شاعری ہمیشہ سے نئ زبان دیتی آئ ہے۔ الفاظ
کو نئے معنی دینے کے معاملہ میں ہمشہ پیش پیش رہی ہے۔ کوئ شخص عام حالت میں
نءے مرکبات‘ ترکیبات اوراصطلاحات گھڑنے پر قدرت نہیں رکھتا جبکہ شعر گو
اپنے خیالات کو لفظوں کا لباس عطا کرتا ہے تو روانی میں کئ مرکبات ترکیبات
اور بعض لفظوں کواصطلاحی مفاہیم عطا کر دیتا ہے۔ نثری اصناف میں افسانہ کسی
حد تک یہ چیزیں مہیا کرتا ہے۔ تاہم اس تخلیقی جوہر کو شاعری کے مقابل کھڑا
نہیں کیا جا سکتا۔
ان مرکبات کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ عموم اور مستعمل زبان سے قطعی ہٹ کر
ہوتے ہیں۔ ان میں صوتی حسن اور شعریت موجود ہوتی ہے۔ یہی نہیں فطری آہنگ کی
صورت بھی پائ جاتی ہے۔ یہ مرکبات خیال‘ فکر‘ سوچ جذبے اور احساس کو تجسیم
دے رہے ہوتے ہیں۔ کسی ناکسی سطع پر ان میں تمثالی کیفیت ضرور موجود ہوتی ہے۔
یہ اپنے قاری کے احساس کو ارتعاش دینے کا سبب بنتے ہیں۔ اس کو نئ سمت سجھا
رہے ہوتے ہیں۔ عمومی و خصوصی فکر پر غلط اور درست کی مہر بھی ثبت کر رہے
ہوتے ہیں۔ ان کے حوالہ سے انسانی اور سماجی اصول و ضوابط کی بھی نشان دہی
ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ مرکبات شخصی مزاج اور رویے کو بھی واضح کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ مرکبات شخص کا سماج اور زمین سے تعلق وضح کر رہے ہوتے ہیں یا پھر اس
تعلق کی وضاحت کر رہے ہوتے ہیں جو انسان کی فکری معاشی معاشرتی علمی اور
ادبی معاملات کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں اور ان میں معاملات کے منفی یا
مثبت ہونے کی صورتوں کو بھی اجاگر کر رہے ہوتے ہیں۔
ان میں کسی حد تک زمینی سماجی نظریاتی اور قومی عصبیت کا عنصر بھی موجود
ہوتا ہے۔ ان میں عموم و خصوص کے درمیان موجود قربتوں اور فاصلوں کی نشاندہی
موجود ہوتی ہے۔ گویا تقابلی صورت سی موجود رہتی ہے۔ ان میں تین صورتیں بڑی
اہمیت کی حامل ہوتی ہیں
١- ذومعنویت
٢- فوق الفطرت صورت حال
٣- الہامی وجدانی اور انکشاف کی سی صورت حال
ذومعنویت کے حوالہ سے لفظ کے نءے نءے معنی دریافت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس سے
زبان کی اظہاری قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ فوق الفطرت ہونے کے حوالہ کسی نءے
اور انوکھے جہان میں ہونے کا احساس جنم لیتا ہے۔ گویا فوق الفطرت طور
اختیار کرکے انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ان کی
ہءیت ترکیبی پر نازلہ ہونے کا گمان سا گزرنے لگتا ہے۔ جیسا کہ مرزا غالب
کہتے ہیں
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب صریر خامہ‘ نواءے سروش ہے
بعض مرکبات یا پھر ایک مصرع عرف عام میں آ کر محاورے کا درجہ اختیار کر
لیتا ہے۔ گویا تکیہء کلام بن جاتا ہے۔ مٹلا غالب کا یہ مصرع
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
