جمہوریت کے 65سال اور ہمارا حال

26 جنوری کو ہندستان اپنا 65واں یوم جمہوریہ منارہا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ گزشتہ صدی کے نوآزاد ممالک میں ہند وہ واحد ملک ہے جوروزاول سے جمہوری نظام حکمرانی پر کاربند ہے اور مادی اعتبار سے ترقی کی لمبی چھلانگ لگائی ہے۔ آزادی کے وقت ہماری آبادی صرف 35کروڑ تھی، جو اب بڑھ کر سواارب سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اُس وقت ہمیں غلہ باہر سے منگانا پڑتا تھا ، اس کے باوجود لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی تھی، آج ہم اپنی سوا کروڑ آبادی کی ضرورت سے کہیں زیادہ غلہ اور دیگر اجناس پیدا کرتے ہیں۔شعبہ زراعت میں یہ انقلاب کوئی معمولی بات نہیں۔

اس وقت ہم گھوڑا گاڑہ ہا بیل گاڑی سے سفر کرتے تھے۔میرے آبائی گاؤں میں، جو کاشتکاروں کی بستی ہے، بس دو ایک گھروں میں سائکل اور کپڑا سینے کی مشین ہوا کرتی تھی، آج گھر گھر میں بائک اور موٹر گاڑیاں کھڑی نظرآتی ہے۔ ٹیلی فون کا کوئی تصور نہیں تھا، تار کرنے گھر سے پانچ میل پیدل جاتے تھے، آج ہرشخص کے ہاتھ میں موبائل ہے۔ گاؤں میں ہی نہیں دہلی کی بستی نظام الدین میں سنہ ۶۰ ء کی دہائی میں صرف دو یا تین فون تھے، آج ان کو شمار کرنا دشوار ہے۔خال خال بچے اسکول جاتے تھے،آج پرائمری اسکولوں میں نوے فیصد سے زیادہ بچوں کے نام درج ہیں۔ دہلی سے ممبئی کے سفر میں ڈیڑھ دن لگتا تھا، اب ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ عموماً سڑکیں کچی تھیں، ہائی وے کا تصور نہیں تھا، آج سڑکیں گاؤں تک پہنچ گئی ہیں۔ سوروپیہ کے نوٹ کے کھلے پنساری کی دوکان پر بھی بمشکل ملتے تھے،آج پنواڑی کی دوکان پرآدمی پان کھانے جاتا ہے تو ہزار روپیہ کا نوٹ دکھاتا ہے۔ سردھونے کے لئے خواتین ملتانی مٹی استعمال کرتی تھیں، اب شمپو کا پاؤچ عام ہے۔ غرض یہ کہ اپنے گرد وپیش کاجائرہ لیجئے ، اپوزیشن لاکھ طعنہ دے کہ ملک نے ترقی نہیں کی ہے، مگرہرطرف زبردست انقلاب نظرآتا ہے۔یہ ترقی کسی ایک خطے یا ریاست تک محدود نہیں، بلکہ اس کا ثمرہ کم و بیش دودراز علاقوں تک نظر آتا ہے۔اس کا انکارکرنا محض جھوٹ اور مکاری ہے اور یہ انکار وہی لوگ کررہے ہیں جو جنہوں نے جھوٹ اور مکاری کو اپنی سیاست کا وطیرہ بنالیا ہے۔ عوام کا حال یہ ہے کہ صورت حال پر غور وفکر کئے بغیر سیاسی نعروں میں بہے چلے جاتے ہیں۔

