برصغیر میں اوازن کے تحت وجود پانے والے کلام کو ہی شاعری
سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کا قاری اور سامع اسی قسم کی شاعری
سننے کے شوقین رہے ہیں اور اس سے ہٹ کر شاعری انھیں کبھی خوش نہیں آئ۔ یہ
بھی کہ اسے نثر ہی سمجھا گیا ہے۔ دوسری طرف نثر بھی بےسری نہیں رہی‘ وہ بھی
پیمانے کی پابند ہوتی ہے۔ اگر نحو کو نثر لکھتے وقت نظرانداز کر دیا جاءے
تو وہ نثر بھدی صورت اختیار کر لے گی۔ ابلاغ بھی متاثر ہو گا۔ خیال درست
طور پر قرطاس کی زینت نہیں بن سکے گا۔ شاعری کو نحوی پیمانے پر رکھیں تو وہ
درست قرار نہیں پاءے گی۔ اس حقیقیت کے باوجود اسے غلط نہیں کہا جا سکتا۔
گویا شاعری میں اوازن جبکہ نثر میں نحو معیار رہے ہیں۔ میر تقی میر کا یہ
شہر جو بڑا شہرہ رکھتا ہے‘ نحوی اصولوں پر نہیں اترتا اس کے باجود ابلاغ
میں کہیں خرابی نہیں آتی۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
گویا شاعری ہو یا نثر‘ دونوں کے الگ سے زاویے ہیں۔
شاعری میں ردیف و قافیہ سماعتوں کا لازمہ رہے ہیں۔ جدید عہد کے آغاز میں
ردیف و قافیہ کے بغیر شعر کہنے کا آغاز ہوا اور اس قسم کے کلام کو معری کا
نام دیا گیا۔ اس کے بعد آزاد شاعری کا آغاز ہوا جس میں ردیف و قافیہ ہی کیا‘
مصرعوں میں ارکان برابر نہ رہے۔ ہر دو متذکرہ کو شاعری ہی کہا گیا۔ اس کے
بعد مجوزہ بحور سے انحراف کرکے لکھنے کا رواج ہوا۔اس قسم کے کلام سے مباحث
کے دروازے کھل گیے۔ اسے شاعری کی صف میں شامل نہ کیا۔ انیس ناگی ‘ مبارک
احمد‘ نسرین انجم بھٹی اور مقصود حسنی اہم اوراس صنف کے ابتدائ شعرا میں سے
ہیں۔
١٩٩٣
میں مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئ نظم شاءع ہوئ۔ اس کتاب میں موصوف نے اس
صنف سخن کی بھرپور انداز میں وکالت کی۔ زبردست مخالفت کے باوجود اس صنف شعر
میں طبع آزمائ کی جاتی رہی۔ بالغ نظر اور شعری لوازمات سے آگاہ ڈاکٹرسعادت
سعید اور ڈاکٹر تبسم کاشمیری جیسے اہل قلم اس کے ساتھ ساتھ رہے۔ اس صنف کی
مستقل مزاجی اور عصری ضرورت کی وجہ سے یہ زندہ رہی۔ چونکہ یہ شاعری ہی تھی‘
اس لیے کسی مخالفت کا اس کی صحت پر برا اثر مرتب نہ ہوا بلکہ یہ مزید ابھری
اور اس میں نکھار آیا۔ آج آزاد اور نثری کا سابقہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ عوامی
سطع پر مقام رکھتی ہے۔ عوامی سطع پر بھی مانوسیت پیدا ہو گئ ہے۔ آج اس صنف
سخن پر بحث بھی تقریبا ختم ہو گئ ہے۔ دوسری طرف یہ معاملہ آج بھی غور طلب
ہے کہ نثر اور شاعری میں کیا فرق ہے۔
نثر میں کسی بات کے بیان کرنے اور فکری ابلاغ کے لیے کئ صفحات درکار ہوتے
ہیں جبکہ شاعری میں بیان کرنے کے لیے اختصار مدنظر رہتا ہے اور سمجھنے کا
