الحمدللہ گلگت بلتستان کی اولین دینی جامعہ ، جامعہ
نصرة الاسلام کی طرف سے ایک سہ ماہی مجلہ منصہ شہود پر آگیا۔ یہ مجلہ خالص
دینی و ادبی اور تحقیقی طرز کا ہے ۔ اس کا مزاج و انداز پاکستان بھر کی
دینی درسگاہوں کے مجلوں اور رسائل کا سا ہے۔ اور مقاصد بھی وہی ہے جو دیگر
دینی مدارس کے مجلات و میگزین کے ہیں۔ گلگت بلتستان کی تاریخ میں کسی بھی
دینی ادارے کی طرف سے یہ پہلی باقاعدہ کوشش ہے ۔جامعہ نصرة الاسلام میں
کبار علماء کرام نے گزشتہ پانچ عشروں سے اپنی بساط کے مطابق دینی علوم کو
جاری و سار ی رکھا ہو ا ہے۔یہاں دارالعلوم دیوبند کے دسیوں فضلاء کرام نے
کئی سال درس و تدریس کی شمع کو جلابخشی۔کئی نامی گرامی حضرات نے یہاں سے
کسب فیض کیا۔آج جامعہ میں ابتدائی عصری تعلیم سے لیکر دورہ حدیث تک کی
تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کو مفت دی جاتی ہے۔جامعہ نصرة الاسلام کا مسلک
ومشرب وفاق المدارس العربیہ کے اکابرین والا ہے۔ اعتقا دات و نظریات میں
اکابرین علماء دیوبند کے اندھے پیرو ہے۔قاسم العلوم والخیرات حضرت نانوتوی
کے گلشن و گلستان کے فیض یافتہ علماء نے اس جامعہ کو آبیاری سالوں اپنے خون
سے کی ہے۔اور ان کے نظریات و خیالات کے امین رہے ہیں اورواشگاف انداز میں
ان کی پرچار کی ہے۔ آج بھی جامعہ نصرة الاسلام اعتقادات و نظریات اور علمی
توضیحات و اعتقادی خیالات میں انہی اکابر علماء کا ہم خیال و ہم مشرب اور
اندھا پیرو ہے۔
جب جامعہ کا اولین شمارہ ملک کی بڑی دینی درسگاہوںاور اہل علم و قلم کے پاس
پہونچا تو اکابر علماء اور اہل قلم نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور اپنے
جذبات و احساسات کو بذزیعہ فون کال، ایس ایم ایس ، ای میل اور تحریر ی خطوط
کی شکل میں کیااور اس کوشش کو ایک مثبت قدم سے تعبیر فرمایا۔ جامعہ سے ایک
مجلے کے اجراء کے حوالے سے محترم قاضی نثار احمد صاحب کے ساتھ کافی پہلے سے
مشاورت چل رہی تھی تاہم حالات موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس کام کا باقاعدہ
آغاز نہیں کیا جاسکا۔جولائی ٢٠١٠ء میں جب میں رسمی تعلیم سے فارغ ہوا تو
قاضی صاحب کا اصرار تھا کہ میں جامعہ کی طرف سے مجلے کا باقاعدہ کام شروع
کروں مگر میں کچھ مجبوریوں کی بناء پر کام کا آغاز نہ کرسکا۔اوائل ٢٠١١ء کو
کچھ ماہ اسلام آباد میں رہنا کا موقع ملا،مولانا عطاء اللہ شہاب صاحب بھی
ان دِنوں اسلام آباد میں قیام پذیر تھے۔ ان کے ساتھ بھی زمانہ طالبعلمی سے
اچھی علیک سلیک تھی۔وہ مختلف اخباروںمیں میری تحریریں باقاعدہ پڑھتے تھے
اور فیڈ بیک کے طور پر فوراََ کال بھی کرتے ۔بہر صورت اسلام آباد قیام کے
دوران محترم مولانا شہاب سے اکثر ملاقاتیں رہتیں، بالآخر انہوں نے ایک ادبی
