باسمہ تعالیٰ
عام انتخابات کی حکمت عملی تیارکرنے کے مقصدسے گذشتہ دنوں آل انڈیاکانگریس
کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں سونیاگاندھی نے دوراندیشی اورمصلحت پسندی سے
کام لیتے ہوئے اپنے بیٹے اورکانگریس کے نائب صدرراہل گاندھی کووزارت عظمیٰ
کاامیدوارنہیں بنایاالبتہ انتخابی مہم کی کمان راج کمارکے حوالے
کردی،سونیاگاندھی کاکہناتھاکہ یہ کانگریس کے اصولوں کے خلاف ہے کہ قبل
ازانتخاب وزارت عظمیٰ کی امیدواری کااعلان کیاجائے بلکہ انتخاب کے بعدمنتخب
ہونے والے اراکین پارلیمنٹ اورپارٹی لیڈران اسی وقت وزیر اعظم کے لیے جسے
بہترسمجھیں گے منتخب کریں گے۔بہرحال وجہ جوبھی ہولیکن بہت حدتک یہ عقلمندی
اوردوراندیشی سے اٹھایاگیامثبت قدم بھی ہے اس سے جہاں ایک طرف یہ پیغام
جائے گاکہ کانگریس کسی فردواحدکے لیے انتخاب نہیں لڑرہی ہے بلکہ ملک کے لیے
انتخاب لڑرہی ہے اور جیت کرآنے والے لیڈران ہی اپنالیڈرمنتخب کریں،وہیں ان
لوگوں کی زبان بھی بندہوگئی ہے جوکانگریس کویہ طعنہ دے رہے تھے کہ کانگریس
کے پاس قیادت کابحران ہے اسی لیے مودی کامقابلہ کرنے کے لیے کانگریس راہل
گاندھی کووزارت عظمیٰ کاامیدواربنائے گی تاکہ انتخابات کومودی بمقابلہ راہل
کانام دے کرووٹ حاصل کیاجائے لیکن بہرحال کانگریس صدرسونیاگاندھی نے ہمیشہ
کی طرح اپنی دوراندیشی کاثبوت پیش کرتے ہوئے لوگوں کی امیدوں پرپانی
پھیردیااورراہل گاندھی کوانتخابی مہم کی کمان سونپ کریہ تاثردیاکہ کانگریس
پارٹی اب بھی فردسے بالاترہے۔
حالاں کہ کچھ دنوں قبل تک ایسامحسوس ہورہاتھاکہ کانگریس اب صرف دونوں بہن
بھائی کی بیساکھیوں کے سہارے زندہ رہنے والی ہے،اورکانگریس کی میٹنگ میں
پرینکاکی شمولیت نے اس شک کومزیدتقویت پہونچانے کاکام کیاتھاکہ کانگریس اس
وقت قیادت کے بحران سے دوچارہے اس لیے آنے والے انتخابات میں کانگریس دونوں
بہن بھائی کا استعمال کرے گی تاکہ انتخابات میں کامیابی کویقینی بنایاجاسکے
جس کے لیے اس طرح کی چہ می گوئیاں بھی سننے کوملی تھی کہ پرینکاگاندھی
کوانتخابی مہم کی ذمہ داری سونپی جائے گی اور راہل گاندھی کووزیراعظم
کاامیدواربنایاجائے گالیکن ۱۷؍جنوری کی میٹنگ نے ان قیاس آرائیوں کوختم
کردیااوراب یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ پرینکاگاندھی صرف امیٹھی اور رائے بریلی
تک ہی اپنی سرگرمیاں محدودرکھیں گی اورراہل گاندھی عام انتخابات کی باگ
ڈورسنبھالیں گے۔اس موقع پرراہل گاندھی نے عام انتخابات کی ذمہ داری
سنبھالتے ہوئے بالکل ہی الگ تیوراورجارحانہ اندازمیں کھل کرسامنے آئے ہیں
حالاں کہ اس سے قبل بھی انہوں نے اپنے اس تیورکواستعمال کیاہے لیکن وہ اس
کاخاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھاسکے،لیکن ملک کے عوام کوجب سے ’’عآپ‘‘کی شکل میں
تیسرامتبادل ملاہے تمام سیاسی پارٹیاں اپنی حکمت عملی بدلنے پرمجبورہوگئی
ہیں اورسبھی پارٹیوں نے ’’عآپ‘‘کی راہ پرچلتے ہوئے تمام معاملات میں’’عام
آدمی‘‘کواہمیت دینی شروع کردی ہے جس کانتیجہ ہے کہ راہل نے بھی اپنی
تقریرمیں’’عام آدمی‘‘کوزیادہ اہمیت دی ہے۔راہل گاندھی نے نئی ذمہ داریوں
کوسنبھالنے کے بعدجوتقریرکی ہے اس تقریرمیں گوکہ راہل نے ہرسطح پرعام آدمی
کواہمیت دینے کی کوشش کی ہے لیکن انہوں نے اپنی تقریرمیں ایک بڑی بھول کی