معاملہ قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ اختصار ہی درحقیقت شاعری
کا حسن ہے۔ جیسا کہ یہ شعری لاءنیں وسیع تناظر میں تفہیم کا تقاضا کرتی
ہیں۔
تاریکی سے لڑنا ہے تو
جا پہلے جا کر
سورج بھر سینے میں
ہائیکو
مرے دور کے سچ نے
طلاق مانگ لی ہے
زبان دراز ہے
دو اور دو کو
چھے نہیں کہتا
اخلاص کی چڑیا
اپنے گھونسلے کے
تنکے لے گئ ہے
کہ کلام
زیر عتاب ہے
نظم:کلام زیر عتاب ہے
عموما داستانوں میں فوق الفطرت عناصر پاءے جاتے ہیں لیکن زبان فوق الفطرت
نہیں ہوتی جب کہ شاعری میں فوق الفطرت زبان پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس فوق
الفطرت زبان کا اطلاق جیتی جاگتی زندگی پر ہوتا ہے۔ اس زبان کی تفہیم عملی
زندگی سے متعلق ہوتی ہے۔ ذرا یہ شعری سطور دیکھیے۔
لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے
آنکھوں میں پتھر رکھ کر
پکون کے گیت گاءیں
لوکن کے گھر
بھوک کا بھنگڑا
گلیوں میں موت کا خنجر
کھیتوں میں خوف کی کاشت
جیون
تذبذب کی صلیب پر لٹکا
تخلیق کی ابجد
تقدیر کی ریکھا
کیسے ٹھہرے گا؟
نظم:حرص کی رم جم
شاعری میں کسی ناکسی سطع پر ذومعنویت ہوتی ہے۔ ایک پہلو سے بھی کئ پہلو
وابسطہ ہوتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ شعری لائنیں ملاحظہ ہوں۔ عام تفہیم کے حامل
الفاظ بھی سادہ تفہیم نہیں رکھتے۔
حرص کی ننگی رانوں میں
تخلیق کے بہتے دریا میں
سوچ کا سورج ڈوب رہا ہے
نظم:رات کے افق پر
میرے نزدیک نثر‘ شاعری سے اس لیے بھی الگ تر ہے کہ وہ رواں دواں سادہ اور
جلد سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اس کے برعکس شاعری کے مفاہیم تک رسائ کے لیے غور و
فکر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثلا یہ لاءینیں دیکھیے ان کے مفاہیم غور
کرنے پر ہی سمجھ میں آتے ہیں۔
ساحل کے پتھر سے
موجیں جب ٹکراتی ہیں
کرچی کرچی ہو جاتی ہیں
کوئ کہہ دے پروانے سے
کیا ہو گا مر جانے سے
جب بھی آنکھ کے ساحل پر
ابھریں موت کے منظر
کہہ دینا اشکوں سے
بلاوے کے سب بول
منڈیر پر رکھ دیں
نظم:ساحل کا پتھر
شاعری میں آہنگ بنیادی شعری لازمہ اور لوازمہ ہے۔ آہنگ شاعری میں شعریت
پیدا کرتا ہے۔ اس سے غناءیت اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔ بطور مثال یہ شعری
لاءنیں ملاحظہ ہوں۔
دیکھ کے چاند مرے آنگن کا
جانے کیوں پھیکا پڑ جائے ہے
چنچل روپ بہاروں کا
ہاءیکو
جیون کے
کانچ دریچوں میں
دیکھوں تو
ارمانوں کے موسم جھلسیں
نادیکھوں تو
کالا پتھر ٹھہروں
نظم:کانچ دریچوں میں
آنکھ میں پانی
آب کوثر
شبنم
گل کے ماتھے کا جھومر
جل ‘جل کر
دھرتی کو جیون بخشے