اخلاقی انحطاط
اس مادی ترقی کے ساتھ ہمیں یہ اعتراف بھی کرنا چاہئے کہ اخلاقی انحطاط بھی اسی رفتار سے ہوا ہے جس رفتار سے مادی ترقی ہوئی ہے۔اسکولوں میں داخلے بڑھے ہیں مگر معیار تعلیم کا حال یہ ہے پانچویں کے صرف 47فیصد بچے درجہ دو کی کتاب پڑھ پاتے ہیں۔ ان میں بعض تو حروف اور ہندسے بھی نہیں پہچانتے۔ رشوت لیتے ہوئے پہلے آدمی شرماتا تھا اب رشوت نہ لینے والا نکو بن جاتا ہے۔ اس انحطاط کی جڑیں تلاش کیجئے تو ووٹ کی اسی سیاست میں نظرآتی ہیں جس پرجمہوری نظام ٹکا ہے۔ تفصیل کی گنجائش نہیں ، آپ ان سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور اور انتخابی تقریریں دیکھ لیجئے، خوش نما وعدوں کا ایک پر بہار گلشن نظرآئیگا۔ ان میں سے جووعدے پورے نہیں ہوئے ان پر نشان لگاتے چلے جائے، آپ کو پورا منشور نشانزد ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی منشور محض عوام کودھوکہ دینے اور گمراہ کرنے کی خوش نمادستاویز بن کررہ گیا ہے، چنانچہ بھاجپا صدر راج ناتھ سنگھ نے اپنی پارٹی کے ورکروں کو ہدایت دی ہے کہ ہر پارلیمانی حلقہ کا منشور الگ بنایا جائے۔ گویایہ دیکھا جائے کہ کس حلقے کے لوگ کس وعدہ سے خوش ہوسکتے ہیں، اس کوحلقے کے منشور میں شامل کرلیا جائے ۔ کیونکہ عمل کرنے کا ارادہ نہیں اس لئے اس پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ کہا یہ گیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے پھیلاؤ کوروکنے کے لئے یہ حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو ورغلانے کا یہ نیا حربہ کس حد تک کارگر ثابت ہوتا ہے۔

مودی کا فریب
گزشتہ ہفتہ دہلی کے مشہوررام لیلا گراؤنڈ میں بی جے پی کا قومی مجلس عاملہ کا پرہجوم اجلاس ہوا۔ نریندر مودی نے اپنی تقریر میں طبقاتی اور ذات برادری کی سیاست کے لئے کانگریس کو مطعون کیا، مگر اگلے ہی لمحے خود بدترین قسم کی طبقاتی اور ذات برادری کی سیاست کرتے نظرآئے۔ انہوں راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے اپنی برادری کا حوالہ دیا اور کہا کہ راہل کووزیراعظم کے منصب کا امیدوارکانگریس نے اس لئے نہیں بنایا کہ مقابلہ میں پسماندہ ذات کا فرد ہے۔ مودی سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ اپنی ذات کا حوالہ دیکر رائے دہندگان کو گمراہ کرنا اور یہ تاثر دینا کہ پسماندہ طبقات ان کو اس لئے ووٹ دیں کہ وہ اسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ،کیا ذات برادری اور طبقاتی سیاست نہیں ہے؟ اس دوران اس سے بدترین سیاست کی مثال اس وقت ملی جب پارٹی صدر نے یہ دعوا کیا کہ بھاجپا فرقہ پرستی کی سیاست نہیں کرتی بلکہ فرقہ پرست تو کانگریس ہے ۔ ہمیں کانگریس کی طرف سے کچھ نہیں کہنا کہ فسادات اورفرقہ ورانہ سیاست میں اس کا بھی حصہ ہے۔ لیکن بی جے پی یہ دعوا کس منھ سے کرتی ہے کہ وہ فرقہ پرستی کی سیاست ، بلکہ بشمول مسلمان اہل کتاب فرقوں کے خلاف نفرت کی سیاست نہیں کرتی ہے؟ یہ دشمنی تو اس کی نظریاتی بنیاد ہے۔ فرقہ پرستی اور تعصب ایک چیز ہے اور فرقہ کی بنیاد پر قتل و غارت کو اپنے لئے جائز ٹھہرالینا اور اس پر یہ دعوا کہ ہم فرقہ پرست نہیں ، سیاست دانوں کے اخلاقی گراوٹ اور کذب بیانی کی انتہا ہے۔