ہے جوکہ انہیں نقصان بھی پہونچاسکتی ہے ۔راہل گاندھی نے اپنی تقریرمیں جہاں
دیگرمسائل کاذکرکیااوراس کے حل کرنے کی بات کہی ہے وہیں انہوں نے اپنی
تقریرمیں مسلم مسائل کابالکل بھی ذکرنہیں کیاجوکہ مسلم اقلیت کے لیے تشویش
کاباعث ہے،یہ وہی اقلیت ہے جس کاووٹ ہرانتخاب میں فیصلہ کن ہوتاہے
اوراگرراہل گاندھی نے دیدہ ودانستہ مسلم اقلیت کونظراندازکیاہے توانہیں اس
کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔
راہل گاندھی میں انتخابی ذمہ داری کی کمان سنبھالنے کے بعدایک نیاجوش
اورنیاتیوردیکھاگیاہے،سننے والوں نے ان کے سخت لہجہ کوسناہے جواس بات کی
جانب اشارہ کرتاہے کہ دہائیوں سے چلی آرہی کانگریس کی روایتی سیاست اب ختم
ہونے والی ہے اورراہل اسے نئی سمت دینے والے ہیں،انہوں نے اپنی تقریرمیں
بطورخاص انتخابی منشورکی طرف توجہ دیتے ہوئے کہاکہ اب تک کانگریس کاانتخابی
منشوربندکمروں میں بنایاجاتاتھالیکن اب ہمیں اس روایت کوختم کرنی ہوگی
اوراب براہ راست عام آدمی کے مشورہ سے انتخابی منشور کو حتمی شکل دیاجائے
گا،اسی طرح انہوں نے خواتین کے حقوق کی وکالت کرتے ہوئے کہاکہ خواتین
کوہرشعبۂ حیات میں۵۰؍فیصدحصہ داری دی جائے گی۔انہوں نے وزیراعظم منموہن
سنگھ کی قیادت پراطمینان ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ منموہن سنگھ کی قیادت سے ہم
لوگ پوری طرح مطمئن ہیں،انہوں نے اپنے دوروزارت عظمیٰ میں بہت سے بڑے کام
کیے ہیں جن میں آرٹی آئی کے قانون کانفاذ،غذائی تحفظ بل کاپاس کرانا،گذشتہ
۱۰؍سالوں میں ملک کے نوجوانوں کونئے اقتصادی مواقع مہیاکرائے گئے ہیں،اسی
طرح بدعنوانی پر قدغن لگانے کے لیے لوک پال بل کوقانون کی شکل دی گئی
ہے۔انہوں نے ملک کے مفادکے لیے کئے جانے والے اہم اورضروری فیصلوں میں عام
کارکنان اورنوجوانوں کی شمولیت پربھی زوردیا۔ملک سے مہنگائی کے خاتمہ
پربولتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ملک میں مہنگائی کی وجہ صرف اقتصادی پالیسی ہی
نہیں ہے بلکہ اس کی ایک اہم وجہ کالابازاری اورجمع خوری بھی ہے جس پرلگام
کسنابہت ضروری ہے۔اسی طرح انہوں نے پالیسی بنانے میں اس بات پرزوردیاکہ
پالیسی سازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پالیسی وضع کرتے وقت عام آدمی کوذہن
میں رکھ کرپالیسی بنائے تاکہ ملک کاایک بڑاطبقہ جوگاؤں میں رہتاہے اس کی
ضروریات اوراس کی پریشانیوں کے حل کی آسان اورکارگرتدبیرنکالی جاسکے۔
لیکن افسوس صدافسوس!راہل گاندھی نے اپنی تقریرمیں عام آدمی کے خوف سے عام
آدمی کوتواہمیت دی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ ملک کی تقدیرسنوارنے میں جس خاص
اقلیت کاخاص اوراہم کردارہے اس کے مسائل کاکیاہوگا؟راہل گاندھی کے اس عمل
سے مسلم اقلیت کواپنامستقبل خطرے میں نظرآرہاہے،کیوں کہ یہی وہ راہل گاندھی
ہیں جنہوں نے اس سے قبل مظفرنگرکے دورکے موقع سے مسلم نوجوانوں کے تعلق سے
ایک ایسی بات کہہ دی تھی جوکہ مسلم نوجوانوں کے مستقبل پرسوالیہ نشان
کھڑاکردیاتھااورایک بارپھرسے اپنی تقریرمیں مسلم مسائل کونظراندازکرنامسلم
اقلیت کے اس شک کومزیدتقویت پہونچانے کاکام کیاہے کہ کانگریس بھی مسلم
اقلیت کے تئیں مخلص نہیں ہے۔اس وقت ہندوستانی مسلمان بہت سارے مسائل میں
گھراہواہے،بالخصوص وطن عزیزمیں مسلمانوں کی جان ومال عزت وآبرومحفوظ نہیں
ہے،آئے دن مسلمان مختلف علاقوں میں فرقہ پرستوں کے ظلم وستم کانشانہ بنتے
