پچھلے کچھ عرصہ سے پورے ملک میں بالعموم
اور پنجاب میں بالخصوص اراکین پارلیمنٹ کی کچھ ایسی ”کارروائیاں“ منظر عام
پر آرہی ہیں جن کی بابت اگر میڈیا کی وکلاء کے بارے میں رائے کو سامنے
رکھیں تو تمام اراکین پارلیمنٹ غنڈے، بدمعاش اور چور ثابت ہورہے ہیں۔ اگر
ہم صرف پنجاب کی بات کریں تو یہاں بڑے تواتر کے ساتھ کچھ وزراء اور اسمبلی
کے ممبران کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور خود کو آئین اور
قانون سے بالا تر سمجھنے کی روایات قائم کی جارہی ہیں۔ کبھی کوئی وزیر صاحب
ائیرپورٹ پر بغیر چیکنگ کے مہمانوں کو باہر نکالنے میں مصروف عمل نظر آتے
ہیں، کبھی کوئی ایم پی اے چوری کے کریڈٹ کارڈ سے شاپنگ کرتی نظر آتی ہیں،
کبھی کوئی ایم پی اے زور و شور سے فائرنگ کرتا نظر آتا ہے اور آج کے
اخبارات کے مطابق اور گزشتہ روز میڈیا پر چلائے جانے والے ”ٹکرز“ کے مطابق
ایک ایم پی اے کی جانب سے جشن آزادی کے جلسہ اور ریلی میں بھرپور قسم کی
فائرنگ کی گئی، ایلیٹ فورس کے جوانوں کو مارا پیٹا گیا اور ان سے اسلحہ
چھین لیا گیا جبکہ فائرنگ سے عوام الناس کی دوڑیں بھی لگوائی گئیں، دوسری
طرف جشن آزادی کے ہی جلسہ میں تقریر کے دوران مشرف کے خلاف بات کرنے سے منع
کرنے پر تحصیل ممبر کو مارا گیا اور اسلحہ کی بھرپور نمائش اور فائرنگ کی
گئی۔ تازہ ترین دو واقعات میں سے ایک واقعہ فیصل آباد کا ہے جہاں پر مسلم
لیگ (ن) کے ایم پی اے نے مبینہ طور پر شراب کے نشے میں دھت ہو کر ایلیٹ
فورس کے کانسٹیبل کی نہ صرف پٹائی کی بلکہ ایلیٹ فورس کے جوانوں سے اسلحہ
بھی چھین لیا، جبکہ دوسرا واقعہ سانگلہ ہل کا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کے ہی
ایک اور ایم پی اے نے جلسہ عام میں بلدیاتی نمائندوں پر تشدد کیا اور اسلحہ
کی نمائش بھی کی اور فائرنگ بھی!
اگر تین چار وکلاء کی جانب سے ایک پولیس والے کو تھپڑ مارنے کی وجہ سے
ہمارا متبرک اور ہر قسم کی الائشوں بالخصوص ”زرد صحافت“ سے پاک میڈیا پورے
ملک کے وکلاء کو بدمعاش کے طور پر پیش کررہا ہے اور اس کو ”وکلاء گردی“ کا
نام دیا جارہا ہے، من گھڑت اور جھوٹی قسم کی خبریں بار بار اور تواتر کے
ساتھ چلائی جارہی ہیں ، وکلاء کو ”کالے کپڑوں میں ملبوس کالی بھیڑیں“ کہا
جارہا ہے تو وزراء اور ممبران اسمبلی کی طرف سے کی جانے والی کارروائیاں ان
کو غنڈہ، بدمعاش اور چور ثابت کرنے کے لئے کافی زیادہ ہیں۔ لیکن حیرت انگیز
طور پر وکلاء کو ظالم اور بدمعاش کہنے والے میڈیا نے کسی بھی ٹی وی چینل پر
ایسی کوئی فوٹیج پیش نہیں دی جس میں حالیہ واقعات کو دکھایا گیا ہو، یعنی
فیصل آباد میں شوکت گجر اور سانگلہ ہل میں ایک ایم پی اے کی کارروائی کو
ہرگز کسی ٹی وی چینل نے دکھانے کی ”جرات“ نہیں کی۔ (یاد رہے کہ سانگلہ ہل
والی خبر میں ایم پی اے کا نام بھی نہیں دیا گیا) کیا میڈیا کا یہ عمل کسی
خوف یا حکومتی دباﺅکا نتیجہ تھا یا میڈیا نے ان کی ایسی تقریبات اور
کارروائیوں کا بھی ”بائیکاٹ“ کررکھا ہے؟ میڈیا کسی بھی معاشرے کے لئے آئینے
کی حیثیت رکھتا ہے، اگر وکلاء کی ایسی کارروائیاں بھی منظر عام پر لانے کی
ضرورت محسوس کی گئی جن کا کوئی وجود ہی نہ تھا اور جو سراسر جھوٹ پر مبنی
تھیں تو سیاستدانوں کی کھلی ”جارحیت“ اور غیر قانونی حرکات سے چشم پوشی
کیوں کی گئی؟ وہ میڈیا جو ”سب سے پہلے خبر“ اور ”ہر خبر“پر نظریں جمائے
