بسم اللہ الرحمان الرحیم
محترم المقام مفتی صباح الدین غذری صاحب، مدیر سہ ماہی نوائے انور کراچی'
حفظہ اللہ ورعاہ
السلام علیکم ورحمة اللہ برکاتہ
بعد تسلیمات و اداب:
بروز ٢٥ جولائی ٢٠١٢ ء کوآپ کا والا نامہ موصول ہوا۔اورسہ ماہی '' نوائے
انوار کراچی'' کا اولین شمارہ باصرہ نواز ہوا۔ دل کی بات یہ ہے جامعہ
انوارالعلوم کی طرف سے اس کار عظیم کا اجراء خوش آئند بھی ہے اور نیک شگون
بھی۔ بحیثیت مدیر رسالہ مولانا مفتی صباح الدین غذری کا نام گرامی دیکھ کر
دل خوشی کے بلیوں اچھلنے لگا۔جناب والا! آپ کے حکم پر ایک عدد مضمون میل
کیا ہے۔ امید ہے کہ آپ اور نوائے انوار کے قارئین پسند فرمائیں گے۔محترم
المقام! کہنے کے لیے دل و دماغ میں بہت ساری باتیں ہیں' پر کاغذ کے ان
صفحات پر اتنی گنجائش کہاں؟۔ پھر بھی چند طالب علمانہ گزارشات پیش ہیں۔ اس
امید کے ساتھ کہ '' سہ ماہی نوائے انوار'' کی ادارتی و مشاورتی ٹیم ان پر
سنجید گی سے غور کرے گی۔
١۔ مجلے کو غور سے دیکھا۔ بے حد مفید پایا' تاہم یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آج
کے دور کا جدید طبقہ 'ہم سے جو تقاضہ کرتا ہے اور ہم اس پر پورا اترنے سے
قاصر ہیں۔ مجھے گزشتہ ایک سال سے فیڈرل ڈگری کالج گلگت میں پڑھاتے ہوئے اور
کئی سالوں سے اصحاب صحافت و قلم کیساتھ گزارتے ہوئے اس بات کا خوب اندازہ
ہوا ہے۔ روز بروزجدید تعلیم یافتہ طبقہ ہم سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ اس طبقے
کے پاس ایک '' کیوں '' ہے اور بدقسمتی سے اس ''کیوں ''کا جواب ہمارے پاس
نہیں ہے۔ ہمیں اس '' کیوں '' کا جواب ڈھونڈنا ہے۔ یہ باتیں تلخ ضرور ہیں
مگر حقائق پر مبنی ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنے انداز کو بدلنا ہوگا یعنی اس
معیار تک لے جانا ہوگا جس کا زمانہ متقاضی ہے۔سہ ماہی نوائے انوار کی
انتظامی وادارتی ٹیم سے التماس ہے کہ وہ اپنے اس ''کار عظیم'' کو معروف
عالم دین حضرت العلامہ سیدِ مناظراحسن گیلانی کی اس نصیحت کو سامنے رکھتے
ہوئے انجام دیں، انشاء اللہ ' اللہ کامیابیوں سے نوازے گا' یہی اسلامی مزاج
بھی ہے۔حضرت العلامہ فرماتے ہیں کہ ''ہر زمانے کا ایک ماحول ہوتا ہے، زبان
ہوتی ہے،طریقہ تعبیر ہوتا ہے، جب تک ماحول کی ساری خصو صیتوں کو پیش نظر
رکھتے ہوئے انہی اصطلاحات اور تعبیرات میں آپ اپنی معلومات پیش نہیں
کریںگے( جو اس عہد کا قالب ہے) تو آپ کی طرف نہ کوئی توجہ دے گا نہ آپ کی
باتوں میں وزن ہوگا''۔
٢۔ مجلے کو مروجہ مدارس کی طرح مدرسے کا اشتہار بنانے سے گریز کریں۔
٣۔ مضامین میں تنوع ہو۔ اورتحقیقی اور ادبی ودینی نوعیت کے ہونے چاہیں' بے
شک خالص اسلامی تحقیقی و ادبی ہی ہوں۔
٤۔ جدید تعلیم یافتہ طبقے تک مجلے کاپھیلاؤ یقینی بنایا جانا چاہیے۔
٥۔ اگر ممکن ہو تو جلد دوئم سے ایک حصہ عربی کے لئے مختص ہو' اگرچہ تحقیقی
قسم کے دو مضامین ہی کیوں نہ ہوں۔
٦۔ گلگت بلتستان میں دینی سرگرمیوں اور مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے ہر
مجلے میں کوئی نہ کوئی تحقیقی نوعیت کا مضمون /فیچر/کالم یا سروے رپورٹ
لازمی ہو۔
بہر صورت اس دفعہ اتنا کافی ہے۔ '' سہ ماہی نوائے انوارکراچی'' کی ادارتی و
انتظامی ٹیم اور جملہ معاونین و کارپردازان اولین کامیاب اشاعت پر تحسین و
سپاس کے لائق ہیں، رب رحمن سے دعا ہے کہ وہ ''سہ ماہی نوائے انوار'' کو فکر
سلیم ' جہد مسلسل اور امت مرحومہ کی رہنمائی کا سبب بنائے۔ سہ ماہی نصرة
الاسلام کی جانب سے سلام تہنیت قبول ہو۔ سہ ماہی خیر کثیر لاہور سے نکلتا
تھا' اپنا کافی امییج بنایا تھا مگر حالات کا نذر ہوگیا' میرا اس میں ٹھیک
ٹھاک کنٹربیوشن تھا' روز اول سے ادارتی کام کا بڑا حصہ میں ہی کیا کرتا
تھا۔ اب دوبارہ اس پر کام جاری ہے، جلد منصہ شہود پر آئیگا انشاء اللہ۔سہ
ماہی نوائے انوار میں بھی اپنے حصے کا تیل ڈالتا رہونگا انشاء اللہ، میری
طرف سے جو بھی قلمی تعاون ہوگا ضرور کیا جائے گا' اور دعا بھی۔ مولانا شفیق
الرحمان صاحب کومیرا سلام عرض کریں
والسلام مع الاکرام
امیرجان حقانی المعروف ابن شہزاد حقانی
ایڈیٹر ' سہ ماہی نصرة الاسلام گلگت
٢٧ جولائی ٢٠١٢ء بوقت رات گیارہ بجے
حال جامعہ نصرة الاسلام گلگت' گلگت بلتستان
|