گنگا جل ہو کہ
زم زم کے مست پیالے
دھو ڈالیں کالک کے دھبے
جل اک قطرہ ہے
جیون بے انت سمندر
نظم:بے انت سمندر
شاعری میں حسن شعر کے جملہ عناصر موجود ہوتے ہیں۔ شاعر کلام میں استعارات‘
تشبیہات‘ تلمیحات‘ اشارے کناءے وغیرہ برت کر ناصرف کلام میں حسن‘ چاشنی اور
چشتی پیدا کرتا ہے بلکہ نءے مضامین کے دروازے کھول دیتا ہے۔ یہ کلام میں
اختصار کے ساتھ ساتھ دلچسپی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ذیل میں شعری لاءنیں
ملاحظہ ہوں۔
ساگر پی کر بھی
ہر قطرہ پیاس سمنر
پلکوں کا ساون
جانے کب برسے گا
فرات کا دامن
شعلے لے کر بھاگا ہے
ساحل کس سے شکتی مانگے
مٹھی بند کر لو
پلکوں کے اس کنارے پر
راتوں کے سپنے
سورج کی آنکھوں میں بھی
بھیک کے ککرے
کالی زلفوں کے مندر
مسکن ہیں کالی جب والوں کے
جانے سے پہلے
آنکھوں میں دھواں بھر لو
چاند کا چہرا
راون کی شکتی لے کر
عیسی کے خون سے
اوباماہی رب
لکھ رہا ہے
نظم:فرات کا دامن
شاعری کا تعلق احساس سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ ہر موڑ اور ہر سطع پر احساس کے
تاروں کو چھیڑتی ہے۔ جذبات میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ سوچ اور فکر کو نیا زاویہ
اور نیا انداز عطا کرتی ہے۔ شعر سنا کر داد کے لیے کہنا نہیں پڑتا بلکہ
قاری یا سامع کے منہ سے از خود واہ واہ نکل پڑتا ہے۔ گویا شاعری میں مسرور
کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ مثلا یہ سطور دیکھیے۔
وہ قتل ہو گیا
پھر قتل ہوا
ایک بار پھر قتل ہوا
اس کے بعد بھی قتل ہوا
وہ مسلسل قتل ہوتا رہا
جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی
جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جاتا
وہ قتل ہوتا رہے گا
وہ قتل ہوتا رہے گا
نظم:جب تک
یہ نظم پڑھ کر کٹر عروضی شاعر بھی کہنے پر مجبور ہو گیا۔
محترمی ڈاکٹر حسنی صاحب:آداب عرض
آپ کی نثری نظم پڑھی اور مستفید ہوا۔ نثری نظم کی ضرورت میری سمجھ میں نہیں
آتی ہے۔ نثری نظم دراصل اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا
دوسرا نام ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی یہ نثری نظم اس لئے
اچھی لگی کہ اس کا موضوع وقت کی پکار ہے۔ جس طرح ساری دنیا میں اور خاص طور
سے دنیائے اسلام میں :سیٹھوں، وڈیروں: کے ہاتھوں عوام کا استحصال ہو رہا ہے
وہ بہت عبرتناک ہے۔ افسوس کہ اس کا علاج سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک سوال دل
میں اٹھتا ہے کہ اس قدر ظلم ہو رہا ہے تو وہ ہستی جس کو ہم :اللہ، خدا،
بھگوان، گاڈ: کہتے ہیں کیوں خاموش ہے؟ اگر سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے تو پھر