و صحافتی رسالے کے اغاز کا عزم صمیم کرلیا ، طویل مشاورت کے بعد یہ طے پایا
گیا کہ مجلے کا نام ماہ نامہ شہاب ہوگا۔ اور اس کی تمام ذمہ داری میرے
سپردکی گئی تاکہ میں اولین شمارے کا کام کروں،سخت کھٹن حالات میں ، میں نے
گلگت بلتستان کے تمام ادباء و صحافیوں سے رابط کیا اور ان سے تحریرن جمع
کرکے بہت ہی کم عرصے میں پہلا شمارے کا کام مکمل کیا تاہم کافی دیر سے یہ
میگزین منظر عام پر آیا، اس میگزین کی ایڈیٹری کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا،
اگرچہ میرے بہت سے دوست دلی طور پراس سے خوش نہیں تھے۔مگر وہ کام کرنے کی
سکت بھی نہیں رکھتے تھے۔ او ر نہ مجھے خواہ مخواہ کا ایڈیٹر صاحب بننے کا
شوق تھا۔ مولانا شہاب کی شخصیت ہی کچھ ایسی ہمہ جہت ہے کہ بادل نخواستہ
مجھے ماہنامہ شہاب کے لیے بعض دفعہ غیر ضروری کام بھی کرنے پڑے۔انہی ایام
میں مولانا کے سفر ہندوستان کا بڑے حصہ کو بھی ناچیز نے پروف ریڈنگ اور
ایڈیٹنگ کے مراحل سے گزارا۔مولانا شہاب صاحب کو اس تمام تر محنت کا اندازہ
بھی ہے اور وہ اس کا کریڈیٹ بھی دیتے ہیں،کھلے دل و دماغ کے مالک مولانا
شہاب اب تو ادبی و صحافتی دنیا سے ہجرت کرکے مکمل سیاسی دنیا میں رنجہ قدم
فرما چکے ہیں مگر احمد سلیم سلیمی کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی کوچہ قلم میں
واپس آئینگے۔
اوائل جولائی میں قاضی نثار احمد صاحب ترکی تشریف لے گے، جانے سے پہلے
انہوں نے ایک دن کے لیے مجھے اسلام آباد طلب کیا۔ میں انہی دنوں گوجر خان
میں ایک دینی ادارے میں عربی زبان کا کورس کروارہا تھا۔ اسلام آباد میں
قاضی صاحب سے ایک لمبی نشست ہوئی، اور اس میں باقاعدہ طے پایا گیا کہ میں
رمضان المبارک کے بعد مجلے کا کام شروع کروں،یوں اکتوبر ٢٠١١ء کو جامعہ
نصرة الاسلام میں درس و تدریس کے ساتھ مجلے کا م بھی شروع کیا۔ یہاں بھی
تمام کام تن تنہا کرنے پڑے تاہم قاضی صاحب کا انداز مشفقانہ رہا، اور امید
ہے کہ آئندہ بھی یہی طرز عمل رہے گا۔میں یہ بات اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں
کہ ایک طالب علم کو گلگت بلتستان کے سب سے بڑی دینی درسگاہ سے شائع ہونے
والے اولین مجلے کا ایڈیٹر بننے کا موقع ملا ہے۔اللہ نے چاہا تو جب تک مجھے
موقع ملتا رہے گا میں اپنی بساط کے مطابق مکمل ذمہ داری سے یہ دینی کام
کرتا رہونگا۔ انشاء اللہ
لاریب کہ سہ ماہی نصرة الاسلام گلگت محض ایک مروجہ مجلہ / رسالہ نہیں بلکہ
یہ ایک تحریک کا آغاز ہے،ایک مقدس مشن کی تکمیل کے لیے سنگ بنیاد ہے۔ گلگت
بلتستان جیسے دور افتادہ علاقے سے ایک اذان حق ہے جو بہت پہلے شروع ہونی
تھی مگر نہ ہوئی، تاہم دیر آید درست آید کے مصداق آپ کی خدمت میں حاضر
