قانون کے درست استعمال کو یقینی بنایاجائے

وطن عزیز پاکستان کو قائم ہوئے چھیاسٹھ برس بیت چکے ہیں۔قیام سے لے کر اب تک ملک پاک مسائل کے بھنور میں گہراہواہے۔کہیں معاشی مسائل کا سامنا ہے تو کہیں معاشرتی مسائل کا سامنا ہے ،کہیں قومی ولسانی عصبیت کا سامنا ہے تو کہیں علاقیت و صوبایت کی تقسیمات کے نعروں کا سامنا ہے،کہیں تعلیم و صحت کے مسائل سربکف ہیں تو کہیں سیاسی و مذہبی فرقہ واریت کے عفریت نے ملک پاک کی جڑوں میں اپنازہر کھول رکھاہے۔آج کل ملک کو جن مسائل کا سب سے زیادہ سامنا ہے ان میں مہنگائی،دہشت گردی،کمزورمعیشت و معاشرت شامل ہیں اور ان مسائل کی جڑ ملک پاک میں ناقص اور متفاوت وطبقاتی نظام تعلیم کا رائج ہونے میں ہے۔ ارض مقدس کو جن مسائل کا سامنا ہے اس سے ہر ذی عقل معترف ہے۔آئے روز ان مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ،نئے آئین و قانون تیار کیے جاتے ہیں تا کہ ان مسائل سے کسی طرح نجات ممکن ہوسکے ،دہشت گردی اور بدامنی کی صورتحال سے نجات حاصل کرنے کے لیے چند دن قبل صدر پاکستان کی جانب سے ’’تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس ‘‘کے نام سے نیاقانو ن جاری کیاگیا ہے ،مسائل سے نجات حاصل کرنے کی ہر ایک بات کرتاہے مگر ان مسائل کے وجود میں آنے کے اسباب پر کبھی سوچ و بچار یا دیانت داری کے ساتھ غور وخوض نہیں کیا جاتاجس کا لازمی نتیجہ قانون صرف برائے نام رہ جاتاہے یا پھر آنکھیں بند کرکے سیکیورٹی ادارے قانون نافذ کرنے کے نام پر عام شہریوں کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں جسے چاہتے ہیں شک و شبہ کی بنیاد پر گھر ،دفتر،یا کہیں سے بھی اٹھالیتے ہیں اور اس امر کے بارے میں ذرابھی تامل نہیں کرتے کہ ایسا کرنے میں عام شہری اور اس کے اہل خانہ پر کیا گزرے گی ؟؟؟اور اگر اس شخص پر شک و شبہ غلط ثابت ہوجائیں اور اس کو چھوڑ بھی دیاجائے کیا اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس آسکے گی؟؟؟ یا زمانے بھر کی نظروں میں بنا کسی وجہ کے وہ مجرم تصور کیا جاتارہے گا؟؟؟ کہ اس کو سیکیورٹی ادارے لے گے تھے دال میں کچھ تو کالا ہوگاہی مگر حقیقت حال اس کے برعکس ہوگی کہ وہ فرد تمام تر شکوک وشبھات سے بری ہوگا۔

تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نفاذ سے جہاں پر سیکیورٹی اداروں کو جہاں پر لامحدود اختیارات ملے وہیں پر عام پاکستانی کی آزادی بھی سلب ہوگی اور اس صورت حال میں اب کوئی پاکستانی شہری جو کہ پہلے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہورہے تھے ان پر مزید ظلم یہ بھی ہوگا کہ شک وشبہ کی بنیاد پر جب بھی سیکیورٹی ادارے چاہیں گے اپنی حراست میں لے سکیں گے کوئی بھی پرسان حال نہ ہوگا۔اگر چہ سپریم کورٹ اس نئے قانون کی آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ لے رہی ہے مگر دوسری جانب اس قانون کے تناظر میں بے ہنگم کریک ڈاؤن ملک بھر میں شروع ہوچکاہے۔ اس امر میں کوئی تردد نہیں ہے کہ ملک کی سالمیت و بقاو تحفظ کی خاطر غیر معمولی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ دہشت گردوں کا قلعہ قمع کیا جاسکے جو مسلمانوں اور اسلام کے روپ میں مسلمانوں کی جان و مال ،عبادت گاہوں ،علماء و فوج کو اپنی ناجائز ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ،اور اس کے ساتھ یہ امر بھی واضح ہے کہ ان تمام کارروائیوں کے پس پردہ و خفیہ طور پر اسلام دشمن و پاکستان دشمن ممالک کوشاں ہیں اور یقینا ایسے عناصر یا ان کی مدد کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے ۔مگر اس امر کو ذمہ داری کے ساتھ یقینی بنایا جائے کہ جن افراد کو تحویل و حراست میں لیا جارہاہے وہ ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہے شک و شبہ کی بنیاد پر کسی عام شہری کو زیر حراست نہ لیا جائے کیوں کہ جو فرد ایک بار سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں چلاگیا تو اس کے دوست احباب ،رشتہ دار اور پڑوسی اس کو مشکوک اورمبنی بر ہتک نظروں سے دیکھتے ہیں ۔اسی طرح مسئلہ کی شکایت21فروری گزشتہ منگل کی شب راولپنڈی کے تھانہ وارث خان کی حدودمیں کریک ڈاؤن کے دوران بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے طالب علم اورتنظیم طلبہ اسلام پاکستان کے صدرحافظ حسان اکبراور کراچی کمپنی اسلام آباد سے تنظیم طلبہ اسلام اسلام آباد کے نگران عبدالرحمن کوسادہ کپڑوں اور وردی میں ملبوس افراد نے گھروں سے حراست میں لیا ۔ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ہمارے بیٹے پرامن شہری ہیں وہ پریس مارکیٹ میں رزق حال کماتے ہیں ،وہ کسی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اس کے باوجودان کی گرفتاری اور نامعلوم مقام پر منتقلی افسوسناک ہے۔ہمارے بیٹوں کو منظر عام پر لایا جائے اگر ان پر کوئی ٹھوس شواہد پر مبنی الزام ہیں تو ہم عدالتوں کا سامنا کرنے کو تیارہیں مگر ان کو غائب کرنے پر ہمیں شدید تحفظات ہیں ۔

میں یہ سمجھتاہوں ایسے واقعات کا سامنے آنا باعث تشویش ہے کہ بنا کوئی وجہ بتائے زیرحراست لے لیا جائے اور ان کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیاجائے ایسا کرتے وقت سیکیورٹی اداروں کو اپنے والدین کی کیفیت کو اپنے متعلق تصور کر کے ضرور دیکھیں اور ساتھ ہی قانون میں حاصل شدہ لامحدود اختیارات کو استعمال کرتے وقت روز قیامت کے منظر کو بھی سامنے رکھیں کہ اس دن کوئی آئین و قانون ان کو مظلوم اور عام شہریوں کی باعزت زندگی کو مجروح کرنے کی سزا سے کوئی نہیں بچاسکے گا کیوں کہ اس دن سارے اختیارات اﷲ کے پاس ہوں گے ۔اس لیے ملک کے تحفظ کوضرور یقینی بنائیں اور اس کے لیے قانون کا استعمال بھی کریں مگر قانون کا استعمال ناجائز اور مبنی بر شکوک کو شبہات نہیں ہونا چاہیے ۔اﷲ پاک ملک پاکستان کو تادیر سلامت رکھے۔(آمین)

atiq ur rehman
About the Author: atiq ur rehman Read More Articles by atiq ur rehman: 125 Articles with 132062 views BA HONOUR ISLAMIC STUDIES FROM INTERNATIONAL ISLAMIC UNIVERSITY ISLAMABAD,
WRITING ARTICLES IN NEWSPAPERS SOCIAL,EDUCATIONAL,CULTURAL IN THE LIGHT O
.. View More