عالمی سطح پر یہ بحث جاری ہے کہ
پاکستانی قوم اس وقت تاریخ کی بدترین دہشتگردی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پاکستان
کا ایک گروہ ’’طالبان‘‘بغاوت پر آمادہ ہے اور اپنی مرضی کے قوانین اور نظام
مسلط کروانے کے لئے بے دریغ قتل و غارتگری پر اترا ہوا ہے۔روزانہ کی بنیاد
پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کاسلسلہ جاری ہے۔ اس صورت حال میں
پاکستانی حکومت انتہاپسندی کے خلاف اقدام کے لئے ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو
دو قدم پیچھے دھکیل دی جاتی ہے۔ زیرنظر حالات میں حکومت کا کوئی واضح مؤقف
نہیں ہے۔ نہ پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے کسی واضح حکمت عملی کا اعلان ہو
رہا ہے۔ پھر بھی یہ جنگ پاکستانی قوم پر مسلط ہے۔ اس کا خمیازہ محض عام
آدمی بھگت رہا ہے۔پاکستان کی انتہاپسند مذہبی جماعتیں اب کھل کر طالبان کی
دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے فوجی کارروائی کی مخالفت کر رہی ہیں۔ وہ
بدستور مذاکرات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ نہ ان سے کوئی پوچھتا ہے اور نہ وہ
بتانے کی ہمت کر پاتے ہیں کہ ان مذاکرات کاایجنڈا کیا ہو گا اور بات چیت کس
سے کی جائے گی۔ اس ٹھوس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بجائے ان مذہبی رہنماؤں
کی دلیل امریکہ مخالف نعروں پر ختم ہوتی ہے۔ اس طرح دہشت گردی کے حوالے سے
کوئی دوٹوک مؤقف سامنے نہیں آ پاتا۔ صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ مذاکرات ہونے
چاہئیں۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی والا معاملہ ہوتا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایاجاتاہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے
دہشت گردوں کی شہادت کا فتویٰ جاری کرنے کے بعد اب یہ یقین کر لیا ہے کہ وہ
جب تک ملک میں قتل و غارتگری کرنے والوں کی مکمل پشت پناہی نہیں کریں گے،
ان کا سیاسی مستقبل مخدوش ہی رہے گا۔ وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے۔ اب انہوں
نے دنیا کے مسلمہ دہشت گرد اسامہ بن لادن کو گلوری فائیو کرتے ہوئے فرمایا
ہے کہ اس جیسے لوگ مرتے نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ وہ
نہایت ڈھٹائی سے دنیا پر ہلاکت مسلط کرنے والے ایک شخص کو ہیرو بنانے پر
تلے ہوئے ہیں۔ اس دلیل کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد
پر معصوم بچوں سے لے کر فوجی افسروں تک کو قتل کرنے والوں اور مملکت و فوج
کے خلاف اعلان جنگ کرنے والوں کے بارے میں کوئی غلط بات نہ کی جائے۔ ان کو
قاتل کی بجائے ملک و قوم کا محسن قرار دیتے ہوئے ان کی عزت افزائی کی
جائے۔جمہوری روایت اور آزادء اظہار کے نام پر جماعت اسلامی کے امیر کو یہ
جابرانہ اور ظالمانہ مؤقف اختیار کرنے کی اجازت تو دی جا سکتی ہے لیکن ان
سے اختلاف کرنا اور ان کے یکطرفہ انتہاپسندانہ خیالات کو مسترد کرنا بھی
ضروری ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے اس قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بلکہ
وزیر داخلہ مسلسل جماعت اسلامی سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سوال پر
تبادلہ خیال میں مصروف رہتے ہیں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کے امیر اور ان
کے ہمنواؤں سے یہ ضرور تقاضہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مذاکرات کے لئے طالبان
کی نہ سہی اپنی شرائط ہی بتا دیں۔ یہ تو واضح کردیں کہ مملکت پاکستان
مذاکرات کے لئے کس قدر خوں ریزی اور ہزیمت برداشت کرے اور عوام کے قاتلوں
کو سید منور حسن کون سا اعزازیہ دینا چاہتے ہیں۔