کیجریوال بنام بھاجپا
بھاجپا اور اس کے لیڈروں نے دہلی کے اس اجلاس پر بلامبالغہ کروڑوں روپیہ خرچ کیا اور یہ سمجھا تھا کہ یہ اجلاس سنہ 2014 ء کے پارلیمانی چناؤ کے لئے اس کی مہم کا نقطہ آغاز ہوگا اور مودی کو خوب پبلسٹی ملے گی۔اجلاس میں آڈوانی اور سشما سوراج دونوں نے مودی کو آشیرواد دیکر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پارٹی متحد ہے اورمودی کی پشت پر کھڑی ہے ۔مگر کیجریوال کا دھرنا اس اجلاس کو کھا گیا۔ میڈیا میں ذکر مودی کا اگلے دن ہی غائب ہوگیا اور بحث و مباحثہ اور خبروں کا بڑا حصہ کیجریوال دھرنے کی نظر ہوگیا۔ہمیں عام آدمی پارٹی کی سیاست کچھ زیادہ خوش آئند نہیں لگتی مگر یہ حقیقت ہے اس نے مودی کی مہم پربریک لگادیا ہے۔تاہم مودی نے اپنی تقریر میں پارٹی کی شاندار کامیابی کے یقین کا اظہارکرتے ہوئے یہ دعوا کرڈالا کہ کانگریس نے پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرلی ہے، اسی لئے راہل کو وزیراعظم کے منصب کا امیدوار نہیں بنایا۔ کانگریس نے تو 2004میں بھی کسی کو وزیراعظم کاامیدوار نہیں بنایا تھا جب کہ ’شائننگ انڈیا‘ کے نعرے کے ساتھ باجپئی جی این ڈی اے کی وزیراعظم کے امیدوار تھے۔ سنہ2009کے چناؤ میں آڈوانی جی کو امیدوار اعلان کیا گیا۔ انہوں نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو کمزور ترین وزیراعظم اور خود کو مضبوط لیڈر باور کرایا، مگر شکست کھائی۔ اس چناؤ مودی شائنگ گجرات اور مضبوط لیڈر ہونے کے دعوے کے ساتھ آگے آئے ہیں اور اپنی ہرتقریر میں راہل کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کو کمزورلیڈر باور کراتے ہیں۔ مگر یہ ان کی زبان بولتی ہے ، ان کا ذہن نہیں بولتا، جو کانگریس اور راہل سے اور اب کیجریوال سے خوفزدہ ہے۔ مقابلے اگر واقعی کمزور کھڑاہو تو ’مضبوط‘ امیدوار اس کا ذکر نہیں کیا کرتا۔ آڈوانی جی نے ان کی امیدواری کی تائید تو کردی مگر ان کی اس حکمت عملی کی نہیں کی اور کہہ دیا کہ اتنی خود اعتمادی ٹھیک نہیں۔

اس میں تو شک نہیں کہ ہمارے یہاں ریاستی سطح پر طبقہ اور فرقہ کی بنیاد پر چناؤ جیتے اور ہارے جاتے ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے مودی اپنی چائے فروشی اور پسماندہ طبقہ میں جنم کا حوالہ دیکر پورے ملک کی سیاست کو طبقہ اور فرقہ کی سیاست میں بدلنے کے درپے ہیں۔

سیدنا کی وفات
بزرگ رہنماسیدنا برہان الدین نے گزشتہ ہفتہ ممبئی میں 102سال کی عمر میں وفات پائی۔ وہ ایک محترم اور برگزیدہ شخصیت کے مالک تھے۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کو بوہرہ مسلم فرقے کا روحانی رہنما ہونے کا شرف ملا، لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے ایک بلند پایہ ہستی تھے۔موت ایک ابدی حقیقت ہے اور سیدنا نے طویل عمر پائی مگر اس کے باجود ان کا دنیا سے رخصت ہوجانا ایک نقصان ہے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے وفات کی اطلاع ملتے ہی، ان کی رہائش گاہ پر بے پناہ ہجوم جمع ہوگیا ،جس کا اندازہ نہ جماعت بوہرہ کے منتظمین کو تھا اور نہ ممبئی پولیس کو۔ افسوس کہ اس ہجوم میں 20افراد کی موت بھی ہوگئی۔ ہم ان کے اہل خاندان اور سیدنا کے چاہنے والوں سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔اﷲ تعالٰی ان کے متبعین کو ان کی حسنات پر عمل کو توفیق دے اور ان کے حق میں قبول فرمائے۔ افسوس یہ سانحہ اس لئے پیش آیا کہ لوگ ان کے آخری دیدار کے مشتاق تھے۔ ان میں ان کی نیکیوں اور خوبیوں کو اختیار کرنے کا جذبہ کتنا ہے، یہ بات زیادہ اہم ہوگی؟