محاورہ نہیں مگر رواج پا کر محاورہ بن گیا ہے۔
جدید اردو شاعری کی صف میں مقصود حسنی اپنے عہد کے نماءندہ شعر ہیں۔ انہیں
زبان وبیان پر قدرت حاصل ہے۔ ان کی شاعری محدود خطے کی شاعری نہیں ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ ان کی شاعری کا محور انسان ہے۔ اس کا دکھ سکھ وہ اپنے سینے میں
محسوس کرتے ہیں۔ ان کی ذات کا درد درحقیت انسان کا دکھ سکھ ہے۔ شخص کا مسلہ
ان کا اپنا مسلہ ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں ان کی عملی زندگی کے رنگ گہرے
اور نمایاں ہیں۔ وہ ہر صورت میں انسان کو آسوودہ خوش حل اور متحرک دیکھنا
چاہتے ہیں۔ انہیں کہیں اور کسی سطع پر انسانی مسلے سے الگ نہیں کیا جا
سکتا۔ ہر انسان ان کی ذات کا جزو محسوس ہوتا ہے۔
وہ زیادہ تر کائنات اور عالمی سماج سے ذات کی طرف پھرتے نظر آتے ہیں۔ جب
ذات سے کائنات یا عالمی سماج کا رخ کرتے ہیں تو بھی انسانوں کا ایک گروہ ان
کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہاں البتہ یہ عنصر زیادہ نمایاں ہے کہ کمزور معذور اور
پسے ہوءے لوگ ہی ان کے پہلو میں چل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں ترکیب پانے
والے مرکبات کا مطالعہ اسی تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔ ان مرکبات میں ظالم
اور ظلم کے خلاف انگارے برستے نظر آتے ہیں۔ مہذب انداز میں برا بھلا کہنے
سے بھی اجتناب نہیں برتتے۔ ان کا یہ جارحانہ انداز کمزور طبقے میں حرکت کا
سبب بنتا ہے۔
ان کے مرکبات کئ قسم کے ہیں۔ دو لفظوں سے ترکیب پانے والے مرکبات کا پہلا
لفظ صفتی ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سے مرکبات حروف رابطہ سے بنتے ہیں۔ تشبہی
مرکبات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مصادر سے بننے والے مرکبات پر مستعمل محاورے
کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ان کے مرکبات تہہ داری کے ساتھ ساتھ طرح داری اور
وضع داری بھی لیے ہوتے ہیں۔ ان کے مرکبات سماج اور کاءنات کا کوئ ناکوئ
مسلہ معاملہ واقعہ یا پھر حادثہ ضرور لیے ہوتا ہے۔ ان میں کسی روایت رویے
مزاجی کیفیت کی نشان دہی کی گئ ہوتی ہے۔ المختصر بیدار حواس ان کے مرکبات
میں عصری حیات کی بےترتیب دھڑکنیں محسوس کر سکتے ہیں۔ مقصود حسنی کے کلام
سے کچھ منتخبہ مرکبات پیش خدمت ہیں۔
آنکھ دروازہ‘ آنکھ سمندر‘ اجڑے خواب‘ ارض بیمار‘ امن سلیقہ‘ برف آنکھیں‘ بش
گزیدہ‘ بیوہ حسرتیں‘ بےنور دریچے‘ پامال ارمان‘ پیاس کنارے‘ پریم ساگر‘
خنجر دیواریں‘ دشت تنہائ‘ زخم زخم گونگا‘ سیاہ دھرتی‘ سسکتی زمین‘ سوچ
دریچے‘ سبد انتظار‘ شہر عشق‘ شراب آنکھیں‘ شہر بے بصر‘ شعور ہستی‘ صبح
بےنور‘ عیار تبسم‘ فاقہ زدہ مردہ‘ قطرہءندامت‘ قفل ساکت‘ قاتل ہیروشیما‘
کالے موسم‘ کانچ جسم‘ کالے کلمے‘ کانچ سڑک‘ کالی ریتا‘ کانچ دریچے‘ کرخت
