اخلاقیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھولی بسری کہانی

گورنر جنرل قائدِ اعظم کے اے ڈی سی جنرل (ر) گل حسن اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دن وہ قائد اعظم کے ساتھ گورنر ہاؤس سے ملیر جا رہے تھے۔ راستے میں ریلوے کا پھاٹک بند ملا ۔ گاڑی آنے میں چند منٹ باقی تھے، چنانچہ گل حسن نے پھاٹک کھلوا دیا۔ اس پر قائد نے خفگی کا اظہار کیا اور فرمایا ’’گل میں گورنر جنرل پاکستان ہوں، اگر میں خود ہی قانون توڑنے لگوں گا تو اس پر پاکستان کے عوام کیسے عمل کریں گے‘‘۔ سرکاری خزانے کی حرمت کا یہ عالم تھا کہ قائداعظم بحیثیت گورنر جنرل صرف ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ لیا کرتے تھے ۔ آپ نے گورنر جنرل ہاؤس کے اخراجا ت بے حد محدود کر رکھے تھے۔ آپ کا اسٹاف بھی بہت مختصر تھا۔ کابینہ کے اجلاسوں میں چائے پیش نہیں کی جاتی تھی۔ رات کو فالتوں بتیاں قائد اعظم خود بند کر وا دیا کرتے تھے ۔ مہاجرین کی آباد کاری کے لئے پاکستان ریلیف فنڈ قائم کیا گیا تو آپ خود اس فنڈ کا حساب کتاب دیکھتے اور ضروری سمجھتے تو متعلقہ افراد سے وضاحت طلب کرتے۔

جن دنوں قائداعظم بیماری کی وجہ سے زیارت میں مقیم تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے انہیں کھانے میں رغبت دلانے کے لئے اس خانساماں کو لاہور سے بلوایا جس کے تیار کر دہ کھانے قائد اعظم کو بے حد پسند تھے۔ قائد کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے خانساماں کا معاوضہ اور دیگر اخراجات اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کئے۔ قائد اعظم اصولی اختلافِ رائے کو بھی پسند کرتے تھے ۔ زیارت میں بیماری کے دوران ایک نرس آپ کی تیمار داری پر معمور تھی۔ ایک بار اس نے قائد کا ٹمپریچر چیک کیا۔ قائد اعظم نے نرس سے ٹمپریچر کے متعلق پوچھا تو اس نے یہ کہتے ہوئے بتانے سے انکار کر دیا کہ وہ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر نہیں بتا سکتی۔ قائد اعظم نے اس پر ناراضی کی بجائے خوشی کا اظہار کیا اور نرس کی اصول پسندی کی تعریف کی ۔
یوں تو ایمانداری، اصول پسندی اور احترام قانون جیسی اخلاقی اقدار بطورِ قوم ترقی کرنے کے لئے ضروری خیال کی جاتی ہیں اور معاشرے کے تمام افراد پر یکساں لاگو ہوتی ہیں۔ مگر عوامی نمائندوں بالخصوص سیاستدانوں کے لئے ان اقدار پر عمل پیرا ہونا کئی گنا ضروری ہے۔ ایک عوامی نمائندہ لاکھوں کروڑوں افراد کی نمائندگی کرتا ہے اور اسکی طرف سے ان اقدار پر سمجھوتہ ان لاکھوں کروڑوں افراد کے اعتماد کو مجروح کرنے کے مترادف ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے رویے اور ذاتی کردار کے اثرات علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی پڑتے ہیں۔ کوئی عوامی نمائندہ جتنے بڑے عہدے پر فائز ہوتا ہے ،ا س سے اسی قدر زیادہ احتیاط پسندی کی توقع کی جاتی ہے۔مگر اصل صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی سیاست میں ایمانداری و اصول پسندی جیسی ’’خرافات‘‘ کی گنجائش نہیں نکلتی۔ قانون کی بالا دستی اور قانونی اداروں کے احترام کا عالم یہ ہے کہ قانون کی پاسداری کو کمزوری اور احترام قانون کو اپنی توہین تصور کیا جاتا ہے ۔ ٹریفک کنٹرول کرنے والے سپاہی کی ہدایت سے لے کر اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے تک۔۔۔ قانون توڑنا اور قانونی فیصلوں کا تمسخر اڑانا ایک عام سی روایت بنتی جا رہی ہے جس پر شرمندگی کی بجائے فخرمحسوس کیا جاتا ہے ۔

ہمارے ہاں سرکاری خزانے کا استعمال مال مفت، دل بے رحم کی مصداق ہے ۔ کروڑوں اربوں روپے کے مالیاتی اسکینڈلز آئے روز اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔لیکن نہ تو بڑے بڑے عہدوں پر فائز افراد اور عوامی نمائندوں کی عزت و حرمت پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ ہی اخلاقیات و اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا جاتا ہے ۔ اگر الزامات ثابت ہو بھی جائیں تو اسے سیاسی فیصلہ اور مخالفین کی شعبدہ بازی قرار دے کر جوابی سلسلہ الزام تراشی شروع کر دیا جاتا ہے ۔

کرپشن اسکینڈلز دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کے لتے بھی لیے جاتے ہیں اور الزام تراشی بھی معمول کی باتیں ہیں۔ مگر کوئی فریق بھی ایک متعین حد سے آگے نہیں بڑھتا اور اصولی سیاست جیسی اچھی روایات بھی دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں آسٹریلیا کی وزیر اعظم جو لیا گیلارڈ نے فنڈز کا غلط استعمال کرنے پر ایک رکن پارلیمنٹ گریگ تھامس کی پارٹی رکنیت معطل کر دی اور اسے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے سے روک دیا۔ رکن پارلیمنٹ کی طرف سے ان الزامات کی تردید کی گئی اور ان الزامات کا ثابت ہوناا بھی باقی تھا۔ جبکہ ہمارے ہاں سرکاری فنڈز کا غلط استعمال’’صوابدیدی اختیار اور استحقاق ‘‘ تصور کیا جاتا ہے ۔ پارٹی سربراہ سے اختلاف پر تو پارٹی رکنیت معطل ہو سکتی ہے مگر کسی فنڈ یا اختیار کے ناجائز استعمال پر ہر گز نہیں۔