وہ کچھ کرتی کیوں نہیں؟ آپ نے بھی اس پر سوچا ہوگا۔ مناسب جانیں تو اس پر
لکھیں۔ شکریہ۔
خادم
مشیر شمسی
نثر اور شاعری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نثار دیکھ کر لکھتا جبکہ شاعر محسوس
کرکے لکھتا ہے۔ شاعر کی احساس کی آنکھ وہاں تک رسائ حاصل کرتی ہے جہاں تک
خصوص کی آنکھ بھی رسائ حاصل نہیں کر پاتی۔ اس ضمن یہ شعری سطور ملاحظہ ہوں۔
وہ قیدی نہ تھا
خیر وشر سے بے خبر
معصوم
فرشتوں کی طرح
جھوٹے برتنوں کے گرد
انگلیاں محو رقص تھیں اس کی
ہر برتن کی زبان پہ
اس کی مرحوم ماں کا نوحہ
باپ کی بےحسی اور
جنسی تسکین کا بین تھا
آنکھوں کی زبان پہ
اک سوال تھا
اس کو زندگی کہتے ہیں‘
یہی زندگی ہے؟؟؟
نظم:نوحہ
نظم کی تفہیم کی پچیدگی کے حوالہ سے یہ خط ملاحظہ ہو۔
محترمی جناب حسنی صاحب :آداب عرض
میں شاعر نہیں ہوں بس ادب کا شوق ضرور ہے مجھ کو۔ اس لئے اگر کوئی غلط بات
کہہ جائوں تو معاف کر دیجئے گا۔ آپ کی نظم "نوحہ" میری سمجھ میں نہیں آئی۔
ایسا محسوس ہوا جیسے اپ کا مطلب الفاظ کے پیچ و خم میں کہیں گم ہو گیا۔ کئی
مرتبہ نظم پڑھی اور غور کیا لیکن بات پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔۔ یہ ضرور
میری کوتاہی ہے۔ بڑی عنایت ہوگی اگر آپ اپنے خیال اور طرز بیان پر کچھ
روشنی ڈآلیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے کچھ اور دوستوں کابھی فائدہ ہو گا۔
شکریہ پیشگی قبول کیجئے۔ آپ کی وضاحت کا انتظار رہے گا۔
خادم : مشیر شمسی
محترم سید صاحب
آپ نے توجہ فرمائ‘ دل و جان سے احسان مند ہوں۔
الله آپ کو خوش رکھے۔
آپ کی تحریر بتاتی ہے‘ آپ الله کے فضل سے آسوددہ حال ہیں۔ آپ کو تیسرے اور
چوتھے درجے کے کسی ہوٹل میں بیٹھ کر‘ چاءے سے شغل فرمانے کا اتفاق نہیں
ہوا۔ آپ نے کسی بڑے گھر میں‘ کسی معصوم بچے کو برتن صاف کرتے نہیں دیکھا۔
اگر یہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوتا‘ تو سب سمجھ میں آ جاتا۔
قبلہ میں نے دیکھا ہے اور دیکھتا رہتا ہوں۔ میں گلی میں دس بارہ برس کے
بچوں کی‘ رات گیے‘ گرم انڈے کی آوازیں سنتا ہوں۔
اگر جناب پر مطلب واضع نہ ہوا ہو‘ تو چشم تصور میں‘ میری بھیگی پلکوں کو
دیکھ لیں‘ ممکن ہے‘ مطلب واضح ہو جاءے۔
مقصود حسنی
نثر اور شاعری کے لفظوں کی نشت و برخواست کا طور و سلیقہ ہی مختلف ہوتا ہے۔
شاعری میں کسی ناکسی سطع پر نثر کے نحوی ضابطوں سے انحراف پایا جاتا ہے۔
ذرا یہ لاءنیںملاحظہ ہوں۔
ہوا کے دوش پر اڑتے پرندے
اپنی ذات میں مکمل کب ہیں
نہ مٹھی کھولنا کہ لمحے
کسی تتلی کی طرح
اڑ نہ جاءیں
تمہارے جسم کے پنچھی نے
سمیٹے پر
سلاخوں سے نکل کر
فلک پر رنگ بکھیرے
