دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد
یو ں تو پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل سیاسی و معاشی زوال کا سامنا
کرنا پڑ رہا ہے طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر بم دھماکے ، خودکش بمبار ،
امریکہ کی طرف سے ڈرون حملے یہ وہ ہتھیار ہیں جس نے پاکستان کے عوام سے اس
کا آج چھین لیا ہے اسے مفلوج کردیا ہے مگر میں سمجھتی ہوں کہ یہ نقصان اس
نقصان کے آگے صفر ہے جو پاکستان کی آبادی کے دو تہائی حصہ یعنی بچوں کو
پولیو ویکسینشن نہ ملنے کے سبب ہو رہا ہے ۔ ہمارا آج ہی نہیں بلکہ کل یعنی
مستقبل بھی مفلوج ہورہا ہے ۔ ملک کے مختلف حصوں میں پو لیو مہم کے دوران
جان لیوا حملوں کا سلسلہ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی اپنی ہلاکت خیزی کے
ساتھ موجود ہے ۔ 2011ءمیں دنیا میں پو لیو کے سب سے زیادہ ایک سو اٹھانوے
کیسیز پاکستان میں پائے گئے تھے ۔ پاکستاں میں اس وقت پانچ سال سے کم عمر
کے تین کروڑ ۰۴ لاکھ بچوں میں جسمانی معذوری یعنی پو لیو کا سبب بننے والے
وائرس سے بچاﺅ کے قطرے پلائے جانا ضروری ہیں ، لیکن دکھ افسوس اور حیرت کی
بات یہ ہے کہ پاکستان میں انسداد پولیو مہم کو ڈاکٹر شکیل نے متنازعہ بنا
دیا ہے ۔ امریک خفیہ ادارے سی آ ی اے نے اسامہ بن لادن کے خون کے نمونے
حاصل کرنے کے لیے ایک جعلی این جی او کو استعمال کیا جس کا ڈ ا کٹر آفریدی
بنیادی کردارتھے ۔
فاٹا ، خیبر پختون خواہ ، سندھ اور بلوچستان میں انسداد پولیو مہم کی
ناکامی اور پولیو مہم پر جان لیوا حملوں میں اب تک تین درجن سے زائد
ورکرزاب تک ہلاک ہو چکے ہیں جن میں عورتیں بھی شامل ہیں ۔ جو لائی 2012ءسے
سال کے اختتام تک پولیو کے خاتمہ کے لیے قطرے پلانے والی مہم میں سے بارہ
کارکنوں کو طالبان اور مذہبی شدت پسندوں نے قتل کیا ۔ حقوق انسانی کی نامور
شخصیات کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی کردار کشی بھی کی گئی ۔ پاکستان
دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو جیسے موذی مرض پر تا حال
قابو نہیں پایا جا سکا ہے ۔ امریکی اخبارات کا کہنا ہے کہ پاکستانی اپنے
بچوں کو پولیو کے رحم کرم پر چھوڑنے پر مجبور ہیں ۔ گزشتہ سال مصر کے دار
الحکومت قاہرہ میں پولیو وائرس کی ایک ایسی قسم ملی ہے جو اس سے پہلے
پاکستان کے شہر سکھر سے دریافت ہونے والے وائرس سے مماثلت رکھتی ہے ۔ پولیو
وائرس کی نشاندہی کے بعد اقوام متحدہ کے اداروں نے حکومت پاکستان سے کہا ہے
کہ وہ ہوائی اڈوں پر بیرون ملک جانے والے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا
فوری انتظام کرے ۔ بھارت نے بھی پاکستانیوں کو ویزے کے اجراءپر پولیو
سرٹیفکٹ کو لازمی قرار دے دیا ہے ۔ 2010ءمیں بھی پاکستان میں 138بچے پولیو
کا شکار ہوئے ۔ فاٹا خیبر پختون خواہ سے شروع ہونے والے پولیو ٹیموں پر
حملوں کا سلسلہ دیگر تمام صوبوں میں بھی پھیلتا جا رہا ہے ۔ ۹ دسمبر
2012ءمین کراچی ، پشاور کی پولیو ٹیموں پرفائرنگ سے 5خواتین جاں بحق ہوئیں
۔ پولیو مہم کے دوران دسمبر ۲۱۰۲ءمیں دہشت گردوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے
والی 18سالہ کا سات بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر تھا ۔ خاندان کے رواج کے
مطابق اس کی ماں نے اسکی شادی 14سال کی عمر میں کردی تھی لیکن اس کی شادی
کامیاب نہ ہوسکی طلاق کے بعد وہ اپنی ماں کے پاس آگئی اس کے اپنے بھی دو
بچے تھے جو اس کے شوہر نے چھین لیے تھے وہ اپنے بچوں کو بہت یاد کرتی تھی
اس نے اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے اور چھوٹے بہن بھائیوں کی معاشی ضرورتوں کے
پیش نظر انسداد پولیو مہم کا حصہ بنی مگر دہشت گردی کا شکار ہوکر ہمیشہ کی
نیند سو گئی ۔ یہ صرف ایک رضاکار عورت کی کہانی نہیں ہے پاکستان میں معاشی
ضرورتوں کے لیے نکلنے والی ہر عورت اپنے پیچھے ایسی ہی داستانیں چھوڑ جاتی
ہے ۔ مدیحہ کی ماں رخسانہ نے اپنی بیٹی کی ہلاکت پر کہا تھا ” مدیحہ میری
بیٹی نہیں بیٹا تھی ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں پولیو رضاکار کی حیثیت سے
میری بیٹی کا قتل انسانیت کا قتل ہے ۔“
دسمبر 2012ءمیں 72سالہ پروقار بوڑھی خاتون بر گسٹا سوئیڈن کی سماجیرضاکار
خاتون کو جو گزشتہ اڑتیس سال سے پاکستان میں مقیم تھیں دہشت گردوں نے حملہ
کر کے ہلاک کردیا ۔ اس وقت مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے کہا تھا کہ
پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے والی کارکنوں پر حملوں سے ان کی فاوئنڈیشن
کام نہیں روکے گی ۔ بل گیٹس اور ان کی اہلیہ میلنڈا گیٹس کی فاﺅنڈیشن پولیو
کے خاتمے کے لیے پاکستان ، نائیجریا اور افغانستان میں کام کر رہی ہے ۔
جنوری 2013ءکا آغاز بھی انسداد پولیو مہم پر صوابی میں فائرنگ سے ہوا جس
میں ایک پولس اہلکار جاں بحق اور ایک لیڈی ہیلتھ وزیٹر زخمی ہوئیں ، مردان
میں بھی پولیو ٹیم پر معمور اہلکار وں پر فائرنگ کی گئی سیکورٹی کلریرینس
نہ ملنے کے سبب سندھ میں پولیو مہم معطل ہے ۔ خیبر پختون خواہ میں ۱۱
اساتذہ اغواءکیے جا چکے ہیں ۔ انسداد پولیو مہم کے متعلق بد اعتماد ی مرض
سے ذیادہ خطرناک ہے ۔ عوام میں اس بد اعتمادی کو ختم کرنے کے لیے گزشتہ
حکمرانوں سمیت موجودہ حکمرانوں کی کوششیں بھی جاری ہیں نواز شریف ۔ راحیل
شریف بھی اس مہم کی حمایت میں بیان دے چکے ہیں ۔ عمران خان نے عملی طور پر
اس مہم میں حصہ بھی لیا تاکہ عوام کا اعتماد بحال کیا جاسکے ۔ امام کعبہ کے
ذریعہ بھی انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے میں مدد لی جا چکی ہے مگر جب
تک پولیو انسداد مہم پر حملے ہوتے رہیں گے پاکستان کو پولیو فری زون بنانے
کا خواب ادھورا رہے گا – ہیلتھہ ورکرز جو گھر گھر جاکے پولیو ڈراپس پلا تی
ہیں انہیں جان و مال کا تحفظ دیا جائے ۔ ساتھ ہی محلے کی سطح پر بھی سینٹر
قائم کیے جائیں یا پھر سرکاری یا لوکل گورنمنٹ کی نگرانی میں قائم چھوٹے
بڑے ہسپتالوں میں فوری طور پر ویکسینشن کروانے کی ہدایت دی جائے اور عملے
کو سیکورٹی کے ساتھ ساتھ ضروری سہولتیں اور معلومات بھی فراہم کی جائیں ۔
( مذکورہ بالا مضمون چند دن بیشتر لکھا گیا تھا آج کراچی میں پولیو ڈراپس
پلانے والی ٹیم پر پھر حملہ کر کے تین ورکر کو ہلاک کردیا گیا ظلم و بر
بریت کی انتہا ہے ) |