اس وقت ایک عجیب قسم کی بحث چھڑ
گئی ہے کہ طالبان کے ساتھ مزاکرات کیے جائیں یا پھر ان کے خلاف آپریشن کیا
جائے اور خا ص طور پر اب اس بحث میں خاطر خواہ تیزی بھی آئی ہے کیونکہ
طالبان نے فتوی جاری کر دیا ہے کہ اب انکی ہٹ لسٹ پر صحافی ، میڈیا مالکان
اور کالم نگار بھی آ گئے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ میڈیا ان کے خلاف
پروپیگینڈا کر رہا ہے اور ہمارے نظریے اور سوچ کی صحیح ترجمانی نہیں کی
جاتی اور ان خبروں کو بھی ہمارے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے جن کی ذمہ داری ہم نے
قبول نہیں کی ہوتی۔ اس وقت پورے ملک میں ایک کنفیوژن پھیلی ہوئی ہے کہ کیا
جائے؟ حکومت متحد نظر نہیں آتی۔ حکومت میں کچھ لوگ آپریشن کے حامی ہیں
اور کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے ہمارے ملک کے معصوم لوگوں کی جانیں لی ہیں اور
ہمارے فوجی جوانوں کو شہید کیا ہے انے کے خلاف آپریشن کیا جائے۔اور کچھ
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کس
گروپ کے خلاف کاروائی کی جائے کیونکہ ایجنسیز کے مطابق تو کوئی 45 سے 48
گروپس ہیں جو کہ حکومت کے خلاف ہیں۔
ایک کہاوت بولی جاتی ہے ہمارے یہاں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ اس ملک کے
حکمران ، وفاقی وزرا ، بیوروکریٹس ، پاک آرمی کے لوگ جو کہ فول پروف
سکیورٹی کے بغیر گھر سے نہیں نکلتے پریشان ہو گئے ہیں کہ وہ کیسے خود کو
بچائیں؟ کیونکہ اب اس ملک میں نہ تو صحافی محفوظ ہے اور نہ ہی سیاست دان
اور نہ ہی فوج کے لوگ۔ کراچی میں ان گنت لوگ ہر روز موت کے منہ میں چلے
جاتے ہیں اور یہ سب کون کر رہا ہے کوئی نہیں جانتا یا اگر جانتا بھی ہے تو
بتانا نہیں چاہتا۔ بلوچستان کے حالات بہت خراب ہو گئے ہیں اور پیچھے رہ گیا
تھا پنجاب تو اس میں بھی اب حالات خراب کیے جا رہے ہیں اور حالات حکومت کے
کنٹرول سے بھی باہر ہو گئے ہیں۔ مہنگائی عروج پر ہے ، لوگ خود کشیاں کر رہے
ہیں اور اوپر سے طالبان حملے کر رہے ہیں۔ اور جہاں علمائے کرام کو اپنا
موثر کردار ادا کرنا چاہیے وہ بھی اپنے کردار کو استعمال نہیں کر رہے۔ غرض
ہر طرف سے کنفوژن ہی پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بھارے
، اسرائیل اور امریکہ کا اثرورسوخ بڑھ گیا ہے اور بلوچستان سمیت پورے ملک
میں اب دہشت گردی عروج پر ہے۔ اس ملک میں سی آئی اے کے لوگوں کو بہت بڑی
تعداد میں ویزے جاری کیے گئے تھے یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں۔ اور اب
تو سی آئی اے بہت حد تک اس ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے ان جڑوں کو
ختم کرنا ضروری ہے اس ملک سے جو کہ آہستہ آہستہ اس ملک کو کمزور کرتے جا
رہے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب جنگ کا طریقہ کار بھی بدل گیا ہے۔ کسی دور میں
دو ملکوں کی فوجیں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہو جاتیں اور پھر
جنگ ہوتی لیکن پھر جنگ عظیم اول ہوئی اور پھر جنگ عظیم دوئم کے بعد حالات
اور ٹیکنالوجی میں جدت کی وجہ سے اب جنگ کا طریقہ کار بھی بدل گیا ہے اب جس
ملک کو تباہ کرنا ہو وہاں چھوٹے چھوٹے گروپس پیدا کر دیے جاتے ہیں ایسے
حکمران بٹھا دیے جاتے ہیں جو کہ عیاش اور دولت اور نفسانی خواہشات کے مالک
ہو تے ہیں جو صرف اپنی ضرورتوں اور تکلیف کا دھیان رکھتے ہیں۔ لوگوں کو
بھوک میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور نوجوان نسل کو بگاڑ دیا جا تا ہے تاکہ
ان کا ذہن غلامی میں جکڑا رہے۔ ایک طرف حکومت کمزور ہوتی جا رہی ہے جس کی
صرف اور صرف وجہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے اور کس طرح اپنے سیٹ کو
سنبھال رکھنا ہے یہ سوچنا ہی حکمرانوں کا شیوہ بن کر رہ گیا ہے دوسری طرف
طالبان طاقت ور ہوتے جا رہے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ گھستے جا رہے ہیں ،
مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے اور معیشت پر جھوٹ بول بول کر اور سود
کو عام کر کے اس ملک کے لوگوں کو مقروض کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ دہشت
گردی عروج پر ہے اور پھر میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے اور ڈالروں کی
بوریا کھول دی گئی ہیں اور میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل کی ذہنی طور پر
تسخیر کی جا رہی ہے تاکہ وہ اس ملک کے دفاع کا نہ سوچ سکیں اور اسی میڈیا
کے ذریعے جہاد کو دہشت گردی کا روپ دیا جا رہا ہے۔ غرض ہر طرف ایک افراتفری
کا عالم ہے اور اب ہمیں یہ سمجھ لینا چائیے کہ یہ اللہ کا عزاب ہے جو کہ ہم
لوگوں پر اس وقت مسلط ہے ۔ بحیثیت قوم بھی ہم اس وقت اللہ کے غضب کا شکار
ہیں لیکن ہم لوگ یہ سمجھ نہیں پا رہے اور اسی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں۔ عوام
کو اور اس ملک کے حکمرانوں کو اس سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو کہ امریکہ
اسرائیل اور انڈیا کر رہا ہے۔ یاد رکھیے کہ امریک جیسا سپرپاور افغانستان
سے شکست کھا کر جا رہا ہے اور اس کو اب یہ نظر آ رہا ہے کہ جو نظام انھوں
نے اس دنیا کے لیے پیش کیا تھا وہ اب ناکام ہو گیا ہے اور جو سازش وہ کئی
برسوں سے کر رہے ہیں وہ اب دم توڑتی نظر آرہی ہے اس لیے وہ پاکستان میں
ایسی صورتحال پیدا کر رہے ہیں تاکہ پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا نہ رہ سکے
لیکن ہمارے حکمران ایسا سوچ نہیں سکتے کیونکہ ان کی دولت اس ملک سے باہر
امریکہ ، برطانیہ جیسے ملکوں میں پڑی ہے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک وقت
میں یہی ممالک ان کی دولت کو منجمند کر دیں گے اور یہ لوگ کچھ نہیں کر سکیں
گے جیسے انھوں نے مصر کے سابق فوجی صدر حسنی مبارک کی کی تھے ۔اللہ اس ملک
پر اپنا خاص کرم و فضل کرے اور اس کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ |