہونی چاہیے ۔ لیکن افسو س ہوتا ہے کہ وہ اِس وقت ایک روایتی مگر
ناخوشگوار مقامی معاصرانہ چشمک کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔فیس بک پر موجود اُن کی
ایک تحریر اِس کی خبر دیتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ
مقامی سطح پرکسی بھی فنکار کو بہت کم توجہ دی گئی ، وہ چاہے دُنیا کا کوئی
شہر کیوں نہ ہو۔ مجھے اُمید ہے کہ حق صاحب اِس حقیقت کو خنداں پیشانی سے
تسلیم کر لیں گے۔ادبی گروپ اِزم کے اِس دور میں کچھ افراد کو نظر اندازکرتے
ہوئے اپنے کام کو حسب معمول جاری رکھنا پڑتا ہے۔ایسے معاصر قلم کاراحباب سے
گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی برادری کے ادبی خدمت گاروں کو حوصلہ
بخشیں اور اُردو کو نئی بلندیوں سے روشناس کرنے میں اپنا عطیہ پیش کریں۔
میں دونوں ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی صاحب اور ڈاکٹر ایم اے حق صاحبان کی
خدمت میں اِس کتاب ’’ڈاکٹر ایم اے حق اور افسانچہ نگاری کا فن‘‘ پردِلی
مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ وہ افسانچوں کی تخلیق کا اپنا
بیش قیمت کام جاری رکھیں گے اور معاشرے کی مکروہات کی حسبِ معمول نشان دہی
کرتے رہیں گے،جو اصلاً اِنسانیت کے مفاد میں بہت بڑا کام ہے اورتاریخ کا یہ
کام ہے کہ کون ، کس دور میں اپنے قلم سے کیا کام لیا۔
دُعا ہے کہ اﷲ تعالےٰ دُنیائے ادب کے اِس وفاشعار افسانچہ نگار کے کام میں
برکت عطا فرمائے۔ آمین۔ |