باتوں کے فیشن ڈیزائنر

ہر چیز کی ماہیت تبدیل ہو رہی ہے۔ کل تک جو کچھ بہت معیوب تھا وہ اب مقبول ہے۔ لوگ عشروں، بلکہ صدیوں کی روایات کا سینہ چاک کرکے اپنی مرضی کے اطوار پیدا کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یعنی دو عشروں میں سب کچھ ایسا بدل گیا ہے کہ ع
…… پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!

فلم اسٹوڈیوز میں کام کرنے والے جہاں دیدہ افراد صرف خوش شکل ہی نہیں بلکہ عام سے نقوش والے نوجوانوں کو بھی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ پتا نہیں کب کون ہیرو بن کر لاکھوں دِلوں پر راج کرے! اِسی طور اب کچھ پتا نہیں کہ کب کون سی بُری عادت زمانے سے قبولیت کا درجہ پاکر سَر کا تاج بن بیٹھے!
اُس دور یا عہد کو گزرے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب خاموش رہنے کو دانائی کی علامات میں شمار کیا جاتا تھا۔ جنہیں بولنا نہیں آتا تھا وہ خاموش رہ کر گفتگو کے فن کی توقیر بڑھاتے تھے! خاموش رہنے میں بھلائی ہے کیونکہ بسا اوقات خاموشی کی بدولت جہالت اور نیت چُھپی رہتی ہے۔ بات زبان سے نکلی، کوٹھوں چڑھی۔ یعنی بند ہو مُٹّھی تو لاکھ کی، کھل گئی تو خاک کی۔ وہ بھلے زمانے تھے کہ لوگ خاموش رہ کر زیادہ بولتے تھے یا بہتر بولنے کے لیے خاموش رہا کرتے تھے۔ بروقت خاموشی کو گفتگو کا عرق اور نکھار سمجھنا چاہیے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے ہم بھی کیا داستان لے بیٹھے۔ یہ سب تو گئے وقتوں کے قصے ہیں۔ اب تو خاموشی کے درشن ہی نہیں ہو پاتے۔ ہر طرف شور و غل ہے، ہنگامہ ہے۔ جسے دیکھیے وہ طرح طرح کی ہاؤ ہُو میں حصہ ڈالنے کے لیے بے تاب ہے۔ اور اِس میں ہرج ہی کیا ہے؟ جب گفتگو کے نام پر شور شرابے اور ہاؤ ہُو ہی کی قدر ہے تو انسان خاموش رہ کر کیوں اپنے نمبر گھٹائے؟

بدلتے زمانے کے رجحانات نے گفتگو کے فن کو نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔ وہ بھی کیا لوگ تھے جو ’’بے فضول‘‘ کی گفتگو سے الرجک رہا کرتے تھے۔ بے محل بولنے والوں کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اُن بھلے مانسوں کو کیا معلوم تھا کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا جب سوچے سمجھے بغیر بولنے ہی کی وقعت ہوگی۔ عزت اُسی کو ملے گی جو، انٹ شنٹ ہی سہی، بولے گا!

خیر سے ہم اُسی دور میں جی رہے ہیں۔ اب اگر کچھ دیر (باجواز ہی سہی) خاموش رہیے تو ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہو! جو جتنا اور جس قدر ’’بے فضول‘‘ بولے گا، اُتنا ہی زیادہ صلہ پائے گا یعنی مال بنائے گا۔ گفتگو کے فن پر غور فرمانے والا غور فرماتا ہی رہ جائے گا، یعنی اپنے بند مُنہ کے ہاتھوں مُنہ کی کھائے گا!

