گمشدہ نوٹ

گزشتہ رو زمیں بہت جلدی میں تھا سو پیدل ہی چل نکلا کیونکہ جِس سیاسی ہستی سے ملنے جا رہا تھا وہ اپنا قیمتی وقت صرف قیمتی لوگوں کے نام ہی کرتے تھے یہ تو میری خوش قسمتی جانیئے کہ ملاقات کا شرف حاصل ہونے والا تھا لہٰذا وقتِ مقررہ پر پہنچنا انتہائی ضروری تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ موٹر بائیک یا کِسی بھی قسم کی ٹرانسپورٹ کے چکر میں پڑ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کروں اور اِس کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ جگہ جگہ پر سیاسی جلوس جلوہ گر تھے۔ یہ تمام جلسے جلوس اندھے ، بہرے اور گونگے قسم کے ہوتے ہیں اِس لیے یہ اِن کا قطعی قصور نہیں کہ انہیں نہ تو کِسی ایمبولینس میں تکلیف سے تڑپتے زخمی کی پکار سنائی دیتی ہے اور نہ ہی فائر برگیڈ کا الارم تو مجھ جیسے ہٹے کٹے نوجوان کو راستہ کیونکر مِلتابھلااور دوسری وجہ یہ تھی کہ پیسے دے کرلنگر کی لائن میں C.N.G لوٹنے کے چکر میں شائد مجھے ملاقات کا پروگرام اگلے ماہ یا پھر آئندہ الیکشن تک ملتوی کرنا پڑتا اور رہا پیڑول تو سیاسی جادوگروں کی سحر انگیزی کے نتیجے میں وہ اپنا رنگ و نسل بدل کر بلیک ہو رہا تھا ۔خیر میں اپنے موقف کی جانب لوٹتا ہوں فٹ پاتھ کے کنارے ہجوم میں پیدل چلتے ہوئے میری نظر زمین پر پڑے ایک سو روپے کے نوٹ پر پڑی میں نے بڑی ہوشیاری اور عقلمندی سے اُس نوٹ کو جھپٹ کر کوٹ کی خفیہ جیب میں چھپالیا ۔ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ ضمیر نے لعن طعن کرنا شروع کردی’’ اتنی سی رقم کی خاطر تو اپنی ایمانداری و دیانت کو نیلام کرنے لگا ہے ،تو سیاست داں تو ہے نہیں پھر تجھے نوٹوں کی اتنی حوس کیوں ہے؟ ‘‘میرا سویا ضمیر جاگ گیا میں نے فیصلہ کر لیا کہ اِس گمشدہ نوٹ کو اِس کے اصل مالک تک ضرور پہنچاؤنگا کیونکہ میری نظر میں فرض شناسی بڑا عظیم کارنامہ ہے سوچا! جِن سے ملنے جا رہا ہوں وہ کونسا میرا انتظار کر رہے ہوں گے انہیں تو شائد ملاقات کا یاد بھی نہ ہو لہٰذامنت سماجت اور سفارش سے اگلے ماہ ملاقات کاتھوڑا سا وقت لے لونگا ۔

میں نے بڑے فخر یہ انداز میں کوٹ کی خفیہ جیب سے سو کا سُرخ نوٹ نکالا اور مٹھی میں بند کر کے پاس کھڑے بچے سے پوچھا ’’بیٹا !آپ کا کوئی نوٹ تو گم نہیں ہوا اگر ہوا ہے تو نشانی بتا کر لے سکتے ہومجھے ابھی مِلا ہے ‘‘بچے نے خوش ہو کر پوچھا ’’ کتنے کا نوٹ ہے انکل؟‘‘ میں نے کہا ’’ بیٹا پورے سو روپے کا نوٹ ہے ‘‘بچہ اُداس ہوگیا ’’ رہنے دیں انکل میرا نہیں ہے ہزار کا نوٹ ہوتا تو شائد میں کچھ سوچتا کیونکہ میں نے ابھی ایک ریموٹ کار دیکھی ہے جو پورے ہزار روپے کی ہے ‘‘ یہ کہہ کر بچہ غائب ہوگیا ۔’’کتنا ایماندار بچہ تھا‘‘ یہ سوچتا ہواآگے بڑھا توبوتیک سے نکلتی ایک خاتون پر نظر پڑی میں نے اپنا وہی سوال دہرایا ’’ مجھے ایک سو روپے کا نوٹ مِلا ہے جو میری مٹھی میں ہے اگر آپ کا نوٹ گما ہے تو نشانی بتا کر لے سکتی ہیں ‘‘ میری بات سنکر خاتون کا چہرہ مزید سر خ ہوگیا شائد وہ پہلے سے ہی کِسی بات پر رنجیدہ تھی ’’ کیا کروں اِس سو کے نوٹ کی نشانی بتا کر اِس کا آج کل آتا ہی کیا ہے ؟آپ کو اگر دھونڈنا ہی تھا تو کیا پانچ ہزار کا نوٹ نہیں ڈھونڈ ھ سکتے تھے؟ کم از کم میرا ایک سوٹ تو آہی جاتا ،سو کا کیا اچار ڈالوں! رکھو اپنے پاس ہی ‘‘خاتون کب کی جاچکی تھی مگر اُس کا آخر ی جملہ میرے کانوں میں ابھی تک گونج رہا تھا ’’ جب اِس سو کے نوٹ کا کچھ آتا نہیں تو اِسے اب اِس ترقی یافتہ مشینی دور میں ختم کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ ‘‘۔یہ تما م باتیں مجھے ذرا بھی دل برداشتہ نہ کر پائیں کیونکہ میں آج فرض شناسی کی راہ پر گامزن تھا وہ تو شکر ہے مجھے پانچ ہزار کا نوٹ نہیں مِلا۔اب میں مزید چند قدم آگے بڑھا اور ایک نوجوان کو پاس سے گزرتا دیکھ کر اپنا وہی سوال دہرایا……؟ نوجوان نے کہا! ’’بھائی کیوں مذاق کر رہے ہو جاؤ جا کر یہ نوٹ کِسی فقیر کو دے دو یہ اُسی کا ہے اور وہ ہی اِس کا اصل حقدار ہے ‘‘میں نے سامنے بیٹھے فقیر کی جانب دیکھا جو پانچ پانچ سو کے نوٹ گِن رہا تھا میں سمجھ گیا اِس سو کے نوٹ کی اب اتنی حیثیت بھی نہیں رہی کہ یہ کِسی فقیر کو بھی لبھا سکے ۔

