اردو میگزین میں امجد حفیظ کا انٹرویو ایک سبق آموز کہانی
ہے۔ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والا امجد حفیظ اپنی اس شہرت پر
قطعی نازاں نہیں ہے۔ البتہ وہ اپنی نئی زندگی پانے پراپنے خالق کے بعد اپنی
ماں کی دعائوں پر نازاں ھے اور پھر مسلمان ہونے پر اللہ کا شکر گزار ھےکہ
اس نے اسلام کے نام پر اغواکاروں سے اس کی جان بخشی کرائی ھے۔ انٹرویو سے
پہلے سعود ساحر صاحب نے جو تعارفی نوٹ لکھا ہے اس میں انھوں نے بشیر ساربان
کا بھی ذکر کیا ھے جس کی وضاحت کرنا اور قارئین کی دلچسپی کے لئے بشیر
ساربان کی کہانی سے اگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ غالباً 1961 کا ذکر ہے کہ
امریکہ کے صدر جانسن جو اس وقت نائب صدر تھے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے
تھے۔ یہ دورہ پاک امریکہ دوستی کے حوالے سے تھا اور وہ اپنا دورہ مکمل کرنے
کے بعد وہ کراچی ائیر پورٹ کی جانب جا رہے تھے کہ کارساز کے مقام پر بہت
بڑے استقبالی ہجوم کو دیکھ کر وہاں گاڑی روکنے کا حکم دیا اور گاڑی سے باہر
نکل کرلوگوں سے ہاتھ ملانا شروع ہو گئے۔ اَن کے قافلے میں سکیورٹی کا مستعد
عملہ اور اہم شخصیات ہم سفر تھے۔ صدر جانسن کی نظر دور کھڑے ایک خستہ حال
شخص پے پڑی جو اپنی اونٹ گاڑی پر کھڑا صدر کی ایک جھلک دیکھنے کا مشتاق
تھا۔ صدر جانسن بھیڑ سے نکلتے ہوئے سیدھے بشیر ساربان کے قریب پہنچ گئے
جنہیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر خستہ حال بشیر اپنے اونٹ کی باگ سمبھالتے
ہوئے ریڑھے سے نیچے اتر آیا۔ بشیر جو ایک دھوتی اور قمیض میں ملبوس تھا اور
جس کے ننگے پائوں کی وجہ سے ایڑیاں کریک ہو چکی تھی امریکہ کے صدر سے ہاتھ
ملاتے ہو ئے بہت مسرور تھا اور خوشی کے آثار دیدنی تھے۔
قناعت پسند، خودداراور محنت کش بشیر ساربان اورامریکی صدر جانسن کے درمیان
جو مکالمہ ہوا مجھے آج تک اچھی طرح یاد ھے اور یہ سوالوں کے جواب دنیا بھر
کے اخبارات میں شامل ہو ئے تھے۔ٹائم میگزین کے ٹائٹل صفحہ پر بشیر کی تصویر
اور خبر چھپی تھی۔ مکالمہ کچھ اس طرح تھا جو انٹرپریٹر کے ذریعے ہو رہے
تھے۔
سوال: روزانہ کتنے روپے کما لیتے ہو؟
جواب: جناب یہی کچھ بیس پچیس روپے۔
سوال: اونٹ پر کتنا خرچ کرتے ہو؟
جواب: جناب پانچ چھ روپے۔
سوال: تو باقی جو بچتے ہیں ان سے گزارہ کر لیتے ھو؟
جواب: ( بڑے اعتماد سے) جی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ھے میرا اور میرے بیوی
بچوں کا گزارہ چل رہا ہے۔
سوال: مجھ سے دوستی کرو گے؟
جواب: (ذرا توقف کے بعد) جی جناب کرو گا۔
سوال: تم کہ امریکہ بلاوٌں تو آوٌ گے؟
جواب: جی ضرور آوٌ گا۔
۔ Good bye اوکے بشیر میری نیک تمنائیں اور دوستی تمہارے لئے
دوسری صبح کے اخبارات میں بشیر ساربان کی تصاویراور خبروں کی بھر مار
تھی۔سب سے پُر اثر کالم جنگ اخبار کے مشہور کا نگار ابراھیم جلیس مرحوم کا
’’وغیرہ وغیرہ‘‘ تھا۔ امجد حفیظ کی طرح بشیر ساربان کو بھی میڈیا نے اتنی
کوریج دی کہ صدر جانسن کو بشیر سے کیا وعدہ پورا کرنا پڑا اور چند ہفتوں کے
اندر اندر بشیر واٗئٹ ہاوٴس کے مہمان خانے میں صدر جانسن کے ساتھ خوش گپیاں
کر رہا تھا۔ بشیر کو امریکہ لے جانے سے پہلے مکمل تربیت دی گئی۔ کھانا
کھانے کا مغربی انداز اور کچھ انگریزی کے الفاظ سیکھانے کا انتظام کیا گیا
اور بشیر کے ہمراہ ایک ترجمان کو بھی امریکہ بھیجا گیا۔ صدر جانسن نے بشیر
کو ایک فورڈ ٹرک کچھ نقدی اور بہت سے تحائف دے کر واپس بھیجا۔ اس طرح بشیر
ساربان (اونٹ گاڑی بان) سے ٹرک کا مالک بن گیا اور کارساز کے مقام پر صدر
امریکہ سے چند منٹ کی ملاقات نے اْ س کی زندگی بدل کر رکھ دی- |