ڈاکٹرعلامہ محمّد اقبال ، اور علماۓ حق

 پہلے ایک دور ہوتا تھاجب لوگ ادب سے دلی شغف رکھتے ہوئے قلم اٹھایا کرتے تھے۔مگرموجودہ دور میں شایدادب کا تقاضا بدل گیا ہے۔اب ادب جمہوریت ،جدیدیت اورجیو سے ہوتا ہوا جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے۔آج اِسی موجودہ ادب نے مجھ سے تقاضائے تحریر کیاہے۔ ’’بنیاد پرستی‘‘ کے جذبے سے سرشار اپنے دلی جذبات سے’’غدر‘‘ کرتے ہوئے،’’اکابر پرستی‘‘ کے ستارہ جرات کو سینے پہ سجاکر ، ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہان پوری کے دئیے گئے ’’ سبقِ ادب ‘‘ کوادب کا قرینہ سمجھ کرمشقتِ قلم کا آغاز کررہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں میرا بہت دِل چاہتا تھا کہ مولانا ا بو الکلام آذاد کی شخضیت سوانح،آثارعلمیہ کے تعارف،افکاروخدمات کے تذکرے میں ایک ضخیم کتاب تالیف کروں۔اور اپنے بنائے گئے منصوبے کے تحت ایک کتاب ’’امام الہند ....تعمیروافکار‘‘ لکھی اور شائع بھی کی۔لیکن پھر اندازہ ہواکہ اِس میدان میں وقت سے پہلے قدم رکھ لیا۔اور میرے اس خیال کومحترم مشق خوا جہ صاحب نے اور پختہ کردیا۔ انہوں نے فرمایا آپ مولانا پر کتاب ضرور لکھیئے لیکن فی الحال معلومات جمع کجیئے،پڑھیئے، پختہ فکری اور وسعتِ نظر پیدا کیجیئے ، جذبات سے بلند ہوئیے۔عقیدت کے سحر سے نکلیئے، تنگ نظری دور کیجئے۔ مولانا پر لکھنے کا وہی وقت مناسب ہوگاجب آپ اِن کاموں سے فارغ ہوجائیں گے۔ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ، آپ کی باتیں درست لیکن میں جذباتی عقیدت میں محصور اور تنگ نظر تو نہیں ؟ بولے،’’آپ جذباتی ہیں، بسم اﷲ کے گنبد میں بند ہیں۔پھر بولے یہ’’امام الہند‘‘ کیا ہے؟ کتاب کا یہ نام کیوں؟ آپ انہیں پاکستان میں امام الہند منوانا چاہتے ہیں۔ لوگ خدا اور رسول کو نہیں مانتے ، آپ ابو الکلام کو امام الہند کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں۔ یہ تنگ نظری ہی نہیں حماقت بھی ہے۔ یہ جناح و اقبال کاملک ہے یہاں کوئی شیخ الاسلام ، امام الہند ،امام انقلاب کی حیثیت سے سرسبز نہیں ہوسکے گا۔ اگر آپ کے عبیداﷲسندھی،حسین احمدمدنی،ابوالکلام کی علم وفکر ،سیرت وکرداروخدمات سے اپنے حریفوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو آپکے بخشے ہوئے خطابات ان کی عظمت کو منوا نہیں سکیں گے ۔دنیانے ہر دور میں صرف علم و سیرت کے سامنے سر جھکایا ہے ،انسانوں کے بخشے ہوئے خطابوں کے سامنے نہیں۔یقیناً اِن سطور کوپڑھنے کے بعد آپ میرے مقصد کو سمجھ بھی گئے ہوں گے اوردل ہی دل میں اس گستا خی پر حیرت زدہ بھی لہذاحیرانگی والی بات نہیں اپنے جذبات ونفس سے غدر والے بنیاد پرست ایسا ہی کرتے ہیں۔ آج اقبال کے دیس میں چند نادان لوگوں نے ان کے نظریات وافکار کو انتہائی غلط انداز میں پیش کرکے علماء کے خلاف اُکسانا شروع کردیا جس کا ثبوت ایک ٹی،وی چینل کا پروگرام اور مختلف نشستیں جو منظر عام پرموجودو محفوظ ہیں،عوام الناس کو بتایا جارہا ہے کہ اسلام کی جو تشریح علامہ اقبالؒ نے کی وہی ہمارے لئیے مشعل راہ ہے۔ مولوی نام کی’’ مخلوق‘‘ ایک فسادی طبقہ ہے۔ جو کہ اسلام کی صحیح تشریح نہیں کر رہا۔ اس کے ساتھ علامہ اقبال کے وہ اشعار پڑھ کر سنائے جاتے ہیں جوکہ انہوں نے علماء سے دوری کے وقت میں کہے تھے۔ چونکہ علامہ محمد اقبال کو وطن عزیز میں حْجت سمجھا جاتا ہے ۔آپ کسی کو بھی ، ابن جوزیؒ ، ابن تیمیہؒ ، یا امام ابو حنیفہؒ کی مثالیں دیتے رہیں وہ اتنی توجہ نہیں دے گا۔مگر جب آپ علامہ اقبال کا نام لیں گے توآپ کی بات انتہائی توجہ سے سنی جائے گی۔لیکن اْن نادانوں کو کون سمجھائے کہ علامہ محمد اقبالؒ سے جذباتی لگاؤ اپنی جگہ ،مگر اْن کے افکار سے عقلی و فکری اختلاف ہوسکتا ہے ۔اور اہل علم جانتے ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ خود علما ء ے حق سے اصلاح کے مراتب طے کرتے رہے ہیں ۔ ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میری نظر میں علامہ اقبال مرحوم پر تین فکری انقلاب برپا ہوئے۔ایک وقت تھا جب انہیں اشتراکیت میں اْمید کی کرن نظر آئی اور فرمایا کہ۔
قوموں کی روش سے مجھے ہوتاہے یہ معلوم
بے سود نہیں روس کی یہ گرمی گفتار

