ہر چندشعبہ طب سے وابستہ افراد ، خاص طور پر مسیحائی کا
فریضہ انجام دیتے ڈاکٹرزبے حد قابل تعظیم تصور کیے جا تے ہیں۔ مگر ہمارے
ہاں گذشتہ کئی ماہ سے مسیحائی کے پیشے سے منسلک یہ افراد متنازعہ حیثیت
اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کاسبب وہ منفی اور غیر منطقی پیشہ وارانہ طرز عمل
ہے جونوجوان ڈاکٹرز اپنائے ہوئے ہیں۔گرچہ ہر فرد کو قانونی اور اخلاقی
تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کی تگ و دو کا حق حاصل ہے۔
مگر اپنے حقوق کی جستجو میں دیگر افراد کے حقوق کو پس پشت ڈالنا کسی طور
مناسب نہیں۔ افسوس چند سو ڈاکٹرز گزشتہ کئی ماہ سے اپنے پیشہ وارانہ حقوق
کی سعی میں سینکڑوں افرادکے صحت جیسے بنیادی حقوق سلب کیے ہوئے ہیں۔اس تمام
عرصے میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن متعدد بار ہڑتالوں، مظاہروں اور دھرنوں کا
انعقاد اور مریضوں کے علاج معالجے کا بائیکاٹ کر چکی ہے۔ او ۔پی۔ ڈی
(Outdoor Patient Department) کے علاوہ کئی بار ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی بندش
سے سینکڑوں افراد کو بر وقت معالجے سے محروم رہنا پڑابلکہ کئی افراد جان سے
بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ دوران احتجاج علاج کے لئے ملتمس مریضوں کے لواحقین ا
ور ہنگامی صورتحال میں علاج کی فراہمی میں کوشاں سینئر ڈاکٹرز بیشتر بار ان
نوجوان ڈاکٹروں کے زیر عتاب آئے ۔
ڈاکٹروں کا یہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی رویہ کسی طور بھی مسیحائی جیسے
مقدس پیشے سے میل نہیں کھاتا۔درحقیقت تعلیمی میدان میں شاندار کارکردگی کے
حامل انتہائی قابل اور ذہین طالبعلم ہی میڈیکل میں داخلے تک رسائی حاصل کر
پاتے ہیں ۔شب و روز کی محنت کے بعد معاشرے کے ذی عزت پیشے سے وابستہ ان
افراد کا طرز عمل ان کی قابلیت اورذہانت کا مظہر ہونا چاہیے۔ڈاکٹرز کا یہ
مردم آزار رویہ نہ صرف مریضوں کے ساتھ انتہائی بے انصافی ہے بلکہ ڈاکٹروں
کی بے حکمتی کا بھی مظہر ہے۔ یہی ڈاکٹرز عوام کا علاج معالجہ جاری رکھتے
ہوئے مہذب طریقے سے احتجاج کرتے تو آج عوام الناس کی تمام ہمدردیاں اپنے
مسیحاؤں کے ساتھ ہوتیں۔ اس کے علاوہ وائی ۔ڈی۔اے عدلیہ ، میڈیا اور سول
سوسائٹی کو اپنا ہم نوا بنا کرحکومت پر دباؤ بڑھا سکتی تھی۔
ہرچندنوجوان ڈاکٹروں کے مطالبات یکسر نا جائز نہیں مگر مطالبات کے حصول کے
لیے ان کا طرز عمل انتہائی غیر مناسب ہے۔ خواہ یہ مطالبات سو فیصدہی جائز
ہوں،مگر انہیں عوام الناس کی صحت اور زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا حق حاصل
نہیں۔معاوضے میں اضافے اور سروس سٹرکچر میں بہتری لانے کا تقاضا بجا مگر
درحقیقت ان مطالبات پر عمل درآمد کا انحصار حکومت کی بساط اور معاشی
استعداد کار پر ہے نہ کہ نوجوان ڈاکٹروں کی ذاتی خواہشات پر۔ انہیں یاد
رکھنا چاہیے کہ ان کی مہنگی تعلیم حکومتی سبسڈی کی مرہون منت رہی ہے۔یوں
بھی حکومت پنجاب کی جانب سے نوجوان ڈاکٹروں کی تنخواہ میں بساط بھر اضافہ
کیا جا چکا ہے اور صوبہ پنجاب کے ڈاکٹرز کی تنخواہیں دیگر صوبوں کے معالجین
کے معاوضوں سے کئی گنا زیادہ ہیں ۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق گریڈ سترہ
کے میڈیکل آفیسر کی تنخواہ 60سے 80ہزار ہے جو کہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔ اس
کے علاوہ پرائیویٹ پریکٹس بھی ڈاکٹروں کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی ڈاکٹرز پرائیویٹ ہسپتالوں اور اپنے ذاتی کلینکوں
میں انتہائی مختلف طرز عمل اختیار کرتے اور ہر طرح کے ڈسپلن کی پابندی کرتے
ہیں۔ مگر سرکاری ہسپتالوں میں بیشتر اوقات فرائض کو فراموش کیے، اپنے حقوق
کے لیے متحرک نظر آتے ہیں۔ دیگر عوامل کے ساتھ اس کی ایک وجہ غالبا حکومت
مخالف سیاسی جماعتوں کی کمک بھی ہے جووقتا فوقتا ڈاکٹروں کی حوصلہ افزائی
کا باعث بنتی رہی۔ سیاسی جماعتیں قومی نوعیت کے اس اہم معاملے کو سیاست
بازی کا ذریعہ بنانے کی بجائے حکومت اور ڈاکٹروں کے مابین مصالحانہ کردار
ادا کرتیں تو یہ معاملہ کب سے سلجھ چکا ہوتا۔سیاسی مفادات کے حامل افراد کی
شہ YDA کو ایک پریشر گروپ بناچکی ہے جوطاقت کا مظاہرہ کر کے حکومت کو بلیک
میل کرنے کی راہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگرچہ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی ڈاکٹروں
پرلاٹھی چارج ، آنسو گیس ، اور گرفتاریوں جیسے اقدامات قطعا مناسب نہیں مگر
نوجوان ڈاکٹروں نے خود طاقت کا مظاہرہ کر کے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے پر
مجبور کیا۔ حال ہی میں میٹرو بس سروس کے افتتاح کے روز ڈاکٹروں نے واضح
احکامات کے باوجود بس اسٹیشنوں کی جانب پیش قدمی کر کے انتظامیہ کو جوابی
کاروائی پرمائل کیا۔ حالانکہ معاشرے کے ان پڑھے لکھے افراد کو کئی ممالک کے
سفیروں کی موجودگی اور ان کی نظر میں پاکستان کے مثبت تاثر کی خاطراپنے
احتجاج کو موقوف رکھنا چاہیے تھا۔
دوسری جانب کئی ماہ سے جاری یہ احتجاج پنجاب حکومت کی بے ہنری کی بھی دلیل
ہے۔ وزیر اعلٰی پنجاب کی تمام مستعدی سے قطع نظر، پانچ سالہ عرصہ اقتدار کے
دواران وزیر صحت کا تعینات نہ کیے جانابہت سے مسائل کی وجہ بنا رہا ۔ حکومت
پنجاب بھی کبھی ملٹری ڈاکٹروں کی مدد سے، کبھی ڈاکٹروں کی معطلیاں اورجلد
بازی میں نئے ڈاکٹروں کی بھرتی جیسے وقتی اقدامات کا سہارا لیتی رہی ، مگر
کوئی ٹھوس اور قابل تائید حکمت عملی وضع کرنے میں نا کام رہی۔حالانکہ سیاسی
اور حکومتی اراکین کے علاوہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار افرادکی شمولیت سے
یہ معاملہ بخوبی نمٹایا جا سکتا تھا۔
ڈاکٹروں کامریضوں سے یہ غیر انسانی سلوک ،اپنے اور سینئرز اور اساتذہ پر
تشدد ہمارے تعلیمی نظام اور استاد کے کردارپر بھی سوالیہ نشان ہے۔ بیشتر
ادارے تعلیم کو کاروبار کا درجہ دئیے فقط ڈگری کی فراہمی کی ذمہ داری
نبھاتے ہیں اور طالبعلموں کو احترام آدمیت ، انسانیت اور اخلاقیات کا درس
دینے سے قاصر ہیں۔ ایسے تعلیمی نظام سے مستفید افراد ملک کو کیا دے سکیں گے
جو صرف ذاتی فائدے کی فکر میں مبتلا ہوں۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کیساتھ
ساتھ طالب علموں کی تربیت میں استاد کے کردار میں بھی بہتری لانے کیجانب
توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور ڈاکٹرز سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ کرنے کی
بجائے مذاکرات کے ذریعہ اس مسلئے کا دونوں فریقوں کے لئے قابل قبول حل
نکالیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں اور دیگر حلقوں کو بھی اپنی ذاتی دوستیوں اور
دشمنیوں سے ماورٰاہو کر اس حساس معاملے کے حل میں غیر جانبدار کردار ادا
کرنا چاہیے تاکہ عوام الناس کو مزید خواری سے بچایا جا سکے۔ |