تقاضہ

کیا آپ کو کبھی کسی قاری صاحب کے پاس پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے؟ اگرآپ کا جواب ہاں میں ہے تو باقی باتیں آپ اشارے سے سمجھ جائیں گے اور اگر ابھی تک آپ نے قاری صاحب کے سامنے زانوے تلمذتہ نہیں کیا تو پھر میری باتوں کو آپ صدر یا وزیراعظم کی تقریر سمجھے لیں کہ جس کے سمجھنے کیلئے ہر لفظ کا متضاد معلوم ہونا ضروری ہے۔ مثلاً تقریر میں جب کہا جائے اشیاء سستی ہوجائیں گی تو آپ یقین کرلیں اشیاء مہنگی ہونے والی ہیں، اگر کہا جائے امن وامان کی صورت حال بہتر ہوجائے گی تو آپ سمجھ لیں قتل، ڈاکیتی، چوری اور اغواء کی وارداتوں میں تیزی آنے والی ہے اور ایک دو دن میں کوئی بم دھماکہ بھی لازماً ہوگا، اگر جناب یہ فرمائیں کہ جمہوریت بحال کردی جائے گی تو آپ خوب جان لیں مذید پانچ سال تک جمہوریت کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، اگر صاحب فرمائیں لوٹ مار کرنے والوں کو عبرت ناک سزادی جائے گی تو یقین کر لیں کوئی نیب زدہ ‘وزیر بننے والاہے۔ قراء کو طلباء پر سخت محنت کرنا پڑتی ہے، خصوصاً مخارج کی درستگی ایک کٹھن اور صبر آزما کام ہوتاہے۔ طالبعلم کئی کئی گھنٹے مسلسل بیٹھتا ہے اور ایک ایک حرف کو سینکڑوں مرتبہ دہراتا ہے،یہ مشق طالب علموں کا گلا بیٹھا دیتی ہے اور ان کیلئے بات کرنا بھی مشکل ہوجاتاہے، طلبا کی اس حالت کونظر میں رکھتے ہوئے قراء نے ایمرجنسی معاملات کیلئے کچھ اشارے مخصوص کیئے ہیں، ان اشاروں کا فائدہ اٹھا کر طالبعلم بغیر بولے اور بغیر قاری صاحب کے قریب آئے انگلی ہلاتاہے اور جواباً قاری صاحب ہاں یا نہ میں سر یا چھڑی ہلادیتے ہیں، اگر طالبعلم کھڑے ہوکر ایک چھوٹی انگلی کھڑی کرے تو اس کا مطلب ہے چھوٹی حاجت کیلئے جانا ہے اور اگر وہ دو انگلیاں کھڑی کرے تو مطلب یہ ہے کہ بیک وقت دونوں حاجتوں کا معاملہ درپیش ہے، اگر طالب علم ہاتھ کو کپ بنا کر منہ کی طرف لے جائے تو مطلب ہے پانی پینے کیلئے جاناہے۔

’’تقاضہ‘‘کا لفظ تبلیغ والوں کی ایجاد ہے، اس لفظ کی گہرائی بحرالکاہل، بلندی ماؤنٹ ایورسٹ اور وسعت صحرائے اعظم سے بھی زیادہ ہے،یوں سمجھئے اس لفظ میں پوری دنیا آباد ہے، یہ ایسا جامع لفظ ہے جس کے ہزاروں معانی اور لاکھوں مطالب ہیں۔ آپ تبلیغی جماعت کے ساتھ سہہ روزے ، چلے یا چارمہینے کیلئے نکلیں تو آپ کو مختلف معاملات درپیش آتے ہیں مثلاً تعلیم میں بیٹھے بیٹھے آپ تھک گئے اور ذرا آرام کرنا چاہتے ہیں، گرمی نے آپ کو تنگ کیا آپ نہانا چاہتے ہیں، چائے کے عادی ہیں اور ہوٹل پہ جانا چاہتے ہیں، گھر کی یادستارہی ہے ٹیلی فون کرنا چاہتے ہیں، پہلی دفعہ چلہ لگارہے ہیں چوبیس گھنٹے مسجد کے اندر رہنے سے آپ کو محسوس ہوتا ہے جیسے آپ دنیا سے کٹ گئے ہیں تھوڑا سا اخبار پڑھنے، تھوڑا سا حال احوال معلوم کرنے، تھوڑا سا چکر لگانے اور تھوڑا سا سگرٹ نسوار کا نشہ پورا کرنے کیلئے آپ باہر نکلنا چاہتے ہیں،جماعت کے اصول کے مطابق آپ کو ہر کام کیلئے امیر صاحب سے اجازت لینی ہوتی ہے تو جناب بجائے لمبی چوڑی گفتگو کے آپ کو صرف ایک لفظ کہنا ہوگا اور وہ لفظ ہے ’’تقاضا‘‘ ۔ آپ نے ٹائلٹ جاناہے تو طالبعلموں کی طرح آپ کوانگلی یا انگلیاں کھڑی کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ کہنے کی کہ میں نے ٹائلٹ جانا ہے،آپ کو فقط ایک لفظ کہنا ہے امیر صاحب تقاضے کیلئے جانا ہے۔ اگر آپ نے کسی سے ملاقات کا وعدہ کررکھا ہے مگر آپ پہنچ نہیں سکے تو جب آپ سے نہ پہنچنے کی وجہ پوچھی جائے تو آپ صرف اتنا کہیں گے ’’ضروری تقاضا تھا‘‘جس کی وجہ سے لیٹ ہوگیا، اگر آپ کسی کو کسی اہم کام کیلئے تیار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کہیں بھائی یہ بہت ضروری تقاضا ہے۔ غرض لفظ ’’تقاضا‘‘ ایک عجیب لفظ ہے آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ عامرلیاقت کی طرح ہر جگہ فٹ ہوجاتاہے۔

اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف ، سرحد میرا دوسرا گھر ہے، ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر کوہستان اور ہری پور سے لیکر چترال اور لنڈی کوتل تک ہرجگہ مجھے جانے کااعزاز حاصل ہوا ہے۔ مجھے سرحد کے عوام، ان کے رسم ورواج اور روایات کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع بار بار ملاہے۔خیبر پختونخواہ کے عوام، رسم ورواج اور روایات پر پھر کبھی تفصیل سے بات کروں گا اس لئے کہ اس وقت جس مسئلے پر بات ہورہی ہے وہ نہایت اہم ہے۔ہمارے ایک دوست تھے خالد عثمان پیار سے ہم انہیں خان چکی کہتے تھے خدا کی شان انہوں نے شادی کا ارادہ کرلیا اور اس تاریخی موقعہ پرحاضررہنے کے تحریری حکم نامے پر ہم سے دستخط لے لئے،پس ہم لکی مروت گئے خوب شادی ہوئی اور خوب مزہ آیا، وہاں جو دیکھا اس میں سے ایک یہ دیکھا کہ اکثر لوگ ایک بڑی چادر کندھے پر رکھتے ہیں، ہم نے پوچھا اس چادر کا مقصد کیا ہے؟ ایک خوش گفتارکاکا جی نے ہمیں بتلایا بیٹا یہ چادر بوقت ضرورت یعنی بوقت ِتقاضا پردے کے کام آتی ہے اوراسے نہایت مہارت سے استعمال کیا جاتاہے میں نے کہا جسے تقاضا درپیش ہو لیکن چادر کے استعمال کا پتا نہ ہوتو وہ کیا کرے اور کہاں جائے وہ بے چارہ تومارا گیا،میری اس بات پر زوردار قہقہہ آیا لیکن یہ قہقہہ ابھی د رمیان میں ہی تھا کہ پہلے سے بھی زوردار ایک اور قہقہہ بلند ہواجیسے چھوٹے دھماکے کے بعد بڑا دھماکاہوتا ہے،دوسرے قہقہے کا سببِ نزول وہ جوابی حملہ تھا جو کونے میں بیٹھے شرمیلے اور کم گوہمارے پیارے دوست سعدی صاحب نے کیا تھا میرے اس مذاق آمیز سوال پر کہ’’ جسے تقاضا درپیش ہو لیکن چادر کے استعمال کا پتا نہ ہوتو وہ کیا کرے اور کہاں جائے؟