اور روح کی اڑانیں
بیکراں تا بیکراں ہیں
نظم:روح کی اڑانیں
طرز تکلم کا اختلاف شاعری اور نثر میں امتیاز کا سبب بنتا ہے۔ ایک نظم کو
نثری انداز میں پیش کرتا ملاحظہ فرمائیں۔
یہ سچ ہے اور ہم کو یقین ہے دل کو سکون دیتی ہے سوچ کو شفاف رکھتی ہے۔ محبت
بےبدل سہی سوال یہ نہیں کہ اس کا احترام کرنا ہے۔ اپنا بنا لینا ہے۔ ہم اس
کا احترام کریں کیسے ؟زندگی کے کالر پر سجا لیں کیسے؟ ہم تو بھوکے ہیں
پیاسے ہیں زندگی محفوظ نہیں ہمیں زندگی بچانا ہے اس کی پسلیوں کے نیچے دل
نہیں ہماری روٹی کا بیری گھات میں ہے کیا کریں محبت ہمارے لیے نہیں ہے صبر
سے ہہمارا کوئ کام نہیں زندگی محفوظ نہیں ہمیں زندگی بچانا ہے۔
یہ سچ ہے‘ اور ہم کو یقین ہے۔ دل کو سکون دیتی ہے۔ سوچ کو شفاف رکھتی ہے۔
محبت‘ بےبدل سہی‘ سوال یہ نہیں‘ کہ اس کا احترام کرنا ہے۔ اپنا بنا لینا
ہے۔ ہم اس کا احترام کریں کیسے؟ زندگی کے کالر پر سجا لیں کیسے؟ ہم تو
بھوکے ہیں۔ پیاسے ہیں۔ زندگی محفوظ نہیں۔ ہمیں زندگی بچانا ہے اس کی پسلیوں
کے نیچے‘ دل نہیں‘ ہماری روٹی کا بیری‘ گھات میں ہے۔ کیا کریں‘ محبت ہمارے
لیے نہیں۔ ہے صبر سے ہمارا کوئ کام نہیں۔ زندگی محفوظ نہیں‘ ہمیں زندگی
بچانا ہے۔
اب یہی اوپر نیچے لکھ کر پیش کرتا ہوں۔ فرق واضح ہو جاءے گا۔
یہ سچ ہے اور ہم کو یقین ہے
دل کو سکون دیتی ہے
سوچ کو شفاف رکھتی ہے
محبت‘ بےبدل سہی
سوال یہ نہیں کہ
اس کا احترام کرنا ہے
اپنا بنا لینا ہے
ہم اس کا احترام کریں کیسے
زندگی کے کالر پر
سجا لیں کیسے
ہم تو بھوکے ہیں
پیاسے ہیں
زندگی محفوظ نہیں
ہمیں زندگی بچانا ہے
اس کی پسلیوں کے نیچے
دل نہیں
ہماری روٹی کا بیری
گھات میں ہے
کیا کریں
محبت ہمارے لیے نہیں ہے
صبر سے ہہمارا کوئ کام نہیں
زندگی محفوظ نہیں
ہمیں زندگی بچانا ہے
ہمیں زندگی بچانا ہے
اس ذیل میں ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔
خواہش کا کنول اس کنارے پر انا کا ہاتھ تھامے مری بے بسی پر مسکراتا ہے
اتراتا ہے میری سوچ کی
بے کسی کا منہ چڑاتا ہے کنارے دو سہی ہیں تو ایک ہی دریا کا حصار انھیں تا
ابد دور رہنا ہے بے کسی اور بےبسی من کے دریا کے دو حصار وہ اس پار سے دور
یہ اس پار سے دور خواہش کو تا ابد خواہش رہنا ہے
خواہش کا کنول‘ اس کنارے پر‘ انا کا ہاتھ تھامے‘ مری بے بسی پر مسکراتا ہے‘
اتراتا ہے۔ میری سوچ کی بے کسی کا‘ منہ چڑاتا ہے۔ کنارے دو سہی‘ ہیں تو ایک
ہی دریا کا حصار‘ انھیں تا ابد دور رہنا ہے۔ بے کسی اور بےبسی‘ من کے دریا
کے دو حصار‘ وہ اس پار سے دور‘ یہ اس پار سے دور‘ خواہش کو‘ تا ابد خواہش
رہنا ہے۔
اب اوپر نیچے سطروں کے تحت ملاحظہ فرماءیں۔
خواہش کا کنول