اسی طرح انکی سوچ میں تبدیلی کا دوسرا دور وہ تھا جب انہوں نے تصوف سے بیزاری کا اظہار کیا ۔اور عجمی تصوف پر گہری تنقید کرتے ہوئے اْسے جمودِ عمل قرار دیا۔
ساقی نامہ فرماتے ہیں کہ۔
تمدن ،تصوف ،شریعت کلام
بتان عجم کے پْجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ اْمت روایات میں کھو گئی

تیسرا اور اہم دور وہ تھا جب علامہ اقبال مرحوم کے والد نور محمد اور ان کا بڑا بھائی عطاء محمد ، ِ مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر بعیت ہوگئے۔مگر علامہ اقبال مرحوم کی ذہنی حمیت علماء حق سے تعلق کی وجہ سے بیدار تھی۔ چنانچہ آپؒ نے علامہ انورشاہ کشمیریؒ سے ایک ملاقات میں اپنی اْس خواہش کااظہار فرمایا کہ آپ عقیدہ ختم نبوت میں میری رہنمائی فرمائیں۔تو علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے فرمایا ڈاکٹر صاحب آپ مسلم نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ پھر فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اسلام میں اسطرح ہے کہ اگراس عقیدے کو نکال دیا جائے تو رسول اﷲ کی مرکزیت ہی ختم ہو جاتی ہے ۔یہ علماء ہی کا دیا ہوا وہ سبق تھا کہ ڈاکٹر اقبال کے قلم سے نکل کر پورے عالم میں بکھرتا نظر آیا ۔ اور علامہ اقبال مرحوم نے اْسکا اظہار کچھ اسطرح کیا کہ، وہ دانائے سْبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا،
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قران، وہی فرقان، وہی یٰسین، وہی طْہٰ

چنانچہ علامہ اقبالؒ نے اپنے والد محترم پرمحنت کی اور اْنہیں دوبارہ مسلمان کیا، اور قادیانیت کی بیخ کنی کی۔علامہ اقبالؒ کا علماءِ دیوبندسے محبت کایہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی مجلس میں تشریف فرما تھے۔ وہاں حضرت شاہ صاحب کے چہرہ اقدس کو دیکھ کر فرمایا۔
محل نورِ تجلیست روئے انور شاہ
چہ قرب اْ وطلبی در صفائے نیت کوش
(ترجمہ) اﷲکے نورکی تجلی کا محل ہے انور شاہ کا چہرہ
اپنی نیت کو صاف کرکے بیٹھ جاؤ،سمجھ میں آجائے گا۔
اور جب علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا انتقال ہوا تو علامہ اقبالؒ نے اسلامیہ کالج میں تعزیتی جلسہ منعقد کیا۔وہاں حضرت شاہ صاحب کے وصال پر یہ شعرپڑھا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