‘‘انہوں نے حل بتایاکہ’’ جسے تقاضا درپیش ہو لیکن چادر کے استعمال کا پتا نہ ہوتو وہ پیمپراستعمال کرے یا پھر پنجاب چلا جائے وہاں لوگ چادر کے بغیر بھی مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں ‘‘ظاہر ہے اس جواب کے بعد خاموش رہنامحفل کے آداب کے خلاف تھا لہٰذا میں نے محفل کے ٹیمپو کو برقرار رکھتے ہوئے پوچھا یہاں استنجاخانے اوپن کیوں ہوتے ہیں؟ جواب ملا اگر پردہ ہوتولوگ کاروائی کرجاتے ہیں، میں نے کہا مگر ان کے اوپن ہونے سے تو بے پردگی ہوتی ہے اور یہ سخت گناہ ہے، جواب ملا یہ کھلاکھلا قمیض کس کام کا ہے؟ اس سے پردہ ہوتا ہے نا۔ میں نے کہا اگر کھلا قمیض نہ ہو اور کسی نے پینٹ شرٹ پہن رکھی ہوتو؟ اس سوال کے جوابات ناقابل ِ اشاعت ہیں البتہ امریکہ سے آئے ایک بھائی نے پینٹ شرٹ والوں کی حالت بھانپتے ہوئے ہمدردانہ لہجے میں کہا ہاں یارا اگر کسی نے پنیٹ پہنی ہو ئی ہو اس کے لئے تو مسئلہ ہے۔ تو آپ یہ مسئلہ حل کیوں نہیں کرتے؟ آپ کے ہاں لاکھوں لوگ اِدھر اُدھر سے آتے ہیں، ان میں بہت سے نمازی بھی ہوتے ہیں،آپ کو پتا ہے استنجے کیلئے انہیں کس عذاب سے گزرنا پڑتاہے، نمازیوں کے علاوہ دوسرے لوگ جو سیر وسیاحت یا خریداری کیلئے آتے ہیں ان بے چاروں کو بھی سخت پریشانی اور بسا اوقات پشیمانی کا سامنا کرناپڑتا ہے اس لئے کہ یہاں شہروں میں ’’تقاضے‘‘کیلئے ٹائلٹس نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کہیں اِکا دُکا ٹائلٹ ہے بھی تو کوئی آنکھ اور ناک رکھنے والا آدمی ان میں داخل نہیں ہوسکتا،اگرعزت بچانے کاآخری حل سمجھ کر کوئی اندر چلا جائے تو دم گھٹنے اور دماغ چکرانے کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کا قوی خدشہ موجود ہوتاہے۔

مجھے اتفاق ہے مساجد کے ساتھ اٹیچ طہارت خانے نہیں ہونے چاہیں کیونکہ ان کی وجہ سے مسجد جیسی پاکیزہ جگہ کا ماحول متاثر ہوتاہے انہیں مسجد سے بالکل الگ تھلگ ہوناچاہیے مگر شہروں میں ٹائلٹس یا استنجا خانے ہوں ہی نہیں اس دور میں یہ ناقابلِ فہم بات ہے, آج کل بیماریاں بڑھ رہی ہیں، ناخالص پانی اور خوراک کی وجہ سے پیٹ کی بیماریاں عام ہیں ایسے میں اگر بازار کے اندر کسی کو پرابلم یعنی تقاضا پیش آجائے تو وہ بے چارہ کہاں جائے گا؟ یہ اتنا خطرناک مسئلہ ہے کہ عزت بچانے کیلئے آدمی سردار جی بننے پر بھی مجبور ہوجاتاہے۔برستے قہقہے تھم چکے تھے ہمیں پتہ ہی نہ چلا تھا کہ کب اور کیسے سنجیدگی نے ہماری محفل کو اپنے حصار میں لے لیا تھا،رات نصف سے ذیادہ بیت چکی تھی،محفل برخواست ہوئی دلہا صاحب آرام کیلئے چلے گئے اور ہم سونے،اگلے دن کچھ ضروری تقاضوں کی وجہ سے ہم واپس اسلام آباد آگئے۔
Saeed Nawabi
About the Author: Saeed Nawabi Read More Articles by Saeed Nawabi: 23 Articles with 33116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.