اس کنارے پر
انا کا ہاتھ تھامے
مری بے بسی پر
مسکراتا ہے
اتراتا ہے
میری سوچ کی
بے کسی کا منہ چڑاتا ہے
کنارے دو سہی
ہیں تو
ایک ہی دریا کا حصار
انھیں تا ابد
دور رہنا ہے
بے کسی اور بےبسی
من کے دریا کے
دو حصار
وہ اس پار سے دور
یہ اس پار سے دور
خواہش کو تا ابد
خواہش رہنا ہے
کنارے دو سہی
اب دو پابند شاعری کے شعر ملاحظہ فرماءیں
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساگر و مینا مرے
آگے۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔
گو ہاتھ کو جنبش نہیں‘ آنکھوں میں تو دم ہے‘ رہنے دو ابھی‘ ساگر و مینا مرے
آگے۔
نازکی اس کے لب کی‘ کیا کہیے‘ پنکھڑی‘ اک گلاب کی سی ہے۔
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساگر و مینا مرے آگے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔
شاعری میں الفاظ کی معنویت زیادہ ہوتی ہے۔ شاعری میں الفاظ کو خیال کے ساتھ
ساتھ احساسات کی سردی گرمی بھی میسر آتی ہے۔ بعض الفاظ اصطلاحی معنی میں
استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح نءے مرکبات تشکیل پاتے ہیں اور ان کی تفہیم
بالکل الگ انداز سے ممکن ہوتی ہے۔ گویا نثر سے ہٹ کر شعری الفاظ کی تفہیم
ممکن ہوتی ہے۔ مثلا یہ سطور دیکھیے۔
پریت بت کی شناسئ مانگے
عشق کربلا سی آبلہ پائ مانگے
حسن طلوع کے دوش
بلا کا گل نوش
چشم بکف نکلا
سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا
دھوپ میں سایہ ء شجر ٹھہرا
کوئئ اسے نمود سحر سمجھا
کسی نے جلوہء خدا کہا
وہ پیکر فردوس
آنکھ کے سب ترکش
جو ساتھ لایا تھا
کب چلا پایا تھا
اپنے ہی ساءے سے لٹ گیا
آءینہ پتھروں سے
اپنی کرچیوں کی بینائ مانگے
لفظوں کی بے نوا دستک
فاختاؤں سے بے ریائ مانگے
پارسائ مانگے
دریا بارش
صحرا بادلوں سے رہائ مانگے
زیست کا ہر نقش
صلہ ء بے ردائ مانگے
آءینہ پتھروں سے
اپنی کرچیوں کی بینائ مانگے
نظم:بے نوا دستک
شاعری میں جذبات احساسات اور معاملات کی پیش کش الہامی اور وجدانی سی ہوتی
ہے۔ بطور نمونہ یہ سطور ملاحظہ ہوں۔
تم چپ ہو کہ
مجھ میں تم بولتے ہو
میرے دل کے بربط پر
تری انگلی ہے
تم چپ ہو کہ
یہ دل تیرا مسکن ہے
گھر کے باسی
اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں
تم چپ ہو کہ
شعور کی ہر کھزکی میں
تیرا چہرا ہے
کھڑکی بند کرتے ہیں تو
دم گھٹتا ہے
کھڑکی کھولے رکھنا
گھر کی باتوں کو باہر لانا ہے
باہر کے موسم
راون بستی کے منظر ہیں
تم چپ ہو کہ
اندر کے سب موسم تیرے ہیں
دروازہ کھولو
تیرے ہونٹوں کی مستی
من کے کورے پنوں پر
آنکھ سے چن کر رکھ دوں
تم چپ ہو کہ
چپ میں سکھ ہے
چپ کے کھسے میں
کلیاں ہی کلیاں ہیں
