بلوچستان کو آج پاکستانی اداروں
کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کی سب سے نمایاں مثال بتایا جاتا ہے- آج
پورے بلوچستان کو ایک عسکری اڈہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جہاں بلوچ
قوم کو فوجی آپریشن سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں اپنے پیاروں کی اغواء نما
گرفتاریوں زندانوں میں اذیتیں ماورائے عدالت قتل نسل کشی بلوچ قومی جہد کی
پاداش میں پابند سلاسل کئے جانے والے اسیران سے غیر انسانی سلوک بےرحمانہ
تشدد اور جان لیوا تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے-
میر واحد قمبر کی بیٹی جو روشنیوں کے شہر کراچی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ
اپنے والد کی رہائی اور ان پر پولیس کی ریمانڈ اور تشدد کے خلاف بھوک ہڑتال
پر بیٹھی ہیں- واحد قمبر کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ١٤ مارچ ٢٠٠٧ء کو ان کے
آبائی گاؤں تمپ سے بندوق کے زور پر اغواء کر کے ٩ مہینے تک ان پر شدید تشدد
کرنے کے بعد ٢١ اپریل ٢٠٠٨ء کو پنجپائی کے علاقے میں منظر عام پر لایا گیا
ان پر ١٠ کیسز دائر کئے گئے تھے- آج شاری بلوچ ( واحد قمبر کی بیٹی ) اپنے
اہل خانہ کے ساتھ روشن خیال اعتدال پسند شہر کے باسیوں کے در پر انصاف کی
طلبگار ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں سرگرم انسانی حقوق کے علمبرداروں کو
ج ایک بلوچ بیٹی کی فریاد کو پاکستان کے ان ایوانوں میں لے جانے کی سکت
رکھتے ہیں یا نہیں جو شروع دن سے بلوچ قوم کو ڈنڈے کے زور پر زیر کرنے پر
تلے ہوئے ہیں- آج شاری بلوچ نے روشن خیال باسیوں عالمی اداروں اور پاکستان
میں سرگرم انسانی حقوق کے کارکنان جمہوریت پسند قوم پرست اعتدال پسند روشن
خیال قوتوں اور خود کو بلوچ قوم کے ہمدرد کہنے والے سے انصاف کی فراہمی میں
مدد کرنے کی اپیل کی ہے مگر اس وقت ان سب قوتوں کے ہاں سننے کی صلاحیت ہی
موجود نہیں ہے وہ کیسے ایک غریب بلوچ بیٹی کی فریاد سن کر ان کے ساتھ انصاف
کریں گے پاکستان میں انصاف ان کو ملتا ہے جو زردار ہوں منشیات کا کاروبار
کرنے والے وزیر ہوں یا کسی وزیر کے بندے ہوں جبکہ شاری بلوچ کا تعلق ایک
ایسی غیور قوم سے ہے جس کا کوئی سننے والا نہیں، مگر شاری بلوچ کے ساتھ
پوری بلوچ قوم ہے پوری بلوچ قوم ان کے درد میں شریک ہے-
واحد قمبر بلوچ کو عدالتی فیصلے کے برعکس پولیس ریمانڈ میں دیا گیا ہے جس
کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے مگر اس مملکت خداداد میں سب کچھ ممکن اور جائز
ہے- پاکستان میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک کی کامیابی کے بعد انصاف کے منتظر
لوگوں کو یہ امید ہو چلی تھی کہ انصاف ان کے دروازے پر دستک دے گا اور اب
انصاف کیلئے مظاہرے بھوک ہڑتال احتجاجی مظاہروں کی ضرورت نہیں ہوگی مگر
عدلیہ کی بحالی کے اثرات بلوچ قوم تک پہنچتے پہنچتے سب کچھ تباہ ہوجائے گا
جیسا کہ اب بھی ہمارے رہنماؤں کو دن دیہاڑے اٹھا کر انہیں بے دردی سے شہید
کر کے ویرانوں میں پھینک دیا گیا وہ جو معمولی معمولی خبروں پر از خود نوٹس
لے سکتے ہیں لیکن واجہ غلام محمد بلوچ، لالہ منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ
کو اٹھانے کے معاملے پر از خود نوٹس لینا گوارا نہیں کیا گیا ان رہنماؤں کی
شہادت کے بعد ان کے شہید کرنے کے دو ماہ بعد انہوں نے نوٹس لے لیا مگر ہم
یہ بھی دیکھیں گے وہ ہمارے شہیدوں کے اس کیس کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں لیکن
شاری بلوچ کی فریاد ابھی شاید ان کے کانوں تک نہیں پہنچی کہ وہ ان معصوم
بچی کے والد کو انصاف دلاسکیں- بلوچ قوم پرست قوتیں اور پارلیمنٹ میں
بیٹھنے والے کم ازکم بلوچ اسیران کی رہائی اور بازیابی کیلئے مشترکہ کام کا
آغاز کریں کیونکہ شاری بلوچ کے والد کو کسی کے قتل یا منشیات کی سمگلنگ میں
ملوث ہونے کی بناء پر مقید نہیں رکھا گیا ان کو بلوچ حقوق کی بات کرنے پر
اور آواز بلند کرنے پر ریاستی عتاب کا نشانہ بنایا جارہا ہے آج شاری بلوچ
کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے- |