ایک قیامت ہم سب پر سوا یا ڈیڑھ ماہ بعد گزرتی ہے۔ جب ہم محلے کے ہیئر ڈریسر کے سامنے گردن جُھکاکر بیٹھتے ہیں تو وہ سَر کی کم اور دماغ کی حجامت زیادہ بناتا ہے! قینچی کم اور زبان زیادہ چلتی ہے۔ اور جب کوئی قینچی یا اُسترا لیکر سَر پر کھڑا ہو تو کسی بھی نُکتے پر زیادہ بحث بھی نہیں کی جاسکتی اور اختلافِ رائے کا تو خیر سوچا بھی نہیں جاسکتا!

بولنے کے فن میں درزی بھی کسی سے کم نہیں ہوتے۔ قینچی کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی کٹنگ کرتے ہیں اور ایک سوال کے دس جواب دیکر گاہک کو لاجواب کرکے دم لیتے ہیں۔ اگر کوئی چیز غلط بھی سی دیں تو بخیے اُدھیڑے بغیر مُنہ سے آلٹریشن کردیتے ہیں! اب بدلتے زمانے کے فیض سے اپنی بات انگریزی میں بیان کرنے والے درزی فیشن ڈیزائنر کہلائے جانے لگے ہیں۔

بولنے کے فن میں باورچی بھی کسی سے کم تھے نہ ہیں۔ ابھی کھانا پکانے کا آغاز بھی نہیں کیا ہوتا کہ وہ شیخی بگھارنا شروع کردیتے ہیں! اگر دیگ یا پتیلے میں کوئی چیز کچی رہ جائے تو باتوں کی آنچ سے پکاکر کرم فرماؤں کو مطمئن کردیتے ہیں! اگر کبھی اعتراض کیجیے کہ فلاں چیز کچی رہ گئی ہے تو اِتنے دلائل دیتے ہیں کہ اعتراض کرنے والے کا دماغ پک جاتا ہے! کس میں ہمت ہے جو خواہ مخواہ اپنا بھیجہ فرائی کرائے؟

چھوٹی اور بڑی ہر دو طرح کی بسوں میں مسافروں کو اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے لُبھاکر کسی بھی بے ڈھنگی چیز کو آسانی سے فروخت کرنے والے بھی گفتگو کے فن میں کسی سے کم نہیں۔ وہ جب بولنے پر آتے ہیں تو رفتار میں اُس گاڑی سے آگے نکل جاتے ہیں جس میں سفر کر رہے ہوتے ہیں! بہت سے روٹس تو بسوں سے زیادہ اُن میں سوار ہونے والے اِن دکانداروں کی بدولت زیادہ مقبول ہیں!

ہم جس میں جی رہے ہیں وہ کسی بھی چیز میں زیادہ سے زیادہ خصوصیات جمع کرنے کا زمانہ ہے۔ اپنے پاس پڑے ہوئے موبائل فون سیٹ پر ہی غور کیجیے۔ ایک ہی سیٹ میں کال سُننے اور ایس ایم بھیجنے کے علاوہ تصاویر کھینچنے، مووی بنانے، آواز ریکارڈ کرنے، ای میل چیک کرنے، کتب پڑھنے اور محل وقوع تک معلوم کرنے کے آپشنز موجود ہیں۔ اب تو پروجیکٹر موبائل بھی عام ہیں جن کی مدد سے کوئی بھی فلم یا وڈیو کلپ بڑے پردے پر دیکھی جاسکتی ہے۔ موبائل فون سیٹ بنانے والے ادارے ذرا سے سیٹ میں درجنوں خصوصیات سمونے میں کامیاب ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن کی کارکردگی کا گراف بھی بلند ہوتا جارہا ہے۔ مگر خیر، ٹیکنالوجی کے شاہکار پلاسٹک یا فولاد کی باڈی تک محدود نہیں۔ مختلف سطحوں پر گفتگو کے فن کو نقطۂ عروج تک پہنچانے والے بھی اب ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیئے گئے ہیں۔ لیکچررز کا زورِ خطابت، اجتماعات سے خطاب کرنے والوں کی سی گھن گرج، ’’ماہرینِ آرائشِ گیسو‘‘ کی چرب زبانی، باورچیوں کی طرف سے شیخی کا بگھار، درزیوں کی کتر زبانی، بسوں میں مختلف اشیاء بیچنے والوں کے دِل نشیں دلائل، ٹھیلوں پر رکھے ہوئے مال میں سارے زمانے کی خوبیاں سمونے والوں کی خوبیٔ گفتار اور ریڑھی پر گلی گلی گھومنے والوں کی شیریں بیانی اگر کسی ایک انسان میں دیکھنی ہے تو ریموٹ کنٹرول ڈیوائس اٹھائیے اور ٹی وی سیٹ آن کردیجیے۔ جی ہاں، اسمارٹ فونز کے مقابل ہم نے متعارف کرائے ہیں ہمہ صفت ٹی وی اینکرز۔ نئے ملبوسات تیار کرنے والوں کو ہم فیشن ڈیزائنر کہتے ہیں۔ اینکرز بھی باتوں کے فیشن ڈیزائنر ہیں۔