تم چپ ہو کہ
تحسین کے کلمے
برہما کے بردان سے اٹھتےہیں
تم چپ ہو کہ ------
نظم:دروازہ کھولو
شاعر اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے معاملات کو کسی ناکسی رنگ
میں پیش کرکے اپنے عہد کا امین بن جاتا ہے۔ بعض کو ان ہی کے عہد میں دار کا
سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم اس کے پاس نثار سے زیادہ پوشیدگی کے عناصر ہوتے
ہیں۔ بطور نمونہ یہ شعری سطور ملاحظہ ہوں۔
آسمان سے
جب بھی
من وسلوی اترتا ہے
زمین زرد پڑ جاتی ہے
کہ بے محنت کا ثمرہ
حرکت کے در بند کر دیتا ہے
سجدہ سے منحرف مخلوق
حساس دلوں کی دھڑکنیں
چھین لیتے ہیں
آسمان سے
جب بھی
من وسلوی اترتا ہے
انسان کے سوا
بلندیاں اتراتی ہیں
نظم:آسمان سے
آسمان کو اپنے قہر و ستم پر ناز تھا
اسے خنجر چلاتا دیکھ کر
شرم سے پانی ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبریل کا اب یہاں کام نہیں
زمین کا بڑا کہتا ہے
لنکن کی کتاب کافی ہے انسان کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نثر میں نثرنگار ذات سے کاءنات کی طرف بڑھ کر معلومات اکٹھی کرتا ہے اور
انھیں ساءنسی ترتیب کے ساتھ پیش کرتا ہے لیکن شاعر کا سفر کاءنات سے ذات کی
طرف اور کبھی ذات سے کاءنات کی طرف ہوتا ہے اور دوبارہ سے ذات کی طرف لوٹ
آتا ہے۔ ذات کا کرب کاءنات کا کرب بنا کر پیش کرتا ہے۔ کاءنات کا درد بھی
اس کی ذات کا کرب بن کر ابھرتا ہے۔ اس کی ترتیب ساءنسی نہیں وجدانی سی ہوتی
ہے۔ اس ذیل میں یہ شعری سطور ملاحظہ ہوں۔
آنچ دریچوں میں
دیکھوں تو
خواہش کے سب موسم جلتے ہیں
نا دیکھوں تو
احساس سے عاری
اورابلیس کا پیرو ٹھہروں
جانے کے موسم میں
آنے کی سوچیں تو
گنگا الٹی بہتی ہے
دن کو
چاند اور تاروں کا سپنا
پاگل پن ہی تو ہے
من کے پاگل پن کو
وید حکیم کیا جانیں
جو جانے
عشق کی دنیا کا کب باسی ہے
پاگل پن
شاعری کا لہجہ‘ طرز تکلم طرز مخاطب نثر سے قطعی الگ اور ہٹ کر ہوتا ہے۔
شاعر کا مخاطب بھی واضح نہیں ہوتا۔ وہ جس سے یا جس کا نام لے کر بات کر رہا
ہوتا ہے ضروری نہیں وہ وہی ہو جس سے بات کہہ رہا ہو۔ اس کا مخاطب کوئ دوسرا
ہو سکتا ہے۔ محبوب کا نام لے کر امیر شہر سے گلہ شکوہ شکایت یا طنز کر سکتا
ہے۔ ذرا سطریں دیکھیے۔
جذبے لہو جیتے ہیں
معاش کے زنداں میں
مچھروں کی بہتات ہے
سہاگنوں کے کنگن
بک گئے ہیں
پرندوں نے اڑنا چھوڑ دیا
کہ فضا میں تابکاری ہے
پجاری سیاست کے قیدی ہیں
تلواریں زہر بجھی ہیں
محافظ سونے کی میخیں گنتا ہے
چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیں
کہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی
شکاری آنکھ رکھتی ہیں
دریا کی سانسیں اکھڑ گئ ہیں