ابھی پچھلے ماہ بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ کے سینئر رہنما سرنجیت سینگپتا نے 70 لاکھ ٹکاکے اسکینڈل پر ریلوے کی وزارت سے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیا۔ اگرچہ اس الزام کا ثابت ہونا ابھی باقی تھا۔ وزیر موصوف کا کہنا تھاکہ وہ غیر جانبدار تحقیقات کے لئے خود کو پیش کر کے اچھی روایت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ چند روز پہلے بھارت کے وزیر ریلوے نے 30 پیسہ فی کلو میٹر کرایہ میں اضافہ کی منظوری دی تو انہیں احتجاجی تحریک کا سامنا کرنا پڑا اورآخر کار انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ادھر ہم ہیں کہ ریلوے کا محکمہ تباہ و برباد ہو چکا۔520 انجنوں میں صرف76 انجن کار آمد ہیں اور باقی کباڑ خانے کی زینت ۔مگر کوئی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔بھارت ہی میں ابھی پچھلے ہفتے بی جے پی کے سابق صدر کو فقط ایک لاکھ روپیہ رشوت کا الزام ثابت ہونے پر 4 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہاں پر اربوں کھربوں کے گھپلوں کے بعد اعلیٰ عہدیدار اپنے عہدوں پر بدستور فائز نظر آتے ہیں اور سزا پانے کے بعد بھی ان کی اخلاقیات میں کوئی جنبش نہیں ہوتی۔

قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھنا انسانی معاشروں کی دیرینہ روایت ہے ۔ جہاں کہیں ملکی و قومی مفاد کا معمولی سابھی معاملہ ہو عوامی نمائندے فوراً پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔ ہفتہ عشرہ قبل روسی صدر پیوٹن نے خود کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے لئے حکمران جماعت یونائیٹڈرشیا کی باگ ڈور ایک اور رہنما کے حوالے کر دی۔ بھارت کی خاتون صدر کو، جنہیں گاندھی خاندان سے ذاتی مراسم کی وجہ سے بہت طاقتور خیال کیا جاتا ہے ،اپنی مدت صدارت کے بعد گھر بنانے کے لئے زمین الاٹ منٹ سے دستبردار ہونا پڑا۔ کیونکہ وہ زمین کی تو اہل تھیں مگر اس علاقہ میں نہیں جہاں الاٹمنٹ کی گئی۔

کچھ ہی روز پہلے ہنگری کے صدر نے یہ کہتے ہوئے عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے دیا کہ وہ متنازعہ ہو چکے ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے ڈاکٹر یٹ کے مقالہ میں نقل شدہ مواد شامل کیا۔ یا د رہے کہ ابھی یہ الزام پایہ ثبوت کو نہیں پہنچا۔ اس سے قبل جرمنی کے وزیر دفاع بھی اسی الزام پر مستعفیٰ ہو گئے تھے۔ہمارے ہاں مقالہ تو کیا پوری ڈگری بھی جعلی ثابت ہوجائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اقوام کی ترقی کا راز اصل میں اخلاقی اقدار پر کاربند ہونے میں ہے ۔ پاکستان میں بھی ایمانداری اور اصول پرستی جیسی بے شمار روشن مثالیں موجود ہیں۔ لا تعداد لوگ معاملات زندگی میں اخلاقیات کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان خاندانی نواب تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے بھارت رہ جانے والی اپنی جاگیر کا کلیم تک داخل نہ کیا۔ انکی وفات تک ان کے پاس ذاتی گھر نہ تھا۔ ہمارے ہی ملک میں عدلیہ کے ایسے جج صاحبان بھی گزرے ہیں جنہوں نے آمر وقت کے PCO کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا اور عہدوں سے الگ ہو گئے ۔ وہ اصول پسند آرمی چیف بھی جنہوں نے اقتدار پر قابض ہونے کا موقع ہوتے ہوئے بھی جمہوری عمل میں رخنہ اندازی کی کوشش نہ کی ۔ ہمارے ہی طالب علم بچے ڈرون حملوں پر احتجاجاً ، امریکی سفیر کے ہاتھوں ایوارڈ لینے سے انکار کر کے خبروں کی زینت بن جاتے ہیں۔ ابھی پچھلے ماہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب میں ایک نعت گو طالبعلم کو اپنی طرف سے لیپ ٹاپ دینا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنے حصے کا لیپ ٹاپ میرٹ پر وصول کر چکا ہے ۔ دوسرا نہیں لینا چاہتا۔

معاشی اور سیاسی استحکام کی اہمیت اپنی جگہ، مگر سچ یہ ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کا اصل راز اخلاقی اقدار کے استحکام میں ہے۔ اخلاقی اقدار کا زوال ہی اصل میں قوموں کے ہمہ گیر زوال کا باعث بنتا ہے ۔ کاش ہمارے ہاں بھی ایسی رو شن مثالیں قائم ہوں جن سے پتہ چلے کہ اختیار واقتدار کے مالک لوگ اپنی قوت کو قانون شکنی کے لئے استعمال نہیں کرتے بلکہ قانون کی پاسداری اور اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کو اپنی طاقت کا سرچشمہ خیال کرتے ہیں۔
Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 28546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.