گفتگو کا فن ہمارے اینکرز سے شروع ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اُن پر ختم ضرور ہے۔ یعنی یہ کہ اب اُن کی انٹری کے بعد گفتگو کا فن خطرے میں ہے! ہمارے میڈیا زدہ معاشرے میں یہ وہ بزرجمہر ہیں جن کے پاس دُنیا کے ہر مسئلے کا زبانی حل موجود ہے۔ تھوڑا سا وقت نکالیے، سکون سے بیٹھ کر چند اینکرز کو سُنیے اور پھر اندازہ لگائیے کہ اِس دنیا کا کون سا مسئلہ ہے جو اِن کے ذہن کے راڈار سے بچ سکتا ہے؟ اِن کی گفتگو میں کئی ماہرین کی گفتگو کا نچوڑ ملتا ہے۔ کہیں یہ بس میں ’’ہر مال پانچ روپے‘‘ کی صدا لگانے والوں کا سا صوتی تاثر پیدا کرتے ہیں۔ کبھی یہ گلی سے گزرنے والے ریڑھی والے کی طرح پُکارتے، للکارتے ہوئے اپنے ’’نظریات‘‘ کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کوئی اِن کی بات نہ مان رہا ہو تو یہ پہلوانوں کی طرح بڑھکیں لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ کبھی یہ کامیڈی پر تُل جاتے ہیں اور کبھی باتوں ہی باتوں میں اپنے پروگرام کے شرکاء کو کنفیوز کرنے کے لیے ہارر فلموں کا سا ماحول پیدا کرنے پر اُتر آتے ہیں! جس طرح لوگ چبوتروں پر بحث کے دوران بات بات پر پلٹا کھاتے ہیں اور موقف پر موقف بدلتے جاتے ہیں بالکل اُسی طرح ہمارے یہ عجوبۂ روزگار اینکرز بھی کسی مقام پر رُکتے نہیں، ایک موقف کو ترک کرکے فوراً اگلے موقف کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ بقول ساحرؔ لدھیانوی ؂
یہ زندگی کسی منزل پہ رک نہیں سکتی
ہر اِک مقام سے آگے قدم بڑھاکے جیو!

ہمارے محبوب اینکرز ہر مقام سے اِس آسانی کے ساتھ گزر جاتے ہیں کہ اِن کی ادائیں اور مہارت دیکھ کر بہت سے جان سے گزر جاتے ہیں۔

حتمی نکتہ یہ ہے کہ جناب کہ دنیا بھر میں مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی ٹاک شو دیکھیے تو اینکرز مسئلہ پیدا کرتے بھی دکھائی دیں گے۔ کوئی مسئلہ پایا جائے گا تبھی تو اُس کا حل بھی تلاش کیا جاسکے گا! یہ وصف اﷲ دے تو دے، بندے کے بس کی بات نہیں!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524506 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More