اسی طرح مسئلہ قومیت حضرت شیخ سید حسین احمد مدنی ؒ سے ایک اختلاف پر علامہ اقبال نے چند اشعار کہے (جن کو وجوہ بناکر آج کل افرنگ کے چند نمک حلال زبان تراشی کرتے ہیں۔)جس پر علامہ طالوت نے دونوں صاحبین کے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ شروع کیااور حضرت مدنی ؒ کے موقف کو جاننے کے بعد علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ۔
’’مْجھے اِس اعتراف کے بعد ان پر اعتراض کا کوئی حق نہیں،اور فرمایا کہ۔
’’اْن کو یقین دلاتا ہوں کہ حمیت دینی کے احترام میں ،میں اْنکے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں‘‘
اِ سی ضمن میں عرض کرتا چلوں کے انہی علماء میں دوریاں اور غلط فہمیاں پیدا کرنے والے گروہ کے ایک سربراہ فرزند اقبال محترم ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب بھی ایک سوال
(اقبال نے کہا تھا کے قومیں مذہب سے بنتی ہیں اور حسین احمد مدنی ؒ نے کہا تھا کہ قوم جغرافیے سے بنتی ہے۔اب آپ کیا کہتے ہیں؟)
- کے جواب میں کہا تھا ۔
’’جس وقت یہ مناظرہ ہوا اْس وقت قوم سازی کی بہت ضرورت تھی ۔قائداعظم محمد علی جناح نے اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے کہا تھاکہ قوم مذہب سے بنتی ہے۔یہ ایک نظریاتی بات تھی لیکن مب ملک بن گیا تو اس کی شنا خت جغرافیے سے ہونے لگی۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں۔آج اگر یہ نعرہ لگایا جاتا ہے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ تو اس میں کوئی قباحت نہیں‘‘ (جاوید اقبال، خبریں سے گفتگو، سنڈے میگزین،13/Aug/2006)

میرے خیال نا قدین، یا فتنہ پروروں کے لئے اتنا ہی بہت ہے یا ان کے زندہ درگور ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ علامہ اقبال مرحوم نے فقہ کی تشکیل یا تدوین نو کے لئے بھی جن علماء کا انتخاب کیا یا جن کو اس قابل سمجھا اْن میں سر فہرست امام المحدثین علامہ انور کاشمیری کانام ہے اور ثانیاً حضرت سید سلیمان ندوی ۔ چنانچہ علامہ اقبال مرحوم نے علامہ انور کاشمیریؒ کو اس کام کے لئے دعوت دی اور حضرت شاہ جی نے آمادگی کا اظہار کیا مگر زندگی سے وفا نہ کی۔ اسی طرح دوسری طرف علامہ اقبال ؒ علی گڑھ یونیورسٹی کیلئے تعلیمی اسکیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ۔’’ہمیں دیو بند اور لکھنوء سے ایسے ذہیں اور طباع لوگ منتخب کرنے چاہیں جو قانون کا خاص ذوق رکھتے ہوں‘‘لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کے ناقدین نے افرنگ کے آلہ کار بن کر علامہ اقبالؒ کے ان اشعار کو جو انہوں نے علماء سے دور رہ کر اور قادیانیت کی قربت میں کہے تھے مثال بناکر پیش کیا جبکہ۔ اقبال فروشوں کے لئے علامہ اقبالؒ کی ان علماء حق کے لئے جو محبت و الفت اظہار و اعتماد ، تھا وہی روشن دلیل کے مترادف ہے ۔لیکن بات وہیں ختم ہوتی ہے۔
’’یہ جناح و اقبال کا ملک ہے ، یہا ں کوئی شیخ الاسلام ، امام الہند ، امام انقلاب کی حیثیت سے سر سبز نہیں رہ سکتا‘‘

محمد عمر قاسمی
About the Author: محمد عمر قاسمی Read More Articles by محمد عمر قاسمی: 16 Articles with 19552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.