صبح ہو کہ شام
جنگی بیڑے گشت کرتے ہیں
چاند دھویں کی آغوش میں ہے
اب وہ
دریا میں نہیں اترے گا
تنہائ بنی آدم کی ہمرکاب ہے
کہ اس کا ہمزاد بھی
تپتی دھوپ میں
کب کا
کھو گیا ہے
چاند اب دریا میں نہیں اترے گا
آنکھ سمندر میں تھا
جیون سپنا
کہ کل تک تھا وہ اپنا
جب سے اس گھر میں
چاندی اتری ہے
میرے من کی ہر رت
پت جھڑ ٹھری ہے
بارش صحرا کو چھو لے تو
وہ سونا اگلے
مری آنکھ کے قطرے نے
جنت خوابوں کو
یم لوک میں بدلا ہے
کیسے چھو لوں
تری مسکانوں میں
طنز کی پیڑا
پیڑا تو سہہ لوں
پیڑا میں ہو جو اپناپن
آس دریچوں میں
تری نفرت کا
باشک ناگ جو بیٹھا ہے
ہونٹوں پر مہر صبر کی
جیبا پر
حنطل بولوں کی سڑکن
یاد کے موسم میں
خوشبو کی پریاں
یاد کی شاموں کا
جب بھنگڑا ڈالیں گی
آنکھ ہر جائے گی
آس مر جائے گی
آنکھ سمندر میں تھا
جیون سپنا
جیون سپنا
شاعری کی زبان میں فطری میٹھاس اور ریشمیت اور ملاءمیت کا عنصر غالب رہتا
ہے۔ تلخ سے تلخ بات
ہضم ہو جاتی ہے۔ بطور نمونہ یہ سطور ملاحظہ ہوں۔
کوئ کنول چہرا
اب جب بھی دیکھتا ہوں
خوف کا موتیا
آنکھوں میں اتر آتا ہے
کلیوں کا جوبن چرا کر
غرض کا جن
پریوں کی اداؤں میں
من آنگن میں
قدم رکھتا ہے
خواہشوں کی انگور بیلیں
سوکھ جاتی ہیں
خوش فہمی کے سورج کی
تاریک کرنیں
ست کے سارے شبد
کھا جاتی ہیں
اگلے داؤ کے یقین پر
جیون کے سب ارمان
مر جاتے ہیں مر جاتے ہیں
آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں
آشا کے کچھ بول رکھنے کو
غرض کی برکی نہ بن جءے
وشنو چھپنے کو
برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے
گلاب کے ہونٹوں پر
بے سدھ ہونے کی اچھا
تھرکنے لگتی ہےموتیا
کوئ کنول چہرا
اب جب بھی دیکھتا ہوں
خوف کا موتیا
آنکھوں میں اتر آتا ہے
اب جب بھی
درج بالا حقائق کی روشنی میں ہم نثر کو شاعری نہیں کہہ سکتے۔ شاعری اور نثر
میں اول تا آخر ان کی امتیازی صورتیں باقی رہتی ہیں۔ نثری سطور کو اوپر
نیچے لکھ کر شاعری کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح اوپر نیچے لکھی
لاءینوں میں درج بالا امور ملتے ہیں تو وہ شاعری ہے۔ اسے نثر کا نام دینا
سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔
اس مضمون میں پیش کی جانے والی مثالیں مقصود حسنی کے چہار مجموعہ ہا کلام‘
سپنے اگلے پہر کے‘ اوٹ سے‘ سورج کو روک لو اور کاجل ابھی پھیلا نہیں سے لی
گئ ہیں۔ مقصود حسنی کی شاعری اس صنف سخن کے ماضی اور حال سے رشتہ رکھتی ہے۔
ان کو اس صنف سخن کا نماءندہ شاعر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے ہاں جملہ
شعری لوازمات ملتے ہیں‘ جس کے سبب اس صنف سخن کو شاعری تسلیم کرنا ہی پڑتا
ہے۔ |