13سال بعد رہائی
رام پور ، یوپی کے تین افرادجاوید عرف گڈو، تاج محمد اور مقصود کو یوپی کی ایس ٹی ایف نے 13اگست 2002 کو پاکستان کے لئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرلیا اور ان پر پوٹا کے تحت الزامات عائد کردئے، جس میں ضمانت نہیں ہوتی۔ایس ٹی ایف نے دعوا کیا کہ ان کی تحویل سے بعض فوجی کمپوں کے نقشے ملے تھے۔ رام پور کے معزز مجسٹریٹ نے، جن کے سامنے کیس ابتدا میں پیش ہوا، یہ غور کئے بغیر کہ ان کے خلاف کوئی پختہ ثبوت ہے یا نہیں، ان پر فرد جرم عائد کردی اور ملزمان جیل میں ڈال دئے گئے۔ایک چوتھے شخص ممتاز میاں کو بھی پکڑا گیا مگر سنہ 2004میں نظرثانی کمیٹی نے ان کے خلاف پوٹا واپس لے لیا۔چنانچہ وہ ضمانت پر رہا تو ہوگئے مگران سب پر باقی مقدمات ابھی رام پور کی عدالت میں زیرالتوا ہیں۔ ممتاز میاں کے وکیل نظرعباس پرامید ہیں کہ جلد اس مصیبت سے نجات مل جائیگی۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک ملزم کچھ عرصہ قبل پاکستان گیا تھا جہاں اس کا کسی تقریب میں ایک اجنبی خاتون سے رابطہ ہوگیاتھا ۔ بعد میں اس سے فون پر دیر دیر تک بات ہوتی رہی۔فون پر طویل اور بار بار کا رابطہ شک کی بنیاد بنااوریہی گرفتاری کا سبب بن گیا۔ بارہ سال بعد 18جنوری کو مرادآباد کی پوٹا عدالت نے ناکافی ثبوت کی بناپر ان کوبری کردیا ۔گویا بغیر ثبوت خطا بارہ سال کی سزا بھگتنی پڑی۔

مولانا اسرارالحق قاسمی، ایم پی کے مطابق اس وقت تقریباً 20ہزار مسلم نوجوان شک کی بنیاد پر جیلوں میں ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوان اتنے ناسمجھ ہیں کہ ان نزاکتوں کو سمجھتے نہیں اور فیس بک، ای میل اور فون کے ذریعہ اجنبیوں سے بے تکلف ہوجاتے ہیں جس کی بدولت بعد میں مشکلات میں گرفتار ہوتے ہیں۔بعض ویب سائٹ جان بوجھ کر ایسی لانچ کی گئی ہیں کہ شدت پسند ذہن ان کی طرف کھنچتا ہے اور پھنستا ہے۔ چنانچہ بعض معاملوں میں جرم ہی خطا نہیں ، جرم کی نفسیات بھی خطا بن جاتی ہے۔ یہ جدید سہولتیں بڑی کام کی ہیں مگر ان کا استعمال ضرورت بھر کیا جانا چاہئے۔اب کوئی فون ، ای میل اکاؤنٹ اور فیس بک اکاؤنٹ قانونی نگرانی سے آزادنہیں۔ اس لئے زراسنبھل کے اور بچ کے رہنا ضروری ہے۔

ان افراد کی اس مصیبت کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ ممتاز میا کے والد اس صدمے میں اس وقت لقمہ اجل بن گئے ،جب وہ مقدمہ کی پیروی کے لئے الہ آباد میں تھے۔ ایک دوسرے ملزم کی والدہ بیٹے کے غم میں دیوانوں کی طرح ماری ماری پھرتی تھیں اور اسی حال میں چل بسیں۔ المیہ یہ ہے کہ خطاکار پولیس افسران سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔ ذیلی عدالتیں اگرانسانی حقوق کی اس طرح ہونے والی پامالیوں کے تئیں حساس ہوجائیں اورابتدائی مرحلے میں ہی شہادتوں کو ٹھوک بجاکر دیکھ لیں ، مقدمات کی سماعت تیزی سے ہوجائے تو بہت سے ملزمان کی زندگیاں جیلوں میں برباد نہ ہوں۔ اس کی زد کسی خاص فرقہ پر ہی نہیں پڑتی بلکہ کم و بیش ہرفرقے کے ملزمان پر پڑتی ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180686 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.