رہتے ہیں اورکوئی ان کاپرسان حال نہیں ہوتاجس کاجیتاجاگتاثبوت
مظفرنگرفسادہے،کہ چارمہینہ گذرجانے کے باوجودبھی آج تک مظفرنگرفسادزدگان کی
بازآبادکاری اوران کے جان ومال عزت وآبروکی حفاظت کامناسب انتظام نہیں
کیاگیاجس کی وجہ سے آج بھی وہ سخت اورجان لیواسردی کے موسم میں کھلے آسمان
کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اورکوئی بھی ان کاپرسان حال نہیں ہے اس
میں صوبائی حکومت کے ساتھ مرکزی حکومت بھی شامل ہے۔فرقہ وارانہ فسادات
پرقدغن لگانے کے لیے ’’انسدادفرقہ وارانہ فساد بل‘‘ بنایاگیاتھاتاکہ
پارلیمنٹ میں پاس کراکراسے قانون کی شکل دی جائے تاکہ مسلمانوں کی جان ومال
اورعزت وآبروکی حفاظت ہوسکے،لیکن وہی راہل گاندھی جنہوں نے بدعنوان سیاست
داں کوانتخاب لڑنے کی اجازت دینے والے بل کویہ کہہ کرپھاڑدیاکہ اس سے سیاست
مزیدگندی ہوجائے گی،یہ وہی راہل گاندھی ہیں جنہوں نے کیجریوال کی بڑھتی
مقبولیت سے ڈرکراناکی حمایت میں اترکرلوک پال بل پاس کرادیا،لیکن انہوں نے
مسلمانوں کی طرف سے باربارکے مطالبہ کے باوجودانسدادفرقہ وارانہ بل کوایوان
میں پیش نہیں کرسکے،اورنہ ہی انہوں نے اپنی تقریرمیں اس جانب کچھ اشارہ
کیاجس سے کم ازکم مسلمانوں کویہ امیدرہتی کہ شایدآنے والے دنوں میں
اگرکانگریس حکومت بناتی ہے تووہ اس بل کوضرورپاس کرالے گی اورایک ایساقانون
وجودمیں آجائے گاکہ جس سے فرقہ وارانہ فسادات ختم نہیں توکم ازکم کم
ضرورہوسکتے ہیں،اسی طرح راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں بے قصورجیلوں میں
بندمسلم نوجوانوں کی رہائی کے سلسلہ میں بھی کوئی اشارہ نہیں کیاتواب
غورکریں کہ راہل گاندھی سے مسلمان کیاتوقعات وابستہ کرسکتے ہیں،اورکس امید
پر مسلمان آنے والے انتخابات میں راہل کے ہاتھ کومضبوط کریں گے۔راہل گاندھی
کی یہ تقریرسننے کے بعدغالب کایہ شعربرجستہ زبان پرآتاہے:
واعظ کاہراک ارشادبجا،تقریربہت دلچسپ مگر٭آنکھوں میں سرورعشق نہیں،چہرے
پریقین کانورنہیں
کانگریس اورمسلمان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خودکانگریس
کی،کانگریس کے روزقیام سے ہی مسلمان اس سے وابستہ ہے اوربغیرمسلمانوں کے
کانگریس ہمیشہ ادھوری رہی ہے،مسلمانوں کی یہی وہ اہمیت تھی کہ کبھی بھی
کانگریس نے مسلمانوں سے ہٹ کرکوئی فیصلہ نہیں کیابلکہ ہرفیصلہ میں مسلمان
کانگریس کے شانہ بشانہ رہے لیکن گذشتہ دودہائی سے جس طرح کانگریس کے چوٹی
کے لیڈران مسلمانوں کونظراندازکرنے کی کوشش کررہے ہیں کانگریس کوخوداس
کاخمیازہ بھگتناپڑرہاہے،کانگریس کوماضی میں بھی مسلمانوں کی ناراضگی جھیلنی
پڑی ہے اوراس کی وجہ سے اسے سیاسی بن باس بھی کاٹناپڑاہے،اوراب ایک
بارپھرسے راہل گاندھی اسی جن سنگھی ذہنیت والی حکمت عملی پرچل رہے ہیں جوان
کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتاہے،کیوں کہ پہلے مسلمانوں کی مجبوری تھی
کہ اس کے پاس کوئی دوسرامتبادل نہیں تھااب مسلمانوں ہی نہیں بلکہ ملک کے
عام آدمی کے پاس عام آدمی پارٹی کی شکل میں متبادل سامنے آچکاہے اب
اگرکانگریس نے مسلمانوں کونظراندازکرنے کی کوشش کی تومسلمان تواپناسیاسی
قبلہ تبدیل کرلیں گے لیکن پھراس غلطی کاخمیازہ کانگریس کو سیاسی بن باس کی
شکل میں بھگتناپڑے گااوروہ بن باس غیرمعینہ مدت یاپھرہمیشہ کے لیے بھی
ہوسکتاہے۔٭٭٭ |