قصہ الغرض یہ کہ صبح سے شام تک مارا مارا گھومتا رہا مگر کوئی بھی جھوٹ بول کر سو کے نوٹ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھا ۔آخر تھک ہار کے سوچا کِسی بھوکے کو کھانا کھلا دیتا ہوں کہ یہ بڑ اہی اجرو ثواب کا کام ہے ۔پھر اچانک خیال آیا کہ مجھ سے بڑا بھوکا اور کون ہوگا جِس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔میں نے بریانی والے سے کہا’’ بھائی یہ سو روپے کی بریانی دے دو‘‘’’جناب! یہ بریانی ہے چکن بریانی کوئی دال چاول کی ہاف پلیٹ نہیں چلتے بنو صاحب جی گاہکی کا ٹائم ہے تنگ نہ کرو‘‘بریانی فروش کا جواب سن کر مجھے سو کے نوٹ پر بڑا ہی ترس آیا’’ تیری اب کوئی اوقات کوئی حیثیت نہیں رہی ‘‘میں سو کے نوٹ سے مخاطب تھا۔ میں نے نوٹ سے کہا !’’سچ سچ بتا تو واقعی گم شدہ ہے یا تجھے حسرتِ ناکام سے ستائے کِسی دِل جلے نے جان بوجھ کر پھینکا ہے؟‘‘اگلے ہی لمحے کیا محسوس کرتا ہوں کہ سو کے نوٹ میں سے بچوں کی طرح رونے کی آوازیں آ رہی ہیں میں نے اُسے سینے سے لگایا اور دلاسہ دیامیں اُس کی گریہ زاری کی وجہ سمجھ گیا تھا ’’ نہ رُو اے ہمارے عظیم نوٹ ہوسکتا ہے حکومتِ وقت کی نظر میں تم ضعیف اور لاگر ہوچکے ہو عین ممکن ہے وہ تمہیں ریٹائر منٹ کی سند سے نوازنے کا سوچ رہے ہوں ۔تم نے بہت عروج دیکھا ہے اور ہر عروج کو زوال کا دیدار کرنا ہی پڑتا ہے‘‘ ’’تم نے ٹھیک کہا اے آدم زاد! ایک وقت تھا کہ میری بڑی عزت تھی مجھ اکیلئے سے خوردو نوش سے لیکر ضروریاتِ زندگی کی بہت سی اَشیاء آجاتی تھیں مگر اب تو صرف دو کِلو آٹا نہیں آتا ،اب مجھے سبزی والے کے پاس لیکر جاؤ اور ٹماٹر لو تو پیاز کیلئے پیسے نہیں بچتے اور اگر پیاز لے لو تو آلو سے محروم رہنا پڑتا ہے حالانکہ پیاز پیدا کرنے والے ملکوں میں پاکستا کا پانچواں نمبر ہے ۔میرے پیارے دوست آدم زاد میں جانتا ہوں کہ میری کوئی ویلیو نہیں رہی اور میرا دور اب ختم ہو چکا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’تو پھرافسوس کس بات کا تم روتے کیوں ہو؟‘‘سو کے نوٹ نے بھری سی آواز میں کہا ’’ رونااِس بات کا نہیں کہ آج میرا دور ختم ہوگیااور میری کوئی اہمیت نہیں رہی افسوس تو اِس بات کاہے کہ آنے والے کل میں میرے دوستوں پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں کا دور بھی ختم کر دیا جائے گا۔ میں نے ابھی کل ہی پانچ سو روپے کی حالت دیکھی ہے وہ بھی آخری سانسیں لے رہا تھا۔میں تم سے التجاء کرتا ہوں اے آدم زاد !میری یہ اپیل حکومتِ وقت تک پہنچا دو کہ زر کی اہمیت وقدر وقیمت کو برقرار رہنے دیا جائے ۔ اب میں آخر میں یہی کہونگا کہ اگر میں تمہارے بھی کِسی کام کا نہیں تو مجھے مزید بے حرمتی سے بچاتے ہوئے قریبی کِسی مسجد کے گلے میں ڈال دو‘‘-
Muhammad Ali Rana
About the Author: Muhammad Ali Rana Read More Articles by Muhammad Ali Rana: 51 Articles with 41367 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.