ہے۔مجلے کے مدیر اعلی اور مدیر کی دلی خواہش ہے کہ گلگت بلتستان کے تعلیم
یافتہ نوجوان اس کا حصہ بنے،قاری کی شکل میں اور لکھاری کی شکل میں۔ اگر آپ
میں قوم کی فلاح و رہنمائی کی تڑپ ہے اور اپنی تحریر کے ذریعے نظریاتی اور
فکری انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں تو قلم اُٹھائیے اور حق گویائی و بے باکو
اپنا شعار بناتے ہوئے قلمی جہاد کے اس سفر میں ہمارے ساتھ شریک سفر ہو
جائیے۔
بے شک سہ ماہی نصرة الاسلام فکر و شعور ہے عدل و انصاف کا،آواز حق ہے مظلوم
انسانیت کا،تمنا و آرزو ہے اہل حق کا، بازوِ شمشیر ہے باشندگان گلگت
بلتستان کا اور شمشیر بے نیام ہے ظالمان گلگت بلتستان کے لئے، لاریب کہ
ترجمان ہے جامعہ نصرة الاسلام کا ، تو حق اور سچ کو اپنا نصب العین بناتے
ہوئے غیر جانبداری سے دینی ، اصلاحی،فکری و نظریاتی اور تحقیقی و خالص ادب
اسلامی کے کے حامل اہل قلم اس سفر مبارک میں ہمارے رفیق سفر بنیں، لکھنے سے
پہلے چند امور کو ملحوظ خاطر رکھے۔
١۔ بغیر تحقیق و تفتیش اور حوالہ جات کے کوئی علمی تحریر نہ بھیجے۔
٢۔موضوع کے انتخاب سے پہلے اس کی افادیت، اہمیت اور ضرورت پر کامل نظر
رکھیں۔
٣۔ اپنی تحریر کو حقائق،دلائل و براہین اور اعداد وشمار اور تحقیق و مراجعت
سے مزین کریں ،تاکہ قاری ابہام کا شکار نہ ہو۔
٤۔قوم پرستی، مفاد پرستی، فرقہ پرستی، لسان پرستی اور بہت ساری پرستیوں کو
چھوئے بغیر حق پرستی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے تحریر تیار کرکے ارسال کریں۔
٥۔سہ ماہی نصرة الاسلام کے موضوعات بے شمار ہیں کہ ملکی سا لمیت و حفاظت،
دین ودنیا کا حسین امتزاج، طرز معاشرت و حکومت، مضبوط اسلامی معیشت، تاریخ
عالم، تاریخ عالم اسلامی، تاریخ گلگت بلتستان، اصلاح معاشرہ، عالم اسلام کی
تنزلی اور اس کے اسباب، قرآنیات، دینیات، دنیا بھر کے اسلامی تحریکوں کا
تعارف، عالم اسلام کو درپیش چیلنجز، تعلیمی اصلاحات، اکابر علماء کی آپ
بیتیا ں و سوانح عمریاں، اور دیگر فکری و نظریاتی موضوعات ،حالا ت حاضرہ پر
جاندار تجزیے ، مغرنی تہذیب وتمدن اور انکے اسلام دشمن افکار و عزائم کا
کامیاب اپریشن، اسلامی دنیا اورملت اسلامیہ پر جبرو استبداد پر مبنی
رپورٹیں و تحریریں اور ملک عزیز بالخصوص گلگت بلتستان میں قیام آمن کے لیے
آراء و تجاویز اور دیگر موضوعات خصوصیت کے ساتھ شامل ہیں۔
یاد رہے! آپ خود بھی مجلے کے خریدار بنیے اور اپنے دوستوں کو بھی ترغیب
دیں،نو آموز لکھاری تحریر ، مراسلہ نگاری، کالم نویسی، فیچر رائٹنگ،میگزینی
صحافت اور دیگر امور کے لیے براہ راست ایڈیٹر سے بھی رابط کر سکتے ہیں،
ایڈیٹر نمبر03462974626اور ای میل [email protected] اور ادارے کی ایڈرس
پر بذیعہ خط۔فی آمان اللہ
|