بیٹھا ہوتا ہے اس نے صرف ”ٹکر“ چلانے پر اکتفا کیوں کئے رکھا؟ کیا میڈیا سے
وابستہ کوئی صاحب، میڈیا مالکان یا پالیسی ساز اس کا جواب دینا پسند
فرمائیں گے؟ کیا متذکرہ بالا دونوں واقعات کی کوئی فوٹیج نہیں بنائی گئی؟
کیا وہاں میڈیا کے نمائندے اور کیمرہ مین موجود نہیں تھے؟ اگر ایسا تھا اور
یقیناً تھا تو میڈیا نے کس وجہ سے عوام کو سب کچھ دکھانے سے اغماض برتا؟
کیا ابھی بھی عقل والوں کو وکلاء کے خلاف ”میڈیا وار“ اور ان کے ”میڈیا
ٹرائل“ میں سازش کا کوئی پہلو نظر نہیں آیا؟ کیا محترم اعتزاز احسن ابھی
بھی میڈیا کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہیں گے؟
وکلاءکے وہ راہنما جو ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں نئے سے نیا سوٹ زیب تن
کرکے آئین و قانون کی بالا دستی بارے لیکچرز دیتے نہیں تھکتے، وکلاء کی
صفائی میں اب بھی ایک لفظ بولنے سے پرہیز کیوں فرمائے ہوئے ہیں؟
اگر پچھلے 2 ہفتوں کی صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس
ہوجاتی ہے کہ وکلاء کو جان بوجھ کر ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ پولیس کے ساتھ
عدالتوں میں اکثر وکلاء کو تو تکار ہوجاتی ہے، بعض اوقات پولیس والے ”ہتھ
چھٹی“ کا مظاہرہ کرتے ہیں تو بعض اوقات وکلاء ان کو ”سبق سکھانے“ میں
کامیاب ٹھہرتے ہیں، لیکن اس کو باقاعدہ ایک منظم منصوبے کے تحت وکلاء کو
بدنام کرنے کے لئے دن رات پیش کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ وکلاء(بطور
کمیونٹی) تو ہماری قوم کا وہ طبقہ ہیں جنہوں نے اپنی صفوں میں سے بہت سی
کالی بھیڑوں کو نکال باہر کیا، لیکن کیا کبھی میڈیا نے بھی ایسا کرنے کی
کوشش یا جرات کی (پنجابی کی کہاوت کے مطابق ”اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیری؟“)
اگر کوئی مؤرخ کل کو وکیلوں اور میڈیا کے اعمال کا تقابلی جائزہ لے گا تو
اسے میڈیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملے گی! کسی پریس کلب، صحافی تنظیم کی
طرف سے ایسا کبھی نہیں کیا گیا کہ کسی صحافی پر پابندی لگی ہو یا کسی کو
پریس کلب میں داخلے سے روک دیا گیا ہو! کیا بڑے بڑے جفادری دانشوروں کو سب
کچھ معلوم نہیں، کیا وہ میڈیا کے نمائندوں کو ”ہتھ ہولا“ رکھنے کا نہیں کہہ
سکتے تھے؟ لیکن لگتا ہے کہ بوجوہ ایسا نہیں کیا گیا! کہیں ایسا تو نہیں کہ
پورا میڈیا کسی کے پاس یرغمال بنا ہوا ہے؟ ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا رہی
ہوں؟ میری اپنے تمام صحافی بھائیوں سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ خدارا تصویر کے
سارے رخ سامنے رکھ کر خبر دیا کریں۔ میرے ناقص علم کے مطابق خبر میں کسی
بھی پہلو سے خبر دینے والے کے اپنے جذبات شامل نہیں ہونے چاہئیں اور اسے
پوری ایمانداری اور غیر جانبداری سے خبر ”بریک“ کرنی چاہئے لیکن کیا واقعتاً
ایسا ہوتا ہے؟ مجھے بابائے صحافت آغا شورش کاشمیری کی ایک خوبصورت لیکن
انتہائی سخت بات یاد آرہی ہے۔ آغا صاحب فرماتے ہیں کہ قلم کی حرمت اتنی
عظیم ہے کہ اس کو بیچنے کی بجائے ماں بہن کی کمائی کھا لینی چاہئے....! کیا
آج کے دور میں تمام معیار ہی بدل گئے ہیں؟ ہم سب کو اور میڈیا سے وابستہ
افراد کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئے! تمام باتوں سے قطع نظر، میڈیا کے اصول
و ضوابط کے مطابق تمام سیاستدان غنڈے، بدمعاش اور چور ثابت ہوگئے ہیں!! |