اندھیرے‘ کنول چہرہ‘ گلاب قاشیں‘ گداز پلکیں‘ ماتمی سدور‘ ممتا جذبے‘ ناموس
فطرت‘ نقلی چہرے
آس کا دیپ‘آنکھ کا ساحل‘ آس کا رستہ‘ انا کا قتل‘ اشکوں کا شرینتر‘ بربک کا
سنکھ‘ بشارت کا در‘ بہاروں کا بسیرا‘ بھوک کا تاج محل‘ بھوک کا کوبرا‘
بےصبری کا تنور‘ بھوک کا چارہ‘ تاروں کا جنگل‘ تپسیا کا اترن‘ تسکین کا
بین‘ تیرگی کا در‘ تذبذب کا بھوکم‘ جیون کا پچھلا پہر‘ جسم کا پنچھی‘ جبر
کا فرات‘ چپ کا دامن‘ خوف کا پہرہ‘ خوشبو کا پیکر‘ خوف کا موتیا‘ خوشبو کا
کنول‘ خوشبو کا سفر‘ دل کا بربط‘ دن کا مکھڑا‘ دماغ کا بخار‘ روٹی کا بندی‘
رتجگوں کا لاشہ‘ روشنی کا جناز‘ سچ کا سورج‘ سوچ کا آنگن‘ شعور کا دریچہ‘
شہوت کا سمندر‘ ظلمتوں کا سفر‘ عشق کا سیکا‘ غربت کا کینسر‘ غیرت کا فکر کا
لہو‘ کلیوں کا قتل‘ گنگا کا آنچل‘ لاالہ کا وٹمن‘ لفظوں کا کروفر‘مسکانوں
کا ثمر محبت کا صحیفہ‘ موت کا شعلہ‘ وڈیائ کا سرطان‘ ہیرے کا جگر
آس کی کشتی‘ آشا کی کہکشاں‘ آنکھوں کی برکھا‘ آنکھوں کی مستی‘ آشا کی جوت‘
افلاس کی جھونپڑی‘ احساس کی آنکھ‘ انا کی تاریکی‘ افلاس کی چڑیا‘ افلاس کی
دھوپ‘ برتن کی زبان پچھلے پہر کی رعناءیوں پلکوں کی اوٹ‘ تعصب کی آنسو گیس‘
جبر کی بجلیاں‘ حرص کی رم جم‘ خوف کی فصل‘ خوشبو کی تمازت‘ خوشبو کی
بجلیاں‘ خلوص کی طشتری‘ روح کی زلفیں‘ روح کی اڑانیں‘ روح کی قوس قزاح‘
زلفوں کی شام‘ زیست کی حرارت‘ زیست کی پگڈنڈی‘ سپنوں کی مسکان‘ سکنے کی
منزل‘ سہاگ کی چوڑیاں شکم کی دہلیز‘ ضمیر کی چیتا‘ ضبط کی پٹڑی‘ ظلم کی
بھاشا‘ غرض کی برکی‘ غرض کی چتا‘ فیصلے کی صلیب‘ گجروں کی گریہ زاری‘
گلابوں کی راہ‘ لفظوں کی حرمت‘ مروتوں کی منزل‘ مصلحت کی صلیب‘ من کی
ریکھاءیں‘ مطلب کی آنکھیں‘ موت کی دہلیز‘ موڈ کی تکڑی‘ من کی قندیل‘
مسکانوں کی بارش‘ مساءل کی روڑی‘ ‘ ندامت کی دہلیز‘ نفرت کی تابکاری‘ وقت
کی دہلیز‘ وقت کی نبضیں‘ ہونٹوں کی سرخی
آنکھ کے جگنو‘ ارمانوں کے موسم‘ اندر کے موسم‘ پکون کے گیت‘ پلکوں کے
ستارے‘ تیاگ کے قدم‘ ڈر کے شعلے‘ رات کے اس کنارے‘ جہیز کے صفحات‘ حرکت کے
در‘ خلیج کے بیمار‘ سانسوں کے رباب و چنگ‘ شبدوں کے جال‘ گذشتہ کے گلاب و
کنول‘ نفرت کے ایوان‘ نفرت کے صندوق‘ یادوں کے دیپ
آگ میں ڈوبی سانسیں‘ چونچ میں نسل کی بقا‘ دھڑکن میں بسنا‘ زلفوں میں
بارود‘ پلکوں پر شام‘ کاغذ پر جگر‘ شوخ صبح سا‘ لب گنگا کے
آنکھوں میں مہتاب لکھنا‘ انکھوں میں عرش سجنا‘ آکاش سے دھند اترنا‘ افق میں
لہو اترنا‘ بشارت کا در وا ہونا‘ پلکوں پر خلوص سجانا‘ پتھر کا جسم بولنا‘
تیرگی بیچنا‘ چہرے ٹٹولنا‘ خوشبو بانٹنا‘ خواب لکھنا‘ دیوار پر آنکھیں
رکھنا‘ روشنی بیچنا‘ ساگر پینا‘ سوچ میں بسنا‘ سیماب پہننا‘ سینے میں سورج
بھرنا‘ مسکانوں میں رہنا‘ عمر کا تارا ٹوٹنا‘ قدم بیچنا‘ لہو‘ لہو ہونا‘
ہوا پر آنسو لکھنا
|