بات کی جائے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مذاکرات کے سب سے بڑے
وکیل ہونے کے باوجود خود یہ نہیں جانتے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیسے ہوں
گے۔ فرض کر لیا جائے کہ حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مذاکرات نہیں ہو پا
رہے تو وہ کم از کم ان طالبان گروہوں اور لیڈروں کے نام ہی بتا دیں جو
مذاکرات کے لئے آمادہ ہیں۔ عمران خان کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ طالبان کے
ساتھ بات چیت کے لئے تحریک انصاف کے کن بنیادی اصولوں کو قربان کیا جا سکتا
ہے۔ ان میں آزادء اظہار کا اصول بہرحال شامل ہو گا۔ گزشتہ روزخیبرپختونخوا
حکومت کی مداخلت پر پشاور یونیورسٹی میں ملالہ یوسف زئی کی کتاب ’’آئی ایم
ملالہ‘‘ کے لئے تقریب منعقد نہیں ہو سکی۔عمران خان نے ٹوئیٹر پیغام میں اس
رویہ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اقرار کیا ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں
کہ اس تقریب کو کیوں روکا گیا۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تحریک انصاف
آزادء اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ لیکن ٹوئیٹر پر آزادء رائے کے حق میں
بیان جاری کرنے والے رہنما یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ممدوح طالبان اسی حق
سے لوگوں کو محروم کرنے کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔ عمران خان اور ان کے
ساتھیوں کو اب یہ باور کر لینا چاہئے کہ امن بھیک مانگنے اور کمزوری عیاں
کرنے سے نہیں ملتا۔ عمران خان اور تحریک انصاف اس وقت انتہاپسندی کی ستائی
ہوئی قوم کو مزید منتشر اور غیر محفوظ کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم طالبان کے خلاف فوری سخت
فوجی ایکشن کی بات کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے
بھی گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بامقصد مذاکرات کے لئے طالبان کو
ختم کرنا ضروری ہے۔ تاہم انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس وقت اس سوال
پر قومی اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔دو روز قبل لگتا تھا کہ سکیورٹی فورسز پر
طالبان کے پے در پے حملوں کے بعد حکومت کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے۔ اور
اب فوجی ایکشن کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے۔ تاہم اب جو تصویر سامنے آ رہی ہے
اس سے یہ لگتا ہے کہ حکومت فوجی ایکشن کا اعلان نہیں کرے گی۔ تاہم درپردہ
فوج کو یہ اختیار حاصل رہے گا کہ وہ شرپسند عناصر کاصفایا کرتی رہے۔ گویا
’’خفیہ ایکشن‘‘ ہوتا رہے گا مگر حکومت مذاکرات کا راگ الاپتی رہے گی۔حیرت
انگیز طور پر اس اہم اور سنگین معاملہ پر گفتگو عام ہونے کے باوجود قومی
اسمبلی میں اس سوال پر بحث کرنے اور کوئی فیصلہ کرنے کے کوئی آثار نہیں
ہیں۔ صدر کی طرف سے 27جنوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے بعد یہ امکان
تھا کہ وزیراعظم اس اجلاس میں قوم کو اور اراکین اسمبلی کو دہشت گردی کے
بارے میں اعتماد میں لیں گے۔ وہ قومی اسمبلی میں اپنی ہی پارٹی کے اراکین
سے ملنے اور ان کی شکایات سننے کے بعد واپس روانہ ہو گئے۔
پاکستانی شہریوں اورمبصرین کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے سیاسی
لیڈروں اور حکومت کی موجودگی میں فوج خود پر اور شہریوں پر حملوں کا جواب
دینے کے لئے تنہا ہے۔ بظاہر اسے کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ عملاً اسی کے
پاس سارے اختیارات ہیں۔ یہ طرز عمل عوام کے تحفظ اور جمہوریت کی بقا ء
دونوں کے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔اس لئے ملک وقوم کی سلامتی کیلئے فوری
اقدامات کرناہو نگے۔
|